

| اخلاق اور اقدارِ اسلامی | ایشلی میڈیسن(Ashley Madison) اسکینڈل: جب اخلاقیات کا پردہ چاک ہوا

ایشلی میڈیسن(Ashley Madison) اسکینڈل: جب اخلاقیات کا پردہ چاک ہوا
مقداد الربيعي
ایشلی میڈیسن ایک امریکی آن لائن پلیٹ فارم تھا جو شادی کے بغیر تعلقات قائم کرنے میں مدد فراہم کرتا تھا۔ ان کا مشہور نعرہ تھا: "زندگی مختصر ہے، تعلقات سے لطف اٹھائیں۔"اگرچہ اس پلیٹ فارم کی نوعیت متنازع اور مشکوک تھی لیکن اس کے کئی صارفین اپنی عام زندگی میں خود کو بااخلاق اور خاندانی اقدار کے پابند ظاہر کرتے تھے۔
سنہ 2015 میں "دی امپیکٹ ٹیم" نامی ایک ہیکرز کے گروپ نے ایشلی میڈیسن ویب سائٹ کو ہیک کرلیا اور اس کا صارفین کا ڈیٹا بھی چُرا لیا۔اس ڈیٹا میں ان صارفین کے نام، پتےاور بینک اکاؤنٹس جیسی حساس معلومات بھی شامل تھیں۔ بعد میں یہ ڈیٹا انٹرنیٹ پر پبلک کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں صارفین کا بھانڈا پھوٹا اور وہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو ئے۔ اس واقعے میں چونکا دینےوالی بات یہ تھی کہ ان میں سے کئی صارفین معاشرے کی نمایاں شخصیات تھے، جن میں مذہبی رہنما، سیاستدان اور وہ لوگ بھی شامل تھے جو خود کو اخلاقی اور خاندانی اقدار کے محافظ قرار دیتے تھے۔مثال کے طور پر:مذہبی رہنما، کچھ پادری اور واعظ جو لوگوں کو نیکی، وفاداری اور بالخصوص ازدواجی تعلقات میں وفاداری کی تلقین کرتے تھے، خود اس ویب سائٹ کے صارفین میں شامل پائے گئے۔ اسی طرح ایسے سیاستدان بھی بے نقاب ہوئے جو کھلے عام طلاق اور بے وفائی کے خلاف آواز بلند کرتے تھے لیکن خود خفیہ طور پر اس ویب سائٹ کا حصہ تھے۔ یہ ان کے ووٹرز کے لیےبڑی حیرانی اور غصے کا باعث بنا۔اسی طرح اس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اپنی فیملی اور دوستوں کے سامنے با اخلاق اور شریف ہونے کا دعویٰ کرتے تھے مگر ان کا اصل چہرہ اس اسکینڈل میں سامنے آگیا۔
یہ واقعہ معاشرتی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے یہ منافقت مذہب کے مخالف ان نظریات اور فلسفوں میں پائی جاتی ہے۔مذاہب میں اخلاقیات کا سرچشمہ اللہ پر ایمان ہوتا ہےجو ایک مضبوط اور متوازن بنیادہے۔ یہ ایمان انسانی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتا اورعام زندگی میں حقیقی راہنمائی فراہم کرتا ہے۔اسی لیےاہل ایمان ان اخلاقی قدروں کو ایک شفاف چشمے کی مانند دیکھتے ہیں، جہاں سے ان کی روح تسکین پاتی ہے۔اہل ایمان ان اصولوں کو ایسے تھامے رکھتے ہیں جیسے ڈوبتا شخص منحصر سہارے کو تھامے رکھتا ہے۔
حقیقی مومن لوگوں کے درمیان ہو یا اکیلا اپنی اندر ایک طاقت کو محسوس کرتا ہے جو اسے اچھے اخلاق پر قائم رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عمل کا مقصد صرف ذاتی فائدہ نہیں بلکہ اخلاقی اقدار کو اپنانا ہے، چاہے اس کے بدلے میں اسے مادی فائدہ ملے یا نہ ملے۔ایسا مومن یقین رکھتا ہے کہ نیک راہ پر چلنا اس کی شخصی ذمہ داری ہے، چاہے معاشرہ اس سے متفق ہو یا نہ ہو،دوسرے راضی ہوں یا نہ ہوں۔
