19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 5:03 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | تاریخِ اسلامی |  تاریخ ،ضرورت و اہمیت اور معتدل رائے
2021-12-18   2630

تاریخ ،ضرورت و اہمیت اور معتدل رائے

تاریخ نے حال اور ماضی کے درمیان ایک مشکل بحث کی شکل اختیار کر لی ہے،زیادہ وضاحت کے ساتھ کہیں تو کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں موجودہ زمانے میں ماضی کے بارے میں کوئی رائے نہیں دینی چاہیے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو ماضی میں ہی رہتے ہیں اور اس سے الگ ہونا ہی نہیں چاہتے۔ یہاں ہماری تاریخ سے مراد وہ تاریخ ہے جو ماضی میں گزر چکی ہے مگر اس کے ہمارے موجودہ زمانے پر بہت زیادہ اثرات ہیں جو مادہ تقدم یعنی پہلے سے ہے۔ایسا کوئی انصاف پسند نہیں ہے جو ماضی سے سبق لیتے ہوئے مستقبل نہ بنانا چاہتا ہو بالخصوص جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز کا کوئی نا کوئی ماضی ہے اور تاریخ جدید زمانے میں اثرات رکھتی ہے۔

اس کو ذرا تفصیل سے جانتے ہیں ہم آج فکری طور پر جو کچھ بھی جانتے ہیں اور جو ثقافت بھی ہمارے پاس ہے چاہے ہمارا تعلق دنیا کے کسی بھی معاشرے سے ہے یہ سب کچھ ماضی کی دین ہے۔بعض اوقات یہ ماضی بھی ماضی بعید ہوتا ہے،انسانی تجربات نسلوں کو منتقل ہوتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں اور یہ تجربات وہ خزانے ہوتے ہیں جن سے ایک کے بعد ایک نسل فائدے اٹھاتی ہے اور یہ سلسلہ ابتدائے خلقت سے چل رہا ہے اور آج تک قائم ہے۔

ہم تک تاریخ روایت کے ذریعے پہنچتی ہے اگر زیادہ واضح انداز میں کہیں تو تاریخ سے ہمیں واقعات کا پتہ چلتا ہے یا تو یہ لکھے ہوئی صورت میں ہوگا یا کسی نے بتایا ہو گا ،اب اس میں جستجو کرنے اورا س پر غور و فکر کرنے اور اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ہم اس پر غور و فکر سے تاریخ میں تضادات کو تلاش کرتے ہیں اور جو کچھ ہوا ہوتا ہے اس کی چھان بین کرتے ہیں پھر ہم سیکھتے ہیں کہ وہ کیسے مشکل حالات سے نکلے،کیسے مشکلات کو روکا ،کیسے اچھائی کو بڑھایا؟ اور اگر ہم تاریخ نہ پڑھتے تو ہم کوئی سبق حاصل نہیں کر سکتے تھے اس کے ذریعے ہم حکمت کو حاصل کرتے ہیں اور حکمت ہی عقل مند کی ساری میراث ہے۔

ہماری ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان کو جواب دیں جو یہ کہتے ہیں کہ تاریخ کا کوئی فائدہ نہیں اور ماضی میں پڑے رہنے سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہتر یہ ہے کہ پہلوں کو چھوڑ دیا جائے اور ان پر توانائیاں صرف نہ کی جائیں انہوں نے جو کہا یا جو کیا اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔کچھ بات ہم ان سے بھی کریں گے جو ماضی سے قطع تعلق کرنے چاہتے ہیں اور ماضی کے واقعات کو فتنہ اور فساد سمجھتے ہیں۔

