| دراسات | کیا اسلام مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟ مفکرین کی آراء کا تقابلی جائزہ
کیا اسلام مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟ مفکرین کی آراء کا تقابلی جائزہ
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
{وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ}، البقرة: 171
اور ان کافروں کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہے جو ایسے (جانور) کو پکارے جو بلانے اور پکارنے کے سوا کچھ نہ سن سکے، یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، پس (اسی وجہ سے) یہ لوگ عقل سے بھی عاری ہیں۔
قرآن کریم علم کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور انہیں جہلاء کو چوپائے قرار دیتا ہے جو علم سے فائدہ نہیں ٹھاتے اور اس سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے۔جن کے پاس علم نہیں ہے وہ بے حیثیت لوگ ہیں۔ان کی سوجھ بوجھ کا یہ عالم ہے کہ انہیں فقط آنے جانے کا حکم ہی سمجھ آتاہے یعنی فکری غلام ہیں۔ علامہ طباطبائی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ جب کافروں کو پکارتے ہیں تو ان کی مثال اس جانور کی سی ہو جاتی ہے جسے ہر آواز بے کار پکار سنائی دیتی ہے۔وہ آواز سنتے ہیں اور غصے میں آجاتے ہیں کیونکہ یہ کافر بہرے ہیں انہیں فائدہ پہنچانے والی کوئی پکار سنائی نہیں دیتی۔ یہ گونگے ہیں اور کوئی بامعنی بات نہیں کرتے،اندھے ہیں انہیں کچھ نظر بھی نہیں آتا اس لیے کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عقل کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ الميزان، ج1، ص420
یہ مثال ان متکبر لوگوں پر صادق آتی ہے جو اس زمانے میں خود کو مہذب سمجھتے ہیں۔یہ لوگ بڑی شد ومد کے ساتھ بڑے علمی اقوال ذکر کر رہے ہوتے ہیں اور ان اقوال کے معانی تک کو نہیں جانتے اور نہ ہی انہیں ان کے نتائج کا علم ہوتا ہے۔کاش فقط اقوال کو نقل کرنے تک ہی محدود ہو جاتے۔یہ انہی دوسروں کے اقوال کو لکھتے ہیں اور مصنف بن جاتے ہیں۔ ان کے ذریعے سے ایسی کتب منظر عام پر آتی ہیں جو ہدایت و روشنی سے خالی ہوتی ہیں۔
آج کل ایسے اشخاص کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے۔یہ اپنے نام نہاد خیالات کی تائید کے لیے مختلف اقوال کو معروف محققین کی طرف سے ذکر کرکے اپنے افکار کی تائید لیتے ہیں۔اس سے بڑھ کر یہ المیہ ہے کہ ایسے لوگوں کے اردگردکچھ جوانوں اور بوڑھوں کا جمگھٹا ہوتا ہے جو ان سے دلیل نہیں مانگتے بلکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ان کو اسی طرح قبول کر لیتے ہیں۔یہ واہ واہ کرنےو الے خیال کرتے ہیں کہ یہ لوگ علم و ثقافت کی دولت سے مالا مال ہیں۔یہ خود ساختہ دانشور اسلام پر الزامات لگاتے ہیں اور اسلام کو مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی میں بنیادی رکاوٹ اسلام ہے۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ترقی کے لیے یورپ کی پیروی ضروری ہے۔یورپ نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک انہوں نے اپنے مذہب کو چھوڑ نہیں دیا۔یہ نیم پڑھے لکھے لوگ ان مصنفین کی کتب کے حوالے دیتے ہیں ان کے بارے میں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان مصنفین کی کتب کو انہوں نےپوری زندگی پڑھا ہی نہیں ہو گا۔انہوں نے چند اصطلاحات یاد کیں ہیں اوراصل علم کے تو بس پاس سے ہی گزر گئے ہیں۔ہماری عادت ہے کہ ہم اشخاص کی بجائے افکار پر بات کرتے ہیں۔