اسلام میں اخلاقیات کی بنیادیں ایسی مضبوط داخلی تحریک فراہم کرتی ہیں جو مؤمن کو اخلاص کے ساتھ ان اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔یہ اصول اسے ہر حال میں اچھے اخلاق اپنانے کی ہمت دیتے ہیں اور سچائی کے ساتھ زندگی میں ان پر عمل کرنے کا راستہ بھی دکھاتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں! اگر کوئی مؤمن اسلامی اخلاقیات کو دل کی گہرائیوں میں مضبوطی سے راسخ کر لے تو وہ خود ہی اپنا محاسبہ کر سکتا ہے۔وہ اپنی کسی لغزش یا کوتاہی کو نظرانداز نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اپنے کردار کو سنوارنے اور اپنی روح کو پاکیزہ بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔وہ اپنی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتا ہے۔ سختی سے اپنا محاسبہ کرتا ہے، گناہوں سے دور رہتا ہے اور تیزی سے نیکی کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں!عمل کرنا ہویا کسی کام کی انجام دہی سے رکنا ہو اللہ کی نگرانی کا احساس ہی انسانی رویے کو بدلنے اور سنوارنے میں سب سے زیادہ مؤثر اور گہرا ہوتا ہے۔ جیسے الیکسس کاریل اپنی کتاب "تأملات في سلوك الإنسان" میں لکھتا ہے:"کوئی مجرد نظریہ حقیقی اثر نہیں ڈال سکتا جب تک کہ اس میں مذہبی عنصر شامل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی اخلاقیات، مدنی اخلاقیات سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہیں، یہاں تک کہ دونوں کا موازنہ ممکن ہی نہیں۔ انسان منطق پر مبنی اخلاقی اصولوں کی پیروی میں زیادہ جوش و خروش محسوس نہیں کرتا، جب تک کہ وہ انہیں خدائی احکامات نہ سمجھے۔" (صفحہ 140)یہی وجہ ہے کہ ایمان پر مبنی اخلاقیات انسان کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتی ہیں اور اسے سچے اصولوں پر ثابت قدم رکھتی ہیں۔
کسی بھی اخلاقی پابندی کے لیے داخلی محرک کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو خود بخود نیکی کی جانب راغب کرے، اس لیے دین اور اخلاقیات کے درمیان ہمیشہ سے گہرا تعلق قائم رہا ہے۔اسی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ایمل دورکائم اپنی کتاب "التربية الأخلاقية" میں لکھتے ہیں:"اخلاقیات اور مذہب قدیم زمانے سے ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں اور صدیوں تک ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے دونوں آپس میں اس قدر گھل مل گئے کہ ان کا تعلق محض سطحی یا ظاہری نہیں رہا۔ لہٰذا انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا اتنا آسان نہیں جتنا ہم تصور کرتے ہیں۔" (صفحہ 11)
