

| افکارو نظریات | خالق سے فرار: کثیر کائنات کا نظریہ بطور آخری سہارا

خالق سے فرار: کثیر کائنات کا نظریہ بطور آخری سہارا
شیخ مصطفیٰ الہجری
جب سائنس نے بگ بینگ کا نظریہ دریافت کیا تو کائنات کے بارے میں دین مخالف طاقتوں کے پرانے تصورات بدل گئے۔ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ کائنات ازل سے موجود ہے اور اسے کسی آغاز یا خالق کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کائنات کی ایک ابتدا ہے تو پھر خالق کے وجود کی ضرورت لازمی ہو جاتی ہے۔یعنی یہ ابتدا لازمی طور پر یہ بیان کرتی ہے کہ اسے کسی مبدع و خالق نے خلق کیا ہے خودسے وجود میں نہیں آئی۔
یہ انکشاف ہمیشہ ملحدوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ ان کی مشکل اس وقت مزید بڑھ گئی جب انسانی اصول پیش کیا گیا، جس کے مطابق کائنات کے قوانین نہایت درست ناپ تول اور توازن کے ساتھ ایسے بنائے گئے ہیں کہ زمین پر باشعور زندگی کا وجود ممکن ہو سکا۔ اس دلیل نے اس بات کو اور نمایاں کر دیا کہ یہ سب کچھ کسی حکیم و دانا خالق کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔
لیکن اسی مرحلے پر مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے الحاد کو بچانے کے لیے ایک نیا سہارا پیش کیا۔ انہوں نے کثیر کائنات کا نظریہ اختیار کیا اور اپنی کتاب (The Grand Design) میں یہ لکھا ہے کہ :حالیہ دور میں کائنات کے فطری قوانین کے نہایت باریک اور حیرت انگیز توازن کی دریافت نے بعض لوگوں کو دوبارہ اس قدیم خیال کی طرف متوجہ کر دیا ہے کہ یہ عظیم ڈیزائن کسی عظیم ڈیزائنر کی کاریگری ہے لیکن یہ جدید سائنس کا جواب نہیں ہے (دی گرینڈ ڈیزائن، صفحہ 164(
اسٹیفن ہاکنگ اپنی کتاب دی گرینڈ ڈیزائن میں لکھتے ہیں:"چونکہ کششِ ثقل جیسا قانون پہلے سے موجود ہے، اس لیے کائنات اپنے آپ کو عدم سے وجود میں لا سکتی ہے۔ یہی خودکار تخلیق اصل وجہ ہے کہ کچھ موجود ہے، نہ کہ کچھ بھی نہیں۔ یہی وضاحت بتاتی ہے کہ کائنات کیوں ہے اور ہم اس میں کیوں ہیں۔ اس سب کے لیے کسی خدا کو فرض کرنے کی ضرورت نہیں، جو تخلیق کا آغاز کرے یا کائنات کو چلانے کا انتظام کرے۔" (دی گرینڈ ڈیزائن، ص 180)
مگر ہاکنگ کا یہ تصور صرف چند جوشیلے ملحدین کے حلقوں تک محدود رہا، جیسے رچرڈ ڈاکنز، سیم ہیرس، ڈینیئل ڈینیٹ اور ان کے ہم خیال افراد۔ وجہ یہ ہے کہ "کثیر کائنات کا نظریہ" کئی بنیادی کمزوریوں کا شکار ہے۔ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ سائنسی نظریہ نہیں بلکہ ایک خالص فلسفیانہ مفروضہ ہے۔
اسے نہ تو ریاضیاتی دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مشاہدے اور تجربے کے سائنسی طریقوں سے۔ یہی بات بڑے بڑے ماہرینِ طبیعیات نے کہی ہے، حتیٰ کہ وہ سائنس دان بھی جو خود دہریت اور الحاد کے قائل ہیں۔ ذیل میں ان کے چند اقوال پیش کیے جاتے ہیں:
معروف ماہرِ طبیعیات جورج ایلس، جو اسٹیفن ہاکنگ کے ساتھ The Large Scale Structure of Space-Time کے شریک مصنف ہیں، اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہاکنگ کا "کثیر کائنات" کا نظریہ دراصل ایک فلسفیانہ دعویٰ ہے، جسے سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بے شمار کائناتیں وجود رکھتی ہیں، تب بھی ان کے ظہور کے لیے پہلے سے موجود قوانینِ فطرت درکار ہوں گے۔ یعنی، کائناتوں کے پیچھے بھی کسی "اصل" کا ہونا لازمی ہے جو ان قوانین کو وجود بخشے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہاکنگ کا یہ دعویٰ جو بظاہر سائنسی لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، درحقیقت سائنس نہیں بلکہ فلسفہ ہے۔ (تخرصات، ص 13)
اسی طرح نوبیل انعام یافتہ ملحد ماہرِ طبیعیات پال ڈیوس لکھتے ہیں: "سارا سائنسی منصوبہ دراصل اس مفروضے پر قائم ہے کہ اشیاء جس طرح موجود ہیں، اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔" (لغز جولڈيلوكس، ص 218)
معروف ماہرِ طبیعیات جورج ایلس نے "کثیر کائنات" کے نظریے کی کمزوری کو اجاگر کرنے کے لیے ایک نہایت بلیغ مثال دی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تصور اُس قدیم اساطیری کہانی سے مشابہ ہے جس میں زمین کو ایک دیوہیکل کَچھوے کے سہارے کھڑا دکھایا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کَچھوا خود کس کے سہارے کھڑا ہے؟ اس مثال سے وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ "کثیر کائنات" کا نظریہ بظاہر پرکشش لگتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے بھی کوئی حتمی سبب یا مضبوط بنیاد موجود نہیں۔ یوں یہ نظریہ اپنی اصل میں اعتباطی (بلا جواز) اور مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے، اور آخرکار ایک غیر سنجیدہ و غیر معقول دعویٰ بن کر رہ جاتا ہے۔ (نفس المصدر)
