12 ذو القعدة 1446 هـ   10 مئی 2025 عيسوى 3:30 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اخلاق اور اقدارِ اسلامی |  اخلاق کی اہمیت: دین اور الحاد کے نظریات کا موازنہ
2025-04-08   206

اخلاق کی اہمیت: دین اور الحاد کے نظریات کا موازنہ

تحریر: شيخ مقداد الربيعي

یقیناً، اسلام میں اخلاق کو ایک روشن چراغ، ایک نمایاں علامت اور انسانِ فاضل کی تعمیر و تشکیل کے لیے ایک بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام کا مقصد محض عبادات یا ظاہری اعمال تک محدود نہیں، بلکہ وہ انسانی نفوس کی تطہیر، تربیت اور بلند اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے آیا ہے۔جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؑ نے فرمایا:بے شک نبی اکرم ﷺ کو اس لیے مبعوث کیا گیا کہ وہ اخلاقِ حسنہ کو مکمل فرمائیں"۔

یہ بیان اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اسلامی پیغام کی بنیاد ہی اخلاقی کمالات کے قیام اور انسانی کردار کی بلندی پر رکھی گئی ہے، اور نبوت کا مقصد انسان کو نہ صرف دینی و روحانی لحاظ سے سنوارنا ہے، بلکہ اسے اخلاقی ارتقاء کی بلند ترین سطح تک پہنچانا بھی ہے۔

اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ حسنِ اخلاق کو ایمان کی تکمیل کا پیمانہ قرار دیا جائے ، جیسا کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: (إنّ المؤمن ليُدرك بحسن خلقه درجة الصائم القائم)  بے شک مؤمن اپنے اچھے اخلاق کے ذریعے اُس درجے کو پا لیتا ہے جو (کثرت سے) روزہ رکھنے والے اور رات بھر نماز پڑھنے والے کو حاصل ہوتا ہے۔"

پس، اچھے اخلاق کے ذریعے مؤمن کمال کے درجات طے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے، اور اس کی محبت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔اور سب سے بہتر انسان وہ انسان ہے جو اخلاق کے اعتبار سے اچھا ہو، جیسا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بتایا:"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔"

پس، اچھا اخلاق مؤمن کا زیور ہے، اُس کی پاکیزگی کی علامت ہے، اُس کے باطن کی صفائی کا مظہر ہے، اور اُس کے ایمان کی دلیل ہے۔ یقیناً حُسنِ اخلاق کی عظمت اور اس کے بلند مقام کی سب سے روشن دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی ہے:" قیامت کے دن میزانِ عمل میں کوئی چیز حسنِ اخلاق سے زیادہ بھاری نہیں ہوگی"۔ بلاشبہ، یہ ایسا لازوال خزانہ ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتا، ایسی دائمی دولت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، اور اس کا حامل دنیا میں بھی اس کے فوائد سمیٹتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا اجر پاتا ہے۔

جب انسان جنت کی کامیابی اور اس کی دائمی خوشیوں کی آرزو کرتا ہے، تو اسے حسنِ اخلاق سے مزین ہونا ضروری ہے، جیسا کہ امام محمد باقرؑ نے فرمایا:"بیشک بندہ اپنے اچھے اخلاق کے ذریعے روزے رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔"لہذا، حسنِ اخلاق انسان کو بلند ترین درجات تک پہنچاتا ہے اور اسے نبیوں اور صدیقوں کے قریب کر دیتا ہے۔

بیشک، اسلام میں اخلاق صرف باتوں یا دعووں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک عملی سلوک ہے جو انسان کی روزمرہ زندگی میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جو انسان کے اندر گہرائی سے رچ بس جاتی ہیں اور اس کے ہر عمل میں نظر آتی ہیں۔ اخلاق کی حقیقت اللہ کے ساتھ تعلق، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک، اور خود سے سچائی میں جھلکتی ہے۔ لہٰذا، خوش نصیب وہ شخص ہے جس کا اخلاق اچھا ہو، جس نے اپنی روح کو پاکیزہ کیا ہو، اور جس نے مکارمِ اخلاق کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہو، کیونکہ وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہے۔