ہم ان کے افکار کا ذکر کریں گے قارئین کے لیے ان کا نادرست ہونا خود ہی واضح ہو جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ یہ بہت ہی سطحی سوجھ بوجھ کے حامل لوگ ہیں۔یہ حاطب اللیل قسم کے لوگ ہیں جو صحیح غلط کے درمیان فرق نہیں کر سکتے ،یہ لوگ تو عام موتی اور ہیرے میں فرق ہی نہیں کر سکتے ہیں اور جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کسی خاص فکر، مذہب یا فلسفے کو ثقافتی پسماندگی کا سبب قرار دینا اس پر منحصر ہے کہ حقیقت میں بھی یہ فکر،مذہب یا فلسفہ تہذیبی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہوں۔ عملی طور پر سائنسی پیشرفت اور ترقی کے وسائل حاصل کرنے سے روک رہے ہوں۔دوست و دشمن سب اس بات کی گواہی دیں گے کہ اسلام تمام ادیان سے زیادہ علم،ترقی اور طاقت کے حاصل کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ہمیں اس کے لیے دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے۔
جس نے یہ کہا کہ اسلام مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ ہے وہ فلسفہ تاریخ کے ماہرین کی تحقیقات کے نتائج سےآگاہ نہیں ہے یا اس نے غفلت سے کام لیا ہے۔ تہذیبوں کے زوال کے اسباب پر غور کرتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قوموں کا عروج و زوال تحقیق کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تہذیبوں کے زوال کے اسباب متعدد ہیں اور ان میں مذہب شامل نہیں ہے۔ اس کے برعکس مذہب ہمیشہ تہذیبوں اور قوموں کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔اس بات کی مزید وضاحت کے لیے تہذیبوں کے زوال کے اہم اسباب چند بڑے محققین کے اقوال کی روشنی میں بیان کرتے ہیں:
پہلا: ابن خلدون اور عصبیت
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں ابن خلدون وہ پہلا آدمی تھا جس نے تاریخ روایت سے ہٹ کر پڑھنا شروع کیا۔اس سے پہلے تاریخ کو واقعات کی ترتیب جس طرح وہ واقع ہوئے ہوتے ہیں اسی ترتیب سےپڑھا جاتا تھا۔ابن خلدون نے تاریخ کو پڑھنے کا ایک خاص طریقہ اختیار کیا جس میں استقراء کیا جاتا ہے،واقعات کا تجزیہ کیا جاتا ہے،اس سے تنائج ان قوانین کی صورت میں لیے جاتے ہیں جن سے یہ واقعات تاریخ میں وقوع پذیر ہوئے ہوتے ہیں۔ابن خلدون اپنے اس مطالعہ تاریخ کے نتیجے میں یہ جاننے میں کامیاب رہا ہے کہ کیسے ریاستیں تشکیل پاتی ہیں؟کیسے ریاستیں عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہیں؟ اور کیسے ریاستیں بالآخر ختم ہو جاتی ہیں؟یہ اس کا منفرد نظریہ تھا۔اس نے کہا کہ بنیادی چیز عصبیت ہے یہ عصبیت نسل یا کسی بھی دوسری معاشرتی بنیاد پر کھڑی ہو کر ریاست کی ترقی کی بنیاد بنتی ہے۔جیسے جیسے عصبیت کا یہ بندھن کمزور ہوتا جاتا ہے ریاست کمزور ہوتی جاتی ہے اور زوال کی طرف بڑھتی جاتی ہے اور یہاں تک کہ معدوم ہو جاتی ہے۔ پہلا سوال جس کا ابن خلدون جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ ریاست کیسے بنتی ہے اور کیسے ٹوٹتی ہے؟ ابن خلدون نے ریاست کو ایک زندہ جاندار کے طور پر دیکھا جو پیدا ہوتا ہے، بڑھتا ہے اور پھر بوڑھا ہوتا ہے اور مر جاتا ہے۔کتاب : فلسفة التاريخ، مصنف :رأفت غنيمي
