

| نظریات اور مسائل | مذاہب کی تاریخ: (1) یہودیت کی ابتداءاور مخفی پہلو!

مذاہب کی تاریخ: (1) یہودیت کی ابتداءاور مخفی پہلو!
ادیان کی تاریخ کی سیریز. یہودیت کی تاریخ کا پہلا حصہ (2000 قبل مسیح سے 722 قبل مسیح تک)
تقریباً 2000 سال قبل مسیح ، عبرانی دیگر سامی اقوام کی طرح شامی صحرا میں مقیم تھے، جو جزیرہ نما عرب کے شمالی نخلستان کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ یہ علاقے گھاس سے بھرے ہوئے تھے، اور ان کے مکانات اونٹوں اور بکریوں کی کھالوں سے بنے خیمے تھے، جہاں یہ قبیلوں کی شکل میں اکٹھے رہتے تھے۔ ان کی عمومی عبادت گاہیں پتھروں اور ستونوں کی تھیں، جنہیں وہ تقدس کی نگاہ سے دیکھتے تھے، خاص طور پر اگر وہ انسان نما شکل میں ہوں یا کسی ایسے بلند مقام پر ہوں، جیسے کسی پہاڑ کی چوٹی ۔اسی طرحاگر چٹانوں کا گول دائرہ ستونوں کی شکل میں بن جائے تو اسے قربان گاہ یا ستون کہا جاتا تھا۔ وہ درختوں اور جانوروں کی روحوں پر بھی یقین رکھتے تھے، اور ہر روح کو کائناتی طاقت کا حامل سمجھتے تھے، جسے وہ "ایل"، "ایلوہ"، "ایلیم"، یا "ایلوہیم" کہتے تھے، جس کا مطلب فوق البشر یا الٰہی وجود تھا۔ یہ نام ترقی کرتے ہوئے عبرانیوں اور آرامیوں کے ہاں واحد خدا کے معنی میں آ گیا۔
اکثر سامی گروہ شامی صحرا سے مشرق اور مغرب کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، جو بعد میں بابلی، آرامی، فینیشی، اموری، اور کلدانی کہلائے۔ نبی ابراہیم علیہ السلام کا قبیلہ دجلہ و فرات کے میدان کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ حران کے علاقے تک پہنچا، جو اس وقت قافلوں کا مرکز تھا۔ تاہم، وہ زیادہ دیر تک وہاں نہیں ٹھہرے کیونکہ علاقے کی سیاسی صورتحال غیر مستحکم تھی۔ حران کو حوریوں کے حملے کا خطرہ تھا، جو جنوب ترکی کے بربری قبیلے تھے، وہ مشرق سے آنے والے آریائی قبیلوں کے حملے کے سبب جنوب کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قبیلہ حران سے منتقل ہو کر کلدانیوں کے قریب آ کر رہائش پذیر ہوا، اور ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام وہیں پیدا ہوئے ہوں۔ بعد ازاں، وہ اپنے چھوٹے سے قبیلے کے ساتھ کنعان کی زمین کی جانب ہجرت کر گئے، اور کلسے کے پہاڑی سلسلے میں رہائش پذیر ہوئے جو کنعانیوں کی زمین کے سامنے تھا۔
اس دوران سامیوں کے خانہ بدوش گروہوں نے ایک اتحاد بنایا جسے یونانیوں نے ہکسوس نام دیا ، اور وہ کئی صدیوں تک مصر پر قابض رہے۔ مصریوں نے ہکسوس کو نکال دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے اسحاق اور پھر اسحاق کے بعد یعقوب علیہما السلام آئے۔ ان کے زمانے میں ایک شدید قحط پڑا، جس نے انہیں اور ان کے قبیلے کو مصر کی سرحدوں کے قریب ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ پھر یوسف علیہ السلام کی مشہور کہانی پیش آئی، اور یعقوب علیہ السلام کی اولاد جو بنی اسرائیل کہلائے، کو مصر کے شمال مشرق میں واقع خصب زمین جاسان میں رہائش ملی۔
کئی نسلوں تک سب کچھ ٹھیک چلتا رہا، اور بنی اسرائیل کو خوشحالی ملی، یہاں تک کہ مصریوں نے ہکسوس کے خلاف بغاوت کی اور انہیں (1580 قبل مسیح سے 1560 قبل مسیح) کے درمیان عرصے میں وہاں سے نکال دیا۔ لیکن اسرائیلیوں کی حالت نئے حکمرانوں کے تحت تبدیل نہ ہوئی، اور وہ ڈیڑھ صدی تک اسی طرح رہے۔ انہیں مصریوں کی طرف سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی، یہاں تک کہ رمسيس دوم کی حکومت آئی (1304 - 1237 قبل مسیح)، جس کا مقصد عظیم الشان عمارتیں بنانا اور نئے معابد بنانا تھا، اور پس جبری مشقت کے لئے مزدوروں کی ضرورت کے سبب اس نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا، اور انہیں غلاموں اور جبری مزدوروں میں تبدیل کر دیا۔
اسرائیلی فرعون کے کوڑوں کے نیچے!
