20 ذو الحجة 1446 هـ   17 جون 2025 عيسوى 7:07 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | تاریخِ اسلامی |  اسلامی فتوحات: دینی جواز یا سیاسی محرکات
2025-05-24   167

اسلامی فتوحات: دینی جواز یا سیاسی محرکات

الشيخ معتصم السيد أحمد

بعض لوگوں نے (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور کے بعد عہد خلفاء میں ہونے والی )اسلامی فتوحات کو ایک دینی ضرورت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ان فتوحات کا مقصد صرف دین کی تبلیغ تھا اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان فتوحات کا صرف دینی محرک دین کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے اخلاقی جواز فراہم نہیں کرسکتا۔ کیونکہ قرآنی طرز تفکر میں دعوت کا طریقہ حکمت، اچھی نصیحت اور بہترین انداز سے بحث و مباحثے پر مبنی ہے:﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں) النحل :125(اس میں پرامن علاقوں پر حملے کرنے، لوگوں کے وسائل پر قبضہ کرنے، اور ان کے مردوں اور عورتوں کو غلام بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔

لہٰذا ان اسلامی فتوحات کو صرف سیاسی نقطۂ نظر سے ہی سمجھنا ضروری ہے، اگرچہ ان فتوحات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام ان مفتوحہ علاقوں میں پھیل گیا، مگر بہر حال یہ بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان جنگوں کے پیچھے صرف سیاسی محرکات ہی کارفرما تھیں، اور اسلام بطور مذھب ہرگز ان زیادتیوں کا ذمہ دار نہیں جو ان فتوحات کے دوران یا بعد از فتح انجام دئے گئے ۔

اس طرح ہمیں اس تاریخی تجربے کا دفاع ایک دینی عمل کے طور پر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ یہ ایک سیاسی اقدام تھا جس کی ذمہ داری اس وقت کی سیاسی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات کے بعد پیش آنے والے واقعات کی منطقی تفسیر اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے سیاسی خواہشات کارفرما تھیں۔ یہ کوئی عقیدتی اختلاف یا نظریاتی و فکری کشمکش نہیں تھی۔ سقیفہ کے واقعے سے لے کر جنہیں "حروبِ ردة" (ارتداد کی جنگیں) کہا جاتا ہے، اور پھر فتوحات کے آغاز تک، ان سب کا اصل محرک اقتدار، سیاسی مفادات اور نفوذ کی خواہش تھی۔لہذا اس دور میں جو کچھ ہوا، اسے صرف سیاسی تجزیے کے تناظر میں ہی سمجھا جاسکتا ہے، جو ان تمام واقعات کو اقتدار کی کشمکش سے جوڑتا ہے۔ مسیلمہ ربیعہ کا نبی، طلیحہ مضر(قبیلہ مضر) کا نبی، اور اسود عنسی  یمن کا نبی کہلاتے تھے، اور وہ نبوت کو حکومت و سلطنت کے طور پر سمجھتے تھے۔ یہ رجحان رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد اور زیادہ بڑھ گیا۔ نئی تحریکیں سامنے آئیں، دیگر قبائل نے بھی ان کا ساتھ دینا شروع کیا، اور مدینہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی، اس بنیاد پر کہ قریش نے دعویٰ کیا کہ حکومت صرف انہی کا حق ہے اور محمد (ص) کی خلافت میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں۔

یہ دعویٰ سن کر تمام قبائلِ عرب نے دوبارہ اپنے پرانے اتحادوں کی طرف رجوع کیا اور مدینہ میں قائم نو زائیدہ ریاست کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن گئیں۔ ایسی صورتحال میں نئی حکومت کے پاس ان تحریکوں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا، چنانچہ وہ جنگیں ہوئیں جنہیں "حروبِ ردة" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی مسئلے کا جو سیاسی، معاشی یا قبائلی سماجی عادات و تقالید میں اپنی جڑیں رکھتا ہو، اس کا حتمی حل صرف عسکری راستے سے ممکن نہیں ہوتا۔ جنگ انسانی نفس میں موجود جمی ہوئی خواہشات اور لالچ کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر آج کسی قبیلے کو شکست دے دی جائے، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ دوبارہ خود کو منظم کر کے حرکت میں نہیں آئے گا۔ انسان ایک ہی رات میں فرشتے نہیں بن جاتے اسی لئے ہمیشہ فوجی دباؤ کی پالیسی پر انحصار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اسلامی لشکر کوئی منظم فوج نہ تھا جن کے پاس جزیرۂ عرب میں باقاعدہ کیمپ اور مضبوط اڈے ہوں، لہٰذا ان قبائل کی حرکات پر مسلسل نظر رکھنا مشکل تھا جو اقتدار اور دولت کے لیے متحرک تھیں۔ اس طرح جزیرۂ عرب کبھی پُرامن نہ ہوتا جب تک کہ اس کے لیے نئے افق اور نئی سرزمینیں نہ کھولی جاتیں جو اس کی جغرافیائی حدود سے باہر ہوں، اور جو وہاں کے روایتی باہمی جھگڑوں سے ہٹ کر ہوں۔