ریاست اور تہذیب کے عروج و زوال میں ا بن خلدون کی فکر عصبیت کے گرد گھومتی ہے۔عصبیت سے مراد وہ اتحاد ہے جس کی بنیاد رشتہ داریاں،قبائل اور خاندانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ بادشاہ کی نصرت کرتا ہے اور اس کے کہنے پر لبیک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور بادشاہ کے لیے فتح کی کوشش کرتا ہے۔یہ عصبیت ایک مقصد کے تحت اتحاد بنا کر گروہوں کو تشکیل دیتی ہے۔یہ عصبیت ہی ان گروہوں کو ملک و سلطنت عطا کرتی ہے۔عروج کے بعد یہ عصبیت کمزور پڑھنے لگتی ہے جس سے یہ اتحاد منتشر ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ یہ نظام ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی جگہ لینے کے لیے ایک دوسری عصبیت کے ساتھ دوسرا نظام آ جاتا ہے۔ ابن خلدون کی رائے میں عصبیت کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو اس کے خلاف کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔"دینی بنیاد پر کھڑی عصبیت ان نسلی گروہوں کے درمیان حسد و دشمنی کو ختم کر دیتی ہے اور یہ سب حق کے لیے متحد ہو جاتے ہیں۔"ابن خلدون کے نظریہ کے مطابق قوموں کے عروج کی دو بنیادیں ہیں:۱۔عصبیت موجود ہو۔۲۔فکر موجود ہو(مذہبی فکر)
اسی طرح ابن خلدون کے نزدیک قوموں کے زوال اور ان کے اقتدار کےکمزور اور ختم ہونے کے بھی دو عوامل ہیں:
۱۔ فرمانبرداری اور اطاعت
اطاعت و فرمانبرداری انقلاب کی عصبیت کا راز ہے اور اطاعت و فرمانبرداری کے جذبے کا فقدان اور سرکشی عصبیت کو کمزور کر دیتی ہے جس کی وجہ سے قوموں کا دفاع کمزور ہو جاتا ہے۔جب دفاع کمزور ہو جاتا ہے تو قوموں مزاحمت کی قوت کھو دیتی ہیں۔ تاريخ ابن خلدون، ج1، ص141
۲۔عیش و عشرت
جس قدر اس گروہ میں عیش وعشرت زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر ان کے درمیان موجود عصبیت کمزور ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ مذہب قوموں اور تہذیبوں کی ترقی کا فیصلہ کن عنصر ہے اوردین کی کمزوری قوموں کے درمیان زوال اور انحطاط کی دلیل ہے۔
دوسرا: آرنلڈ ٹوئنبی اور ردعمل کا قانون
آرنلڈ ٹوئنبی کا نظریہ ہے کہ اگر معاشرے کو کسی بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔اس چیلنج کی وجہ سے اس قوم سے بڑے بڑے تخلیق کار پیدا ہوں گے جو اپنی نئی نئی ایجادات سے تہذیب کی تعمیر کریں گے اور اس قوم کے عروج کا باعث بنیں گے۔جیسے انبیاءؑ،رسولؑ اور وہ مفکرین جنہوں نے اپنی تہذیبوں کے نظریات کی بنیادیں رکھیں۔
آرنلڈ ٹوئنبی کہتا ہے:"جب انسان کسی تہذیب کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے تو اسے کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اب دو صورتیں ہیں یا تو وہ ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوتا ہے اور ان پر قابو پا لیتا ہےاور نشاہ ثانیہ کا آغاز کرتا ہے یوں ایک نئی تہذیب کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔یا ان چیلنجز کا سامنا نہیں کر پاتے جس سے نہ تو ان کی نشاہ ثانیہ ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کسی نئی تہذیب کو کھڑا کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔" فلسفة التاريخ، جاسم سلطان، ص89
تہذیبیں چیلنجز سے ہی وجود میں آتی ہیں اور ان کے وجود کا راز چیلنجز ہیں،بغیر چیلنجز کے کوئی تہذیب معرض وجود میں نہیں آسکتی۔ مثلا ہم منگول قبائل کو درپیش چیلنجز کو بطور مثال دیکھ لیتے ہیں۔کیسے چنگیز خان کے وفاداروں نے نئے زمینوں پر قبضے کیے اور وہاں چنگیز خان کی شان و شوکت کو قائم کیا؟رابرٹ شولر کہتے ہیں:" تنازعات عظیم ترین تخلیقی صلاحیتوں کی جائے پیدائش ہے۔"ڈینی کاکس اور جان ہوور نےکتاب بحران میں قیادت میں اس موضوع پر اچھا لکھا ہے۔ ڈاکٹر کیرل کہتے ہیں: "اہداف ہمارے اندر تحریک پیدا کرتے ہیں وہ ہمیں کامیابیوں کی شکل میں سب سے خوبصورت تحفے دیتے ہیں۔"اسی کتاب میں ہے کہ منزل کے راستے میں آنے والے تخلیقی چیلنجز عظیم تہذیبوں کو جنم دیتے ہیں۔مہذب معاشرے کئی چیلنجوں اور کامیاب پروجیکٹس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ٹوئنبی کے نظریہ کا پہلا ستون چیلنجز ہیں، اور دوسرا ستون تخلیق کار اور باصلاحیت رہنما ہیں جن کے پاس وژن اور سوچ ہوتی ہے، اگر اکثریت ان کی بات مانے گی تو وہ چیلنجز پر قابو پانے میں ان کی رہنمائی کریں گے اور کامیاب ہوں گے۔یہ بات تہذیبوں کے عروج و زوال میں اہم ہے انہی وجوہات کی بنیاد پر تہذیبیں بنتی اور ختم ہوتی ہیں۔ٹوئنبی کے نزدیک یہ تین عوامل ہیں:
۱۔ان لیڈروں کا قیادت کی صلاحیتوں سے خالی ہونا،ایسی صورت میں قیادت پر دوسرے لوگ حاوی ہو جاتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں۔
۲۔لوگوں کی اکثریت کا قیادت سے وفادار نہ ہونے اور قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دینا۔
۳۔قوم میں باہمی انتشار کا پیدا ہو جانا جس سے ان کے اتحاد کو نقصان پہنچے۔
اگر غور کریں تو یہ آخری وجوہات در اصل پہلی وجہ کے ہی اثرات ہیں،جب قیادت صلاحیتوں سے خالی ہو جاتی ہے اور اردگرد موجود لوگ خود سر ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی اکثریت وفادار نہیں رہتی اور قوم انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔اگر لیڈر کمزور ہو جائیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہو جائیں تو وہ خود بخود ایک صوابدیدی قوت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ دوسرے تخلیق کاروں کو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پیش کرنے سے روکتے ہیں۔انہیں خوف ہوتا ہے کہ باصلاحیت لوگوں کا سامنے آنا ان کی نااہلیوں کا پردہ چاک کر دے گا اور ان کی حمایت میں کمی آ جاتی ہے۔جسے ٹوئنبی کہتا ہے"ہنگامہ خیزی کا وقت" ہوتا ہے، جو مخالفت اور اختلاف کے مقدمات کی ابتداء ہوتا ہے اور قوم کے خاتمے پر منتج ہوتا ہے۔
اس لیے اسلام اہل قیادت کے انتخاب پر بہت زور دیتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے""اس قوم کے لوگ ہمیشہ پستی میں رہیں گے اور کبھی بھی پستی سے نہیں نکلیں گےجب تک اعلم کو،اس کا مقام نہ دے دیں۔" ج10، ص143
تیسرا: ہیگل اور نظریات کی کشمکش
ہیگل کے مطابق تاریخ کی تشریح ہر تاریخی دور کو الگ الگ دیکھنے پر ہے۔اسی میں بنیادی فکر پیدا ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس فکر کی مخالفت کے جراثیم بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔جیسے جیسے غلطیاں ہوتی ہیں اور اپنی اصلی فکر سے روگردانی کی جاتی ہے اس وقت یہ معمولی جراثیم طاقتور ہو جاتے ہیں۔یہ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ بڑھتے بڑھتے اصلی فکر کے ہی مقابل آ جاتے ہیں ۔اس لڑائی جھگڑے میں ایک نئی فکر جنم لیتی ہے اس فکر میں ان باہم متصادم دونوں افکار کی اچھائیاں موجود ہوتی ہیں۔ہم عصر حاضر کی ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،یورپ میں مذہبی ریاست اور مذہب سے آزاد ریاست کی کشمکش تھی۔یورپ میں مذہب کی بنیاد پر ریاستوں نے بڑی خرابیاں اور بتاہیاں کیں تو وہاں ان کے اندر کشمکش ہوئی جس کے نتیجے میں غیر مذہبی ریاست کا تصور پروان چڑھا۔لوگ اس قدر مخالف ہوئے کہ کیتھولک پوپ کے نام پر چلنے والی چرچ کی حمایت یافتہ حکومت سے جان چھڑانے کے لیے آمادہ ہو گئے۔