
| احکامِ اجتماعی | پردے کے مسئلے پر ہونے والی غلط فہمی کا تحقیقی جائزہ

پردے کے مسئلے پر ہونے والی غلط فہمی کا تحقیقی جائزہ
الشيخ مصطفى الهجري
حجاب اور شرعی پردے سے متعلق جاری معاصر مباحث کے درمیان ایک نیا شبہ سامنےآیا ہے، جسے جدید فکری رجحانات کے زیرِ اثر بعض افراد بڑی شدّت سے پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قرآن میں جس "حجاب" کا ذکر آیا ہے، اس سے مراد سر یا جسم کو ڈھانپنا نہیں، بلکہ صرف ایک ایسی رکاوٹ یا حد فاصل ہے جو مرد اور وعورت کے درمیان حائل رہے۔یہ لوگ چند مخصوص آیات کے محض لفظی مفہوم پر اکتفا کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کرتے ہیں، اور قرآن کریم کے وسیع تر سیاق، شانِ نزول اور شریعت کی گہری حکمتوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس نئے شبہے کا جائزہ لیں گے اور تحقیقی، معروضی اور علمی انداز میں اس کے پس منظر اور حقیقت کو واضح کریں گے۔
شبہ پیش کرنے والوں نے اپنی دلیل بعض مخصوص آیاتِ قرآنی پر قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جن میں سے ایک وہ آیت ہے جس میں امہات المؤمنین کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
﴿ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ احزاب:53
اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر طریقہ ہے۔
اس آیت مجیدہ میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ عبارت واضح طور پر ایک مادی پردے یا حائل کی طرف اشارہ کرتی ہے جو بات کرنے والوں کے درمیان کھڑا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ اس فرمان سے بھی دلیل لیتے ہیں جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بیان کیا گیا ہے: ﴿فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ﴾
تو کہا: میں نے خیر کی محبت میں اپنے رب کے ذکر کو اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ پردے میں چھپ گیا۔
اور وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہاں مفہوم کسی حائل کے پیچھے اوجھل ہونے یا نظر نہ آنے سے متعلق ہے۔
اس ظاہری فہم کی بنیاد پر وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن میں لفظ "حجاب" کا عورت کے بال یا جسم کو ڈھانپنے کے وجوب سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ عورت کے پردے کے بارے میں قرآنی آیات سے جو حکم لیا جاتا ہے وہ محض اللہ کے کلام پر بے بنیاد تہمت ہے۔
ہم جواب کے طور پر کہتے ہیں:
اوّل: براہِ راست استدلال نہ ہونا
پہلی حقیقت جس کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں فقہاء نے شرعی پردے کے وجوب کو ثابت کرنے کے لیے مکانی حجاب والی آیات پر استدلال کی بنیاد نہیں رکھی۔ بلکہ انہوں نے قرآن کریم کی دوسری صریح اور واضح آیات سے استدلال کیا ہے، جیسے سورۃ النور اور سورۃ الأحزاب کی وہ آیات جو جلباب اوڑھنے اور زینت ظاہر نہ کرنے کا حکم دیتی ہیں، سوائے اس کے جو ظاہر ہو جائے۔ پس حجاب کے شرعی حکم کا استدلال صرف لفظ "حجاب" کی لغوی تشریح پر قائم نہیں بلکہ نصوصِ شرعیہ اور اجماع پر مبنی مکمل دلائل کے مجموعے پر ہے۔ ہم ان آیات کو ذکر کرتے ہیں جن آیات سے فقہاء نے سترِ عورت کے وجوب پر استدلال کیا ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا) الأحزاب: 59
اے نبی! اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہدیجئے: وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
(وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ) النور: 31
اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں، آبا، شوہر کے آبا، اپنے بیٹوں، شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں، اپنی (ہم صنف) عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورت کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں، اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ) النور: 60