ہم ان کی بات کو ناقابل قبول سمجھتے ہوئے رد کرتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ حقیقت پسندانہ بات کی جائے ،حقیقت کو جاننے کے لیے اصول بنائے جائیں اور اسے ہر طرح کے جھوٹ و تہمت سے پاک رکھا جائے کیونکہ جھوٹ و تہمت تو عقل کو گمراہ کر دیتے ہیں۔ماضی کوئی فتنہ نہیں ہے جیسا بعض لوگوں نے کہا ہے۔یہ ایک فکری اور عاقلانہ عمل ہے اس کا مقصد قوم کو تقسیم کرنا ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی حالت میں یہ عوام کی رائے کو مسخ کرتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو ماضی کے واقعات کا چھپانا حقیقت کو محو کر دیتا ہے۔ماضی کو بیان کر کے جو حقیقت چھپائی جاتی ہے یہ حق و حقیقت سے دور کر کے اس سے زیادہ نقصان کرتی ہے جو بتانے سے نہ ہوتا۔ہم یہ سب صرف تاریخ کی بات کر رہے ہیں دین کی تاریخ کی کیا بات کی جائے؟ لوگ انبیاء اور رسولوں کے بارے میں مختلف اور مخالف نظریات رکھتے ہیں جو ان کے نظریات سے مطابقت رکھتا ہے اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ درست ہے اور موجودہ زمانے کے لیے مفید ہے۔خاص طور پر بعض اوقات ان نظریات میں تصادات پائے جاتے ہیں جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس لیے ہمیں تاریخ کے بارے میں ایک نئی تفہیم کی ضرورت ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے تاریخ اور واقعات کو غلط انداز میں لکھا جس سے سچائی تبدیل ہوئی ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے کہ انہوں نے ایسی بات کیوں کی؟ جو حق اور حقیقت سے دور تھی۔ہاں حق حقیقت کا پیرو ہوتا ہے اور حق وہی ہے جس کے لیے انبیاء اور رسول بھیجے گئے اور جس راستے پر صالحین کے قافلے چلے ،جس حق پر چلنے کی وجہ سے ان کا پاکیزہ خون بہایا گیا اور انہیں ذبح کیا گیا۔

حق اور حقیقت دونوں دین کے لیے بہت اہم ہیں۔عقل یہ کہتا ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے مرسلین کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ حق و حقیقت کو صاحبان عقل و بصیرت کے لیے بیان کریں ۔اگر یہ حق و حقیقت بیان نہیں ہوئی اس سے ان لوگوں کی بات کو تقویت ملے گی جو تاریخ کو مکمل طور پر ترک کرنا چاہتے ہیں اور اس سے سچائی بھی پوری طرح واضح نہیں ہو گی اللہ تعالی ایسا نہیں چاہتا کہ معاشرتی ترقی اور ایک کے بعد دوسری نسل کو منتقل نہ ہو۔

ہمارا اس پوری گفتگو سے فقط ایک ہی مطلب ہے کہ حقیقت کے بارے میں بحث کی جائے وہ حقیقت جس کی دعوت دی گئی ہے اور وہ حقیقت جو ان سے نقل ہوئی ہے جن سے ہمارے لیے بہت سے دینی مفاہیم بھی نقل ہوئے ہیں۔ہمارے سامنے ایسے بہت سے افراد کے نمونے موجود ہیں جنہوں نے ہمارے لیے ایسی تاریخ نقل کی ہے کہ اگرچہ وقت نے ان پر کافی دھول جمع کر دی مگر اس کے باوجود جو کچھ انہوں نے نقل کیا ہے اس کی وجہ سے انہیں کوڑے مارتے۔کچھ لوگوں نے نبی اکرم پر جھوٹ اور بہتان باندھتے ہوئے باتیں نقل کی ہیں ان میں کچھ وعظ کرنے والے ایسے بھی ہیں جنہوں نے سلاطین کے لیے جھوٹ باندھے یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ایسے ایسے جھوٹ باندھے کہ اصل حقیقت ہی ختم ہو گئی او رلوگ بھٹک گئے۔