فرانس میں لوگوں نے اس قسم کی حکمرانی کو مسترد کرتے ہوئے بغاوت کی۔فرانسی انقلاب گویا ابتدابنا اور اس کے بعد یورپ کی مختلف ریاستیں اسی ڈگر پر چل پڑیں ۔سب میں یہ بات مشترک تھی کہ ہر ایک نے تمام دینی شناختوں کی مخالفت کی۔اس دور کو انتہا پسندی کا دور کہا جاتا تھا۔ان دین مخالف حکومتوں نے بڑی تیزی سے بڑی بڑی غلطیاں کیں اور بہت سے مظالم بھی کیے۔اس لیے یہ جاری نہ رہ سکیں ۔ان کی نئی صورتحال سامنے آئی جسے سول حکومت کہا جاتا ہے۔اس طرح دنیا آگے بڑھتی گئی اور ترقی کرتی گئی۔یوں دو فکروں میں توازن پیدا ہو گیا اور ایک نئی متواز ی متواز فکر کے ساتھ ترقی کا سفر جاری ہے اور کمال تک پہنچا جائے گا۔اسی لیے اسلام نے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا۔اسی طرح فہم نص میں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی ہوئی۔معاشروں کو افکار کی تجدید کی ضرورت ہر زمانے میں رہتی ہے۔ترقی پذیر معاشروں میں اپنے کردار کو بروئے کار لانے کے لیے نئے آئیڈیاز پیش کرنے کے لیے وسیع میدان ہوتا ہے۔قدیم خیالات کی حقیقت کو عصر حاضر میں حقیقت کاجامہ پہنانے کے لیے ان کی خامیوں کو درست کرنا ہو گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حقائق بدلتے اور جدت اختیار کرتے رہتے ہیں۔قانون میں لچک نہیں ہوتی اور زمین پر واقع حقائق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔عصر حاضر میں یہ بحث اور بھی متعلق ہو گئی ہےا ور علما کے درمیان موضوع تحقیق ہے کہ شریعت کے کون سے احکامات ثابت ہیں اور کونسے احکامات زمان و مکان کے بدلنے سےبدل جاتے ہیں۔؟وہ کون سے پیمانے ہیں جن کے استعمال سے ہم جان سکتے ہیں کہ کون سے احکامات ثابت ہیں اورکون سے متحرک ہیں۔؟ان میں کچھ کا ذکر ہم نے اپنی پچھلی تحریر میں کیا تھا ،بہت سے معروف غیر مسلم مفکرین نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔برنارڈشا ایک لبرل انگریزی محقق ہے وہ کہتا ہے: "میں نے ہمیشہ دین محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس کی حیران کن جانفشانی کی وجہ سے بہت احترام کیا ہے۔میری رائے میں اسلام وہ واحد دین ہے جو مختلف حالات،زندگی کے بدلتے چیلنجز کے ساتھ موافقت کی صلاحیت رکھتا ہے اور نئے حالات سے مقابلے کے لیے تیار ہے۔میں پہلے بتا چکا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں۔عنقریب یورپ والے دین محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قبول کر لیں گے۔"
اسی طرح وہ کہتا ہے:"قرون وسطی کے پادریوں نے اپنی جہالت اور انتہا پسندی کی وجہ سے اسلام کی غلط تصویر پیش کی اور اس کو مسیحیت کا دشمن سمجھتے تھے۔میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں بہت غور و فکر کیا ہے میں نے آپ کو ایک معجزاتی شخصیت کا حامل پایا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسیحیت کے دشمن نہیں ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انسانیت کے نجات دہندہ کہنا چاہیے۔میری رائے میں، اگر وہ آج دنیا کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، تو وہ ہمارے مسائل کو اس طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے وہ امن اور خوشی یقینی ہو جس کی لوگ خواہش رکھتے ہیں۔" نظام حقوق المرأة في الإسلام، ص98