لہٰذا بہترین راستہ یہی تھا کہ نئی قائم شدہ حکومت کو بیرونی علاقوں پر حملوں اور فتوحات کی ترغیب دی جائے۔ چاہے اس راستے کی شرعی حیثیت کچھ بھی ہو، لیکن سیاسی اعتبار سے یہ ایک اسٹریٹیجک فیصلہ تھا، جو قبائل کو ایک نئے مشترکہ ہدف پر مجتمع کرتا، عربوں کی جنگی صلاحیتوں کو نئی اور غیر روایتی کامیابیوں کی طرف موڑتا، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے اقتدار کو وسعت دیتا اور ان کے لیے نئے ذرائع آمدن اور دولت کا حصول ممکن بناتا۔ ان تمام سیاسی مفادات کو مذہبی نعروں کے ذریعے بآسانی جواز دیا جا سکتا تھا۔

یہ سیاسی زاویہ اس تاریخی دور میں ذہنوں سے اوجھل نہ تھا۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن عامر، خلیفہ عثمان بن عفان کو ان کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کو دبانے کے لیے یہ مشورہ دیتا ہے:"اے امیرالمؤمنین! میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں جہاد کا حکم دیں تاکہ ان کی توجہ آپ سے ہٹ جائے، اور انہیں فتوحات کی مہمات میں مصروف رکھیں، یہاں تک کہ وہ آپ کے مطیع ہو جائیں اور ان میں سے ہر ایک کی ساری توجہ صرف اپنی سواری کے زخم اور اپنے لباس کے جوؤں پر مرکوز رہے..."(تاریخ طبری، جلد 2، صفحہ 643)

فتوحات کا آغاز اور اس کے سیاسی محرکات

بلاذری نے فتوح البلدان میں روایت کیا ہے:

"کہا جاتا ہے کہ جب ابوبکر اہلِ رِدہ کے معاملے سے فارغ ہوا، تو انہوں نے شام کی طرف لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے مکہ، طائف، یمن اور نجد و حجاز کے تمام عرب قبائل کو جہاد کی دعوت دینے کے لیے خطوط لکھے، اور انہیں جہاد اور رومیوں کی غنیمتوں کی رغبت دلائی۔ لوگ جلدی سے دوڑے چلے آئے، کچھ خالص نیت سے اور کچھ مالِ غنیمت کی لالچ میں، اور ہر طرف سے مدینہ پہنچے۔ ابوبکر نے تین افراد کے لیے تین جھنڈے باندھے"۔(فتوح البلدان، بلاذری، جلد 1، صفحہ 128)

طبری نے روایت کیا ہے کہ: خالد بن ولید نے عراق کی فتح سے پہلے قبائل کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:"کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ کھانے کی فراوانی مٹی کی طرح پڑی ہے؟ قسم بخدا، اگر ہم پر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور اس کی طرف بلانا فرض نہ بھی ہوتا، اور صرف معاش کی بات ہوتی، تب بھی ہماری رائے یہی ہوتی کہ ہم اس سرزمین (عراق) کے لیے جنگ کریں، یہاں تک کہ ہم اس کے سب سے زیادہ مستحق ہو جائیں، اور بھوک و محتاجی اُن کے حصے میں آئے جو اس سے گریزاں ہیں اور جو تمہارے اس  جذبے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ (تاریخ طبری، جلد 2، صفحہ 255)

یہ تمام شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فتوحات ایک سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے کی گئیں۔ عراق کی فتح کے ابتدائی اقدامات حروبِ ردہ کے خاتمے کے بعد شروع ہوئے۔ مسلمانوں نے خود کو عراق کی سرحدوں پر پایا، کیونکہ مثنى بن حارثہ شیبانی مرتدین کے پیچھے ان کا تعاقب کرتے ہوئے جنوبی عراق میں داخل ہو چکا تھا۔ انہوں نے ابوبکر سے وہاں جنگ کی اجازت مانگی، اور یہ بھی درخواست کی کہ انہیں اپنی قوم کا سپہ سالار بنایا جائے تاکہ وہ اہلِ فارس سے قتال کر سکیں۔ چنانچہ انہیں وہ اجازت اور اختیار دے دیا گیا۔

