23 ذو القعدة 1446 هـ   21 مئی 2025 عيسوى 12:05 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | نظریات اور مسائل |  مسیحیت کے عقائد میں تحریف: مغربی مورخین اور محققین کی آراء
2024-12-12   229

مسیحیت کے عقائد میں تحریف: مغربی مورخین اور محققین کی آراء

الشيخ مقداد الربيعي

یقیناً، پولس رسول کی دیگر اقوام میں مسیحیت پھیلانے کی کوششوں کا سنگین نتیجہ نکلا، اور ان کوششوں نے مسیحیت کی ترویج اور تبلیغ کے سفر پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ چونکہ ابتدا ہی سے، یہ مذہب تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں اس کی مقدس کتاب اور دینی تعلیمات متاثر ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، جب مسیحیت چوتھی صدی میں داخل ہوئی، تو یہ وثنی عقائد اور فلسفیانہ نظریات سے مطابقت پیدا کر چکی تھی، اگرچہ اس میں کچھ حصہ ان الہامی تعلیمات کا باقی تھا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی تھیں۔ یہ تحریفات نہ صرف ثانوی یا جزوی معاملات تک محدود رہیں، بلکہ انہوں نے مسیحیت کے بنیادی عقائد اور اہم عبادات کی حقیقت کو بھی گہرے طور پر متاثر کیا۔ نتیجتاً، مسیحیت کا تحریف ہونا اور وثنی عقائد سے متاثر ہونا ایک ایسی ناقابل انکار حقیقت بن چکی ہے جس پر محققین کا اتفاق پایا جاتا ہے۔ بہت سے ماہرین، جو تاریخِ ادیان اور مغربی فکر کے میدان میں مہارت رکھتے ہیں، اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مسیحیت میں یہ تبدیلیاں اس کے اصل پیغام اور الہامی بنیادوں کو کمزور کر چکی ہیں۔

مسیحیت اور وثنیت کے تعلق پر ایک نمایاں شاہد اور دلیل معروف ماہرِ تاریخِ ادیان اور تقابلِ ادیان کے محقق پروفیسر آندریہ نیٹون نے پیش کی ہے، جنہوں نے ان الفاظ میں اظہار کیا:"ادیان کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے سے یہ بات بخوبی سامنے آتی ہے کہ مسیحیت اور وثنیت(بت پرستی) کے درمیان نہ صرف گہرے بلکہ پیچیدہ اور مضبوط روابط موجود ہیں۔  ہمارے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ مسیحیت کس طرح وثنیت سے پیدا ہوئی، اور دونوں کا ایک مشترک تاریخی اور عقلی بنیاد پر کیسے تعلق قائم ہوا۔ ہمیں یہ تسلیم بھی  کرنا چاہیے کہ مسیحیت کی ابتدا وثنی عقائد سے ہی ہوئی ہے، اور ان دونوں کے درمیان ایک واضح اور پائیدار تعلق پایا جاتا ہے۔ ایک مؤرخِ ادیان کے لیے یہ نتیجہ نہ صرف معقول اور منطقی ہے بلکہ اس کا دریافت کرنا فطری طور پر لازمی ہے۔ (الأصول الوثنية للمسيحية: صفحات 19-20)

(مسیحیت کو درست اور مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے وثنی بنیادوں کا گہرائی سے مطالعہ کریں، کیونکہ وثنیت نے مسیحیت کی تشکیل اور اس کے ارتقائی مراحل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسیحیت پر یونانی، فارسی، اور عام طور پر مشرقی وثنی ثقافتوں کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جو اس کے عقائد اور عبادات میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ مسیحیت  کے کئی اہم مشہور مذہبی رسومات قدیم وثنی ادیان سے براہِ راست متاثر ہیں تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، کیونکہ یہ اثرات مسیحیت کی تاریخی ترقی کے لازمی حصے بن چکے ہیں۔)