اسی طرح لبنانی مادہ پرست ڈاکٹر شبلی شمل جنہوں نے سب سے پہلے ڈروان کی مشہور کتاب The Origin of Species کا جرمن محقق بوخنز کی شرح کے ساتھ اس کا عربی میں ترجمہ کیا تھا۔یوں ڈارون کی کتاب عربی بولنے والوں کے ہاتھوں میں آئی۔اس نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تھا کہ دین کے خلاف مواد فراہم کرے۔وہ مادہ پرست تھا اس کے باوجود اس نے اسلام کی عظمتوں کا انکار نہیں کیا اور اسلام کی تعریف کی ہے۔وہ اسلام کو ہر دور میں قابل عمل مذہب سمجھتا رہا۔اس نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا (قرآن اور عمران)، عربی زبان میں شائع ہونے والی ان کی کتاب فلسفہ ارتقا اور ارتقاء میں ان مغربی مفکرین کا رد کیا تھا جنہوں نے اسلامی ممالک کا دورہ کیا اور کہا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ اسلام ہے۔شمائل نے اس مضمون کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ اسلام کی معاشرتی تعلیمات سے انحراف ہے، اسلام نہیں ہے۔جو مغربی لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ یا تو اسے جانتے ہی نہیں یا بری نیت رکھتے ہیں اور مشرقیوں کی نظروں میں اسلامی قوانین اور احکامات کا چہرہ بگاڑنا چاہتے ہیں اور ان کے گلے میں( مغرب کی ) غلامی کا طوق ڈالنا چاہتے ہیں۔
وہ کہتا ہے: مثال کے طور پر قرآن کی شریعت کو لے لیں، تمام مذہبی قوانین میں سے یہ واحد شریعت ہے جسے عملی طورپر نافذ کیا جا سکتا ہے۔یہ انسان کے حقیقی دنیاوی مسائل کو حل کرتی ہے،اس طرح کہ قرآن دیگر شریعتوں کی طرح فقط کچھ قاعدوں کلیوں پر اکتفا نہیں کرتابلکہ اس نے جزوی احکام کوخصوصی طور پر بیان کیا ہے، اس نے لین دین کے احکام کو بیان کہ حتیٰ کہ عبادات کے فرائض کو بھی الگ بیان کر دیا ہے۔جب تک اہل قرآن اس پر عمل کریں گے ان کے دنیاوی معاملات دوسروں سے بہتر ہوں گے۔ان کے معاشروں میں ان کا قانون صرف قرآن کا قانون ہی رہا۔جب ان کے سامنے ترقی میں کوئی رکاوٹ آ گئی جیسے کہ ہر معاشرے میں ہوتا ہے کہ اجتماعی قوانین کی وجہ سے کچھ ایام کے لیے ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔تاہم، ماہر قانون دینے والے نے خود ان کے لیے اس جمود سے نکلنے کا راستہ انہی آیات کی منسوخی کے ذریعے فراہم کیا جو اس نے اپنی زندگی میں قرآن میں دی تھیں، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔فلسفة النشوء والارتقاء، ص396
چوتھا: مارکس اور تاریخی مادہ پرستی
مارکس کا خیال ہے کہ طبقاتی جدوجہد اور پیداوار کے ذرائع کی ملکیت تاریخ کے پہیے کا اصل محرک ہیں، اس نے تاریخ کو مراحل میں تقسیم کیا، جو یہ ہیں:
قدیم ترین دور
مارکس کا خیال تھا کہ پہلے انسان مطلق کمیونزم کی حالت میں رہتے تھے، جس میں کوئی جائیداد نہیں تھی۔ضرورت کے مطابق کھاتے تھے۔اسی لیے وہ کسی پر حملہ آور نہیں ہوتے تھے دوسروں کی جائیدادوں پر قبضے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔انسان کو جتنے کی ضرورت ہوتی تھی اتنالے لیتے تھے۔
غلامی کا دور
کچھ لوگ زمین کے ذرائع پیداوار کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ان کی اس خواہش نے لوگوں کو غلام بنانے کی راہ دکھلائی اور اس خواہش سے ہی اس طبقے کا جنم ہوا۔لوگوں کے دو طبقات بن گئے،ایک وہ جو کاشتکاری کرتے اور فصل کاٹتے تھے یہ غلام تھے۔دوسرے وہ لوگ تھے جو بغیر محنت اور کوشش کے اس پیداور کےمالک بن جاتے اور پھل کھاتے تھے۔
جاگیرداری کا دور
جیسے جیسے مالکان کی دولت بڑھتی گئی، ان کی زمینوں کا رقبہ بڑھتا گیا، اور تیسرا طبقہ ظاہر ہوا، یعنی جاگیر دار ، اور اس طرح معاشرہ تین طبقوں میں بٹ گیا۔