پھر ابوبکر نے خالد بن ولید کو، جو اس وقت یمامہ میں موجود تھے، خط لکھا کہ وہ عراق کی طرف روانہ ہوں اور فارس (ایرانیوں) سے جنگ کریں، اور اس مہم کا آغاز "أبُلّة" (عراق کا ایک شہر) سے کریں۔ اسی طرح انہوں نے عیاض بن غنم کو بھی، جو اُس وقت "الفراض" (بصرہ اور یمامہ کے درمیان ایک مقام) میں تھے، خط لکھا کہ وہ عراق کے بالائی علاقے سے حملہ کریں، اور "المصیخ" سے آغاز کریں یہاں تک کہ خالد سے آملیں۔ حکم یہ تھا کہ جو بھی پہلے "حِیرة" (عراق کا مرکزی شہر) پہنچے، قیادت اُسی کے ہاتھ میں ہوگی۔یوں فتوحات کا سلسلہ خلفاء کے دور میں جاری رہا یہاں تک کہ اسلامی سلطنت جزیرۂ عرب سے بڑھ کر شام اور قفقاز تک شمال میں، مصر سے لے کر تیونس تک مغرب میں، اور ایرانی سطح مرتفع سے لے کر وسطی ایشیا تک مشرق میں پھیل گئی۔ اس طرح اسلامی ریاست نے ساسانی فارس کی مکمل سرزمین اور بازنطینی سلطنت کی تقریباً دو تہائی زمینیں اپنے دائرے میں شامل کر لیں۔

اس بنا پر جو کچھ غلامی و بندگی کے نام پر ہوا، جو کچھ لونڈیوں کے ساتھ بے راہ روی، عیاشی اور ظلم و ستم ہوئے، جو کچھ آہیں اور سسکیاں بلند ہوئیں - یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ اسلام ان علاقوں میں تلوار کے ذریعے پھیلایا گیا، نہ کہ حکمت و بصیرت سے۔ اگر دعوت کا کام قتل و غارت، جلاوطنی اور زبردستی کے بجائے، بات چیت، خیر خواہی اور مدد کے ذریعے ہوتا، تو یہ ظلم و ستم نہ ہوتے۔ جو مال و دولت مسلم حکمرانوں اور خلفاء کے قدموں میں ڈھیر ہو گئی، وہ دراصل ان مظلوم اقوام کی دولت تھی۔ یہ دولت مسلمانوں کے ہاتھوں میں اکٹھی ہوتی گئی، اور جنگی کمانڈروں اور امراء کی ایک مراعات یافتہ اشرافیہ وجود میں آ گئی۔ یہاں تک کہ ابتدائی صحابہ کرام بھی اس ماحول سے متاثر ہوئے اور ان میں سے بعض مال و اقتدار کے مالک بن بیٹھے۔

جو شخص جزیرۂ عرب کی معاشی حالت کا مطالعہ کرے گا، وہ جان لے گا کہ وہاں کی زندگی کتنی سخت اور مشکل تھی۔ قبائل کی معیشت عموماً مویشی پالنے، غارت گری، اور مالداروں کے تجارتی قافلوں کی حفاظت پر منحصر تھی۔ لیکن اگر ہم اسلامی فتوحات کے بعد پیدا ہونے والی دولت و ثروت کا جائزہ لیں، تو ہمیں اس قدر بڑے معاشی تغیر پر حیرت ہو گی۔ یہی بات ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس تاریخی واقعے کو سادہ لوحی سے نہ دیکھیں، اور یہ نہ سمجھیں کہ تمام فاتحین فرشتے تھے، بلکہ اکثر نے ان فتوحات میں مادی مفادات کے حصول کے لیے حصہ لیا۔

خاص طور پر جب یہ فائدے بہت آسانی سے حاصل ہو رہے تھے، کیونکہ ساسانی (فارس) اور رومی (بازنطینی) سلطنتیں تیزی سے زوال پذیر تھیں۔ مسلمان ایسی سرزمینوں میں داخل ہوئے جو عظیم تہذیب، وافر ذخائر، ہموار میدانوں، کھیتوں، غلوں، گھوڑوں، مویشیوں اور بے شمار خزانوں سے مالا مال تھیں۔ ان سلطنتوں کے پاس نہ صرف زبردست دولت تھی بلکہ بازار، محلات، زیورات اور قیمتی اشیاء سے بھرے ہوئے خزانے بھی تھے۔

