19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 5:01 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | تاریخِ اسلامی |  اسلام تہذیبوں کے میزان میں اسلام کے سیاسی اور سماجی نظام کا ایک مطالعہ
2020-01-19   2084

اسلام تہذیبوں کے میزان میں اسلام کے سیاسی اور سماجی نظام کا ایک مطالعہ

پہلے تو تمدن کی یہ تعریف کی جاتی تھی کہ اس سے مراد لوگوں کا دیہاتوں اور شہروں میں رہائش پذیر ہونا اور ان کی اس رہائش کے نتیجے میں ان کی رہائشی طرز اور اس طرز زندگی میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں، جو ان کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ یہ اس خانہ بدوش زندگی کے بالکل برعکس ہے جسے گھاس اور پانی کی تلاش میں رہتے ہوئے مستقل خانہ بدوشی اور نقل و حرکت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ زندگی ان خانہ بدوش لوگوں کے لیے ضروری قرار دیتی ہے کہ وہ ایسے سادہ گھروں میں رہیں جو بالوں اور پشم سے بنے ہوئے ہوں تاکہ انہیں سفر کے دوران اٹھانا آسان ہو۔ اور یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ خانہ بدوشی اور ایک جگہ نہ ٹھہرنے سے  کسی بھی قسم کی ایسی ترقی اور پیشرفت کا حصول ناممکن ہے جو طرزِ بودوباش میں کوئی تبدیلی لائے سوائے تھوڑی سی تبدیلی کے کہ جو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ آپ آج بھی ان لوگوں کو بغیر کسی قابلِ ذکر تبدیلی کے اسی پرانی طرزِ زندگی پر رہتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر انسانی پیشرفت اور ترقی کی بڑھتی ہوئی رفتار کے نتیجے میں تہذیب کے اس مفہوم میں بھی کافی وسعت آئی ہے جس پر متقدمین علماء تاریخ اور سماجی ماہرین کا اتفاق تھا۔ اب تو یہ ہر قسم کی ترقی اور پیشرفت کو شامل ہے جو سیاسی، اقتصادی اور عسکری مختلف شعبوں میں انسانی عقل کے بنائے گئے طرزہائے  زندگی کے ارتقاء کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے اس موضوع میں ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ ہم اسلامی تہذیب کا  اس کے سماجی اور سیاسی نظام میں باقی تہذیوں سے موازنہ کریں۔

اسلامی تہذیب کی تشکیل

اس سے پہلے کہ ہم اسلام کو دوسری تہذیبوں کے ساتھ موازنے کے پلڑے میں رکھیں، ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا واقعاً اسلام نے ایک تہذیب کی بنا رکھی تھی؟ اور اگر ہاں تو اس نے اس تہذیب کی تشکیل کن بنیادوں پر کی؟ اور پھر وہ کون سے اہداف تھے کہ اس تہذیب کی بنا کے ذریعے جن کے حصول کے لیے اسلام نے کوشش کی؟ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم ان لوگوں کے سامنے اسلامی تہذیب کی ایک مکمل اور واضح تصویر پیش کر سکیں جو اس کا منصفانہ اور معقول مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ اسلام نے جس مدنی تہذیب کی بنیاد رکھی اس کے خدوخال اسی وقت واضح ہونا شروع ہو گئے تھے جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 622  میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور نئے شہر کا دور تشکیل پایا جو اسلام کی تہذیبی ریاست کی پہلی اساس تھی اور جس کی بنیاد نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی تھی۔