اگر ہم حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں بڑی سمجھداری سے تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا،پھر اس میں موجود تضادات کی تحقیق کرنا ہو گی اور اس میں اہم ترین چیز یہ ہے کہ نتائج میں بہت سے مقدس سمجھے جانے والوں کا تقدس ختم ہو جائے گا کیونکہ یہ روشن ہو جائے گا کہ یہ تقدس سے اور تقدس ان سے دور ہے۔ممکن ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں ایسے مفاہیم کو جان سکیں جب اسلام خالص واضح اور آشکار ہو جائے گا اور تاریخ یہ واضح کرے گی کہ اموی اور عباسی خلفا میں سے کونسے اہل جہنم ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو ان کے ساتھ ظلم و جبر میں شرکت کی وجہ سے جہنمی ہیں حجاج جیسے لوگ۔

جی ہاں ،سچائی کا ایک معیار قائم ہونا چاہیے اوراس کے مطابق سب کو تولا جائے۔تاریخ سے سچائی کی تلاش کی جائے اور اس سے حق و سچ کا پوچھا جائے۔ تاریخ سے پوچھا جائے کہ اسلام کی انتہا پسند تعبیر کس نے پیش کی؟ اور اس میں ابن تیمیہ اور عبدالوہاب کیا کردار ہے؟ اور یزید اور یزید جیسوں نے کیا کیا ہے؟یہاں ہمیں پتہ چلے گا کہ کچھ شخصیات کو تقدس کا لباس پہنا دیا گیا اور وہ اس تقدس کے اہل نہیں ہیں ان کو بہت مقدس عناوین دے دیے گئے ہیں جیسے عالم،ثقۃ الاسلام اور وہ اس کے اہل ہرگز نہیں ہیں اور یہ تو حقیقت کو ختم کرنے والی بات ہے۔کچھ تو ایسے بدبودار اور بھیانک چہرے ہیں جن کو چھپائے نہیں چھپایا جا سکتا۔ان کو اسلامی تقدس میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ان کو چھپانا ممکن نہیں ہے،یہ لوگ ایسے بدکردار کہ ان کی جگہ تاریخ کا کوڑا دان بھی نہیں ہے۔

کچھ لوگوں کی تاریخ میں خاموشی نے ایسے لوگوں کے بھیانک چہروں پر پردہ ڈالے رکھا اور انہوں نے اسلام کی وہ تصویر پیش کی جس کا حقیقی اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا اور یہ گزرے زمانے میں ہوا۔یہ طاقتور گروہ تھا اور یہ حق کے بیان کرنے سے خاموش رہا ،انہوں نے ان منکرین کا پردہ چاک نہیں کیا اور یہ لوگ آج بھی مذہب کے نام پر ہمارے درمیان موجود ہیں۔یہ لوگ عام انسانوں کا قتل عام کرتے ہیں ان کے گھروں کو برباد کر کے انہیں بے گھر کرتے ہیں اور اسلام کی ایک وحشت ناک تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور دہشتگردی ان کی پہچان ہے ۔نبی اکرم کے پیش کردہ حقیقی محمدی حسینی اسلام کو چھوڑ دیا گیا ہے۔آج لوگوں کے پاس یہ دہشتگردی والا نظریہ دستیاب ہے اور وہ یہ گمان کر رہے ہیں کہ یہی وہ اسلام ہے جس لے کر نبی انسانیت حضرت محمد بن عبداللہ اس دنیا میں تشریف لائے اور اسی اسلام پر آپ کی اہلبیت عمل پیرا رہی۔ایسے وقت میں ضروری ہے کہ ہر مسلمان ذمہ داری کا احساس کرے اور حقیقت کو بیان کرے۔یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اور بڑی اہم میراث ہے۔اللہ کے دین کو  ان خرافات سے پاک کر کے اصلی حالت میں پیش کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔اسلام کیا تھا؟ اورکیا ہو گیا ؟ کیا ہونا چاہیے تھا؟یہ تاریخ کے اوراق کو دوبارہ ترتیب دینا،ماضی کو دبارہ سے سمجھنا اور ایک لمبی چھلانگ لگانا ہوگی جس کے ذریعے میں بکے ہوئے لکھاریوں کی تحریروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں سے نکل سکیں گے اور ہمارے لیے حق و حقیت واضح ہو سکے گی۔اسی کوشش سے اسلام کو انحراف کے بغیر سمجھ سکیں اور اس کو اصلی حالت میں جان سکیں گے جو ظالموں نے ہم سے دور کر دیا ہے۔ہم ان ظالموں کے نظریات سے اسے نکالیں گے تاکہ اصلی اسلام کو جان لیں۔