اسلام میں اخلاق ایک مضبوط اور ہم آہنگ ساخت کی مانند ہیں، جو انسان کی پوری زندگی میں سرایت کر جاتی ہیں اور اس کی روح اور اصل ہستی کو جلا بخشتی ہیں۔ اس لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ہم اسلامی تعلیمات میں اعلیٰ ترین اصول اور حکمت سے بھرپور ہدایات پاتے ہیں، جو اخلاقی اقدار کو مستحکم کرتی ہیں اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ یہ نصوص ہمیں بتاتی ہیں کہ اخلاقیات اسلامی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، اور ان کا اتباع انسان کی کامیابی کی کنجی ہے۔

اسلام نے ہمیں مکارمِ اخلاق اپنانے کی ترغیب دی ہے، جیسے سچائی جو زبان کو پاکیزہ کرتی ہے، وفا جو رشتہ مضبوط کرتی ہے، بھلا ئی جو دلوں کو قریب کرتی ہے، صدقہ جو محبت کو بڑھاتا ہے، عطف و مہربانی  جو دلوں کو نرم کرتی ہے، تعاون جو تعلقات کو مضبوط کرتا ہے، عفو جو نفس کو پاک کرتا ہے، بخشش جو بغض اور دشمنی کو مٹا دیتی ہے، امانت جو خوف کو دور کرتی ہے، کرم جو رزق کو بڑھاتا ہے، صبر جو انسان کو ثابت قدم رکھتا ہے، اور تواضع جو درجات بلند کرتا ہے۔

یہ تمام اخلاقی اصول انسان کی شخصیت اور اس کے معاشرتی روابط کو بہتر بناتے ہیں، اور اسلام کی تعلیمات میں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس کے برعکس، اسلام نے برے اخلاق سے بچنے کی تاکید کی ہے، جو دلوں کو بگاڑ دیتے ہیں اور معاشرتی توازن کو تباہ کرتے ہیں، جیسے جھوٹ جو حقیقت کو مسخ کرتا ہے، غداری جو اعتماد کو توڑ دیتی ہے، فجور جو انسان کے نفس کو آلودہ کرتا ہے، خیانت جو بھروسے کو کمزور کرتی ہے، خودغرضی جو لوگوں کو الگ کر دیتی ہے، بخل جو زندگی کو تنگ اور مشکل بناتا ہے، سخت دلی جو دوسروں کے جذبات کو مجروح کرتی ہے، بدتمیزی جو تعلقات میں دوری پیدا کرتی ہے، چالبازی جو معاملات کو خراب کرتی ہے، رشوت جو عدلیہ کو گمراہ کرتی ہے، اور چوری جو امن کو تباہ کرتی ہے۔

یہ ہدایات اور ممانعتیں صاف طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ اسلام اخلاق کی اہمیت کو کتنی شدت سے اجاگر کرتا ہے اور اس کا مقصد نیک انسان اور فاضل معاشرے کی تعمیر ہے، جہاں محبت کی فراوانی ہو، تعاون کو فروغ دیا جائے، حقوق کا تحفظ ہو، اور ہر جگہ بھلا ئی اور خیر پھیلتی ہو۔نبی اکرم ﷺ کی ہدایات اور اسلامی تعلیمات کا گہرا اثر مسلمانوں کے علماء اور مصلحین پر پڑا، جس کی وجہ سے انہوں نے اخلاق کو اہمیت دی اور اس کی اصلاح پر خاص توجہ دی۔ وہ علماء مکارم اخلاق کی ترغیب دیتے، لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے اور اس سے انحراف کے نقصانات سے آگاہ کرتے تھے۔ ان کا مقصد انسانوں کی روحانی اصلاح، اخلاقی تربیت اور تزکیہ تھا تاکہ وہ بہتر انسان بن سکیں اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کا فروغ ہو۔

