

| اسلام میں سیاست | صلاح اور اصلاح: اسلامی طرزِ حیات کی تشکیل کا اصول اور طریقہ کار

صلاح اور اصلاح: اسلامی طرزِ حیات کی تشکیل کا اصول اور طریقہ کار
تحریر: شيخ معتصم السيد أحمد
صلاح وہ بلند ترین مقصد ہے جس کی جستجو انسان ہمیشہ کرتا رہتا ہے، کیونکہ یہ وہ بنیادی اساس ہے جس پر تمام اخلاقی اقدار اور اصول استوار ہوتے ہیں جو انسان کو زندگی گزارنے میں راہنمائی اور مدد فراہم کرتے ہیں۔ پس ہر وہ فضیلت جو قابلِ قدر سمجھی جاتی ہے، حقیقت میں اپنی قدر و قیمت اسی صلاح سے حاصل کرتی ہے اور اسی کے حصول میں مضمر ہوتی ہے۔مثال کے طور پر، علم بذاتِ خود مطلوب نہیں ہوتا، بلکہ اس کی حقیقت تب مکمل ہوتی ہے جب وہ خیر، معرفت اور معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنے۔ عدل، جو تمام تر قوانین اور ضوابط کا ایک بنیادی اصول ہے، اس کی اصل قدر و قیمت اسی میں ہے کہ یہ صلاح کے قیام، عدل و انصاف کے فروغ اور انسانی زندگی میں توازن اور استقامت کے لیے ناگزیر وسیلہ بنے۔
اسی طرح، رحمت جو انسانی صفات میں سب سے اعلیٰ اور اہم سمجھی جاتی ہے، تب ہی اپنے حقیقی مفہوم کو پاتی ہے جب اس کے نتیجے میں ایسا معاشرہ تشکیل پائے جہاں باہمی ہمدردی، شفقت اور تعاون کی فضا قائم ہو، جو آخرکار سماجی اصلاح اور استحکام کا پیش خیمہ بنے۔
اسی تناظر میں، صلاح محض ایک انفرادی قدر نہیں بلکہ وہ اساسی جوہر ہے جس کے گرد تمام اخلاقی، سماجی اور نظریاتی اقدار گردش کرتی ہیں، اور وہ بنیادی مقصد ہے جس کے ذریعے تمام اصول و ضوابط کی تکمیل ہوتی ہے۔ انسانی وجود، خواہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی، جب کمال کے حصول کی جستجو کرتا ہے، تو درحقیقت وہ کسی اور شے کا نہیں بلکہ صلاح کا متلاشی ہوتا ہے، کیونکہ یہی وہ حالتِ اعتدال و توازن ہے جو اسے ایک باوقار، مستحکم اور بامقصد زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
چنانچہ، ہر اصلاحی عمل ناگزیر حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ کسی بھی فرد یا معاشرے کے لیے حقیقی سعادت اور استحکام کا حصول ممکن نہیں جب تک کہ اس کے فکری، عملی اور اجتماعی ڈھانچے کی بنیاد صلاح کے اصولوں پر استوار نہ ہو۔ یہ وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی بھی تہذیب کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے اور جس کی عدم موجودگی انتشار، زوال اور اخلاقی انحطاط کا سبب بنتی ہے۔چونکہ اصلاح، فساد کی ضد اور اس کے ساتھ مکمل تضاد رکھتی ہے، اس لیے انسانی حیات کی حرکت ہمیشہ اصلاح کی جانب ہونی چاہیے، کیونکہ فساد کی حتمی اور طبیعی نتیجہ تباہی اور زوال کے سوا کچھ نہیں، خواہ وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی۔ جو فرد یا معاشرہ صلاح اور اصلاح کے قیام کے لیے جدوجہد کرتا ہے، وہ نہ صرف دنیا میں حقیقی کامیابی اور فلاح کی راہ ہموار کرتا ہے بلکہ آخرت میں بھی دائمی سعادت اور اجر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ یہی اصول قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے:
(مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) (النحل/ 97)
ترجمہ: جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔
اسلام میں اصلاحی عمل کو محض انفرادی سطح پر اختیار کی جانے والی نیکی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ یہ اسلامی حیات و عمومی فلسفہ کی بنیاد ہے، جو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں اصلاح کے اصول سے مربوط ہے۔ چنانچہ اسلامی تصور کے مطابق، اصلاح محض ایک اخلاقی یا سماجی سرگرمی نہیں، بلکہ ایک فکری، اعتقادی اور عملی زندگی کی بنیاد ہے، جو فرد، معاشرہ اور تمدن کی تشکیل، ترقی اور استحکام کے لیے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔
اسی لیے قرآن مجید نے صلاح اور اصلاح کو محض زندگی سنوارنے کے ثانوی عناصر کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ انہیں دنیا میں پاکیزہ زندگی کی بنیاد اور آخرت میں ابدی نعمتوں کے حصول کا لازمی وسیلہ قرار دیا ہے۔ جو شخص اصلاح کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، وہ دنیا میں نہ صرف سکون، توازن اور استحکام کی دولت سے سرفراز ہوتا ہے، بلکہ آخرت میں بھی اپنے نیک اعمال کا کامل اور بابرکت صلہ پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ) (الشورى/ 22)
ترجمہ: ور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں وہ جنت کے گلستانوں میں ہوں گے، ان کے لیے ان کے رب کے پاس جو وہ چاہیں گے موجود ہو گا، یہی بڑا فضل ہے۔
چنانچہ اصلاح محض ایک عارضی طرزِ عمل یا وقتی تدبیر نہیں، بلکہ ایک جامع نظریۂ حیات ہے جو انسانی وجود کے روحانی اور مادی پہلوؤں میں توازن پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو انسان کو حقیقی سعادت سے ہمکنار کرتا ہے، ایک ایسی سعادت جو دنیا کی محدود اور فانی سرحدوں سے گزر کر ابدی حیات کی وسعتوں تک متصل ہو جاتی ہے۔ اسلامی تصور کے مطابق، اصلاح محض اخلاقی یا سماجی بہتری کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک فکری، عملی اور تہذیبی طور پر ضروری ہے جو نہ صرف فرد کے فکری و اخلاقی ارتقا کو یقینی بناتی ہے بلکہ اجتماعی سطح پر ایک صالح، مستحکم اور متوازن معاشرے کی تشکیل کا بھی بنیادی محرک بنتی ہے۔
اس بنیاد پر، انسان پر فرض ہے کہ وہ زمین پر صلاح کو قائم رکھے اور فساد کو پھیلنے سے روکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَلا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا) (الأعراف: 56)۔ اسی طرح، تمام انبیاء اور رسل کی بعثت کا مقصد انسانی معاشروں میں اصلاح کا قیام تھا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما:
(يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ) (الأعراف/ 35).
ترجمہ: اے اولاد آدم! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد) جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔
اسلام میں اصلاح کی شمولیت
اسلام میں اصلاح کا مفہوم اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک مکمل اور ہمہ گیر منصوبہ ہے جو کسی ایک پہلو تک محدود نہیں، بلکہ انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔ اصلاح کا آغاز فرد کی ذات سے ہوتا ہے، جہاں اسے اپنی روح کی پاکیزگی، اخلاق کی بہتری اور برے رویوں کی اصلاح کی ترغیب دی جاتی ہے، کیونکہ فرد ہی معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد اصلاح کا دائرہ خاندان تک پھیلتا ہے، جو معاشرے کی ابتدائی اور سب سے اہم اکائی ہے۔ خاندان کو محبت، رحمت اور تعاون کی بنیادوں پر استوار کیا جاتا ہے تاکہ یہ نیک نسلوں کی تربیت کا ذریعہ بنے۔ خاندان کی اصلاح کے بعد، اصلاح کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے، جس میں عدل، تعاون اور سماجی ہم آہنگی کی قدروں کو فروغ دیا جاتا ہے تاکہ معاشرہ مضبوط، مستحکم اور خوشحال ہو۔