اسرائیلیوں کو فرعون کے منصوبوں کو پورا کرنے کے لئے کوڑوں کے نیچے کام کرنے پر مجبور کیا گیا، اور ان کے لئے بچ نکلنا ممکن نہیں تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ نجات دلائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَإِذْ قَالَ مُوسى لِقَوْمِهِ اذْكرُوا نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَسومُونَكُمْ سوءَ الْعَذَابِ وَ يُذَبحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَ يَستَحْيُونَ نِساءَكمْ وَ فى ذَلِكم بَلاءٌ مِّن رّبِّكمْ عَظِيمٌ)، إبراهيم: 6.
"اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: الله کے اس احسان کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کیا، جب اُس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی، جو تمہیں بڑی تکلیف پہنچاتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے، اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے بڑی آزمائش تھی۔" (ابراہیم: 6)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے حوالے سے جو کہانی مشہور ہے، اس کویہاں ذکر نہیں کریں گے،تا ہم اس کہانی کےمصر سے خروج والے حصے کو بیان کریں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے لوگوں کے ساتھ بحیرہ قلزم عبور کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے تورات کی الواح کو سینا کی جزیرہ نما میں حورب پہاڑ کے دامن میں نازل کیا۔ اس کے بعد "خیمہ رب" قائم ہوا، یہ ایک خیمہ تھا جسے وہ جہاں بھی جاتے، اپنے ساتھ لے جاتے تھے تاکہ اس میں جمع ہو کر اپنی مقدس رسومات انجام دیں۔ لاوی کے قبیلے نے "خیمہ رب" کی رسومات کی ذمہ داری سنبھالی اور بعد میں یہ قبیلہ کاہنوں کا قبیلہ بن گیا۔
خیمہ رب خالی نہیں تھا، اس میں عہد کا تابوت بھی شامل تھا، جو ایک لکڑی کا صندوق تھا جس میں تورات کی الواح تھیں، اور اسرائیلیوں کے نزدیک اس کا بڑا تقدس تھا۔ وہ اسے اپنے قافلے کی قیادت میں عزت کے ساتھ لے جاتے تھے، اور بعد کی لڑائیوں میں بھی اسے فتح کی علامت سمجھتے تھے۔
کنعان کی زمین میں داخلہ
1200 سال قبل مسیح میں اور 40 سالہ بھٹکنے کی سزا ختم ہونے کے بعد، جو کہ اللہ تعالی نے اس بنا پر انہیں دی تھی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم پر کنعان کی سر زمین میں داخل ہونے سے انکار کیا تھا، اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا انتقال ہو گیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی یوشع نے بنی اسرائیل کی قیادت سنبھالی۔ اس دفعہ، اُنہوں نے اپنے اندر کنعان کی سرزمین میں داخل ہونے کی صلاحیت دیکھی۔ اس کےلئے حضرت یوسف علیہ السلام کے دو قبیلوں، (افرائیم اور منسّی) نے حملے کی قیادت کی اور اردن عبور کر کے اریحا پر قبضہ کر لیا۔ اس بیس کیمپ سے ان کا پھیلاؤ وسطی فلسطین تک پھیل گیا، اور انہوں نے شیکم، شیلہ، اور سامرہ پر قبضہ کر لیا تاکہ وسطی زمین پر اپنا تسلط قائم کر سکیں۔
یہودا اور شمعون کے قبائل نے جنوب سے حملہ کر کے یبوسیوں کے قلعہ بند شہر "یروشلم" کے ارد گرد کے پہاڑی علاقے پر قبضہ کر لیا۔
