

| افکارو نظریات | سات نشانیاں جو بتاتی ہیں کہ خلیہ محض اتفاق سے پیدا نہیں ہوسکتا

سات نشانیاں جو بتاتی ہیں کہ خلیہ محض اتفاق سے پیدا نہیں ہوسکتا
شیخ مصطفیٰ الہجری
چھ ایسی نشانیاں جو قطعی طور پر یہ ثابت کرتی ہیں کہ خلیے سے بنی ہر چیز کسی جاننے والے اور قادر خالق کی بنائی ہوئی ہے۔ وہ نشانیاں یہ ہیں: خوبصورتی، ہم آہنگی، باریک بینی (دقّت)، پیچیدگی، معلومات، منطق، اور مقصد۔ پس اگر کسی چیز میں یہ تمام عناصر پائے جائیں تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی بنانے والے کی تخلیق ہے۔
مثال کے طور پر کوئی بھی شخص اس بات میں شک نہیں کرتا کہ جدید دور میں تعمیر کردہ فلک بوس عمارتیں، جن میں تمام تعمیراتی خصوصیات موجود ہوتی ہیں، کسی ماہر انسان کی بنائی ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس، ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ صحرا میں پائے جانے والے غاروں کی مانند گڑھے یا سوراخ کسی باشعور خالق کے بنائے ہوئے ہیں، کیونکہ ان کے بارے میں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ صرف ہواؤں اور موسمی اثرات سے بنے ہوں۔
اسی طرح بطور مثال کمپیوٹر پروگرام کو لیجیے۔ ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کس حد تک کمپیوٹر کے پروگرام کاپیچیدہ ہونا ضروری ہے تاکہ کہا جا سکے کہ یہ پروگرام کسی ماہر سافٹ ویئر انجینئر نے بنایا ہے؟
ظاہر ہے کہ اس کے لیے بڑی مقدار میں معلومات اور ڈیٹا کا ہونا ضروری ہے، اور پھریہ پروگرام کام کو بخوبی انجام دینے کے قابل ہونا چاہیے، اس میں ہم آہنگی اور دوسرے پروگراموں کے ساتھ مطابقت ہونی چاہیے، اور دیگر پیچیدہ خصوصیات بھی موجود ہونی چاہییں۔
پس یہی پیچیدگی تھی جس نے مشہور فلسفی انتھونی فلو (جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک الحاد کے قائل رہے تھے) کو بالآخر ایمان کی طرف واپس لوٹنے پر مجبور کیا۔
انتھونی فلو نے مشاہدہ کیا کہ ڈی این اے، جو زندگی کی بنیادی اساس ہے،وہ نافقط نہایت پیچیدہ پروگرام کی طرح کام کرتا ہے، بلکہ یہ کمپیوٹر پروگرامز سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
انسانی ڈی این اے کا ہر دھاگا ایک ڈیٹا بیس کی مانند ہے، جس میں تین ارب سے زائد حروف پر مشتمل خفیہ معلومات محفوظ ہیں۔ یہ نہ صرف ایک زبان کی طرح کام کرتا ہے بلکہ اس میں منطقی پروگرامز بھی موجود ہیں جو با مقصد ہیں اور اپنی ہی نقل تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان حیرت انگیز انکشافات سے فلو نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کا سبب اس مادی کائنات کے اندر سے نہیں آسکتا بلکہ اس کےلئے لازمی طور پر کسی ایک خالق کا وجود ہونا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں: اصلِ حیات کے مطالعاتی جائزے سے انہیں جس فلسفیانہ سوال کا جواب نہیں ملا وہ یہ ہے کہ ایک بےسمت مادّی کائنات کس طرح ایسے جاندار پیدا کر سکتی ہے جو اپنے اندر بنیادی مقاصد، خود کو دوبارہ بنانے کی صلاحیت اور خفیہ کیمیائی زبان رکھتے ہوں؟ ہم یہاں محض حیاتیات سے واسطہ نہیں رکھتے، بلکہ ایک بالکل مختلف نوعیت کی معمہ خیز حقیقت کے سامنے ہیں۔ (کتاب There is a God، ص 124)
ایک اور مثال: اگر ہم گاڑیوں کے پیداواری پلانٹ کا موازنہ خلیے کے اندر موجود انزائمز کے کام سے کریں، تو انزئمز کے کام کو اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور دقیق پایئں گے۔ اس صورت میں اگر ہم کار فیکٹری کے پیچھے انجینئر اور بنانے والے کو ماننے میں کوئی شک نہیں کرتے، تو پھر خلیے کے انزائمز کے لیے خالق کے وجود پر کیسے شک کر سکتے ہیں؟
