| تاریخِ اسلامی | غدیر خم؛ واقعہ اور تفصیل
غدیر خم؛ واقعہ اور تفصیل
مصلحین اپنے معاملات کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ جس کے ذریعے وہ مکمل واقعہ بن جاتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے سوال کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا جو ان مصلحین یا ان کے معاملات کے بارے میں تشکیک پھیلانا چاہتے ہیں اور یہ امر اس اصلاح کی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے جس کی ترجمانی خدائی پیغام کے حاملین انبیاء و رسل کرتے ہیں۔ گزشتہ امتوں کے بیان شدہ واقعات کی تحقیق کرنے والا محقق اس چیز کو درک کرتا ہے کہ ان واقعات کی اہمیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انہیں اس مقام پر رکھا جائے کہ ان کی اہمیت ابھر کر لوگوں کے سامنے آ جائے اور وہ شک اور افترا پردازی سے مبرا ہوجائیں۔ یہ بات ان مصلحین سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان واقعات کو ایک جانے پہچانے اور قبول کرنے والے ماحول میں پیش کریں کہ جس سے یہ واقعات مسلّم اور بدیہی ہو جائیں۔
روزِ غدیر کے بارے میں گفتگو ہمارے لیے ضروری قرا دیتی ہے کہ ہم اس سلسلے اور اس کے وقت میں غور و خوض کریں نیز اس کے وجود میں آنے کے حالات، اس کے وقوع پذیر ہونے کا ماحول یہاں تک کے عوام میں اس کے راسخ کرنے میں بھی غور و فکر کریں۔
یوم غدیر- جسے اپنے پیش آنے کے چند لمحوں بعد عید بن جانا تھا اور ہر سال اس کی مناسبت اور اس مناسبت کی عادت عوام کے سالانہ انجام دیے جانے والے امور میں سے بن جانی تھی- دس ہجری میں ذی الحج کے اٹھارہویں دن پیش آیا۔ اسے غدیر اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پانی کے ایک تالاب کے پاس پیش آیا تھا جسے غدیر خم کہتے تھے جو مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان میں واقع ہے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پیغمبر اکرمؐ اپنے اہل بیتؑ اور ہزاروں اصحاب کے ساتھ حجۃ الوداع سے واپس آ رہے تھے۔
اس واقعے میں سب سے اہم بات، نبی اکرمﷺ کے بعد مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے خدا کی طرف سے امام علی علیہ السلام کے حوالے سے کی گئی۔ رسول اکرمﷺ نے حجۃ الوداع (نبی اکرمؐ کے آخری مناسک حج) سے واپسی پر اپنے ساتھ آئے ہزاروں بلکہ ایک لاکھ سے اوپر پیروکاروں کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک وسطی علاقے میں جمع کیا اور ان کے سامنے اپنا العصماء خطبہ پڑھنا شروع کی جس کے ذریعے آپ نے اپنے وصی اور چچا زاد علیؑ ابن ابی طالبؑ کو مسلمانوں کا امام نصب فرمایا۔ یہ واقعہ سورہ مائدہ کی آیت۶۷: يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرينَ۔ (المائدۃ: 67) [اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔] کے نزول کے بعد پیش آیا جہاں نبی کریمؐ کو حکم الٰہی آیا کہ اپنے بعد علیؑ کو مسلمانوں کا سر پرست مقرر فرمائیں۔ پس نبیؐ نے وصیؑ کا ہاتھ پکڑا اور اسے اوپر اٹھاتے ہوئے واضح لفظوں میں بلند آواز سے فرمایا: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ هَذَا مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ۔ [جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؑ مولا ہیں۔ اے خدا جو اس سے محبت رکھے تُو بھی اس محبت رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تُو بھی اس سے عداوت رکھ۔]اس طرح امام علیؑ پیغمبرؐ کے بعد مسلمانوں کے امام اور ان کے رسولؐ کی طرف سے خلیفہ اور ولی بن گئے۔ صادقِ اہل بیت امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’روز غدیر کا نام آسمانوں میں یوم عہد و معہود ہے اور زمین میں یوم میثاقِ ماخوذ (لیا گیا عہد) اور یوم جمع مشہود(ایسا اجتماع جس کا مشاہدہ کیا گیا ہو) ہے بلکہ امامؑ نے اس حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ یوم غدیر آسمان میں زمین کی نسبت زیادہ مشہور ہے۔ عید غدیر اور اس کے واقعہ کا مقام و مرتبہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اہمیت کے لحاظ سے نزول قرآن کریم اور ہجرت پیغمبر اکرمؐ کے بعد تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ اسی طرح عید غدیر کو مسلمانوں کی افضل ترین ،معزز ترین عید بلکہ عید اللہ الاکبر کہا جاتا ہے، یہاں تک امام صادقؑ اس کے بارے میں اپنے جد رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’روز غدیر میری امت کی افضل ترین عید ہے۔یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے بھائی علیؑ ابن ابی طالبؑ کو اپنی امت کے لیے عَلَم مقرر کرنے کا حکم دیا کہ جس کے ذریعے میری امت میرے بعد ہدایت پائے گی۔یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو کامل کیا،میری امت پر اپنی نعمت کو تمام کیا اور اسلام کو ان کے لیے بطور دین پسند فرمایا۔‘‘