مسیحیت کے عقائد میں تحریف کا وقوع ایک ایسی  ناقابل انکار حقیقت ہے جسے معروف فرانسیسی عالمِ ادیان، شارل جنیبیر نے اپنی تفصیلی تحقیق میں واضح کیا ہے، جس میں انہوں نے مسیحیت کی تاریخ اور اس کی ترقی کے مختلف مراحل کا گہرا تجزیہ کیا ہے۔ جنیبیر کے مطابق، جو مسیحیت آج دنیا میں موجود ہے، وہ دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ مسیحیت کے موجودہ عقائد میں وہ تبدیلیاں اور اضافے ہوئے ہیں جو ابتدائی طور پر موجود نہیں تھے۔ جنیبیر نے مسیحیت اور اس کے ابتدائی دور کی معاصر وثنی عقائد کے درمیان گہرے مشابہت کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مسیحیت نے کس حد تک مختلف وثنی مذاہب سے اثرات قبول کیے۔ انہوں نے ان عقائد کی نشاندہی کی جو مسیحی فکر نے وثنی ادیان سے مستعار لیے، اور ان بنیادی ذرائع کو بھی بیان کیا جہاں سے مسیحیت نے اپنے کئی عقائد کا مواد حاصل کیا۔ جنیبیر کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ مسیحیت کی تشکیل میں وثنی عقائد کا ایک اہم کردار تھا، اور یہ تحقیق مسیحیت کی تاریخی ساخت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس پر وثنی اثرات کے اثرات کو واضح کرنے میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ اس تحقیق کو عیسائیت کے ارتقاء کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک اہم ماخذ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

شارل جنیبیر اپنی کتاب  میں لکھتے ہیں: "اگر ہم چوتھی صدی کے آغاز میں کلیسا کا جائزہ لیں تو یہ دیکھنا تقریباً ناممکن ہے کہ کلیسا کی کوئی ایسی شکل موجود ہو جو اس کے ابتدائی دور کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہو۔" وہ وضاحت کرتے ہیں کہ "اگر تیسری صدی کے دوران مسیحیت نے دیگر وثنی مذہبی ترکیبات پر غلبہ پایا، تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ خود مسیحیت بھی ایک ایسے مذہبی نظام میں تبدیل ہو چکی تھی جو مختلف زرخیز وثنی عقائد اور مذہبی جذبات سے تشکیل پانے والے بنیادی شعائر کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی"۔(المسيحية: نشأتها وتطورها، ص121)

جنیبیر اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مسیحیت نہ صرف وثنی مذاہب کے اثرات قبول کر چکی تھی بلکہ ان مختلف عقائد اور شعائر کو اپنے اندر ضم کر کے ایک ایسے مذہبی نظام میں ڈھل چکی تھی جو اپنے وقت کے تمام متنوع عقائد کو یکجا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ تبدیلی مسیحیت کی فتح کا اہم سبب تھی، لیکن ساتھ ہی اس کے اصل پیغام سے فاصلے کی علامت بھی تھی۔

جنیبیر نے اپنی کتاب  میں مزید لکھتے ہیںکہ: "مسیحیت کے قرون وسطیٰ کے دور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ تحریفات نے اسے اس کی اصل بنیادوں سے دور کر دیا تھا۔" وہ مزید کہتے ہیں کہ "مسیحیت نے وثنی معاشروں کو اپنے عقائد کے مطابق ڈھالنے میں کامیابی نہیں پائی، بلکہ وہ خود ان وثنی معاشروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ان کے مذہبی اور ثقافتی نمونوں کے مطابق ڈھل گئی۔"( المسيحية: نشأتها وتطورها، ص121)