اور جو عورتیں (ـضعیف العمری کی وجہ سے) خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لیے اپنے (حجاب کے) کپڑے اتار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والیاں نہ ہوں تاہم عفت کا پاس رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ بڑا سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔
دوسرا: شرعی حکمت کا اخذ کرنا
مکانی حجاب کے لفظی معنی پر رک جانا قرآن کریم کی درست تفہیم نہیں بلکہ ایک علمی کمی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا (سوراحزاب:53)
اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے اور نہ ہی پکنے کا انتظار کرو، لیکن جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے بیٹھے نہ رہو، یہ بات نبی کو تکلیف پہنچاتی ہے مگر وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں لیکن اللہ حق بات کرنے سے نہیں شرماتا اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر طریقہ ہے تمہیں یہ حق نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو، بتحقیق یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔
اس آیت مجیدہ سےشرعی حکمت واضح ہوتی ہےیعنی دلوں کو آلودگی اور شبہات سے پاک کرنا اور شیطان کے وسوسوں سے بچانا۔ یہ الہیٰ حکمت صرف مرد اور عورت کے ایک مخصوص تعامل تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عمومی اصول ہے جو تمام سماجی روابط پر نافذ ہوتا ہے۔ منطقی سوال یہ ہے کہ اگر صرف مکانی پردہ مرد و عورت کے درمیان تعلقات میں دلوں کی پاکیزگی کے لیے کافی ہے تو براہِ راست نظر آنا اور مسلسل اختلاط کی صورت میں کیا ہوگا؟ کیا ذاتی پردہ پہننا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیادہ مناسب اور واجب نہیں؟
تیسرا: حکم کی جامعیت
یہ کہنا کہ مکانی حجاب کا حکم صرف نبی ﷺ کی زوجات تک محدود ہے، اسلامی شریعت کی فطرت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ ذکر کردہ حکمت یعنی دلوں کی پاکیزگی، ایک عمومی انسانی ضرورت ہے جو کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ بلکہ عام مؤمن خواتین کو اس حفاظت کی زیادہ ضرورت ہےکیونکہ انہیں وہ خصوصی تربیت حاصل نہیں تھی جو نبی ﷺ کی زوجات کو گھرِ نبوت میں ملی تھی۔یہاں ہی شرعی حکمت کے استدلال کی قوت ہے: شرعی منطق کے مطابق، جو چیز سب سے کامل اور پاک کی حفاظت کے لیے مشروع کی گئی ہے، وہ زیادہ ضرورت رکھنے والوں کی حفاظت کے لیے اور بھی زیادہ واجب ہے۔
چوتھا: شرعی تکامل
حقیقت یہ ہے کہ مکانی پردہ اور ذاتی پردہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر شرعی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ دونوں کا مقصد معاشرے کو فتنے سے بچانا، دلوں کو گناہ سے محفوظ رکھنا اور انسانی تعلقات کو احترام اور پاکیزگی پر قائم رکھنا ہے۔ بصیرت رکھنے والے فقہاء صرف لفظی ظاہری معنی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ نصوص کی گہرائی میں جا کر ان سے حکمتیں اور کلی مقاصد اخذ کرتا ہے۔
خلاصہ
مرد و وعورت کے مابیں مکانی حجاب یا حد فاصل کا شبہ اس سطحی مطالعے کی مثال ہے جو اسلامی شریعت کی گہرائی اور حکمت کو نظر انداز کرتا ہے۔ شرعی حجاب صریح اور واضح نصوص سے ثابت ہے اور مکانی حجاب والی آیات سے استناد محض توثیق اور تقویت کے لیے ہے، بنیادی دلیل کے طور پر نہیں ہے۔ شریعت کی صحیح تفہیم کے لیےدقتِ نظر کی ضرورت ہے جو نصوص اور مقاصد کو یکجا کرے، احکام اور حکمتوں کو جوڑے اور الہیٰ پیغام کے سیاق کو مدنظر رکھے۔