اس سلسلے میں اسلام نے سب سے پہلےجو اقدام کیا وہ مدینہ میں رہائش پذیرعیسائیوں،یہودیوں بلکہ مشرکین جو مختلف ناموں کے ساتھ موجود تھے،کے ساتھ صلح اور ہم آہنگی کا ایک معاہدہ تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام اپنی تہذیبی تعمیر میں اخلاقی اور نظریاتی پہلؤوں پر انحصار کرتا ہے کیونکہ اسے ایک ایسی الٰہی جمعیت حاصل ہے جو قرآن مجید کو ایک ایسے ضابطے اور قانون کے طور پر اپناتی ہے جو اس کے معاملات و آداب کے اصولوں کو منظم کرتا ہے اور جس سے تمام سیاسی، سماجی، اقتصادی اور عسکری نظام وجود میں آتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا مکمل دستور ہے جس نے چھوٹے بڑے تمام امور کا احاطہ کر رکھا ہے اور کسی چیز کو نہیں چھوڑا ہے: ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْ‏ءٍ۔ (انعام: ۳۸) [ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔] اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام صحیح سنت نبویؐ پر انحصار کرتا ہے جو کتاب مجید کی تفسیر اور وضاحت کرنے والی ہے: وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔ (النحل: ۴۴) [اور (اے رسولؐ!) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔] اس کے علاوہ علم پر بھی اس کا انحصار ہے جو اس تہذیب میں ایسے منطقی اور اخلاقی اصولوں کے مطابق عمل کرتا ہے جس سے اس علم کی بنیادیں تشکیل پاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کی تہذیب باقی تمام انسانی تہذیبوں سے مختلف ہے کیونکہ دوسری انسانی تہذیبوں کہ  جن کا سر چشمہ فقط انسانی فکر علمی ترقی اور ٹیکنالوجی ہے، کے برعکس اسلام نے اس تہذیب کی بنیاد عقائدی اور اخلاقی پہلو پر رکھی ہے جس کا سر چشمہ الٰہی ہے۔ اسی طرح اسلام اپنی تہذیب میں باقی تہذیبوں سے اس وجہ سے بھی ممتازہے، کیونکہ اس کا پیغام کسی نسل اور صنف میں تمیز و تفریق کے بغیر تمام بشریت کے لیے آیا ہے۔ اسلام پوری دنیا کے لوگوں کے لیے تعارف اور افکار کے تبادل اور نشوونما کی ایک صریح اور واضح دعوت لے کر آیا ہے تاکہ انسانی زندگی کو آسان اور سعادت مند بنا دے کہ جس میں انسان تقویٰ خداوندی کی بنیاد پر آزادی اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں:يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى‏ وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ۔(الحجرات: 13) [اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقیناً وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقیناً خوب جاننے والا، باخبر ہے۔]

اسلامی تہذیب کی بنیادیں

دین اسلام ثابت اور منظم قوانین کی قانون سازی کرتے ہوئے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی طرف توجہ دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ قوانین محکم ہیں جو کسی تبدیلی اور تغیّر کو قبول نہیں کرتے۔ ان کی بنیاد پر اسلام کچھ ایسے ضوابط مقرر کرتا ہے جو انسانی زندگی کو سہل اور آسان بنا دیتے ہیں اور تمام لوگوں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ کچھ قوانین ایسے ہیں جو ظنی الدلالۃ ہیں۔ یہ قوانین قانون سازی کے عمل کو نئے مسائل اور تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا راہِ حل پیش کرنے میں زیادہ لچکدار اور متحرک بنا دیتےہیں تاکہ ولی الامر (حاکم شرع) ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکے: هُوَ الَّذي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتابَ مِنْهُ آياتٌ مُحْكَماتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتابِ وَ أُخَرُ مُتَشابِهاتٌ۔ (آل عمران: ۷) [وہی ذات ہے جس نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس کی بعض آیات محکم (واضح) ہیں، وہی اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں۔] اس بات نے شریعت  اسلامی میں عدالت کے قیام کو آسان بنا دیا اور ایک اہم بنیاد تشکیل دی کہ جس پر اسلامی تہذیب قائم ہے۔ اس تہذیب کا سماجی پہلو خاص طور پر قابل توجہ ہے، جس کا ہدف لوگوں میں بالخصوص دولت کی تقسیم کے حوالے سے مساوات پیدا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے بغیر کسی تفریق کے توازن کو شرعی بنیاد اور اصل قرار دیا ہے جو تمام لوگوں کو روزگار اور کام کا موقع عطا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں عدل و انصاف کے اصول میں یہ بھی شامل ہے کہ ثروتمندوں اور سرمایہ داروں میں سے بااثر افراد کی جانب سے چوری اور بدعنوانی کے بغیر کارکنوں کو ان کا حق دیا جائے۔ اس کے علاوہ اسلام نے ایسے قوانین کے نفاذ کے ذریعے امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی اختلاف کو مٹا کر افرادِ معاشرہ کے مابین پائے جانے والے فرق کو ختم کرنے کا اقدام بھی کیا، جو امیروں کو عوام کے مال پر قبضہ کرنے اور سرکشی کرنے سے روکتے ہیں۔