سنہ 1977ء میں برطانیہ کے سات ممتاز علماء اور یونیورسٹی  کے اساتذہ نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا "خدا کے تجسد کا افسانہ"، جس میں انہوں نے مسیحیت کے عقائد میں ہونے والی تحریفات کو جرات مندی اور تفصیل سے بیان کیا۔ اس کتاب میں، یہ ماہرین مسیحیت کے موجودہ عقائد پر گہرے تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مسیحیت میں بنیادی طور پر اہم ترین تبدیلیاں آئی ہیں، جنہوں نے اس کے بنیادی عقائد کو متاثر کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ مسیحیت نے اپنے ابتدائی پیغام سے انحراف کیا ہے اور اس میں وہ عناصر شامل ہو گئے ہیں جو وثنی (بت پرستی)عقائد سے مستعار لیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں مسیحیت کے تاریخی ارتقا اور اس میں درپیش تبدیلیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جس کے تحت یہ مذہب کئی غیرمسیحی عقائد کے اثرات میں ڈھل گیا۔

مذکورہ کتاب میں مسیحیت کے عقائد پر وثنی اثرات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ان میں شامل کردہ عقائد کی اصل کو دلیل اور تجزیہ کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ مسیحیت کے موجودہ عقائد میں وثنی مذاہب کے نظریات و عقائد کو بڑی حد تک شامل کر دیا گیا ہے، جسے تحقیق و مطالعہ کے شائقین بہ آسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے "خدا کے تجسد کا افسانہ" کی مکمل عبارت کا مطالعہ کریں یا ڈاکٹر محمد البار کی کتاب "دراسات معاصرة في العهد الجديد والعقائد النصرانية" کے صفحات (304 - 383)کا مطالعہ کریں۔

جب ہم ان مورخین کے نظریات پر غور کرتے ہیں جو عقائد کی تاریخ اور ان کی ترقی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں مسیحیت میں تحریف اور انحراف کے واقع ہونے کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ ان میں سے ایک اہم مورخ مشہورامریکی ول ڈیورانت ہیں، جنہوں نے اپنی مشہور تصنیف "قصۂ تمدن" (جلد 12، صفحہ 77) میں اس حقیقت کو بیان کیا:" مسیحیت نے وثنیت کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا، بلکہ اسے اپنے اندر جذب کر لیا؛ اس کے نتیجے میں عقلِ یونانی اور فلسفہ ایک بار پھر زندہ ہو گیا، لیکن اس کا نیا روپ کلیسا کے لاهوت اور اس کے مذہبی رسومات کے ذریعے سامنے آیا۔"

ڈیورانت اپنے دقیق تجزیے میں اس باہمی اثر و رسوخ پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"مسیحیت کو ہم قدیم وثنی دنیا کی آخری عظیم تخلیق قرار دے سکتے ہیں" (قصة الحضارة، جلد 12، صفحہ 78)

یہ بیان اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ مسیحیت نے نہ صرف وثنی (بت پرستی) اثرات کو اپنایا بلکہ دراصل ان اثرات سے جڑ کر ایک نیا مذہبی نظام تشکیل دیا، جو قدیم وثنی تہذیبوں کی آخری اہم تخلیق بن کر ابھرا۔

 یہ واضح اعتراف مسیحیت اور اس سے پہلے کی وثنی عقائد کے درمیان گہرے تعلق کو بے نقاب کرتا ہے، اور یہ بات ثابت کرتا ہے کہ مسیحیت، جیسا کہ ہم اسے آج جانتے ہیں، قدیم وثنی تہذیبوں سے اخذ کردہ اثرات سے آزاد نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسیحیت نے اپنی تشکیل کے دوران وثنی معاشروں سے متاثر ہو کر اپنے عقائد اور رسومات میں تبدیلیاں کیں، جن کا اثر اس کے بنیادی نظریات اور عبادات پر پڑا۔

