

| نظریات اور مسائل | فرانسی انقلاب کے زوال کی رات

فرانسی انقلاب کے زوال کی رات
شیخ مقداد ربیعی
عام طور پر، وہ ممالک جو بڑے انسانی اجتماعات کی میزبانی کرتے ہیں ، جہاں بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں وہ ممالک ان مقابلوں کو اپنی ثقافت کی ترویج کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اپنی تہذیب کے بارے میں دنیا کو بتاتے ہیں۔یہ بنیادی طور پر اپنی تہذیب اور ثقافت کے مظاہر کا اظہار ہوتا ہے۔فرانس نے اپنے ہاں منعقد ہونے والے گزشتہ اولمپک کے مقابلوں میں ایسا ہی کیا۔اس نے اٹھارویں صدی میں فرانس میں آنے والی روشن خیالی کے اصولوں کو بھرپور انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ۔یہ اس بات کا اظہار تھا کہ فرانس ان اصولوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔فرانس میں لوگ ان اصولوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور فرانس ان اصولوں کو پرموٹ کرتا اور قبول کرنے کے لیے کہتا ہے۔ٹرانسجینڈر اور ہم جنس پرستوں کے بارے میں ان کی اپنی تہذیب اور اس کے اصول ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کے ہاں رائنج ہم جنسی پرستی یا ٹرانسجینڈر کا تصور اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کی جا سکے؟کیا ان اصولوں کی اندھی تقلید کرنےو الے بھی ان اصولوں کی حقیقت کے بارے میں جانتے ہیں؟کیا یہ واقعی روشن خیالی اور روادی کی بات ہے؟یا اس روشن فکری کے پیچھے سیاہ فکری چھپی ہے؟
آئیے ہم ماضی کے اوراق کھولیں اور کچھ روشن خیال مفکرین کی لکھی ہوئی تحریریں پڑھیں جو ہمارا دماغ کھول کر ان اشیاء کی حقیقت ہم پر واضح کر دیں گی:
جان جیک روسو
یہ مشہور مصنف ہے جس نے فطرت اور انسان پر بہت لکھا ہے۔یہ عورت کے بارے میں لکھتا ہے:اس کے پاس اپنے ہی خلاف کافی کمزوریاں ہیں جیسے ہمارے عیوب،اس کی شرم اور اس کا کمزور ہوناوہ محبت کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ "محبت ایک ایسی چیز ہے جسے عورتوں نے ایجاد کیا تاکہ اسے مقابل جنس پر غلبہ حاصل ہو، حالانکہ خود اسے اطاعت کے لیے بنایا گیا تھا۔"
والیٹر
جب آپ اس کی تحریروں کو دیکھیں گے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ یہ ایک نسل پرست ہے جب وہ کہتا ہے:یہودیوں کے بارے میں بات کرنا ہی میرے لیے قابل افسوس ہے۔جس طرف سے بھی دیکھیں گے یہ زمین پر سب سے حقیر ہیں۔کیا جدیدیت کےد عویداروں میں سے کوئی اسے سامی مخالف کہنے کی جرات کرے گا؟!