جبکہ راؤبین اور جاد کے قبائل مشرقی اردن کے علاقے میں واپس چلے گئے، جبکہ دیگر قبائل شمال میں کنعانیوں کے درمیان پھیل گئے۔ اور وادی یزرعیل اور شمالی علاقے میں پھیل گئے۔
دان قبلے نے جنوب میں ناکام آبادکاری کے بعد شمالی فلسطین میں آبادکاری ی، جبکہ سبط زبولون شمال مغرب کی طرف فینیقی ساحل کی طرف روانہ ہوا اور حثیوں کے ساتھ ایک امن معاہدہ کر لیا۔ اس کے علاوہ سبط یساکر، اشیر اور نفتالی نے گلیل (بحیرہ طبریہ) کے ارد گرد زرخیز زمین پر قبضہ کر لیا، جبکہ سبط شمعون اور بنیامین منتشر ہو گئے یا باقی سبطوں کی اراضی میں شامل ہو گئے۔
ان زمینوں پر قبضے اور آبادکاری کی مدت طویل تھی، جو کہ 200 سال سے زیادہ رہی، اور تمام جنگیں اسرائیلیوں کے حق میں نہیں تھیں۔ کنعانیوں نے اپنے اہم شہروں کے گرد مضبوط قلعے تعمیر کیے تھے، اور ان کے پاس اسرائیلیوں کے ابتدائی ہتھیاروں سے زیادہ جدید ہتھیار تھے۔ یبوسیوں نے بھی یروشلم کے گرد ایسی دیواریں بنا رکھی تھیں جنہیں اسرائیلی دو صدیوں تک پار نہ کر سکے۔
دوسری طرف بنی اسرائیل کو مشرق و مغرب سے دشمنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مشرق میں، انہوں نے دیگر سامی قبائل سے مقابلہ کیا جو کہ کنعانی علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جیسے کہ عموری، ادومی، اور موابی قبائل۔ مغرب میں، ان کے دشمن فلستی یا فلسطین تھے، جو کہ یونانی نسل کے لوگ تھے جو وسطی بحیرہ روم کے جزیروں سے آئے تھے۔ مصر کے ساحلی علاقوں میں ناکامی کے بعد، انہوں نے کنعانی زمین کی ساحلی بستیوں پر قبضہ کر لیا، اور ان کی جنگیں اسرائیلیوں کے ساتھ طویل عرصے تک چلتی رہیں، آخرکار اسرائیلی جیت گئے۔
فلسطینی سے مراد موجودہ دور کے عرب باشندے نہیں ہیں، بلکہ یہ اس سر زمین کا نام ہے جو ان کے آباد ہونے سے پہلے کی تھی، جب وہ ناپید ہو گئے۔ جیسے کہ اس سے پہلے یہ کنعانیوں کی سرزمین کہلاتی تھی کیونکہ وہاں پہلے کنعانی رہتے تھے۔ تو یہ نام باقی رہا اور اس کے اصل باشندے فنا ہو گئے۔ جب بعد میں عربوں نے یہاں سکونت اختیار کی تو انہیں بھی فلسطینی کہا جانے لگا کیونکہ وہ اسی زمین پر آباد ہو گئے تھے۔
بعض تاریخی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ کنعان کی سر زمین میں داخل ہونے والے سبھی بنی اسرائیل نہیں تھے، بلکہ تل العمارنہ کی دستاویزات، جو 1887 میں دریافت ہوئیں، نے ثابت کیا کہ بہت سے سامی قبائل کنعان کے قریب علاقوں میں رہتے تھے اور ان بستیوں کے لئے مسلسل پریشانی کا باعث بنتے تھے۔ تل العمارنہ کی خطوط میں ایسی دستاویزات ملی ہیں جن میں ان بستیوں کے گورنر اور سربراہان نے مصری حکام سے مدد کی درخواست کی تھی تاکہ وہ انہیں عبریوں کے حملوں سے بچا سکیں۔
یہ سامی قبائل خروج کے عبرانیوں (بنی اسرائیل) کے ساتھ مل کر ایک طاقت بن گئے جس نے بنی اسرائیل کے لئے اس زمین کو مسخر کر لیا۔ بنی اسرائیل نے اپنے اتحادیوں پر اتنا اثر ڈالا کہ انہوں نے ان کا عقیدہ اپنا لیا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ سامی قبائل اور بنی اسرائیل کے درمیان یہ اتحاد ایک قوم کی شکل اختیار کر گیا کیونکہ ان سب کا نسب ایک ہی تھا۔ ان میں یہ قومی حس پیدا ہوئی جو بڑھتے ہوئے فلسطینی خطرے کی وجہ سے مزید مستحکم ہو گئی، جو 1150 قبل مسیح سے شروع ہوا۔ یہاں سے، نبی سموئیل اور بادشاہ طالوت (یہودی روایت میں شاؤل) کی قیادت میں، بنی اسرائیل نے فلسطینیوں کو شکست دیا اور انہیں ان کے ساحلی میدان تک واپس دھکیلنا شروع کیا۔ قرآن مجید میں طالوت کی جنگ کا ذکر ہے:
(أَ لَمْ تَرَ إِلى الْمَلا مِن بَنى إِسرءِيلَ مِن بَعْدِ مُوسى إِذْ قَالُوا لِنَبىٍّ لّهُمُ ابْعَث لَنَا مَلِكاً نّقَتِلْ فى سبِيلِ اللّهِ قَالَ هَلْ عَسيْتُمْ إِن كتِب عَلَيْكمُ الْقِتَالُ أَلا تُقَتِلُوا قَالُوا وَمَا لَنَا أَلا نُقَتِلَ فى سبِيلِ اللّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَرِنَا وَأَبْنَائنَا فَلَمّا كُتِب عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلّوْا إِلا قَلِيلاً مِّنْهُمْ وَاللّهُ عَلِيمُ بِالظلِمِينَ (246) وَ قَالَ لَهُمْ نَبِيّهُمْ إِنّ اللّهَ قَدْ بَعَث لَكمْ طالُوت مَلِكاً قَالُوا أَنى يَكُونُ لَهُ الْمُلْك عَلَيْنَا وَنحْنُ أَحَقّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْت سعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنّ اللّهَ اصطفَاهُ عَلَيْكمْ وَزَادَهُ بَسطةً فى الْعِلْمِ وَالْجِسمِ وَاللّهُ يُؤْتى مُلْكهُ مَن يَشاءُ وَاللّهُ وَسِعٌ عَلِيمٌ (247) وَقَالَ لَهُمْ نَبِيّهُمْ إِنّ ءَايَةَ مُلْكهِ أَن يَأْتِيَكمُ التّابُوت فِيهِ سكينَةٌ مِّن رّبِّكمْ وَبَقِيّةٌ مِّمّا تَرَك ءَالُ مُوسى وَءَالُ هَرُونَ تحْمِلُهُ الْمَلَئكَةُ إِنّ فى ذَلِك لاَيَةً لّكمْ إِن كُنتُم مّؤْمِنِينَ (248) فَلَمّا فَصلَ طالُوت بِالْجُنُودِ قَالَ إِنّ اللّهَ مُبْتَلِيكم بِنَهَرٍ فَمَن شرِب مِنْهُ فَلَيْس مِنى وَمَن لّمْ يَطعَمْهُ فَإِنّهُ مِنى إِلا مَنِ اغْتَرَف غُرْفَةَ بِيَدِهِ فَشرِبُوا مِنْهُ إِلا قَلِيلاً مِّنْهُمْ فَلَمّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالّذِينَ ءَامَنُوا مَعَهُ قَالُوا لا طاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوت وَ جُنُودِهِ قَالَ الّذِينَ يَظنّونَ أَنّهُم مّلَقُوا اللّهِ كم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَت فِئَةً كثِيرَةَ بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصبرِينَ (249) وَلَمّا بَرَزُوا لِجَالُوت وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صبراً وَثَبِّت أَقْدَامَنَا وَانصرْنَا عَلى الْقَوْمِ الْكفِرِينَ (250) فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوت وَءَاتَاهُ اللّهُ الْمُلْك وَالحْكمَةَ وَعَلّمَهُ مِمّا يَشاءُ وَلَوْ لا دَفْعُ اللّهِ النّاس بَعْضهُم بِبَعْضٍ لّفَسدَتِ الأَرْض وَلَكنّ اللّهَ ذُو فَضلٍ عَلى الْعَلَمِينَ (251) تِلْك ءَايَت اللّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْك بِالْحَقِّ وَ إِنّك لَمِنَ الْمُرْسلِينَ)، البقرة: 246 ـ 252.
ترجمہ:
"کیا آپ نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کی ایک جماعت (کو پیش آنے والے حالات) پر نظر نہیں کی جس نے اپنے نبی سے کہا: آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کریں تاکہ ہم راہ خدا میں جنگ کریں، (نبی نے) کہا: ایسا نہ ہو کہ تمہیں جنگ کا حکم دیا جائے اور پھر تم جنگ نہ کرو، کہنے لگے:ہم راہ خدا میں جنگ کیوں نہ کریں جب کہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے بچوں سے جدا کیے گئے ہیں؟ لیکن جب انہیں جنگ کا حکم دیا گیا تو ان میں سے چند اشخاص کے سوا سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے"(۲۴۶)
" اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا: اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے، کہنے لگے: اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا؟ جب کہ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولتمند آدمی تو نہیں ہے، پیغمبر نے فرمایا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عنایت کرے اور اللہ بڑی وسعت والا، دانا ہے"(۲۴۷) " اور ان سے ان کے پیغمبر نے کہا: اس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہیں جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، اگر تم ایمان والے ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے"(۲۴۸)۔"جب طالوت لشکر لے کر روانہ ہوا تو اس نے کہا: اللہ ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے، پس جو شخص اس میں سے پانی پی لے وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہو گا مگر یہ کہ کوئی صرف ایک چلو اپنے ہاتھ سے بھر لے (تو کوئی مضائقہ نہیں) پس تھوڑے لوگوں کے سوا سب نے اس (نہر) میں سے پانی پی لیا، پس جب طالوت اور اس کے ایمان والے ساتھی نہر پار ہو گئے تو انہوں نے (طالوت سے) کہا: آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے، مگر جو لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ انہیں خدا کے روبرو ہونا ہے وہ کہنے لگے: بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"۔(۲۴۹) "اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے پر نکلے تو کہنے لگے: ہمارے رب! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتحیاب کر"(۲۵۰) "چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوں نے کافروں کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطا فرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھا دیا اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین میں فساد برپا ہو جاتا، لیکن اہل عالم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ یہ ہیں اللہ کی آیات جنہیں ہم حق کے ساتھ آپ پر تلاوت کرتے ہیں اور آپ یقینا مرسلین میں سے ہیں"۔(سورۃ البقرہ: 246-۲۵۲)
ملوک کا عہد
