19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 11:40 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اخلاق اور اقدارِ اسلامی |  دعا کی قبولیت میں تاخیر کے اسباب
2022-10-26   1291

دعا کی قبولیت میں تاخیر کے اسباب

دعا انسان کا رب کے سامنےبندگی کا بہترین اظہار ہے اس کے ذریعے انسان یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ محتاج ہے اور اپنے پرودگار کی طرف دیکھ رہا ہے۔دنیا میں کوئی قوت و طاقت اللہ کے علاوہ نہیں ہے۔دعا انسان کی پاکیزگی کا اظہار ہے اور اس بات کا اعلان ہے کہ انسان اپنے مالک و خالق جو بڑی شان والا ہے اس کے سامنے انتہائی حقیر ہے۔

دعا اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ مخلوق ناتواں ہے اور اپنے خالق کی ہی محتاج ہے، ہر چیز خالق کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔انسان کو نفع اور نقصان پہنچانے کی قوت اللہ کے پاس ہے۔تمام امور کی بازگشت، رحمت اور لطف خدا کی طرف ہے جو پروردگارہے۔نبی اکرمﷺ اور اہلبیت ؑ کی یہ سیرت تھی کہ مومنین کو  اللہ کی عبادت کی تاکید کرتے اور رغبت دلاتے تھے بالخصوص دعا کے ذریعے اللہ کی عبادت کا حکم فرماتے۔

دعا کا عبادات میں خاص مقام ہے یہ عبد اور معبود کے درمیان  رابطہ ہے اور اس  سے یہ اظہار ہوتا ہے کہ عبد محتاج ہے اور معبود بے نیاز ہے۔اللہ تعالی نے ہر مومن کی دعا قبول کرنے کی ضمانت دی ہےاور وعدہ فرمایا کہ جو بھی دعا کرے گا اللہ اسے قبول کرے گا، یہ دعا کچھ بھی ہو سکتی ہے ہاں اس کی کچھ شرائط ضرور ہیں۔جب مومن دعا کرے اور دعا ظاہرا قبول نہ ہو تو مومن کو چاہیے کہ اس پر صبر کرے۔ایسا ہوتا ہے کہ اس دعا کے قبول نہ ہونے میں ہی بھلائی ہوتی ہے یا اس کے تاخیر سے قبول ہونے میں ہی بھلائی ہوتی ہے اور جلد قبول ہو تو اس میں بھلائی نہیں ہوتی۔دعا کرنے والے کو مایوس اور نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی نامید اور مایوس ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا ،ایسے لوگوں کو گمراہوں کی فہرست میں شامل فرماتا ہے ارشاد باری ہوتا ہے:

((قَالُواْ بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ (56) قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ))(سورة الحجر ـ 55 ـ 56)

 کہنے لگے: ہم نے آپ کو سچی خوشخبری دی ہے آپ مایوس نہ ہوں۔۵۶۔ ابراہیم بولے: اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

((قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ))(سورة الزمر ـ 53)

کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو بھلائی طلب کرنے پر ابھارا ہے اور اس میں کسی قسم کی ندامت اور شرمندگی اختیار کرنے سے روکا ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

((لا يَسْأَمُ الإِنسَانُ مِن دُعَاء الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُوسٌ قَنُوطٌ))(سورة فصلت ـ 49)

 انسان آسودگی مانگ مانگ کر تو تھکتا نہیں لیکن جب کوئی آفت آجاتی ہے تو مایوس ہوتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔

اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ کبھی بھی اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔دعا ایسی عبادت ہے جو انسان کو اس کے رب کے قریب کر دیتی ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ))(سورة البقرة ـ 186)

۱۸۶۔ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔

اللہ تعالی اس آیت مجیدہ میں ارشاد فرما رہا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے بہت قریب ہے اور ان کی دعا کو سنتا ہے۔جو لوگ دعا نہیں کرتے  انہیں مستکبر کہا گیا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

((وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ  إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ))(سورة غافرـ 60)

اور تمہارا رب فرماتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ از راہ تکبر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں یقینا وہ ذلیل ہو کر عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔

بعض اوقات نیک بندے بھی دعا کی قبولیت میں تاخیر پر پریشان ہوتے ہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ دعا کے قبول ہونے میں تاخیر ہو اس کی وجہ  دعا کرنے والے کے لیے اسی میں مصلحت کا ہونا ہے۔اسی طرح دعا قبول ہونے کے موانع کا ہونا ہے جیسے خدا کی نافرمانی وغیرہ

بعض اوقات دعا کے قبول نہ ہونے کی وجہ  دعا کرنے والے پر لطف ہوتا ہے  جیسے کوئی ہلاکت کی  دعا کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتی اور اس کی  وجہ پروردگار کا لطف ہوتا ہے۔