وہ یہ بھی کہتا ہے: "گورے ان کالوں سے برتر ہیں، جیسے کالوں کو بندروں پر برتری ہے اور بندر سیپوں سے برتر ہیں۔"
وہ کہتا ہے: ’’ہم گھر کے لیے صرف سیاہ فام غلام خریدتے ہیں یہ تجارت ہماری برتری کی نشاندہی کرتی ہے۔‘‘
اسی طرح وہ کہتا ہے: "یہ بات صرف اندھے ہی کر سکتے ہیں کہ گورے، کالے، البینو، ہوٹینٹٹس، چینی اور امریکی مختلف نسلیں نہیں ہیں۔"
عورتوں کے بارے میں، وہ کہتا ہے: "عورتیں ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں: جب ان کو زنگ لگ جائے تو وہ مضبوط ہو جاتی ہیں۔
ڈیڈروٹ جس نے انسانی علم کو جمع کیا وہ سیاہ فام لوگوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے: اگرچہ ان میں ذہانت کی کمی ہے، لیکن ان میں شعور کی کمی نہیں ہے۔"
تھوڑی دیر کے لیے رکتے ہیں،رواداری کے مبینہ چیمپئن،یورپی روشن خیالی کا بڑا نام،نیم دانشوروں کے لیے بت کی حیثیت رکھنے والا ہے البتہ نیم دانشوروں نے ان کی تحقیقات کو سرے سے پڑھا ہی نہیں ہے۔وہ اس چھوٹی اور مبالغہ آمیز روادی کے باوجود مذہب کے خلاف بات کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔یہ اصل مذہب کو ہی ختم کرنے کی بات کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو کچل دیا جائے۔( یہ مسیحیت کو کچلنے کی طرف اشارہ کرتا ہے)یہ دین سے تعصب میں اندھا ہو چکا تھا۔اس نے بعض خطوط میں اپنے نام کی بجائے ایک فرضی نام کو استعمال کیا ہے:اس رواداری کے پیغمبر نے مذہب کو مہلک کولہو،خوفناک تماشہ،نفرت انگیز کھیل اور ایک نفرت آمیز سانپ جو زہر پھیلاتا اور مار ڈالتا ہے کہا ۔اس نے مسیح کا مذاق کرنے والے کا فرضی لقب اختیار کیا اس نے اس کی اصلیت کو سب پر ظاہرکیا۔ یہ ایک ایسا اظہار ہے جو اس کی سچائی کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ملحدین کی تحریروں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت سے امور سے جاہل ہیں،بہت سے معاملات میں انہوں نے غفلت کی ہے اور انہیں غلط انداز میں بدصورت بنا کر پیش کیا ہے۔جب وہ یہ کہتے ہیں کہ علما کی اکثریت متکبر،گمراہ اور غلط سوچنے والوں کی ہے۔
متجددین کی فکر کو سمجھے کے لیے ہمیں پوپ جان پال دوم کی مشہور کتاب "میموری اینڈ آئیڈنٹٹی" کی طرف رجوع کرنا پڑے گا انہوں نے اس مسئلے کی بڑی خوبصورتی سے وضاحت کی ہےوہ یورپ میں نشاہ ثانیہ کی فکر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: "گزشتہ سالوں کے دوران، مجھے یقین ہو گیا ہے کہ برائی کے نظریات کی جڑیں یورپی فلسفیانہ فکر کی تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ میں یہاں یورپ کی تاریخ، خاص طور پر اس کی غالب ثقافت (نشاۃ ثانیہ، روشن خیالی) کی تاریخ سے متعلق کچھ حقائق کی طرف اشارہ کروں گا۔جب میری کتاب روعۃ الحقیقہ شائع ہوئی جو میرے آخری رسولی حلقے سے متعلق تھی اس اشاعت پر مغرب کے بعض حلقوں کا ردعمل بہت منفی اور پرتشدد تھا۔ یہ انکار کہاں سے آیا؟ یہ انہی ذرائع سے آیا جہاں سے یورپی روشن خیالی، خاص طور پر فرانسیسی، انگریزی، جرمن، ہسپانوی اور اطالوی روشن خیالی تقریباً 200 سال پہلے نمودار ہوئی تھی۔خدا کو نام نہاد انسانی شعور کے مطابق صرف مادہ تک محدود کر دیا گیا ہےاور اب اسے اس اصول کے طور پر نہیں دیکھا جاتا جو انسان کے وجود اور حقیقت کی وضاحت کرتا ہے۔اس روشن خیالی کی فکر سے نجات کا عظیم پہلو ختم ہو گیا ہے۔انسان تنہا رہ گیا ہے:اس کی تنہائی تاریخی اور تہذیبی ہے،یہ تنہا ئی خیر و شر کی تعیین میں بھی جاری رہتی ہے انسان خود فیصلے کرتا ہے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟جب انسان بذات خود اللہ کے بغیر اچھائی اور برائی کی تعیین کر سکتا ہے تو وہ اس بات کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے کہ کس کی کیا قسمت ہونی چاہییے؟ اور کس کو کب ختم کرنا ہے۔۔۔ہم نے معاصر دور میں سوویت یونین کی کیمونسٹ پارٹی کے مارکسی نظریہ حیات کے تابع ممالک میں اس نظریہ کے مطابق فیصلے ہوتے دیکھے ہیں جہاں اچھائی برائی کی تعیین انسان نے اپنے ذمے لے لی تھی۔