 اپنی کتاب "معالم تاریخ انسانیت" (جلد 3، صفحے 559-566) میں، تاریخ دان انگریزی ہنری جے ویلز نے مسیحیت کے عقائد میں تحریفات کا جائزہ لیا اور اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ویلز نے ایک پورے باب کو "مسیح کی تعلیمات میں شامل کردہ اصول" کے عنوان سے مختص کیا، جس میں انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات میں ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کیا۔"ویلز کے مطابق، مسیحیت کے ابتدائی دور میں ایسی کوششیں کی گئیں جن میں نئی ابھرتی ہوئی مسیحیت کے عقائد کو اس وقت کی غالب مذہبی عقائد سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس عمل میں، مسیحیت کے عقائد میں نئی تبدیلیاں آئیں اور مختلف غیر عیسائی عناصر کو ان میں شامل کیا گیا۔ ویلز نے ان اثرات کی تفصیل سے وضاحت کی اور بتایا کہ کس طرح یہ تبدیلیاں مسیحیت کی اصل تعلیمات سے انحراف کی وجہ بنی۔ یہ تحقیق مسیحیت کے تاریخی ارتقا کو سمجھنے میں ایک اہم دستاویز فراہم کرتی ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیحیت نے مختلف عقائد و رسومات کو اپنے اندر ضم کیا۔

جب ویلز نے پہلا عیسائی کونسل (مجمع نیکیہ) کا جائزہ لیا، تو انہوں نے نیکیہ کے مجمع میں ترقی پانے والی مسیحیت اور حضرت عیسیٰ ناصری کی تعلیمات کے درمیان گہرے اختلافات پر زور دیا۔ ویلز نے کہا: "یہ ضروری ہے کہ ہم قارئین کی توجہ نیکیہ کی مکمل ترقی یافتہ مسیحیت اور حضرت عیسیٰ ناصری کی تعلیمات کے درمیان عمیق فرق کی جانب مبذول کرائیں۔"(معالم تاریخ انسانیت، جلد 3، صفحہ 572)

یہ مشاہدات مسیحیت کی تعلیمات میں آنے والے انحراف کی گہرائی کو اجاگر کرتی ہیں اور اس تبدیلی کے تاریخی بنیادوں کو واضح کرتی ہیں۔ ان اختلافات اور تبدیلیوں کے ذریعے، یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسیحیت نے اپنے ابتدائی پیغام اور تعلیمات سے کس حد تک انحراف کیا اور مختلف مذہبی اثرات کو اپنے اندر ضم کیا۔ اس تاریخی عمل میں، مسیحیت نے بہت سے بیرونی عقائد و اصول کو قبول کیا، جو اس کے اصل نظریات سے مختلف تھے۔ ان تاریخی تبدیلیوں کا جائزہ مسیحیت کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے ایک اہم زاویہ فراہم کرتا ہے۔

برطانوی مورخ آرنولڈ ٹوئین بی بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسیحیت نے وثنی مذاہب کو مکمل طور پر تباہ نہیں کیا، بلکہ انہیں اپنے اندر جذب کر لیا اور ان سے اثرات اخذ کیے۔ اپنی کتاب میں، ٹوئین بی نے مسیحیت کے ارتقا پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا: "مسیحیت نے یہودیت کے توحیدی عقیدے سے انحراف کیا؛ بلکہ اس نے شکست خوردہ حریف مذاہب کو جذب کیا اور انہیں اپنے اندر سمو لیا۔ (تاريخ البشرية، ج1، ص361.)

امریکی مورخ کرین برینٹن، جو عہد حاضر کے معروف محققین میں شمار ہوتے ہیں، ان  کا کہنا ہے کہ مسیحیت کی نشوونما اور ارتقا دراصل وثنی تہذیبوں کے ماحول میں ہوا۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آج مسیحیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسے اُس تاریخی سیاق میں دیکھیں جس میں یہ پروان چڑھی، یعنی یونانی اور رومی دنیا کے اثرات میں۔ برینٹن اپنی کتاب "افکار اور افراد: مغربی فکر کی کہانی" (صفحات 43) میں لکھتے ہیں: "مسیحیت کو صرف اس صورت میں سمجھا جا سکتا ہے اگر ہم اسے اُس دور کے حالات میں سمجھیں، جب یہ ابھری۔"

