

| اخلاق اور اقدارِ اسلامی | روح کی پکار: خاموش زمانے میں معنی کی تلاش

روح کی پکار: خاموش زمانے میں معنی کی تلاش
الشيخ معتصم السيد أحمد
ایک ایسے دور میں کہ جب انسانی اقدار کو بازار کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے، اور معیارات کو نفع اور نقصان کے پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے، انسانی روح ایک اجنبیت کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی ہے۔ انسان، جوپیچیدہ مادی نظاموں میں گرچکا ہے، خود کو محض ایک صارف، پیداوا، یا معیشت کے حسابات میں ایک عدد سمجھنے لگا ہے۔ تیز رفتار پیشکشوں اور روزمرہ مصروفیات کی گرد میں انسان کہیں کھوگیا ہے،لیکن ان سب کے باوجود انسان کے باطن میں ایک روشن گوشہ پھر بھی باقی رہتا ہے، جہاں گہری معنویت کی پیاس اور ایک بلند پکار کی بازگشت کبھی مدھم نہیں پڑتی۔ یہی وہ فطری ضرورت ہے، جسے ایک روحانی مرجع کی تلاش رہتی ہے۔یہ ایک ایسی روشنی ہےجو شعور کو منور کرتی اور زندگی کو اس کا عمیق مفہوم عطا دیتی ہے۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس فطری ضرورت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:(فبعث فيهم رسله وواتر إليهم أنبياءه ليستأدوهم ميثاق فطرته. ويذكروهم منسي نعمته. ويحتجوا عليهم بالتبليغ. ويثيروا لهم دفائن العقول)
پھر اللہ نے ان میں اپنے رسولوں کو بھیجا، اور اپنے نبیوں کو پے در پے بھیجا، تاکہ وہ ان سے فطرت کے میثاق کو پورا کروائیں، انہیں بھولی ہوئی نعمت کی یاد دلائیں، اللہ کی حجت ان تک پہنچائیں، اور ان کے لیے عقلوں کے دفینے (چھپے ہوئے خزانے) کو متحرک کریں۔
پس دین اور اس کی روحانی ہدایتیں ایک فطری ضرورت ہیں، جن کا مقصد صرف بیرونی احکام دینا نہیں بلکہ باطنی بصیرت کو زندہ کرنا ہے۔ وہ روحانی ہدایات جن کی انسان کو طلب ہوتی ہے، جو کہ نہ زبردستی مسلط کی جاتی ہیں، نہ جبر کے ذریعے نافذ کی جاتی ہیں، اور نہ ہی دنیاوی قوانین کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ صفائے روح، معنویت کی گہرائی، اور ضمیر کو جگانے کی صلاحیت سے حاصل ہوتی ہیں، جو انسان کے وجدان کو خواہشات اور مفادات سے بلند تر حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہں۔یہ ایک نرم قوت ہے، مگر اثر انگی؛ پوشیدہ ہے، مگر تبدیلی لانے والی۔ اس کا وجود انسان کی زندگی میں روشنی کی مانند ہے: ہاتھ سے چھویا نہیں جا سکتا، لیکن اسی سے راستہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ عقل کی نقیض یا ضد نہیں، بلکہ عقل کا ایک اعلیٰ تر تسلسل ہے؛ یہ آزادی کی دشمن نہیں، بلکہ وہی اسے حقیقی معنی عطا کرتی ہے۔ جب آزادی کو خواہشات اور مفاد پرستی کی غلامی سے نجات دیتی ہے۔اور اسی مفہوم کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے: ﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا * فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا * قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا * وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا﴾
اور نفس کیقسم اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا،پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی، بتحقیق جس نے اسے پاک رکھا کامیاب ہوا، اور جس نے اسے آلودہ کیا نامراد ہوا۔ یہ ایک قرآنی بیان ہے جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انسان کی اندرونی پاکیزگی (تزکیہ) ہی وہ مرکز ہے جو اسے خیر اور حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