ان کی کوششیں محض وعظ اور رہنمائی تک محدود نہیں رہیں، بلکہ ان کا جدوجہد تصنیف اور تالیف تک بھی پھیل گیا۔ انہوں نے اخلاق کے میدان میں گہرے علم اور وسیع فہم کی بنیاد پر بے شمار کتب اور دائرۃ المعارف تخلیق کیں، جو ان کے عمیق فکر، وسیع علم، اور فضیلت کے پھیلاؤ اور رذیلت کے خاتمے کے لیے انتھائی لگن کو ظاہر کرتی ہیں۔انہوں نے اخلاق  حسنہ کی ترغیب، مکارم اخلاق اپنانے اور قبیح اخلاق سے بچنے کی بھرپور کوشش کی، اور ان کے برے اثرات سے آگاہ کیا۔ وہ واقعی ہدایت کے چراغ اور اچھے سلوک کی بہترین مثال بنے، جن کی پیروی معاشرتی اصلاح اور فضیلت کے فروغ میں کی گئی۔

اگر ہم الحاد کے فکری نظریے کا جائزہ لیں، تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں اخلاق کی اہمیت کم ہے اور اس پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ ان کی تحریروں میں ہمیں اخلاق کی واضح دعوت یا اس پر عمل کرنے کی ترغیب نہیں ملتی، اور نہ ہی مذہبی تعلیمات کی طرح اس کی اہمیت اور زندگی میں اس کی ضرورت کو واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ نیز، اخلاقی فساد کی اصلاح کے بارے میں بھی کوئی خاص بات نہیں کی جاتی۔

اگر ہم ان کی حالت پر غور کریں، تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں، اور ان میں سے اکثر اخلاقی عدمیت کی حالت میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے اخلاق صرف ایک ذاتی اور انفرادی مسئلہ بن چکا ہے، جس کی کوئی مضبوط بنیاد یا ثابت اصول نہیں ہیں۔ ان کے اخلاق میں کوئی واضح معیار یا مستحکم اصول نہیں ہیں، کیونکہ ان کے پاس کوئی مستقل مرجع یا پختہ اصول نہیں جو اخلاق کے راستے کو واضح کرے اور اسے صحیح سمت میں رہنمائی فراہم کرے۔

الحاد میں اخلاق کی اہمیت کی کمی کا ایک واضح ثبوت مارکسی نظریہ ہے، جس میں اخلاقی دعوتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ مارکس اور اینگلز نے واضح طور پر کہا: "کمیونسٹ عام طور پر کسی اخلاقی دعوت کی حمایت نہیں کرتے، اور لوگوں کو کسی اخلاقی مطالبے پر مجبور نہیں کرتے، جیسے کہ ایک دوسرے سے محبت کرنا، یا خودغرض نہ ہونا وغیرہ۔ بلکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خودغرضی اور قربانی دونوں فرد کی ذات کو ثابت کرنے کے ضروری حصے ہیں، خاص حالات میں۔"