یہ اقتباس مسیحیت کی اصل تشکیل اور ترقی کو ایک مخصوص ثقافتی اور تاریخی پس منظر سے جوڑتا ہے، جس میں یونانی، رومانی دنیا کے اثرات واضح طور پر موجود تھے۔ برینٹن کا کہنا ہے کہ مسیحیت ایک ایسا مذہب تھا جو ان وثنی تہذیبوں سے متاثر ہو کر اور ان کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے ابھرا، اور اس کی موجودہ شکل انہی اثرات کی مرہون منت ہے۔

فلسفی اور مورخ انگریزی برترینڈ رسل نے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ عیسائی عقائد اور لاہوت نے یونانی فلسفوں سے خاص طور پر نیا افلاطونی فلسفہ سے بہت زیادہ اثر لیا۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسیحیت اور یونانی فلسفہ کے درمیان یہ اختلاط اتنا گہرا ہو گیا تھا کہ دونوں "ایک ہی سکے کے دو رخ بن گئے، جنہیں علیحدہ کرنا مشکل تھا۔" (تاريخ الفلسفة الغربية، جلد 1، صفحہ 418)

یہ تمام آراء اس بات پر متفق ہیں کہ مسیحیت کی ترقی اور ارتقا کسی بھی صورت میں وثنی تہذیبوں اور قدیم فلسفوں کے اثرات سے الگ نہیں تھی، اور یہی اثرات مسیحیت کی تاریخی نشوونما اور اس کے عقائد میں پیچیدگیوں کو اجاگر کرتے ہیں، جیسا کہ ہم آج انہیں جانتے ہیں۔ یہ اثرات نہ صرف مسیحیت کے ابتدائی دور کے عقائد و نظریات کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بلکہ مسیحیت کی موجودہ شکل اور اس کی عبادات، رسومات، اور فکری بنیادوں میں بھی ان کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح، مسیحیت کی تاریخ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں مختلف ثقافتوں، مذاہب، اور فلسفوں کا امتزاج شامل ہے، جس کے نتیجے میں یہ دین آج کے شکل میں ہمارے سامنے آیا۔

رچرڈ ٹارنس نے اپنی کتاب( آلام العقل الغربی) میں ابتدائی مسیحیت کے فکری ارتقا اور اس کے ارد گرد موجود وثنی ثقافتوں، خاص طور پر یونانی ثقافت، کے گہرے تعلق کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ مسیحیت نے یونانی افکار کو ختم نہیں کیا بلکہ ان کے کئی عناصر کو جذب کر کے اپنی بنیاد میں شامل کر لیا۔ ٹارنس بیان کرتے ہیں کہ ابتدائی مسیحیت مختلف ثقافتوں اور فلسفوں سے متاثر ہوئی، جن میں یہودیت، یونانی اور ہیلینسٹک روایات، گنوسی (عرفانی) نظریات، نیا افلاطونی فلسفہ، اور رومی و مشرقی اثرات شامل ہیں۔ وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مسیحیت نے ان مختلف عناصر کو ایک منفرد فکری وحدت میں ڈھالنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ تجزیہ اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ مسیحیت مختلف عقائد اور فلسفوں کے اثرات سے گزر کر ایک نیا مذہبی نظام تشکیل دینے میں کس طرح کامیاب ہوئی(آلام العقل الغربی، صفحہ 126

ٹارنس اپنی تحقیق میں یہ بیان کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کی زندگی کے کئی اہم پہلو، جو مسیحی عقیدے میں مقدس سمجھے جاتے ہیں، جیسے قیامت کی کہانی، معجزات، تثلیث کا عقیدہ، اور نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کا ارادہ، یہ سارے  صرف تاریخی اور متنی شواہد کی بنیاد پر ثابت کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ شواہد بھی مختلف تاویلات سے  خالی نہیں ہیں۔ (مرجع سابق، صفحہ 129

