26 ربيع الثاني 1447 هـ   19 اکتوبر 2025 عيسوى 9:57 pm کربلا
موجودہ پروگرام
آج کے دن، سنہ 676 ہجری کو ابو القاسم نجم الدین جعفر بن الحسن، صاحبِ کتاب "شرائع الاسلام" المعرورف محقق حلی کی وفات ہوئی۔
مین مینو

 | افکارو نظریات |  پھول، جس نے ڈارون کو سوچنے پر مجبور کیا: ہر کمال میں ایمان کی جھلک ہے
2025-10-08   151

پھول، جس نے ڈارون کو سوچنے پر مجبور کیا: ہر کمال میں ایمان کی جھلک ہے

الشيخ مصطفى الهجري

اسلامی علمِ کلام کے علما اور عیسائی الہیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کی تخلیق میں پائی جانے والی خوبصورتی، نظم اور کمال خدا کے وجود کی سب سے مضبوط دلیلیں ہیں۔ یہ حقیقت بعض مشہور ملحد سائنس دانوں نے بھی تسلیم کی ہے، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ کوانٹم میکینکس پروفیسر ڈیوڈ ڈوئچ بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں موجودہ دور کے ملحدوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اسے اس کائنات اور اس کے قوانین میں پائے جانے والے حیرت انگیز نظم و ضبط پر کوئی تعجب نہیں ہوتا تو وہ دراصل حقیقت سے منہ موڑ رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سی حیرت انگیز اور ناقابل یقین مخلوقات ہیں۔" (دی گارڈین، جمعرات 8 جنوری 2009)

یہ بات ایک ایسے شخص نے کی ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ کہنا اس الجھن اور بے بسی کو ظاہر کرتاہے جو ملحدانہ سوچ کائنات کے حیرت انگیز نظم اور ہم آہنگی میں محسوس کرتی ہے۔

قرآنِ کریم نے بھی اس حقیقت کو کئی آیات میں بیان کیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل: 88)

اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے، وہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ (السجدة: 7)

جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔

یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ کمال و حسن کوئی اتفاقی وصف نہیں ہےبلکہ ایک ایسا آفاقی قانون ہے جو پوری کائنات کو محیط ہے۔

کمالِ تخلیق کے شاہکاروں پر غور و فکر

جب انسان مخلوقات کی دقیق ترین معلومات پر غور کرتا ہے تو وہ تخلیق کے عظیم الشان نظام پر حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ اسی کی ایک مثال آرکیڈ کا پھول ہے۔ یہ پھول صرف اپنی دلکش خوبصورتی ہی سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حیرت انگیز طور پر مادہ مکھی کی شکل کی مشابہت بھی رکھتا ہے تاکہ نر مکھی کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ نر مکھی یہ سمجھ کر اس پر بیٹھتی ہے کہ یہ اس کی ساتھی ہے اور اسی عمل کے دوران وہ پولن (جراثیمِ نر) کو ایک پھول سے دوسرے پھول تک منتقل کر دیتا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آرکیڈ کا پھول صرف شکل کی نقل نہیں کرتا بلکہ بالکل وہی خوشبو خارج کرتا ہے جو مادہ مکھی خارج کرتی ہے۔یوں یہ حیاتیاتی فریب مکمل ہوتا ہے اور پھول کا تخم ریزی کا عمل یقینی بن جاتا ہے۔ یہی وہ منظر تھا جس نے چارلس ڈارون جو نظریۂ ارتقاء کے بانی ہیں کو وفات سے ایک سال قبل یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا کہ یہ کیفیت اس کے ذہن کو ہلا دینے والی ہے کیونکہ اس کی کوئی توجیہ ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اس  تخلیق کے پیچھے ایک باقاعدہ منصوبہ اور مقصد کارفرما ہے۔

دوسری جانب، اگر ہم انسانی جسم پر غور کریں تو اس میں بھی اتنی ہی حیرت انگیز باریک بینیاں پائی جاتی ہیں جتنی باریکیاں نباتات کی دنیا میں ہیں۔ مثال کے طور پر ہرمونِ نمو (Growth Hormone) کو لیجیے، جو خون میں نہایت معمولی مقدار میں جو تقریباً5 نینوگرام کے تناسب سے خارج ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی معمولی مقدار ہے مگر صرف ایک گرام ہرمون تین ہزار انسانوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ اگر اس کے توازن میں ذرا سا بھی فرق آ جائے تو پورے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ مثلاً اگر اس کا تناسب ایک سو ملین میں سے صرف ایک حصےکے برابر بڑھ جائے تو انسان عظمتِ جسم (Gigantism) کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اتنا ہی کم ہو جائے تو بونا پن (Dwarfism) کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیا یہ حیرت انگیز توازن اور درستگی اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ کوئی حکمت و تدبیر رکھنے والی ذات اس نظام کو نہایت باریکی سے سنبھالے ہوئے ہے؟

قدرت کے کمالات بہت زیادہ ہیں یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔ پوری کائنات خواہ وہ کوانٹم ذرات کی باریک دنیا ہو یا عظیم کہکشاؤں کا پھیلا ہوا نظام ہو سب ایک نہایت درست اور متوازن قانون کے تابع ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک قانون معمولی سا بھی بدل جائے تو کائنات کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔ یہی حقیقت مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عظمت کو اورپختہ کر دیتی ہے:

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا  مَا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ  فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِنْ فُطُورٍ (الملك: 3)

۳۔ اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟

کمالِ تخلیق کی یہ نشانیاں کہ جن میں انسانی ہارمونز کی نازک ترتیب، قدرتی پھولوں کی حیرت انگیز کاریگری، فزکس کے قوانین کی ہم آہنگی اور ستاروں سے سجی آسمان کی خوبصورتی شامل ہیں سے یہ  حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ کائنات گویا ایک کھلی ہوئی کتاب ہےجسے ہر منصف مزاج انسان پڑھ سکتا ہے۔ تخلیق کا یہ کمال کسی اتفاق یا بے ترتیبی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایمان کے دروازے کھولتا ہے اور اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ سارا حسین و منظم نظام اسی خدا کی صناعت ہے جس نے ہر چیز کو کمال کے ساتھ بنایا۔

لہٰذا الحاد کا دعویٰ، چاہے اس کے ماننے والے اسے کتنے ہی خوبصورت الفاظ میں پیش کریں، آخرکار ایک ایسی حقیقت سے ٹکرا جاتا ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔وہ یہ ہے کہ اس مکمل اور منظم کائنات کے پیچھے ایک حکمت و علم والا رب موجود ہے اور صرف وہی ذات عبادت کے لائق ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018