اسی تناظر میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریاضی کے ممتاز پروفیسر جان لینکس بھی اسٹیفن ہاکنگ کے "کثیر کائنات" کے نظریے پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سوچ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ "عدم وجود " سے "کچھ" وجود میں آ سکتا ہے۔ لینکس وضاحت کرتے ہیں کہ اگر واقعی کچھ بھی نہ ہو، نہ کوئی سبب، نہ کوئی مادہ، نہ قوانینِ فطرت اور نہ ہی کوئی ضرورت ، تو پھر کسی شے کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہاکنگ کا یہ دعویٰ کہ چونکہ کششِ ثقل جیسا قانون موجود ہے اس لیے کائنات اپنے آپ کو عدم سے پیدا کر سکتی ہے، منطقی طور پر بالکل بے بنیاد ہے۔ "عدم" (کچھ نہ ہونا) بذاتِ خود کسی وجود یا قانون کو جنم نہیں دے سکتا۔ چنانچہ یہ بات کہ "کائنات نے خود کو خود ہی پیدا کیا" دراصل ایک ذہنی مغالطہ اور غیر منطقی دعویٰ ہے۔ (اللہ و اسٹیفن ہاکنگ، ص 29)
پروفیسر جان لینکس آخر میں نہایت دوٹوک اور کڑوی مگر حقیقت پر مبنی بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "یہ سب کچھ ہمیں اس نتیجے تک لے جاتا ہے کہ لغو اور بے بنیاد بات، لغو ہی رہتی ہے۔ اس کی حیثیت کسی بھی طرح تبدیل نہیں ہوتی، چاہے اسے دنیا کے سب سے زیادہ مشہور اور بڑے سائنس دان ہی کیوں نہ بیان کریں۔" (نفس المصدر، ص 32)
یہ جملہ دراصل اس حقیقت کو کھول کر سامنے لاتا ہے کہ کسی دعوے کو معتبر بنانے کے لیے صرف بڑا نام یا شہرت کافی نہیں، بلکہ دلیل اور منطق کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بات خود ہی غیر منطقی اور کھوکھلی ہو تو اسے سائنس کا لبادہ اوڑھا دینے سے وہ حقیقت میں نہیں بدلتی۔ لینکس مزید وضاحت کرتے ہیں کہ اگر بالفرض یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ بے شمار کائناتیں وجود رکھتی ہیں، تب بھی یہ حقیقت باقی رہتی ہے کہ ان کائناتوں کے وجود کے پیچھے کوئی بنیادی سبب ہونا ضروری ہے۔ اور وہ سبب خدا کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ دوسرے لفظوں میں، "کثیر کائنات" کا تصور خالق کے وجود کی ضرورت کو ختم نہیں کرتا بلکہ بالآخر اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (نفس المصدر، ص 47)
یہ وضاحت اس حقیقت کو اور زیادہ اجاگر کرتی ہے کہ الحاد کی طرف سے پیش کیے گئے یہ تمام نظریات خواہ "کثیر کائنات" ہو یا "خودکار تخلیق" آخرکار غیر سائنسی، غیر منطقی اور کمزور ہیں۔ ان کا سہارا لینا دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ خالق کے وجود سے بچنے کی کوئی مضبوط سائنسی دلیل ملحدین کے پاس موجود نہیں۔
اختتامی کلمات
آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس اس بات کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے کہ کائنات کی ایک ابتدائی نقطۂ آغاز ہے؛ اس سے پہلے نہ وقت تھا، نہ مادہ، نہ قوانینِ فطرت، نہ توانائی اور نہ ہی خلا۔ اس نقطے کے بعد ہی سب کچھ وجود میں آیا۔ یہی وہ بات ہے جسے بگ بینگ (انفجارِ عظیم) کے نظریے نے واضح کیا ہے۔ اسی طرح سائنس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کائنات ایسے قوانین کے تابع ہے جو باشعور زندگی کے وجود کو ممکن بناتے ہیں۔یہاں تک آ کر سائنس کا کردار ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ جب ہم اس نقطۂ آغاز پر پہنچ جاتے ہیں جہاں نہ مادہ ہے، نہ توانائی، تو اس کے بعد فلسفہ کا میدان شروع ہوتا ہے، تاکہ ان حقائق کی بنیاد پر منطقی نتیجہ اخذ کرے (کہ کائنات کی ایک ابتدا ہے اور یہ زندگی کے وجود کے لیے موزوں طور پر ترتیب دی گئی ہے)۔
اگرچہ اسٹیفن ہاکنگ فلسفے کو رد کرتا ہے اور جاننے کا واحد راستہ حسی و تجرباتی سائنس کو سمجھتا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسے خود کائنات کے آغاز کی وضاحت میں فلسفیانہ رائے دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس نے اپنے ہی موقف کی تردید کی؛ کیونکہ ایک طرف وہ خالقِ کائنات کے وجود کو اس بنا پر رد کرتا ہے کہ یہ سائنسی نہیں بلکہ محض فلسفیانہ نتیجہ ہے، لیکن دوسری طرف اس کی اپنی تھیوری - جیسا کہ بڑے سائنسدانوں نے بھی کہا ہے - محض فلسفیانہ قیاس آرائی ہے، سائنسی ثبوت نہیں۔