در اصل نشاہ ثانیہ اور روشن خیالوں دونوں نے انسان سے اس کی مذہبی ثقافتی پہچان چھینے کی منصوبہ بندی کی ہے اور اسی پر اس کی پوری تاریخی تشکیل ہوئی ہے۔سب کچھ صرف اور صرف انسان بن گیا،وہ انسان جو اپنے خدا سے ماوراء اور الگ تھلگ ہے۔یہ اپنی فکر و عقل کو اپنے ذاتی رجحانات کے مطابق استعمال کرتا ہے اور اس کا روحانیت سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان تحریکوں کے فلسفیوں نے ایک یوٹوپیائی ریاست کی نقشہ بنایا ہے، جس میں کہا گیا کہ انسان کو ہر طرح کی ثقافتی اور مذہبی پابدیوں سے آزاد کر کے اور اس کے حقوق کے تصور کو مکمل سیکولرائزیشن کے حوالے کریں تو دنیا میں مستقل امن قائم ہو جائے گا۔ روشن خیالی کے سب سے ممتاز فلسفیوں میں سے ایک، ایمانوئل کانٹ نے یہ تصورپیش کیا تھا۔اس فکر میں ظاہری چمک دمک موجود ہے مگر علما ئے سماجیات و نفسیات کہتے ہیں کہ اس نام نہاد آزادی نے جو افراد کی زندگیوں میں واقع ہوئی اس نے انہیں دنیا سے بیگانہ کر دیا،ان کی فکر انتشار کا شکار ہوئی،شناخت اور معنویت کے عظیم جذبات کھو بیٹھا۔اس سے انسانی وجود کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یورپ میں اس لبرل فکر کے پھیلنے کے بعد جنگوں اور تنازعات میں نمایاں اضافہ ہوا اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان مفادات کے تصادم کی وجہ سے آج حالات بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، پرشیا کے فریڈرک دوم اور روس کے کیتھرین دوم کو روشن خیال فلسفیوں نے سراہا، جنہیں "روشن خیال حکمران" سمجھا جاتا تھا، لیکن اس نے انہیں حقیقی مطلق العنان بننے سے نہیں روکا، اکثر پہلے کے حکمرانوں سے بھی زیادہ ظالم تھے۔
انیسویں صدی کے دوران نوآبادیاتی فتوحات کے تصور کو تہذیب و تمدن کا لباس پہنا کر انسانی حقوق اور سیکولر کے اصولوں کو پھیلانے کا دعویٰ کیا گیا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بیسویں صدی کے دو سب سے بڑے ملحد نظریے، کمیونزم اور ہٹلر کا نازی ازم، جو روشن خیالی کے عقائد پر مبنی تھے۔ان سے نسل یا طبقاتی جدوجہد کے نام پر لاکھوں معصوم جانیں ناحق ضائع ہوئیں۔ یہ شدیدتشدد، جس کا مشاہدہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا،تصوراتی حدوں سے بھی تجاوز کر گیا۔اس سے یہ بات بھی غلط ثابت ہو گئی کہ کوئی نظریات مذہب کی جگہ لے سکتے ہیں۔جبکہ ان سے بہت زیادہ خونریزی ہوئی تھی۔
تاریخ اس جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے جس میں مذہب اور دین کو تشدد کی بنیاد بتایا گیا تھا۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انسانی حقوق کے فلسفے سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ مذہبی نظریات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے بہت بڑے ہیں۔