یہ بات صرف اتنی حد تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اصلاح سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام کو بھی شامل کرتی ہے، کیونکہ زندگی ان شعبوں میں کسی بھی خرابی کا اثر افراد کی زندگیوں اور معاشرتی استحکام پر براہ راست پڑتا ہے۔ اس لیے اسلام کو صرف عبادات اور رسومات تک محدود نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ یہ ایک مکمل اصلاحی نظام ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو شامل کرتا ہے اور وہ اقدار، اصول اور حکمت فراہم کرتا ہے جو عدل اور خوشحالی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
اس لیے، سیاسی، اقتصادی اور سماجی اصلاحات کو صرف معمولی یا ثانوی تفصیلات یا اجتہادی مسائل نہیں سمجھنا چاہیے جنہیں آسانی سے نظرانداز کیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ اسلام کے بنیادی پیغام کے اہم حصے ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی کے طور پر آیا ہے جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو درست کرتا ہے۔ یہ ایسا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو عدل، انصاف اور استقامت پر مبنی ہو، اور انسان کی روح و جسم کی ضروریات، فرد کے حقوق و فرائض، فرد اور معاشرے کے تعلقات، اور دنیا و آخرت کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔اورکیونکہ اسلام صرف ایک عبادت یا مذہبی رسومات تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کا ایک جامع پیغام ہے جو انسان کو اس کے روحانی، اخلاقی اور سماجی پہلوؤں میں متوازن طریقے سے ترقی دینے کی کوشش کرتا ہے۔
شیعہ مکتبِ فکر میں اصلاح
شیعہ مکتبِ فکر میں اصلاح محض ایک سیاسی یا سماجی موقف نہیں بلکہ یہ ایک بنیادی عقیدہ اور اصولوں کا حصہ ہے جس پر مکتبہ اہل بیت علیہم السلام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اسلام کے ابتدائی دنوں سے ہی شیعہ ظلم و فساد کے خلاف جدوجہد کرنے والی اولین تحریکوں کا حصہ تھا، اس عقیدے کے ساتھ کہ اسلام کا مقصد عدل قائم کرنا اور انسانوں کی حالت کو بہتر بنانا ہے، نہ کہ یہ ظالموں اور طاقتوروں کے ہاتھوں ایک آلہ بن کر رہ جائے۔ اس لیے شیعہ اکابرین اور راہنماؤں کا جائرین اور ظالمین کے بارے میں موقف محض ایک سطحی یا ظاہری مخالفت نہیں تھا، بلکہ یہ اسلام کی اصل روح کا تسلسل تھا، جو فساد کو مسترد کرتی تھی اور حق کے اصولوں سے انحراف کو قبول نہیں کرتی تھی۔ اس کے نتیجے میں، شیعہ فکر ہمیشہ اصلاح کے راستے پر چلتی رہی، جو نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے کے فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں اصلاح کا پیغام
امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں اصلاح کا پیغام نہ صرف ایک سیاسی جدوجہد تھا، بلکہ یہ ایک مکمل اصلاحی منصوبہ تھا جس کا مقصد امت کو صحیح راستے پر واپس لانا تھا۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے انحراف اور معاشرتی ظلم نے امت کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ امام حسین علیہ السلام کی قیادت میں اصلاح کے لیے اٹھ کھڑی ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خروج کا مقصد واضح طور پر بیان کیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اقتدار کا حصول یا دنیاوی مفاد نہیں تھا، بلکہ ان کا اصل مقصد اصلاح تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے مشہور بیان میں فرمایا:وَ اِنّی لَمْ اَخْرُجْ اَشَرًا وَلاٰ بَطَراً وَلاٰ مُفْسِدًا وَلاٰ ظٰالِماً وَ اِنَّمٰا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی (ص) اُریدُ اَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَنْھٰی عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اَسِیْرَ بسیرَةِ جَدّی وَ اَبی عَلَیِّ بْنِ اَبی طٰالِبٍ۔
" میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ امت کی اصلاح کروں۔ میں اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں"۔یہ بیان امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے، جس کا مقصد ایک عالمی اور دائمی انقلاب تھا جو امت کی اصلاح کے لیے تھا۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک عدل، آزادی اور عزت کے اصولوں پر قائم تھی۔ انہوں نے اپنی قربانی سے اصلاح اور حق کے پیغام کو جلا بخشی، جو آج بھی دنیا بھر میں ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی اصلاح تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنے اصولوں اور اخلاقی ذمہ داریوں پر قائم رہتے ہوئے فساد اور ظلم کا مقابلہ کرے۔
یہ اصلاحی روح صرف امام حسین علیہ السلام کے دور تک محدود نہیں رہی، بلکہ ہر دور میں شیعی فکر میں جڑیں پکڑتی چلی گئی۔ "علوی انقلابات" کے طور پر جانی جانے والی تحریکیں بھی اسی اصلاحی عمل کا تسلسل تھیں، جو اہل بیت علیہم السلام نے شروع کیا تھا۔ شیعہ کبھی بھی اقتدار کے خواہشمند نہیں تھے، بلکہ ان کا مقصد ہمیشہ عدل اور انصاف کا قیام تھا۔ تاریخ کے ہر دور میں انہوں نے ایسے نظام کے قیام کی کوشش کی جو الہٰی اقدار اور بلند انسانی اصولوں پر مبنی ہو۔
جدید دور میں شیعہ اصلاحی روح کا تسلسل
عصر حاضر میں بھی شیعی معاشروں میں اصلاح کی یہ روح انتہائی فعال ہے، جہاں ہم انہیں سیاسی نظاموں کی اصلاح کی تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ معاشرتی انصاف کے قیام، اقتصادی بدعنوانی کے خاتمے اور سیاسی فساد کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ تمام کوششیں ان کے اس گہرے ایمان سے نکلتی ہیں کہ اسلام صرف عبادات تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو زمین پر عدل قائم کرنے، مظلوموں کی حمایت کرنے اور ہر میدان میں اصلاح کی کوشش کرنے کے لیے آیا ہے۔شیعہ صرف داخلی استبداد کے خلاف نہیں لڑ رہے ہیں، بلکہ وہ عالمی تسلط اور ان طاقتوں کے خلاف بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جو عوام کے حقوق چھیننے اور ان کی قسمت اور زندگیوں پر قابض ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ شیعہ نے ہمیشہ استعمار کے منصوبوں، بالخصوص عالمی صہیونیت کے خلاف مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا ہے، جو مسلم امت کی شناخت کو مٹانے اور اس کے حقوق کو چھیننے کے لیے سرگرم ہے۔ اس سلسلے میں، وہ ہمیشہ ان طاقتوں کے خلاف صف اول میں کھڑے ہوتے ہیں اور سر زمین کی آزادی، عزت کی حفاظت، اور کمزوروں کی حمایت کے لیے جانوں کی قربانیاں دیتے ہیں۔
خاتمہ
صلاح اور اصلاح صرف عارضی اور سطحی اقدار نہیں ہیں، بلکہ یہ اسلامی فلسفے کا بنیادی اصول ہیں جو دنیا و آخرت میں کامیابی اور خوشحال زندگی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ چونکہ فساد اور اصلاح ایک دوسرے کے مکمل مخالف ہیں، اس لیے انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیشہ اصلاح کی راہ پر چلے، چاہے یہ اصلاح اس کی اپنی ذات میں ہو یا معاشرے میں۔
انبیاء اور رسل علیھم السلام نے اصلاح کا پیغام دیا، اور ان کے پیروکاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر دور میں اس پیغام کو اپنائیں اور اس کی ترویج کریں۔ انہیں صرف جھوٹی نعرہ بازی یا ظاہری عبادات پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے جو حقیقت سے دور ہوں۔ اسلام کو اس وقت ہی سمجھا جا سکتا ہے جب اسے ایک مکمل تمدنی اور تہذیبی منصوبہ سمجھا جائے جس کا مقصد ہر شعبے میں اصلاح لانا ہو، تاکہ تمام انسانوں پر بھلا ئی اور عدل کا راج ہو۔