سرمایہ دارانہ دور
پیداواری قوتوں کی ترقی، بڑے کارخانوں کے ظہور اور تجارت کے پھیلاؤ سے یہ طبقہ (کارخانوں کے مالکان اور سرمائے کے مالکان) سامنے آنے لگے۔اس نے جاگیرداری کی جگہ لے لی۔اس سے معاشرہ سرمایہ دار طبقے میں تقسیم ہو گیا۔مزدور ان کارخانوں میں کام کرنے والے ہیں۔یوں ان دو طبقات میں کشمکش کا آغاز ہو گیا۔
مارکس کے نقطہ نظر سے، انصاف انسانی زندگی کو نقطہ آغاز کی طرف لوٹانے کا متقاضی ہے، جہاں سب کی زندگی برابرہے اور کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ لیکن ایک ہی بار حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ محنت کش اپنے حالت سے واقف ہی نہیں ہیں، اور گزرتے وقت نے ذرائع پیداوار پر مالکان کی برتری کو مستحکم کر دیا ہے۔ اس کا حل اس میں پوشیدہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹیاں قائم کرکے محنت کشوں کو تعلیم دی جائے، انقلاب کے ذریعے اقتدار محنت کشوں کے ہاتھ میں منتقل کیا جائے اور نجی املاک کو پبلک پراپرٹی میں تبدیل کر دیا جائے۔ اگر عوام کمیونسٹ نطام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گئے تو ریاست کا خاتمہ ہو جائے گا اور لوگ اس برابری کی زندگی کی طرف پلٹ آئیں گے۔ فلسفة التاريخ، جاسم سلطان، ص109
جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، مارکس کے مطابق، مذہب جب بھی سرمایہ دار طبقے (ذرائع پیداوار کے مالکان) کا مدد گار بنتا ہے اور ان کام کرنے والے کے خلاف ہوتا ہے تو اس وقت یہ لوگوں کے لیے افیون ہوتا ہے۔
جب ہم اسلامی تعلیمات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی بنیاد تو غریبوں کی مدد و نصرت پر ہے۔ غریب سب پہلے مسلمانوں ہوئے تھے۔یہ اس وقت ہوا جب غرباء نے اسلام میں عدل و انصاف دیکھا تھا۔اسلام نے مالک اور ملازم کے درمیان تعلقات کو منظم کیاجس سے نا انصافی کا خاتمہ ہوا۔اسی طرح اسلام نے معاشی او رطبقاتی اونچ نیچ سے جنگ کی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین حضرت علیؑ کی زندگی میں ملاحظہ کرتے ہیں اور قرآن کی تعلیمات طبقاتی تفریق کا خاتمہ کرتی ہیں۔یہ تعلیمات برابری اور غریبوں اور امیروں کےدرمیان مال کی درست تقسیم کا نظام دیتی ہیں۔سورہ حشر کی ان آیات کریمہ میں غور وفکر کریں ارشاد باری تعالی ہے:
{مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (7) لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (8) وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (9) وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}(۱۰)
اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے۔۸۔(یہ مال غنیمت) ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔۹۔ اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں۔۱۰۔ اور جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔
پانچواں: مالک بن نبی اور تہذیب کے چار عناصر
مالک بن نبی کا خیال ہے کہ کسی بھی تہذیب کے وجود کے لیے چار عوامل کا ہونا ضروری ہے: انسان، مٹی (وسائل)، وقت اور مذہب۔
انسان مساوات میں فیصلہ کن رکن ہے،انسان سے مساوات کو طاقت ملتی ہے۔معاشرے میں جتنی زیادہ انسان سازی ہو گی اتنی ہی کامیابی ہو گی اور اس کی نشاہ ثانیہ اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ ہر معاشرہ ان وسائل کی کمی کا شکار ہے، لیکن ایک کامیاب فرد ان وسائل کو سنبھال کر قوم کی نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تیسرا رکن وقت ہے اگر ہم اس کا بہترین استعمال کریں اور خود سے سستی کو دور کریں تو ہم پیداوار کو دوگنا کر سکتے ہیں ،اس سے ترقی اور تہذیب کا کمال جلد ممکن ہے۔