معروف مصفت جین کلادگیلاوڈ نے اپنی کتاب "دنیا کا آغاز " میں بیسویں صدی کے آخر میں ہونےوالی خوفناک تباہی کو کیریبین ایڈورڈ گلیسنٹ کی کتاب" عالمی تبدیلیاں" مدد لیتے ہوئے بیان کرتاہے۔اس نئی فکر سے تہذیب،تمدن اور آزادی کا گلا گھونٹ دیا گیا۔یورپ اور امریکہ دنیا میں روشنی کا ذریعہ بننے کی بجائے بڑے عالمی شاپنگ مالز میں تبدیل ہو گئے۔ان کے وعدے بڑے پرکشش اور برانڈز بڑی زبردست پیشکشیں کرتی ہیں۔یہ ہر ایک کو صارفین کی اس منڈی سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دیتے ہیں۔
عصر حاضر کے بہت سے مفکرین کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے اور وہ برملا اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔روشن خیالی کے نام نہاد نظریے نے عقل کی روشنی کو گل کر دیا ہے۔ہمیں بے عقلی اور اندھیروں میں ڈبونے کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔مابعد جدیدیت ایک ایسی ثقافت محض کا بے ترتیب مجموعہ ہے جو اپنی روحانیت کھو چکی ہے۔
اس مسئلے پر تنقید کرنے والی سب سے نمایاں شخصیات میں سے اچھے لکھاری اور بڑے مفکر François-René de Chateaubriand تھے، جنہوں نے اپنی کتاب "An Essay on Revolutions" (1797) میں روشن خیالی کے فلسفے کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا۔ Chateaubriand کہتے ہیں:روشن خیالوں کے فلسفے کی مکمل تفصیلات کو جاننا ممکن نہیں ہے۔ان میں اکثریت ایسی ہے جسے یہ خود بھی بھول گئے ہیں اور اب صرف فرانسی انقلاب باقی رہ گیا ہے۔روشن فکروں کی اپنی کتب میں بھی منظم اور مربوط انداز میں اس نظریہ کو بیان نہیں کیا گیا۔ ہم Diderot کے کچھ کاموں کو دیکھتے ہیں، مثال کے طور پر، اس کا مطلق الحاد کو اختیار کر لینا اس نے اس پر بہت کمزور دلائل دیے ہیں۔(اس کا اطلاق اس کے تمام اعمال پر نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک عمومی نتیجہ ہے؛ حتیٰ کہ وہ بعض مقامات پر خدا کو مانتا ہے، جس سے اس کا فکری تضاد ظاہر ہوتا ہے) جہاں تک والٹیئر کا تعلق ہے، وہ مابعدالطبیعات میں کسی چیز کا قائل نہیں ہے سرے سے اسے کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے، لیکن وہ طنز کرتا تھا، خوبصورت شاعری کرتا اور برائی پھیلاتا تھا۔ ان کے بعد آنے والوں کی بھی سوچ بہتر نہ تھی۔ Helvetius نے غلط فہمیوں سے بھری بچوں کی کتابیں لکھیں ادنی سا طالب علم بھی ان کی تردید کر سکتا ہے۔ جہاں تک کونڈیک اور میپل کا تعلق ہے، تو بہتر ہے کہ ان کے بارے میں بات کرنے سے گریز کیا جائے، جین جیکس اور مونٹیسکوئیو کو بھی چھوڑ دیں۔
Chateaubriand پھر پوچھتا ہے:"پھر اس روشن فکر ،فرقے کی روح کیا ہے؟ تباہی ،تباہی ان کا مقصد ہے، اور ان کا واحد مطمع نظر ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ موجودہ چیزوں کو کیسے بدلنا چاہتے تھے؟ جواب ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں بدلنا چاہتے ۔اسے اپنے ملکی اداروں پر بہت زیادہ غصہ تھا۔اس لیے کہ ان کا کردار مثالی نہیں تھا۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جو برباد کرتا ہے وہ دوبارہ اس کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔یہی دوبارہ تعمیر ہی مشکل کام ہے۔نئے غلط راستوں سے خبردار رہنا چاہیے کیونکہ غلط بات جلدی اور سب کی سمجھ میں آتی ہے اور مثبت بات کو سمجھنے کا ادراک صرف عظیم لوگ ہی رکھتے ہیں۔احمق آسانی سے ایک چیز کے خلاف دلائل پیش کر سکتا ہے، لیکن دوسری چیز کے حق میں دلائل پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس طرح، Chateaubriand "روشن خیالی" کے تاریک پہلو کو اجاگر کرتا ہے،یہ حد سے بڑھی عقلیت پسندی کو ظاہر کرتا ہے یہ حکمت اور اخلاقی اقدار کے ساتھ نہ ہونے کی صورت میں تباہی اور انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