اسلام میں اخلاقیات صرف انسان کے دوسرے لوگوں سے تعلقات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک جامع نظام ہے جو اس کے ارد گرد موجود تمام مخلوقات کے ساتھ تعلقات کو شامل ہے۔یہ صرف لوگوں کے ساتھ معاملات تک محدود نہیں بلکہ یہ اللہ کے ساتھ تعلق، والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں، یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ بھی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے۔یہ ازدواجی تعلقات، رشتہ داروں، بچوں، ملازمین، بزرگوں، مرد و خواتین، دوستوں، فوت شدگان، جانوروں، فطرت اور وسائل کے ساتھ تعلق کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ گلاب کی مہکتی ہوئی کلیوں کی مانند ہے، جو انسانی تعلقات کے مختلف پہلوؤں میں کھلتی ہیں اور ان پر حسن و جمال کا رنگ چڑھاتی ہے۔(مأخذ: موسوعة الأخلاق، خالد الخراز)
اس کے برعکس اگر اخلاقیات کو ملحدانہ بنیادوں پر استوار کیا جائے، تو وہ انسان کو اس صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے جو اسے نیکی کی راہوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔یہ اس سے وہ داخلی قوت بھی چھین لیتا ہے جو اخلاق کو ایک اعلٰی اصول کے طور پر اپنانے کی ترغیب دیتا اور اس کے اندر اخلاقی سچائی کی قدر ختم کر دیتا ہے۔نتیجتاًاخلاقیات محض ایک ظاہری نمائش بن جاتی ہے، جسے انسان صرف دوسروں کے سامنے اچھا دکھنے کے لیے اپناتا ہےیا پھر وہ ذاتی مفادات اور دنیاوی فوائد کے لیے محدود ہو جاتی ہے جس کی کوئی حقیقی قدر باقی نہیں رہتی۔
وہ سچ بولتا ہے کیونکہ لوگ سچائی کو پسند کرتے ہیں اور جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں۔وہ خیانت سے بچتا ہے کیونکہ یہ معاشرتی طور پر ناپسندیدہ ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے اس کے ساتھ جھوٹ اور خیانت کا برتاؤ کریں۔اصل میں یہ اخلاقیات کے ہی خلاف ہے اور خود غرضی و نفاق کے دلدل میں گرنے جیسا ہے۔
الحادی نظریات انسان کے اندرونی محرکات کو متحرک نہیں کرتے۔اندرونی محرکات ہی انسان کے وجود کی اصل طاقت ہیں جن کی بنیاد پر انسان اچھا اخلاق اپناتا ہے۔الحاد میں اخلاقیات بیرونی عوامل کے تابع ہے معاشرتی دباو یا قانون کی طاقت کی وجہ سے اخلاق اپنایا جاتا ہے۔یہ چیزیں انسان کامل جو صفات حسنہ اخلاق سے آراستہ کو لیے کافی نہیں۔یہ محرکات انسانی فطرت پر گہرا اثر ڈالنے سے قاصر ہیں بلکہ یہ نفاق کو فروغ دیتے ہیں اور اسی کی جڑیں مضبوط کرتے ہیں۔جمال الدین افغانی نے مادی سوچ کی محدودیت کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں:"یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ حکومت کی طاقت صرف ظاہری جارحیت کو روکنے اور کھلے ظلم کو ختم کرنے تک محدود ہے۔ لیکن چوری، دھوکہ دہی، ظاہری طور پر اچھائی میں چھپی ہوئی برائی اور وہ تمام بدعنوانیاں جو خواہشات کے غلام انجام دیتے ہیں،ان سے حکومت کیسے نمٹ سکتی ہے؟ حکومت ان خفیہ چالاکیوں، سازشوں، خیانتوں اور دھوکے بازیوں پر کیسے نظر رکھ سکتی ہے؟ اور ان کے نقصانات کو کیسے روک سکتی ہے؟"(الرد على الدهريين، ضمن الأعمال الكاملة، 185/2)
اسی بات کی تائید کرتے ہوئے الیکسس کاریل لکھتا ہے:"انسان کو خود پر داخلی ضابطہ لاگو کرنا چاہیے تاکہ ذہنی اور جسمانی توازن کو برقرار رکھ سکے۔کوئی بھی ریاست قانون کو طاقت کے ذریعے نافذ کر سکتی ہے لیکن اخلاقیات کو کوئی ریاست بھی مسلط نہیں کر سکتی۔"(الإنسان ذلك المجهول، ص 152)