بعض اوقات دعا کی قبولیت میں تاخیر  کی وجہ  اللہ تعالی کا محتاج پر لطف ہوتا ہے جیسے  اللہ اس کے ذریعے اسے  توفیق دیتا ہے کہ  اس کا  اپنے رب سے تعلق مسلسل دعا کے ذریعے مضبوط ہو جائے۔یہ ایک بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالی انسان کو دعا کی توفیق عطا فرماتا ہے اور تاخیر کے ذریعےیہ بار بار دعا کر رہا ہوتا ہے اس سے اسے پروردگار کی قربت ملتی ہے۔اس لیے تاخیر ہوتی ہے کہ انسان پر دعا کے ذریعے جو توفیق ملی ہے اس سے خیر کا سلسلہ جاری رہے۔اس لیے ان کی دعا  کی قبولیت میں تاخیر ہوتی ہے جو اللہ کی نظر عنایت کے  حامل ہوتے ہیں جیسے  انبیاء،صلحاء اور اوصیاء کی دعا میں  تاخیر اسی وجہ سے ہوتی ہے۔

روایت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ صحرا میں نکلے تاکہ اللہ کی مخلوقات سے عبرت حاصل کر سکیں۔ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص صحرا میں نماز پڑھ رہا ہے اور اس کی آواز آسمان تک جا رہی ہےاور اس  کی ندا بصورت شعر ہے۔اللہ کے  نبی حضرت ابراہیمؑ کو اس کی آواز سے تعجب ہوا آپ اس کے پاس بیٹھ گئے تاکہ وہ نماز سے فارغ ہو جائے۔آپ نے اس سے کہا مجھے تیری عبادت نے متاثر کیا میں پسند کرتا ہوں کہ تمہارا دوست بن جاوں۔مجھے بتاو تمہارا گھر کہاں ہے تاکہ میں  جب چاہوں تم سے ملاقات کروں؟اس نے کہا آپ عبور کرنے پر قادر نہیں ہیں؟آپ نے پوچھا آپ کیسے عبور کرتے ہو؟اس نے جواب دیا  میں پانی  پر چل کر عبور کرتا ہوں۔حضرت ابراہیمؑ نے کہا جس خدا نے تجھے پانی سے عبور کرنے پر قدرت دی ہے وہ مجھے بھی اس کی قدرت دے گا۔آو ساتھ چلتے ہیں اور میں ایک رات آپ کے پاس رکوں گا۔اس شخص نے بسم اللہ پڑھی اور پانی کو عبور کر گیا حضرت ابراہیمؑ نے بھی بسم اللہ پڑھی اور پانی عبور کر گئے۔اس آدمی نے اس پر تعجب کیا اور دونوں اس  شخص کے گھر میں داخل ہو گئے۔اس آدمی سے حضرت ابراہیمؑ نے سوال کیا انسان پر سب سے مشکل دن کون سا ہے؟اس شخص نے کہا وہ دن جب اللہ تعالی اعمال کا حساب کرے گا۔حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا  آو اللہ سے دعا کرتے ہیں وہ ہمیں اس دن کے شر سے بچائے۔ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ  نے فرمایا آو اللہ سے دعا کریں کہ وہ  مومنین کے گناہوں کو معاف فرما دے۔اس عابد نے کہا میں  تین سال سے کسی چیز کے لیے دعا نہیں کرتا میں نے  ایک ضرورت کی تین سال پہلے دعا کی تھی مگر وہ قبول نہیں ہوئی ۔حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا جب بھی اللہ تعالی  کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کی دعاوں کی قبولیت کو روک لیتا ہے تاکہ وہ اللہ سے مناجات کرےاور اس سے مانگے۔جب اللہ کا دشمن دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی دعا کو فورا قبول کر لیتا ہے یا اس کے دل میں مایوسی پیدا کر دیتا ہے کہ وہ دعا ہی نہیں کرتا۔پھر حضرت ابراہیمؑ نے پوچھا تمہاری حاجت کیا تھی؟اس پر اس عابد نے کہا ایک دن میں ایک جگہ پر تھا وہاں ایسا بچہ دیکھا جو حسن و جمال میں بے مثال تھا،اس کی جبین سے نور پھوٹ رہا تھا،وہ جانوروں کو چرا رہا تھا۔نے اس سے پوچھا یہ جانور کس کے ہیں؟اس نے کہا میرے ہیں،میں نے پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں اسماعیل بن ابراہیمؑ خلیل اللہ  ہوں میں اسی وقت دعا کی کہ اے پروردگار میں تیرا خلیل دیکھنا چاہتا ہوں۔حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا اللہ نے تیری دعا کو قبول کر لیا ہے میں ابراہیمؑ ہوں۔اس پر وہ عابد بہت خوش ہوا  حضرت ابراہیم ؑ کے کندھوں کو ہاتھ لگایا اور  اور حضرت ابراہیم ؑ کا اکرام کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا پھر مومنین اور مومنات کے لیے دعا کی۔

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018