حبیب بن صُهَبان کہتے ہیں:

"جب ہم مدائن میں داخل ہوئے، تو ہم ترکوں کے قبے نما خیموں کے پاس آئے جن میں سیسے سے مہربند ٹوکریاں بھری ہوئی تھیں۔ ہم سمجھے کہ یہ کوئی کھانے پینے کا سامان ہے، لیکن وہ سب سونے چاندی کے برتن تھے۔ اور قصرِ کسریٰ میں موجود دراہم (چاندی کے سکے) کی تعداد تین ہزار ملین (تین ارب) تھی۔"(تاریخ طبری، جلد 4، صفحہ 17)

اور عبیداللہ بن محفّز اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:"میں ان پہلے لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے دریائے دجلہ عبور کیا اور مدائن میں داخل ہوئے۔ وہاں مجھے ایک مجسمہ ملا، اگر وہ بنو بکر بن وائل میں تقسیم کیا جاتا، تو پورے قبیلے کے لئے کافی ہوتا ۔ کیونکہ وہ قیمتی جواہرات سے آراستہ تھا۔"(تاریخ طبری، جلد 4، صفحہ 26)

اگر ہم ان سیاسی و معاشی فوائد کی تفصیل میں جائیں جو اس وقت کی سیاسی حکومت نے حاصل کیے، جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے، تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ لہٰذا اگرچہ اسلامی فتوحات کے نتیجے میں یہ تمام علاقے اسلام میں داخل ہو گئے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ فتوحات کسی اسلامی اصول پر مبنی تھیں۔ حتیٰ کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ خلفاء کی نیتیں اللہ کی راہ میں دعوت کے لیے خالص تھیں، تب بھی محض نیت کی درستگی ان فتوحات کے ساتھ ہونے والی غلطیوں اور زیادتیوں کو درست نہیں کر سکتی۔

اسی بنیاد پر ہم ان جہادی گروہوں کے عمل کی مذمت کرتے ہیں جو اپنے آپ کوبے گناہوں کو قتل کرنے، انہیں ہجرت پر مجبور کرنے، اورمختلف مقامات پر بم دھماکے کرنے کا حق صرف اس لیے دیتے ہیں کہ ان کی نیت شرعی قانون نافذ کرنے کی ہے۔ چونکہ ان کا عمل ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہے، چاہے ان کی نیت کتنی ہی "خالص" کیوں نہ ہو، اسی طرح ہمیں ابتدائی اسلامی فتوحات کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھنا چاہیے، کیونکہ وہ بھی غلبہ، غلام بنانے، اور دوسروں کی جائیدادیں ضبط کرنے پر مشتمل تھیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی دعوت اور تبلیغ ایک الگ چیز ہے، اور ہم اس پر کوئی تنقید نہیں کر رہے۔ درحقیقت، ان فتوحات اور اسلام کی پرامن دعوت کے درمیان کوئی حقیقی ربط موجود نہیں۔ اگر ہم اسلامی فتوحات کو دین کی دعوت سے الگ کر دیں، اور تبلیغ کو اس کے جائز اور شرعی دینی دائرے میں رکھیں، تو پھر ان فتوحات کے لیے جو نقشہ بنتا ہے، وہ سراسر سیاسی اور عسکری نوعیت کا ہے - جس کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اسلامی فتوحات کے نتیجے میں اسلام پھیلا اور جغرافیائی وسعت بھی حاصل ہوئی، لیکن یہ فتوحات محض دین کی تبلیغ کا ذریعہ نہیں تھیں، بلکہ وہ سیاسی کشمکش کا حصہ تھیں جن پر اقتدار اور نفوذ کی نظریاتی چھاپ تھی۔ان واقعات کی درست تفہیم اس وقت ممکن ہے جب ہم ان سیاسی محرکات کو مدنظر رکھیں جو اُس زمانے کے سماجی و معاشی حالات سے جنم لے رہے تھے۔لہٰذا ان فتوحات کے دوران جو زیادتیاں اور ظلم روا رکھے گئے، ان کو دین کے نام پر ہرگز جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں اسلامی دعوت کے پرامن اور دینی عمل کو ان سیاسی مفاداتی جنگوں سے الگ کرنا چاہیے جو صرف اقتدار کے حصول کے لیے لڑی گئیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018