اس جنگ کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ وہ بارہ قبائل پر مشتمل تھے، جن کا سربراہ ایک سردار (قاضی) ہوتا تھا، جو اپنے قبیلے کے افراد کے درمیان فیصلے کرتا تھا۔ اس دور کو "عہد قضاة" کہا جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان پر بادشاہ مقرر کیا تو "عہد الملوک" کا آغاز ہوا، جو بنی اسرائیل کی سنہری دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ حضرت داوود علیہ السلام نے بالآخر یبوسیوں کے شہر یروشلم (القدس) پر قبضہ کیا، یہ تقریباً 1020 ق.م. کا واقعہ ہے۔ انہوں نے اسے اپنا دارالحکومت بنایا، اور بنی اسرائیل کی ریاست حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اپنے عروج کو پہنچی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رحبعام نے حکومت سنبھالی، لیکن دس قبائل اور یہودی قبائل نے ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور شمال میں ایک آزاد ریاست قائم کیا۔ اس طرح ایک متحدہ ریاست دو حصوں میں بٹ گئی: شمال میں اسرائیل کی ریاست، جس کا دارالحکومت سامریہ (موجودہ نابلس) تھا، اور جنوب میں ریاست یہودا، جس کا دارالحکومت یروشلم (القدس) تھا۔
دینی انحراف کی بڑھتی ہوئی وبا:
عہد قضاة سے عہد الملوک کی طرف تبدیلی نے انہیں بدوی زندگی سے زرعی اور دیہی زندگی کی طرف بھی منتقلی کیا۔ چونکہ بنی اسرائیل بدو تھے اور زراعت کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے، خاص طور پر طویل مدتی جنگوں اور تیاریوں کے بعد، انہوں نے کنعانیوں سے زراعت کی تکنیک سیکھ لیا۔ کنعانی زراعت کے مواقع پر بت پرستی کی رسومات کو اہمیت دیتے تھے اور ان کی رسوم اور تہوار بنی اسرائیل میں بھی سرایت کر گئے۔ کنعانی یہ مانتے تھے کہ ہر قطعہ زمین کا ایک دیوتا ہے جسے وہ "بعل" کہتے تھے، جو اس زمین کو زرخیزی عطا کرتا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ نباتات کی زندگی دیوتا کی زندگی کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کی موت اس کی موت کی نمائندگی کرتی ہے، اس لیے وہ فصل کی کٹائی کے مواقع پر جشن مناتے تھے اور نباتات کی موت کے وقت ماتم کرتے تھے۔
بنی اسرائیل بھی زرعی سحر اور رسومات کے فتنوں کا شکار ہوئے۔ اسرائیلی کسان کنعانیوں کے ساتھ دیوتاؤں کی بلندیوں پر جا کر بعل اور عشتاروت دیوی کے سامنے قربانیاں پیش کرتے اور کنعانیوں کے تہواروں میں شامل ہوتے تھے، جو گندم کی فصل کی کٹائی کے شروع اور اختتام پر منائے جاتے تھے۔ یہ رسومات خاص طور پر ان دس قبائل میں عام ہو گئیں جو شمال میں آباد تھے، جبکہ جنوبی یہودا کا قبیلہ جو چرواہی میں مصروف رہا، ان رسوم کا محتاج نہ ہوا اور اپنے دین کے زیادہ وفادار رہے۔
یہ بات پرانے عہد نامہ میں بیان کی گئی ہے: "میری قوم اپنے لکڑی سے مشورہ مانگتی ہے، اور ان کا عصا انہیں بتاتا ہے، کیونکہ زنا کا روح انہیں بہکا دیا ہے اور انہوں نے اپنے خدا سے بدکاری کی ہے۔ وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر قربانیاں پیش کرتے ہیں، اور تیلے کے نیچے بخور جلاتے ہیں، کیونکہ اس کا سایہ خوبصورت ہے۔ اس لیے تمہاری بیٹیاں زنا کرتی ہیں اور تمہاری بہوئیں بدکاری کرتی ہیں۔ میں تمہاری بیٹیوں کو ان کے زنا کرنے کے لئے سزا نہیں دوں گا، نہ تمہاری بہوؤں کو ان کے بدکاری کرنے کے لئے، کیونکہ وہ زانیوں کے ساتھ علیحدہ ہوتے ہیں اور بدکاری کرنے والی عورتوں کے ساتھ قربانیاں گزرانتے ہیں۔ اور بے عقل قوم کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔" (ہوشع 4: 12)