بروس البرٹس جو امریکی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے سابق صدر ہیں،وہ کہتے ہیں:اب ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ خلیے کے ہر اہم کیمیائی تعامل کی رہنمائی وہ مرکبات کرتے ہیں جنہیں انزائمات کہتے ہیں، اور یہ انزائمات دس یا اس سے زیادہ پروٹین سالمات سے بنتے ہیں۔ یہ مرکبات پھر دوسرے اتنے ہی پیچیدہ مرکبات کے ساتھ تعامل کرتے ہیں، اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خلیہ ایک بڑا کارخانہ ہے، جو کئی مربوط پیداواری لائنوں پر مشتمل ہے، اور یہ سب لائنیں دراصل پروٹین کے نہایت پیچیدہ سالماتی سلسلے ہیں۔ (حافۃ التطوّر، مائیکل بیہی، ص125)
لیہائے یونیورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر مائیکل بیہی کہتے ہیں کہ ہر انسانی خلیہ اپنی مشینیں خود ہی بناتا ہے۔ یہ بالکل ایساے ہی ہے کہ جیسے آپ کار کے پرزے زمین پر پھینک دیں اور وہ خود بخود جڑ کر ایک مکمل گاڑی بن جائیں۔خلیے اپنے حصے اور اپنی اندرونی مشینری خود تیار کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو جوڑنے کے عمل میں بیس (20) اقسام کے امینو ایسڈز استعمال کرتے ہیں، جن سے پروٹینز بنتے ہیں، اور پھر یہ پروٹینز دوسرے پروٹینز سے جڑ کر خلیے کی مشینیں تخلیق کرتے ہیں۔یہ مشینیں آپس میں مل کر مختلف کام انجام دیتی ہیں اور نئے خلیات پیدا کرتی ہیں۔
آئیے خلیے کی کچھ پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کریں:
دو پروٹینز کے آپس میں جڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی شکلیں اور کیمیائی خصوصیات ایک دوسرے کے ساتھ بالکل ہم آہنگ اور موزوں ہوں۔ جبکہ خلیے کے اندر موجود زیادہ تر آلات کئی پروٹینز پر مشتمل ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان میں انتہائی باریک اور درست جوڑوں کی بے حد بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔
آئیے خلیے (Cell) کے اندر موجود کچھ پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دو پروٹینز کے آپس میں جڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ساخت اور کیمیائی خصوصیات ایک دوسرے کے لیے بالکل موزوں اور ہم آہنگ ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیے کے اندر موجود زیادہ تر نظام کئی مختلف پروٹینز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں بے شمار نہایت درست اور پیچیدہ جوڑ موجود ہیں۔
مائیکل بیہی اندازہ لگاتے ہیں کہ اگر محض دو پروٹینز کا کسی اتفاقیہ عمل کے ذریعے صحیح جگہ پر جڑ جانا ممکن ہو، تو اس کی امکانیت صرف 1 کے مقابلے میں 10 کی طاقت 40 (یعنی 1/10⁴⁰) ہے۔
یہ ایسا عدد ہے جس کے بعد 40 صفر لگتے ہیں اور یہ احتمال زمین پر زندگی کے آغاز (تقریباً چار ارب سال پہلے) سے لے کر آج تک موجود تمام زندہ خلیوں کی مجموعی تعداد سے بھی کہیں کم ہے۔
نتیجہ
سب سے واضح اور اہم مطلب یہ ہے کہ وہ مرکبات جن میں دو سے زیادہ مختلف جڑنے کے مقامات ہوں یعنی جو تین یا اس سے زیادہ پروٹینز کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ارتقائی عمل کی حدود سے باہر ہیں۔ یہ جدید حیاتیاتی منطق کے تمام تصورات اور اربوں سال پر محیط ڈارونین ارتقاء کی توقعات سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔ پس یہ تمام امکانات اس بات کے خلاف ہیں کہ زندگی کی تاریخ میں ایسا کوئی ایک واقعہ بھی اتفاقیہ طور پر ہو گیا ہو۔ یہ حیاتیاتی طور پر ناممکن ہے۔(اسی ماخذ، صفحہ 146)
درجہ بالا دونوں مثالوں (کمپیوٹر پروگرامز اور کاروں کی فیکٹری کی اسمبلی لائن) پر غور کرنے کے بعد ہمارے لئے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ آخر ہم کیوں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک باعلم اور قادر خالق کے عمل ہی کا نتیجہ ہے۔