جہاں تک چوتھے عنصر (مذہب) کا تعلق ہے، یہ اس محرک فکر کی نمائندگی کرتا ہے جو پچھلے تین عناصر کو یکجا کرتی ہے اور اسی میں زندگی سانس لیتی ہے۔
جس میں انسان کو وسائل سے فائدہ اٹھانے اور وقت کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تحریک کا کردار ادا کرتا ہے۔ اور اس کے بغیر کوئی تہذیبی پیداوار نہیں ہوتی۔مذہب انسان کو وسائل سے فائدہ اٹھانے اور اپنے وقت کے بہترین استعمال کی طرف راغب کرتا ہےا ور تحریک پیدا کرتا ہے۔اس کے بغیر کوئی تہذیب عروج نہیں پا سکتی۔
مالک بن نبی کی تحقیق کے مطابق اسلامی تہذیب کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہےکہ اس کی بنیاد وحی الہی ہے جس کے نتیجے میں یہ وجود میں آئی ہے۔اسی نے اسلامی تہذیب کے اصولوں کو لافانی بنا دیا ہے اور یہ انہی پر عمل کی دعوت دیتی ہے۔نزول قرآن سے پہلے جزیرہ نما عرب میں ایک بدو قوم کے سوا کچھ نہیں تھا جو بنجر صحرا میں رہتے تھے اور اس سے فائدہ اٹھائے بغیر اپنا وقت ضائع کرتے تھے۔ لہذا، تین بنیادیں موجود تھیں:انسان،مٹی اور وقت ۔اس کے باوجود کوئی تہذیب نہیں تھی یہاں تک کہ اللہ نے غار حرا میں روح کی تجلی کی،جیسے یہ تجلی اس سے پہلے وادی مقدس میں ہو چکی تھی،اردن کےپانیوں میں ظاہر ہو چکی تھی۔پھر ان تینوں عناصر کے درمیان ایک نئی تہذیب نے جنم لیا۔گویا یہ تہذیب پڑھو کے حکم سے شروع ہوئی جس سے نبی امی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حیران تھےاور اس کے ساتھ ہی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔" عمر كامل مسقاوي، في تقديمه لكتاب مالك بن نبي (حديث البناء الجديد)
مالک بن نبی تہذیبوں کے زوال کی وجہ روحانی اقدار اور اخلاقی خوبیوں کے زوال کو قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ تہذیبوں کی جڑ ہیں۔وہ اسلامی تہذیب کے زوال کے اسباب میں بنیادی سبب روحانی اور اخلاقی اقدار کے خاتمے کو قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ تہذیبوں کی تشکیل کی بنیادی قوت و طاقت ہے۔جہاں روح کی چمک دمک اور ترقی ختم ہو جاتی ہے وہاں عقل کی چمک دمک اور ترقی بھی جاتی رہتی ہے۔جب انسان عزم مصمم اور ایمان کی مضبوطی سے خالی ہو جاتا ہے تو وہ اپنی عقل و دانش اور کام کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتا ہے۔ وجهة العالم الإسلامي، مالك بن نبي.
اسی طرح اس نے کہا ہے: یہ روح ہی ہے جو انسانیت کو عروج اور آگے بڑھنے کی بنیاد بنتی ہے جہاں بھی روح مٹ جاتی ہے،وہاں تہذیب بھی زوال پذیر ہوتی ہے۔ کیونکہ جو بھی پرواز کی صلاحیت کھو دیتا ہے اس کے پاس زمین کی کشش ثقل کے زیر اثر آکر گرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ نفس المصدر
ہم نے چند عظیم مفکرین کے اقوال اور ان کے کچھ علمی کاموں کو سرسری طورپر دیکھا۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اقوام کے زوال کے اسباب کیا ہیں اور بالخصوص مسلمانوں کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟ان اقوال سے واضح طورپر معلوم ہو گیا کہ مذہب اور بالخصوص مذہب اسلام ہمیشہ قوموں کے عروج کا باعث بنا ہے اور اس کے ذریعے تہذیبوں نے ترقی پائی ہے۔اسلام کسی تہذیب کے زوال یا سقوط کا باعث نہیں بنا۔
شیخ مقداد الربیعی: استاد و محقق حوزہ علمیہ