
| افکارو نظریات | کائنات اور انسان: ابتدا سے انجام تک کی داستان

کائنات اور انسان: ابتدا سے انجام تک کی داستان
الشيخ معتصم السيد أحمد
زندگی کبھی محض گزرتے ہوئے واقعات کا بے ربط تسلسل نہیں ہے، اور نہ ہی وہ کسی ایسی اندھی حرکت کا نام ہے جو معنی سے خالی ہو کر بار بار اپنے آپ کو دہراتی رہے۔ ہمارےارد گرد پھیلا ہوا یہ وسیع جہان ایک ایسے نظام پر قائم ہے جو کبھی رکتا نہیں اور ایک ایسی کائناتی گردش پر چلتا ہے جو ایک پوشیدہ نقطے سے شروع ہوتی ہے، پھر شاخیں بناتی ہے، بڑھتی ہے اور پھیلتی ہے، اس کے بعد واپس مڑنے اور سمیٹنے کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ یہ گہری حرکت صرف دُور کی کہکشاؤں تک محدود نہیں بلکہ زندگی کی اُن چھوٹی چھوٹی تفصیلات تک بھی پھیلی ہوئی ہے جنہیں ہم ہر روز دیکھتے اور برتتے ہیں۔ یوں کائنات اور انسان ایک ہی کہانی کے دو نشان بن جاتے ہیں، جس میں نہ اصل شاخ سے جدا ہے اور نہ کل اپنے اجزا سے الگ ہوتا ہے۔
سائنس بتاتی ہے کہ کائنات کی شروعات ایک غیر معمولی لمحے سے ہوئی جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے جو آج سے تیرہ ارب سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے پیش آیا۔ اُس وقت کائنات ایک نہایت سکڑی ہوئی چھوٹی سی کثیف حالت میں تھی، جس کا تصور بھی ذہن کےلیے مشکل ہے۔ایسا نقطہ جس میں بے شمار قوتیں سمٹی ہوئی تھیں۔ پھر وہ عظیم دھماکا ہوا اور وہ قوتیں ایک وسیع خلا میں پھیلنے لگیں جو آہستہ آہستہ تشکیل پاتا گیا، یہاں تک کہ وہ کہکشائیں، ستارے اور سیارے وجود میں آئے جنہیں ہم آج دیکھتے ہیں۔ اور اُس پہلی گھڑی سے لے کر اب تک کائنات پھیل رہی ہے، اس کے اجزاء ایک دوسرے سے دُور ہوتے جا رہے ہیں، گویا وہ ایک ایسی سفر پر روانہ ہے جو ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔
یہ آیت کریمہ اسی مطلب کو بیان کرتی ہے، اور قارئین کو ہمیشہ اس کی طرف ہی متوجہ کرتی ہے اور جو ہمیشہ سے مفسّریں کی توجہ کا مرکز رہی ہے:
﴿أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴾ (سورہ انبیاء:۳۰)
کیا کافر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین پہلے آپس میں ملے ہوئے تھے پھر ہم نے دونوں کو جدا کیا۔ اور ہم نے (پہلے) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟
یہاں نہایت دقیق زبان استعمال ہوئی ہے: "رتق"کا مطلب جڑ کر ایک ساتھ ہونااور "فتق"کا مطلب الگ ہو جانا ہے۔ یہ قرآنی تصویر حیرت انگیز حد تک اُس سائنسی تصور سے مشابہ ہے جس کے مطابق کائنات کی ابتدا ایک واحد گنجان حالت سے ہوئی جو حدِّ درجے سمٹی ہوئی تھی، پھر وہ پھٹی اور پھیلتی چلی گئی، یہاں تک کہ لامحدود وسعت اختیار کر گئی۔ اور یہ اشارہ ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان ہوجاتا ہے: ﴿ وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴾ (الذاریات:۴۷)
اور ہم نے آسمان کو (اپنی) قدرت سے بنایا اور بیشک ہم زیادہ وسعت دینے والے ہیں۔ "لَمُوسِعُون" کا صیغۂ اسمِ فاعل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پھیلاؤ کا عمل کوئی ایسا واقعہ نہیں جس کا خاتمہ ہو چکاہو بلکہ یہ ماضی، حال اور مستقبل؛ تینوں میں جاری رہنے والی ایک مستقل کیفیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے محققین نے کائنات کے پھیلاؤ اور اس قرآنی اشارے کے درمیان ربط قائم کیا ہے۔