رچرڈ ٹارنس کے اس تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسیحیت کے ابتدائی دور میں اس پر مختلف ثقافتوں کا گہرا اثر تھا۔ بعد کے ادوار میں اس عقیدے نے ان اثرات کو یکجا کر کے ایک ہم آہنگ اور ترقی یافتہ شکل اختیار کر لی۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ مسیحیت نے مختلف ثقافتی، فلسفیانہ اور مذہبی نظریات کو اپنے اندر سمو لیا اور ان سب کو ایک متحدہ عقیدے کی صورت میں پیش کیا، جو وقت کے ساتھ مختلف تبدیلیوں اور ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا۔

مسیحیت کے مذہبی عقائد میں تحریف کا مسئلہ ایک اہم اور مرکزی موضوع بن چکا ہے جس پر متعدد محققین نے تفصیل سے تحقیق کی ہے۔ انہوں نے اس تحریف کے اسباب، اور وہ داخلی و خارجی عوامل جو اس کی واقع ہونے  میں معاون ثابت ہوئے، کا تجزیہ کیا۔ محققین نے مسیحیت کی تاریخ میں اس تحریف کے مختلف مراحل، اس کی حدود اور اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔ علاوہ ازیں، انہوں نے تحریف کے ماخذ اور بنیادوں کو  بھی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس کے وقوع کو ثابت کرنے کے لیے معتبر شواہد اور دلائل فراہم کیے تاکہ اس کے گہرے اور دیرپا اثرات کو واضح کیا جا سکے۔

محققین نے اس تناظر میں ایک اہم پہلو پر زور دیا ہے، اور وہ ہے سنت پولس کا کردار، جو مسیح علیہ السلام کے بعد مسیحی فکر میں ایک مرکزی شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ پولس کو مسیحیت کے مذہبی عقائد میں سب سے اہم اور بڑے تحریفات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، اور بہت سے محققین کا ماننا ہے کہ ان کی تعلیمات اور اقدامات ہی وہ بنیادی عوامل تھے جنہوں نے مسیحیت میں اس اہم تبدیلی کو جنم دیا۔ پولس نے مسیحیت کو ایک عالمی مذہب بنانے کی کوشش کی اور غیر قوموں کے درمیان اس کے پھیلاؤ کے لیے نئے نظریات اور تعلیمات پیش کیں، جو بعد ازاں مسیحی عقائد میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا باعث بنیں۔ ان کی تعلیمات نے مسیحی عقائد کو اس طرح شکل دی کہ وہ بہت سی روایتی یہودی تعلیمات سے مختلف ہو گئیں اور وہ وثنی عقائد سے بھی متاثر ہو گئیں، جس نے مسیحیت کو ایک نئے عقیدے کے طور پر متعارف کرایا۔

اس تناظر میں، مورخ ہیم مکبی اپنی کتاب "پولس اور مسیحیت کی تحریف" میں لکھتے ہیں: "مسیحیت کو اس کی نئی شکل میں جنم دینے والا سب سے بڑا واقعہ پولس کا دمشق کے راستے پر مسیحیت کو قبول کرنا تھا۔ اس واقعے نے مسیحیت کو یہودی مذہب کے تسلسل سے نکال کر ایک ایسا نیا مذہب بنا دیا، اور اس میں ایک الگ الہیات اور ایسی کہانیاں شامل ہو گئیں جو اس کے اصلی ماخذ سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔"(صفحہ 35)۔

مغربی تحقیقات اور کتابوں میں پولس کے کردار کو  تاکید کے ساتھ بہت حد تک اجاگر کیا گیا ہے کہ وہ مسیحیت کے عقیدے میں تحریف کا بنیادی سبب تھے۔ محققین کا ماننا ہے کہ پولس کی کوششوں نے وہ اہم تبدیلیاں متعارف کرائیں، جو مسیحیت کے موجودہ عقائد اور نظریات کی تشکیل کا سبب بنیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018