جب ہم "روحانی اقتدار" یا "روحانی مرجعیت" کی بات کرتے ہیں، تو ہمارا اشارہ لازمی طور پر کسی ادارہ جاتی ڈھانچے یا کسی مخصوص مذہبی عہدے کی طرف نہیں ہوتا، بلکہ ہم ایک خاص قسم کی وجود کی بات کرتے ہیں، ایسا وجود جو اپنی تاثیر اُس گہرے انسانی شعور سے حاصل کرتا ہے، جو دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، اور جو انسان کے اپنے ساتھ، کائنات کے ساتھ، بلکہ وقت کے ساتھ تعلق کو ایک نئے انداز سے ترتیب دیتا ہے۔ شاید یہی راز ہے کہ مختلف ادوار اور تہذیبوں میں معاشرے ہمیشہ کچھ مخصوص افراد کو روحانی وقار سے نوازتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس کوئی سیاسی طاقت یا مادی امتیاز نہ بھی ہو۔حقیقی عظمت رکھنے والے لوگ ہمیشہ بادشاہ یا سپہ سالار نہیں ہوتے تھے، بلکہ اکثر وہی ہوتے تھے جو روح کی زبان میں بات کرتے تھے، اور لوگوں کے باطنی اندھیروں میں چراغ روشن کرتے تھے۔ یہ روحانی اقتدار ایسا نہیں جسے ناپا یا تولا جا سکے، لیکن اس کا اثر دلوں پر واضح ہوتا ہے، جیسے ہوا جھیل کی سطح پر اپنے نشانات چھوڑ جاتی ہے۔
جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: (كونوا دعاةً للناس بغير ألسنتكم، ليروا منكم الورع والاجتهاد والصلاة والخير، فإنّ ذلك داعيةٌ)، لوگوں کو بغیر زبان کے دعوت دینے والے بنو، تاکہ وہ تم میں پرہیزگاری، جہاد، نماز اور نیکی دیکھیں، کیونکہ یہی حقیقی دعوت ہے یہ اس بات کی دعوت ہے کہ روحانی اثر کو خاموشی کے ساتھ عمل سے ظاہر کیا جائے، نہ کہ زبانی شور و غوغا سے۔اور چونکہ یہ اقتدار (روحانی مرجعیت) غیر مادی ہوتا ہے، اس لیے مادی سوچ رکھنے والا طبقہ فطری طور پر اسے سمجھنے یا بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ سوچ جو صرف اسی چیز کو مانتی ہے جو ناپی اور تولی جا سکے، وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے کہ انسان میں ایک باطنی، معنوی پہلو بھی ہے، ایسا پہلو جس میں محبت، ایثار، تڑپ، اور وجد کی قوتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اسی لیے اس روحانی طاقت کو اکثر جادو یا فریب کا نام دیا گیا، صرف اس وجہ سے کہ یہ لیبارٹری کے اصولوں کے تابع نہیں۔
لیکن، کیا خود انسان اتنا سادہ ہے کہ اسے صرف کیمیائی تعاملات کا ایک سلسلہ سمجھا جائے؟ اور کیا وہ لمحہ، جب انسان محبت کے جذبات سے اشک بہاتا ہے، یا کسی حسن و جمال کے منظر کے سامنے خشوع سے کھڑا ہو جاتا ہے، اس بات کا ثبوت نہیں کہ انسان صرف مادّی حدود میں مقید نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ﴾ پھراسے معتدل بنایا اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا۔ (السجدہ: 9) یعنی اُس نے انسان کو مکمل کیا اور اُس میں اپنی روح پھونکی، اور یہی الٰہی سانس ان غیر مادی جہتوں کی بنیاد ہے، جن کی وضاحت محض مادّہ نہیں کرسکتا۔
روحانی اقتدار اپنا اثر زبردستی سے نہیں بلکہ الہام کے ذریعے، قابو پانے سے نہیں بلکہ عملی نمونہ بننے سے، ظاہری دکھاوے سے نہیں بلکہ باطنی روشنی سے ڈالتا ہے۔ جس کے پاس یہ روحانی طاقت ہوتی ہے، اُسے نہ پرتشدد زبان کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کسی اشتہاری مہم کی، اس کے لیے اتنا کافی ہوتا ہے کہ وہ اپنے باطن میں سچا ہو، تاکہ دوسروں کے دل، اس کی سچائی سے خود بخود متاثر ہوں۔ اور یہی وہ بات ہے جو اس روحانی طاقت کو ان مادی نظاموں کے لیے خطرہ بناتی ہے جو انسان پر باہر سے کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ طاقت انسان کے اندر سے آزادی کا دروازہ کھولتی ہے۔