انبیاء کی تحریک: انبیاء کرام علیھم السلام نے دینی انحراف کا شدت سے مقابلہ کیا۔ وہ صرف نصیحت کرنے تک محدود نہ رہے، بلکہ انہوں نے شمالی اسرائیل کی حکومت کے خلاف ایک تحریک کی قیادت کی، جیسا کہ یہودی مسفورات اور روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کی کوششوں نے بنی اسرائیل کی گناہوں کو کم کرنے میں کچھ کامیابی حاصل کی، مگر وہ مکمل طور پر ختم نہ ہو سکیں۔ انبیاء نے پیشن گوئی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے شمالی اسرائیل کی ریاست پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اور یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔
انبیاءکرام ہمیشہ قوم کے ناصح اور رہنما کے طور پر کام کرتے رہے، مگر ان کی نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ شمالی اسرائیل کے حکمرانوں نے ان کے خلاف دشمنی کا رویہ اپنایا اور بدعنوان مذہبی رہنماؤں کے تعاون سے ان کے خلاف کاروائی کی۔ مثال کے طور پر، بیت ایل کے بڑے کاہن "امصیا" نے نبی عاموس سے کہا، جیسا کہ کتاب عاموس میں ذکر ہے: "اے نبی، یہاں سے چلے جاؤ، یہودا کی سرزمین میں جا کر روٹی کھاؤ اور وہاں نبوّت کرو، مگر بیت ایل میں نبوّت نہ کرو، کیونکہ یہ شاہی مقدس اور شاہی گھر ہے" (عاموس 7: 12-13)۔
عہد قدیم میں ان انبیاء کے نام اور ان کے اعمال کا ذکر ملتا ہے، جیسے ایلیا، الیشع، عاموس، ہوشع، اشعیا، اور مخیا، جن کی نبوّت کا زمانہ اسرائیل کی ریاست کے آشوریوں کے ہاتھوں 722 ق. م. میں سقوط کے قریب بتایا جاتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً ستر سال تک کسی نبی کا ذکر کتاب مقدس میں نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا یہ دور وہی ہو جس کا قرآن میں ذکر ہے کہ انبیاء کو جھٹلایا گیا اور قتل کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِئَايَتِ اللّهِ وَقَتْلِهِمُ الأَنبِيَاءَ بِغَيرِ حَقٍّ..." (النساء: 152)۔
ترجمہ: پھر ان کے اپنے میثاق کی خلاف ورزی، اللہ کی آیات کا انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں (اللہ نے انہیں سزا دی، ان کے دل غلاف میں محفوظ نہیں) بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر لگا دی ہے اسی وجہ سے یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں"۔
ان شاء اللہ، اس موضوع کی تفصیلات ہم دوسرے حصے میں بیان کریں گے۔
خاتمہ اور عبرت
یہ واقعات جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ پیش آئے، بہت مماثلت رکھتے ہیں اُن حالات سے جو امیر المومنین اور ان کی اولاد معصوم علیھم السلام کے ساتھ پیش ہوئے۔ ان حضرات نے دین کی حفاظت اور مسلمانوں کی رہنمائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی جب تک انہیں موقع ملا۔ لوگوں کو ہمیشہ برے انجام سے ڈراتے اور خبردار کرتے رہے۔ مگر ان کی بات کم لوگوں نے سنی، اور جو سنے وہ ہمیشہ مظلوم اور مقہور رہے، یہاں تک کہ اللہ نے آخری زمانے میں ان کے لیے نجات کا راستہ کھولا۔