یہ بیان اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ مارکسی نظریہ اخلاقی اصولوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتا اور ان کے نزدیک اخلاق ایک ذاتی اور حالات پر مبنی چیز ہے، جو کسی ثابت اصول یا مستقل معیار کے بجائے افراد کی مرضی پر منحصر ہے۔یہ بیان صاف طور پر مارکسیوں کے اخلاق کے بارے میں نظریے کو واضح کرتا ہے۔ ان کے نزدیک اخلاق کوئی ثابت اصول نہیں ہیں جو انسان کے اعمال کو کنٹرول کریں، اس کی خواہشات اور جذبات کو قابو میں رکھیں، یا اس کی ترجیحات کو متعین کریں۔ بلکہ، اخلاق صرف موجودہ حقیقت کا ایک عکس ہیں، جو مسلسل مخالفتوں اور تصادم سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے، ان کے نزدیک اخلاق کا علم واجب الوجود یا ابدی اصولوں کے بارے میں نہیں بلکہ موجودہ حالات کے بارے میں ہے، جیسا کہ سوویت اساتذہ کی کتاب "مارکسی اخلاقیات" میں کہا گیا:"علم اخلاق نہ صرف وہ علم ہے جو واجب الوجود سے متعلق ہو، بلکہ وہ علم بھی ہے جو موجودات سے تعلق رکھتا ہے" (ص 40) ۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مارکسی اخلاق مادی حقیقت اور موجودہ حالات پر مبنی ہے، اور اسے ابدی یا ثابت اخلاقی اصولوں کے بجائے عملی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔یہ مادی نقطہ نظر اخلاق کو اس کی عظمت اور اعلیٰ مقام سے محروم کر دیتا ہے اور اسے محض ایک سماجی مظہر بنا دیتا ہے جو حالات اور مفادات کے بدلنے کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

سترھویں صدی میں مادی فلسفی ہوبز نے انسانی اخلاق کو خودغرضی اور فردی مفادات پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ تمام انسانی خواہشات کا مقصد اپنی ذات سے محبت اور دوسروں پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے (۳)۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے: "فلسفہ اخلاق" از توفیق الطويل (٢٠٠ - ٢٠٦)۔

اس لیے انسان کے پاس نہ تو دوسروں کے اخلاق کی اصلاح کا کوئی مقصد ہوتا ہے، اور نہ ہی انہیں بہتر بنانے اور بلند کرنے کی کوشش کرنے کا کوئی جذبہ۔

اگر ہم منطقی وضعیت پسند کے پیروکاروں کو دیکھیں، تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے انسانی اخلاق کو صرف ذاتی احساسات تک محدود کر دیا ہے۔ ان کے مطابق، اخلاق صرف انسان کے دل کی محبت یا نفرت کا عکاس ہے، جو وہ چیزوں کے بارے میں محسوس کرتا ہے۔ اس طرح، اخلاق کی اصلاح کی تمام کوششیں بے کار ہو جاتی ہیں اور اخلاقی بہتری کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔

ایک اہم الحادی فلسفی جس نے اخلاقیات کے اصولوں کا شدت سے مقابلہ کیا اور ان کے معیاروں کو رد کیا، وہ جرمن فلسفی فریڈرک نیچے تھا۔ نیچے نے اخلاقیات کے خلاف ایک بھرپور نظریاتی جنگ چھیڑی اور اس کے تمام کلی اصولوں کو مسترد کر دیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اخلاق صرف کمزور افراد کا ایک اختراع ہے، جس کا مقصد طاقتور افراد کی آزادی کو روکنا اور انہیں پابند کرنا ہے۔ اس نے اخلاقی قوانین کو توڑنے کی حمایت کی اور کہا کہ جو اخلاقی اصول انسان اپناتے ہیں، وہ محض بدعتیں ہیں، جنہیں ناپسندیدہ اور حقارت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے، اور انہیں انسان کی زندگی سے بالکل نکال دینا چاہیے۔

نیچے کے نزدیک اعلیٰ انسان وہ نہیں ہے جو اخلاقی اصولوں کی پیروی کرتا ہے اور اچھائی کی کوشش کرتا ہے، بلکہ وہ شخص ہے جو طاقت اور غلبہ حاصل کرنے کی جستجو کرتا ہے۔ اس کے مطابق، طاقت اور تسلط ہی اخلاق کا اصل معیار ہیں، اور یہی وہ فضیلت ہے جسے ایک آزاد انسان کو حاصل کرنا چاہیے۔

(دیکھیے: "مسئلہ اخلاق"، فلسفہ دان اے اینڈرے کِریسن (۸۲ "فلسفہ اخلاق"، توفیق الطويل (٢٥٤)، اور نیچے، فؤاد زکریا (۹۹ ۱۰۲))۔