انہی محققین میں سے ایک ڈاکٹر حسنی حمدان دسوقی ہیں، جو جامعہ منصورہ میں جیولوجی کے پروفیسر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کائنات کی تاریخ اس کی پیدائش سے اس کے انجام تک قرآن کی آٹھ آیات مبارکہ سے اخذ کی جاسکتی ہے۔ ان میں بعض آیات تخلیق کی ابتدا پر روشنی ڈالتی ہیں، کچھ آسمان کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتی ہیں، کچھ زمین کی تیاری کے مراحل کو بیان کرتی ہیں اور کچھ کائنات کے اس انجام کی تصویر پیش کرتی ہیں جب اسے کتابوں کے رجسٹر کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔
خود سائنس بھی اپنی بعض نظریات میں "عظیم سکڑاؤ" (Big Crunch) کے خیال کی طرف مائل ہوتی ہےیعنی یہ کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب کائنات کا پھیلاؤ رُک جائے گا اور وہ دوبارہ سکڑنا شروع کر دے گی، یہاں تک کہ سب کچھ واپس اسی ابتدائی نقطے کی طرف لوٹ آئے۔ آغاز اور انجام کے درمیان پھیلی یہ پوری کائناتی گردش یوں محسوس ہوتی ہے جیسے ایک عظیم دائرہ، جو اللہ کے مقرر کردہ قوانین کے تحت مختلف صورتوں میں بار بار وجود میں آتا رہتا ہے۔
تاہم یہ گردش صرف پوری کائنات تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہم اسے اپنی کہکشاں کی حرکت میں بھی دیکھتے ہیں، جو اپنے مرکز کے گرد گردش کرتی ہے اور اس میں لاکھوں سال لگتے ہیں۔ اسی طرح یہ گردش زمین کے سورج کے گرد چکر لگانے میں بھی نظر آتی ہے اور زمین کی اپنی محوری گردش میں ہر روز رات اور دن پیدا ہوتے ہیں، موسم بدلتے ہیں اور آب و ہوا میں تبدیلی آتی ہے۔
دن رات ایک دوسرے سے جنم لیتے ہیں، دن آہستہ آہستہ روشنی میں بڑھتا ہے، اپنی چوٹی پر پہنچتا ہے، پھر آہستہ آہستہ کم ہو کر رات واپس آجاتی ہے۔ سمندر کا پانی سورج کی حرارت سے بخارات بن کر بادلوں میں جمع ہوتا ہے، پھر بارش کے ذریعے دریاؤں اور سمندروں میں واپس لوٹ آتا ہے۔ زمین سے تازہ اور ہرے پودے نکلتے ہیں، پھر پژمردہ ہو جاتے ہیں اور بارش کے بعد دوبارہ ہرے ہو جاتے ہیں۔
﴿ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ﴾ (سورہ حج:۵)
اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک پڑی ہے تو جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ لہلہانے اور ابھرنے لگتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: ﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾(سورہ الزمر:۲۱)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور پھر زیرِ زمین اس کے چشمے جاری کر دیتا ہے پھر اس سے مختلف قسم کی رنگ برنگی کھیتیاں برآمد کرتا ہے پھر وہ (پک کر) خشک ہونے لگتی ہیں تم انہیں زرد دیکھتے ہو پھر انہیں ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں صاحبانِ عقل کیلئے نصیحت ہے۔
یوں یہ گردش ہر شے میں دہرائی جاتی ہے، اور قرآن مجید کی آیات مبارکہ بھی اسے بیان کرتی ہیں: ﴿ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾(سورہ الروم:۱۱)
اللہ ہی تخلیق کی ابتداء کرتا ہے وہی پھر اس کا اعادہ کرے گا۔ پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔
﴿ يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُۚوَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ ﴾ (سورہ انبیاء:۱۰۴)
جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح طومار میں خطوط لپیٹے جاتے ہیں جس طرح ہم نے پہلے تخلیق کی ابتداء کی تھی اسی طرح ہم اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے یقیناً ہم اسے (پورا) کرکے رہیں گے۔
یہ سب اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ابتدا،و اپسی اور انجام۔
انسان بھی ان قوانین سے مبراء نہیں ہے۔ وہ ایک چھوٹے سے نطفے سے شروع ہوتا ہے، پھر تخلیق کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے، پھر جوان ہوتا اور مضبوط ہوتا ہے، عمر کے مختلف حصوں میں جیتا ہے اور آخرکار واپس ابتدائی کمزوری کی حالت میں لوٹ آتا ہے۔ اسی گردش کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے: ﴿ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ ﴾(سورہ روم:۵۴)
اللہ ہی وہ ہے جس نے کمزوری کی حالت سے تمہاری پیدائش کا آغاز کیا۔ پھر کمزوری کے بعد (تمہیں جوانی کی) قوت بخشی اور پھر اس نے قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا پیدا کر دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے۔
یہ سوال باقی رہ جاتا ہے: قرآن ان گردشوں کی طرف توجہ کیوں دلاتا ہے؟
جواب یہ ہے کہ ان دائروں کو سمجھنے سے انسان اس بات کا شعور حاصل کرتا ہے کہ زندگی بےترتیب نہیں، موت اختتام نہیں اور خود کائنات بھی قیامت کے قانون کی گواہ ہے۔ جیسے زمین اپنی موت کے بعد دوبارہ ہری ہو جاتی ہے، روشنی اندھیروں کے بعد واپس آ جاتی ہے اور کائنات کبھی کبھی اپنی ابتدا کی طرف لوٹ سکتی ہے، اسی طرح انسان بھی اپنے خالق کی طرف لوٹے گا۔آغاز سے انجام تک زندگی ایک ہی معنی اور مقصد کی حامل ہے۔ یہ مسلسل ایک غایت کی طرف بڑھتی ہے اور وجود پورا کا پورا حکمت کے تابع ہے؛ نہ یہ بے ترتیبی کا شکار ہے اور نہ ہی حکمت سے خالی۔
آخر میں، کائنات کی گردشوں پر ایک مختصر نظر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تمام وجود ایک ہی راستے پر حرکت کرتا ہےاور انسان اس قانون سے الگ نہیں ہے۔ آج جب سائنسی نظریات وسیع ہو چکے ہیں، تو ضروری ہے کہ ہم ذہن میں رکھیں کہ قرآن اور ان نظریات کے درمیان تعلق امکان پر مبنی ہے، یقین پر نہیں۔ سائنس اپنی فطرت کے مطابق بدلتی رہتی ہے اور جو آج سچ معلوم ہوتا ہے وہ سالوں بعد محض مفروضہ یا درست کرنے کے قابل ماڈل بن سکتا ہے۔ اس لیے سائنسی دریافتوں سے رہنمائی لینا اس بات کے لیے ہے کہ وہ ہماری آیات کی تفہیم کو وسیع کرے نہ کہ انہیں حتمی تشریح سمجھیں۔
قرآن ایک ہدایت نامہ اور عظیم کائناتی اشاروں کی کتاب ہے طبیعیات کی کوئی نصابی کتاب نہیں ہے۔ سائنس انسان کو تخلیق میں خالق کی حکمت کا ایک پہلو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور اسے آفاق اور اپنے نفس پر مزید غور و فکر کی طرف مائل کرتی ہے۔ علم اور وحی کے درمیان ایک ہم آہنگی کا رشتہ ہے جو کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ دوسرے کی جگہ لےبلکہ یہ دونوں انسان کے فہم اور بصیرت کے سفر کو مکمل کرتے ہیں۔
یوں کائنات کی گردشیں اور قرآن کریم کا پیغام غور و فکر کرنے والے ذہن کے لیے کھلے رہتے ہیں، یہ گواہی دیتے ہیں کہ ابتدا ایسی نہیں کہ بغیر انجام کے رہ جائے، واپسی پیدائش کا حصہ ہے۔ انسان اور کائنات کی عظیم کہانی ایک ہی ہے، جو مٹی سے شروع ہوتی ہے، آسمان تک پھیلتی ہےاور واپس اللہ کی طرف لوٹتی ہے۔