امام علی علیہ السلام نے اس مؤثر تزکیہ (روحانی تربیت) کی کیفیت کو اس طرح بیان فرمایا: (عباد الله، إن من أحب عباد الله إليه عبداً أعانه الله على نفسه، فاستشعر الحزن وتجلبب الخوف، فزهر مصباح الهدى في قلبه... فخرج من صفة العمى ومشاركة أهل الهوى، وصار من مفاتيح أبواب الهدى، ومغاليق أبواب الردى)،
اے بندگانِ خدا! بے شک اللہ کے محبوب ترین بندوں میں سے ایک وہ بندہ ہے جس کی اللہ نے اس کے نفس سے مقابلے میں مدد کی، چنانچہ وہ غم کو اپنا شعار بنا لیتا ہے، اور خوف کو اپنی چادر۔ پس اس کے دل میں ہدایت کا چراغ روشن ہو جاتا ہے اور وہ اندھے پن کی حالت اور خواہش پرستوں کی مشابہت سے نکل آتا ہے، یہاں تک کہ وہ ہدایت کے دروازوں کی کنجی اور گمراہی کے دروازوں کا قفل بن جاتا ہے۔
یہ اُن نفوس کا ایک بلند پایہ روحانی تصور ہے جو کسی شور کے بغیر خاموشی سے روشنی پھیلاتے ہیں، اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں اصل فرق ظاہر ہوتا ہے اسلئے کہ سیاسی اقتدار خوف کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کرتا ہے، اور معاشی اقتدار خواہشات کے ذریعے لبھانے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ روحانی اقتدار انسان کو یہ پیغام دیتا ہے۔ تمہاری حقیقت تمہاری پیداوار یا تمہاری ملکیت میں نہیں ہے، بلکہ اُس نور اور معنویت میں ہے جو تم اپنے اندر رکھتے ہو۔ روحانی اقتدار صرف یہ نہیں کرتا کہ انسان کو اخلاقیات سکھائے، بلکہ اسے ان اخلاقیات کو اپنانے کا ذریعہ بھی عطا کرتا ہے۔ یہ صرف خیر کا حکم نہیں دیتا، بلکہ خیر کو انسان کی فطرت کے مطابق ایک اندرونی خواہش بنا دیتا ہے، اور انسان کا تعلق اللہ سے محض ایک تصوراتی خیال کے طور پر نہیں، بلکہ اُس اعلیٰ ترین موجود کے طور پر اس سے جوڑتا ہے جو دل کی گہرائیوں میں محبوب و مطلوب ہوتا ہے۔
جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے دعا عرفہ میں فرمایا: (متى غبت حتى تحتاج إلى دليل يدلّ عليك، ومتى بعدت حتى تكون الآثار هي التي توصل إليك؟)
تو کب غائب تھا کہ تجھے کسی دلیل کی ضرورت ہو جو تیری طرف رہنمائی کرے؟ اور تو کب دور ہوا کہ نشانیوں کی ضرورت پڑے جو تجھے تک پہنچائیں؟یہ ایک نہایت باریک اور عارفانہ اظہار ہے اُس دائمی روحانی حاضری کا، جسے پاکیزہ روحیں محسوس کرتی ہیں۔
اور یہی وہ بات ہے جو کسی دینی رہنما، مصلح یا روحانی مفکر کو، (اگر وہ سچا ہو) ایک ایسا نمونہ بنا دیتی ہے جس کی طرف لوگ فطری طور پر بغیر کسی زبردستی یا دباؤ کے کھنچے چلے آتے ہیں، ۔ہم نے تاریخ میں بارہا دیکھا ہے کہ لوگ کس طرح نیک سیرت، زاہد اورنورانی شخصیات کے گرد جمع ہوتے تھے، بغیر کسی تشہیر یا دعوت کے—بس اس لیے کہ روح اُس کی طرف کھنچتی ہے جو اُس جیسا ہو، اور اُسے تلاش کرتی ہے جو اُس کے اندر کے کھوئے ہوئے نور کو جگا دے۔
لیکن روحانی اقتدار (اختیار) کے بارے میں بات کرتے وقت ان انحرافات کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی جنہوں نے اس کے چہرے کو مسخ کر دیا ہے۔ کیونکہ ہر طرح کا اقتدار استحصال (استعمال) کا شکار ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ نرم اور گہرا ہو۔ چنانچہ بعض لوگ جو دین یا حکمت کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں، اس روحانی طاقت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے، یا جھوٹے نعروں کے پردے میں دوسروں پر اپنی سرپرستی (وصایت) تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انحرافات اگرچہ حقیقت پر مبنی ہیں، مگر وہ اصل تصور کو باطل نہیں کرتیں—جیسے کہ ڈاکٹروں کے جرائم طب کے اصول کو ختم نہیں کرتے، اور نہ ہی طب کی ضرورت کو ختم کرتے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: (إذا رأيتم العالم محباً لدنياه فاتهموه على دينكم، فإن كل محبّ لشيء يحوط ما أحب) جب تم کسی عالم کو دنیا سے محبت کرنے والا دیکھو، تو اپنے دین کے بارے میں اس پر شک کرو، کیونکہ جو کسی چیز سے محبت کرتا ہے، وہ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ یہ دنیاوی لالچ میں چھپے ظاہری زہد سے بچنے کی واضح تنبیہ ہے۔
اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (أوحى الله إلى داود عليه السلام: لا تجعل بيني وبينك عالماً مفتوناً بالدنيا فيصدّك عن طريق محبتي، فإن أولئك قطاع طريق عبادي المريدين، إن أدنى ما أنا صانع بهم أن أنزع حلاوة مناجاتي عن قلوبهم)
اللہ نے داوٗد علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میرے اور تیرے درمیان کسی ایسے عالم کو واسطہ نہ بنانا جو دنیا کا فریفتہ ہو، کہ وہ تجھے میری محبت کے راستے سے روک دے۔ کیونکہ یہ لوگ میرے اُن بندوں کا راستہ روکنے والے ہیں جو میری طرف آنا چاہتے ہیں۔ اور ان کے لیے میں کم از کم یہی کروں گا کہ ان کے دلوں سے میری مناجات کی شیرینی کو چھین لوں گا۔
پس جو لوگ دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، ان کا نقصان صرف ان کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ دوسروں کے دلوں کو بھی خراب کر کے اُن کا راستہ روک دیتے ہیں۔قرآنِ کریم نے بھی اس خطرے کی طرف متنبہ کیا ہے، جیسا کہ سامری کے قصے میں، جس نے ایک جعلی روحانی اختیار حاصل کر کے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا پر آمادہ کر دیا (۔قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ) یعنی: ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈالا، اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا۔
یا پھر اُس شخص کی مثال کے ذریعے جو علم رکھتا تھا مگر تقویٰ نہیں، چنانچہ وہ یوں گمراہ ہوا کہ( فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ، إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث) یعنی اس کی مثال کتے کی سی ہے، اگر اس پر بوجھ لادو تو بھی ہانپتا ہے، اور چھوڑ دو تب بھی ہانپتا ہے۔
یہ تنبیہات روحانی اقتدار کی اصل کو رد کرنے کے لیے نہیں، بلکہ درست اور جعلی، سچ اور دھوکے کے درمیان فرق واضح کرنے کی دعوت ہیں۔اصل بحران روحانی اختیار کے وجود میں نہیں، بلکہ اُس کے لیے بنائی گئی معیارات کی غیر موجودگی میں ہے۔ یہ محض جذباتی یا عوامی کیفیت نہیں ہے، بلکہ ایک معنوی مرتبہ ہے، جو صرف نفس کی پاکیزگی، تربیت اور خلوص نیت سے حاصل ہوتا ہے۔ جو شخص بغیر تزکیہ اور طہارت کے اس مقام پر فائز ہونا چاہے، اس کی موجودگی محض ایک مدھم روشنی ہوگی جو جلد ہی بجھ جائے گی۔
لہٰذا، روحانی اقتدار کا اصل دفاع تقریروں سے نہیں ہوتا، بلکہ اسے حقیقت میں زندہ کر کےکیا جاتا ہے۔ ایسے سچے نمونے پیش کر کے جو انسانیت کا درد رکھتے ہوں، جو انسان کو اُس کی روح پر اعتماد واپس دلائیں، اور اُسے ظاہری چیزوں کی غلامی سے نجات دلائیں۔
آخر میں مناسب لگتا ہے کہ ہم مندرجہ ذیل سوالات کے بارے میں غور کریں اگر انسان کے جسم سے روح کو نکال دیا جائے تو اُس کے پاس کیا باقی رہ جاتا ہے۔ کیا محض ٹیکنالوجی اس کے لیے کافی ہے کہ وہ زندگی میں کوئی معنی تلاش کرسکے؟ کیا مادی کامیابیاں اُس کی تڑپ اور اُنسیت کی کمی کو پورا کر سکتی ہیں؟ کیا وہ اس شور و غل میں سکون پا سکتا ہے جو آج کی ڈیجیٹل دنیا سے برآمد ہوتا ہے؟ یقیناً عقل ضروری ہے، علم اہم ہے، اور مادی منصوبہ بندی بھی ناگزیر ہے، مگر یہ سب کچھ اُس "آواز" کے بغیر کافی نہیں جو انسان اپنے اندر سے سنے، نہ کہ باہر سے۔ یہی آواز روح کی پکار ہے،اور یہی وہ چیز ہے جو زندگی کو جینے کے قابل بناتی ہے۔