مسلمانوں کی حالت دیکھو، جنہوں نے بدکردار بادشاہوں کی پیروی کی، بدترین فقیہوں کی معاونت سے، ان سے عبرت حاصل کرو۔ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کا مقصد ہی عبرت حاصل کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(«يكون في هذه الأُمّة كلّ ما كان في الأُمم السالفة حَذْو... القُذَّة بالقُذَّة»)" اس امت میں وہی کچھ ہوگا جو پچھلی امتوں میں ہوا، بالکل قدم بہ قدم۔"
تفسیر القمی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے: (لتركبن سنة من كان قبلكم حذو النعل بالنعل، والقذة بالقذة، لا تخطئون طريقهم ولا يخطأ، شبر بشبر، وذراع بذراع، وباع بباع، حتى أن لو كان من قبلكم دخل جحر ضب لدخلتموه، قالوا: اليهود والنصارى تعني يا رسول الله؟ قال: فمن أعني؟ لتنقضن عرى الإسلام عروة عروة فيكون أول ما تنقضون من دينكم الأمانة، وآخره الصلوة». )
"تم پچھلی امتوں کی سنت پر عمل کرو گے، بالکل قدم بہ قدم، وہ راستہ نہیں چھوڑو گے، بالشت در بالشت، ہاتھ در ہاتھ، یہاں تک کہ اگر وہ سانپ کے بل میں داخل ہوئے تو تم بھی داخل ہوگے۔" صحابہ نے پوچھا: "کیا آپ یہود و نصاریٰ کی بات کر رہے ہیں؟" نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تو اور کون؟ تم اسلام کی کڑیاں ایک ایک کر کے توڑو گے، پہلے ایمان کی کڑی، پھر نماز۔"
صحاح کے مجموعوں میں اور صحیح الترمذی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے: "میرے جان کی قسم، تم پچھلی قوموں کی سنت پر عمل کرو گے، بالکل قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر ان میں کوئی اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرتا، تو تم بھی ایسا کرو گے۔"
یہ روایت بھی مشہور ہے، اسے اہل سنت نے اپنی صحاح میں روایت کیا اور شیعہ نے بھی اپنے مجموعوں میں درج کیا۔
یہ مجھے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے اس قول کی یاد دلاتا ہے جب انہوں نے مسلمانوں کو سقیفہ کی سازش کے بعد یاد دلایا: "
(يا معشر قريش قد علمتم وعلم خياركم أن النبي صلى الله عليه وآله قال لنا: الأمر من بعدي لعلي بن أبي طالب، ثم الأئمة من ولد الحسين، فتركتم قوله، وتناسيتم وصيته، واتبعتم أمر الدنيا الفانية، وتركتم أمر الاخرة الباقية، وكذلك الامم كفرت بعد ايمانها، وجحدت بعد برها، فكفرتم وحاذيتموه حذو القذة بالقذة، ومثل النعل بالنعل، فعما قليل تذوقون وبال أمركم، وما قدمت أيدكم، وما الله بظلام للعبيد)
اے قریش کے لوگوں، تم سب جانتے ہو اور تمہارے بہترین لوگ بھی جانتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے کہا تھا کہ میرے بعد علی بن ابی طالب کی خلافت ہوگی، پھر حسین کی اولاد سے آئمہ طاہریں کی۔ لیکن تم نے اس کے قول کو چھوڑ دیا، اس کی وصیت کو بھلا دیا، دنیا کے فانی معاملات کی پیروی کی اور آخرت کے باقی رہنے والے امور کو ترک کیا۔ اسی طرح اقوام نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور اپنی نیکیوں کو بھلایا۔ تم نے بھی کفر کیا اور اس کی مثال میں چلتے ہوئے، بالکل قدم بہ قدم۔ بہت جلد تم اپنے اعمال کا انجام دیکھو گے اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔" (کتاب الاربعون، محمد طاہر القمی الشيرازی، ص290)
شیخ مقداد الربیعی