اسی لیے یہ نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ کہ وہ حق و حقیقت کو جاننے کے لیے بھرپور کوشش و محنت کریں ۔مخلصانہ کوششوں اورروایتی تقلیدی فکر سے ہٹ کر سوچنے کے نتیجے میں سچائی کا پتہ چلے گا۔اس حقیقت پسندانہ او رعلمی مطالعہ کے نتیجے میں حق کا پتہ چلے گا اور باطل تقدس سے نکل کر سامنے آئے گا۔حق و حقیقت کو سر توڑ کوشش کے بعد ہی جانا جا سکے گا اور ایسا ماحول پیدا کرنا ہو گا جس میں سچائی غالب ہو اور سچائی کا پتہ چلتے ہی اسے تسلیم کر لیا جائے۔ایسی جستجو سے ہی سیاسی مفادات اور ثقافتی اثرات سے حقیقی دین تک پہنچیں گے۔سچائی کو چھپا کر ایک نسل تیار کی گئی ہے یہ حق کو چھپاتے ہیں اور باطل کے نظریات کو فروغ دیتے ہیں ان لوگوں نے تاریخ کے اموی، عباسی اور صدامی جبر کو عام کیا ہے ۔ یہ بات اہم ہے کہ تاریخ کے اس نظریہ نے اسلامی فکر اور ثقافت کو اپنے تسلط میں لے لیا ہے اور اب دنیا میں اسلام کی مسخ شدہ تصویر ہی پیش کی جاتی ہے جس میں بم دھماکے اور تکفیر کا غلبہ ہے اور اسی کو اسلام سمجھا جاتا ہے۔

یہ ہمارا اس سوال کا مختصر جواب ہے جس میں ہم نے کہا تھا کہ تاریخ کا تنقیدی مطالعہ کیوں کریں؟ قرآن میں اللہ تعالی بھی تاریخ کا ذکر کرتا ہے اور اس سے عبرت کا حکم دیتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

((كَذَٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِنْ لَدُنَّا ذِكْرًا))(سورة طه ـ 99)

(اے رسول) اسی طرح ہم آپ سے گزشتگان کی خبریں بیان کرتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے ہاں سے ایک نصیحت عطا کی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

((لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ))(سورة البقرة ـ 256)

دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا (51) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (52))(سورة النساء ـ 51 ـ52)

کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے؟ جو غیر اللہ معبود اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں: یہ لوگ تو اہل ایمان سے بھی زیادہ راہ راست پر ہیں۔ ۵۱ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لیے آپ کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (59) أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (60) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا(61))(سورة النساء ـ 59 ـ61

۵۹۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا۔ ۶۰۔کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل ہوئی اور جو کچھ آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، (سب) پر ایمان لائے ہیں مگر اپنے فیصلوں کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں طاغوت کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اور شیطان انہیں گمراہ کر کے راہ حق سے دور لے جانا چاہتا ہے۔ ۶۱۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آ جاؤ تو آپ ان منافقین کو دیکھتے ہیں کہ آپ کی طرف آنے سے کتراتے ہوئے ٹال مٹول کرتے ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

((وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ))(سورة النحل ـ 36)

اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو، پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض کے ساتھ ضلالت پیوست ہو گئی، لہٰذا تم لوگ زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا تھا

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018