جو لوگ ارتقاء کے نظریے پر ایمان رکھتے ہیں، انہوں نے اخلاقیات کے بارے میں مختلف آراء اپنائی ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد اس نظریے کے تمام تقاضوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی منطقی بنیادوں پر عمل کرنے کو درست سمجھتے ہیں، اور اس کے تمام نتائج کو حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم مادی فلسفی سپنسر تھا، جس نے ارتقاء کے نظریے کو اپنایا اور اس کے تحت انسانی اخلاقیات کو مرتب کیا۔ اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ کمزوروں اور محتاجوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ایک غلط عمل ہے کیونکہ یہ قدرتی قانون "صرف مضبوط اور فطری طور پر موزوں کا بقا" کے اصول کے خلاف ہے۔

" سپنسر " نے یہ دعویٰ کیا کہ احسان اور بھلا ئی لوگوں کو انحطاط اور زوال کی طرف لے جاتے ہیں کیونکہ یہ ان افراد کی بقا میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جنہیں قدرتی طور پر معدوم ہو جانا چاہیے۔ اس کے مطابق، صدقات اور عطیات کی تمام اقسام زمین پر فساد پھیلانے کا سبب ہیں، اور دوسروں کی مدد اور تعاون کی ترغیب کو وہ گمراہی اور صحیح راستے سے انحراف سمجھتا تھا۔

یہ نظریہ جو ارتقا کے اصول پر مبنی ہے، انسانی اخلاق کی بنیادوں کو منہدم کر دیتا ہے، رحم دلی اور باہمی تعاون کے اصولوں کو مٹا دیتا ہے، اور طاقت اور غلبہ کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کمزور افراد کا استحصال جائز سمجھا جانے لگتا ہے۔ معاصر ملحد رچرڈ دوکنز نے ارتقا کے نظریے کے اخلاقی اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:"جب زندگی کی وضاحت کی بات آتی ہے، تو میں داروینی ہوں، مگر جب ہماری زندگی کے نظام کی ترتیب کی بات ہو، تو میں داروینزم کے خلاف ہوں" (۳)(دیکھیے: "فلسفہ اخلاق"، توفیق الطويل، صفحہ ٢٤٩۔ اور الجزیرہ انٹرنیشنل چینل پر رچرڈ دوکنز کا انٹرویو، 42 منٹ)۔

بیشک، کچھ ملحدین غریبوں اور محتاجوں کی مدد کے لیے خیرات دیتے ہیں اور فلاحی کاموں میں شریک ہوتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں  کہ یہ نیک اخلاق کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل قابلِ ستائش اور عظیم ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملحدین نے اخلاق کو اس کی پوری حقیقت میں تسلیم کیا ہے۔ اخلاق صرف غریبوں کی مدد تک محدود نہیں ہیں؛ یہ ایک مکمل اور ہمہ گیر نظام ہے جس میں انسانیت، عزت، سچائی، انصاف، اور دیگر اہم اخلاقی اقدار شامل ہیں، جنہیں پوری طرح سمجھنا اور اپنانا ضروری ہے۔پھر یہ کہ ان کی جانب سے خیرات میں شرکت کسی صحیح اصول پر مبنی نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں وہ اپنے مادی اور جبری نظریات سے متصادم عمل کر رہے ہیں، جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں۔

آخرکار، اس تفصیلی موازنہ کے اختتام پر، یہ بات واضح ہوئی کہ صحیح انسانی اخلاق صرف ایمانی اصولوں پر استوار ہو سکتے ہیں، اور یہ کہ الحادی اصول اخلاق میں فساد اور انحطاط کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم یہ وضاحت کریں کہ یہ موازنہ صرف اصولوں، علمی بنیادوں اور طریقہ کار کے تناظر میں کیا گیا ہے، جو کہ مختلف علمی موقفوں پر مبنی ہے۔جہاں تک افراد کے افعال کا تعلق ہے، یہ ممکن ہے کہ کوئی ملحد نیک اخلاق کا حامل ہو، اور اس کے برعکس کوئی مذہبی شخص بداخلاق ہو، اور یہ حقیقت ہے جسے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تاہم، اس کا تعلق اس بحث سے نہیں ہے، کیونکہ ہمارا اصل موضوع اخلاق کے اہمیت اور اس کی علمی بنیادوں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کو ایسے انسانی اصولوں پر قائم نہیں کیا جا سکتا جو خالق کے وجود کا انکار کرتے ہوں۔ علی عزت بیگووچ نے اس مفہوم کو ایک خوبصورت انداز میں بیان کیا، جب انہوں نے کہا: "ہاں، کچھ ملحدوں کے پاس اخلاق ہو سکتے ہیں، مگر کوئی ایسا الحاد نہیں ہے جو اخلاقی ہو۔" اسی مفہوم کو مزید وضاحت کے ساتھ وہ دوسرے مقام پر کہتے ہیں: "اخلاقی اصول بغیر کسی مذہب کے نہیں ہو سکتے، حالانکہ عملی اخلاقیات دین کے بغیر بھی موجود ہو سکتی ہیں۔" (اسلام: مشرق اور مغرب، صفحہ ٢٠٥)

یہ بات اس غلط استدلال کو واضح کرتی ہے جسے ملحدین بار بار دہراتے ہیں، یعنی یہ کہ کچھ مومن افراد بد اخلاق ہوتے ہیں، جبکہ کچھ ملحدین اچھے اخلاق رکھتے ہیں، اور اس کی بنیاد پر وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ادیان کا اخلاقیات پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ سوچ بنیادی طور پر اخلاقی رویوں کی جزوی نوعیت کو نظر انداز کرتی ہے، اور  اس  حقیقت کو  نہیں مانتی کہ اخلاقی اصول اور ان کی بنیاد صرف مذہبی عقائد پر استوار ہو سکتے ہیں۔

یہ ایک باطل دلیل ہے جو الحادی نظام میں اخلاقی بحران کو حل کرنے میں ناکام ہے؛ کیونکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایمانی اصول ہر فرد پر یکساں طور پر اثر انداز ہوں گے، اور نہ ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اصول تمام اخلاقی خطاوں کو ختم کر دیں گے اور لوگوں کو فرشتوں میں بدل دیں گے!

ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ اصول صحیح ہیں جو ایک منظم اخلاقی نظام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں، اور یہ انسانوں کی نفوس پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، جس کے ذریعے وہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کی طرف راغب ہوتے ہیں، اور یہ سب بہترین قوت اور مؤثر وسیلہ کے طور پر کام کرتا ہے۔

بعض مؤمنوں کا بد اخلاق ہونا — جو ان کے ایمان کی کمزوری، یقین کے فقدان، اور آس پاس کی شدید کششوں کا نتیجہ ہوتا ہے — اس اصول کی بنیاد کو متاثر نہیں کرتا؛ کیونکہ وہ اس کے باوجود یہ ادراک رکھتے ہیں کہ وہ کسی خرابی میں مبتلا ہیں، اور یہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے سے ہٹ چکے ہیں۔

جہاں تک الحادی اصولوں کا تعلق ہے، یہ بعض افراد کے رویے پر فوری طور پر تباہ کن اثرات نہیں دکھاتے، لیکن ان کا اثر اُس وقت نمایاں ہو جاتا ہے جب ان سے بد اخلاق اور قبیح افعال میں ملوث افراد کے بارے میں رائے طلب کی جاتی ہے۔ اس موقع پر حقیقی بحران سامنے آتا ہے، اور الحادی نقطۂ نظر میں اخلاقیات کے حوالے سے گہری خامی بے نقاب ہو جاتی ہے؛ کیونکہ ملحد اپنے نظریے کی بنیاد پر ان افعال کی مذمت کے لیے کوئی معقول دلیل پیش نہیں کر سکتا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018