مساوات کا اصول جس پر شریعت اسلام عمل پیرا ہے، اس کا دوسری تہذیبوں کے ہاں کوئی مقام نہیں ہے، جو اپنی روش میں طبقاتی نظام پر انحصار کرتی ہیں کیونکہ یہ تہذیبیں عوام کو مختلف ضروریات کے حساب سے طبقات میں تقسیم کرتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو اسلامی تہذیب کو دوسری تہذیبوں پر فوقیت عطا کرتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسے اخلاقی اور جامع نظام کی حامل ہے جو ان تمام تعلیمات کا احاطہ کرتا ہے جو دوسرے آسمانی ادیان لے کر آئے۔ اس فوقیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے تمام خودساختہ ادیان پر بھی برتری رکھتی ہے، جو ناقص انسانی فکر کا نتیجہ ہیں اور تمام انسانی معاملات کا احاطہ کرنے سے عاجز ہیں جس سے انسانوں کے حق میں ناانصافی ہوتی ہے۔

چونکہ اسلام اس علیم و حکیم معبود کے قانون پر انحصار کرتا ہے جواپنی شریعت کے ذریعے اپنے بندوں کی تمام امورِ حیات کا احاطہ کیے ہوئے ہے، لہٰذا اسلام باقی تمام خودساختہ ادیان پر برتری رکھتا ہے کیونکہ معبود اور پروردگار لوگوں کے حال کو سب سے بہتر جانتا ہے اور ان کی زندگی کے طریقہ کار کو منظم کرتا ہے۔

اسلامی تہذیب کے مطابق علم ان اہم بنیادوں میں سےا یک ہے جن پر اس تہذیب کی عمارت کھڑی ہے۔ اس تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے ممتاز قرار دینے والے امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ ریاست یا نظام کے مفادات کو عوام کے مفادات پر ترجیح نہیں دیتی، یہاں تک کہ اسے شرعی طور پر ناقابل قبول سمجھتی ہے کیونکہ یہ بات تہذیب کے اس عادلانہ اخلاقی ڈھانچے میں خلل انداز ہوتی ہے جو شیطانی ذرائع اور وسائل کو مفادات کے حصو ل کی اجازت نہیں دیتا، جیسا کہ نکولو میکاولی کا اصول یہی بتاتا ہے کہ آخری مقصد وسیلے کا جواز ہے (یعنی مفادات کے حصول کے لیے اپنایا جانا والا ہر وسیلہ جائز ہے۔) جبکہ انسانوں کی بنائی گئی تہذیبیں اسی اصول کو اپناتی ہیں جس سے لوگوں کے حقوق بری طرح پامال ہوئے ہیں۔ آزادی کا اصول جو اسلامی تہذیب میں ہے کہ جس کا سرچشمہ قرآن کریم ہے، یہ ایک اہم اساس کی ترجمانی کرتا ہے اور فرد کو کسی بھی فریق کی طرف سے بغیر کسی تنگی اور دباؤ کے اپنا پسندیدہ مذہب اختیار کرنے کے لیے زرخیز میدان فراہم کرتا ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اس سے دوسرے لوگوں کے ساتھ زیادتی نہ ہو: لَكُمْ دينُكُمْ وَ لِيَ دينِ۔ (کافرون: 6) [تمہارے لیے تمہارا دین اورمیرے لیے میرا دین۔] اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے دینی شعائر قائم کرنے کی بھی پوری پوری آزادی دی گئی ہے۔ اس بات کا اعتراف اور ادراک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے میثاقِ مدینہ منورہ میں فرمایا۔

شخصی اور انفرادی آزادی اور بذاتِ خود دوسروں پر زیادتی نہ کرنے کے اخلاقی ضابطے پر اسلام کا اعتقاد قرآنی نص میں بیان ہوا ہے جو کسی شخص کے لیے ایمان و کفر میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی آزادی پر تاکید کرتا ہے: وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَ مَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ۔(الکہف: 29) [اور کہدیجیے: حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔] اس اصول نے اس بات کو بھی تقویت بخشی ہے کہ اسلامی تہذیب دوسری تمام انسانی تہذیبوں سے اعلیٰ اور ممتاز ہے کیونکہ یہ ایسے اخلاقی اصولوں پر استوار ہے جو سب کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔ البتہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اسلامی تہذیب علم اور علماء میں دلچسپی نہیں رکھتی کیونکہ یہ تہذیب لوگوں کو عمارت اور تعمیرات میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی ترغیب دیتی ہے: أَ لَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ أَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَ باطِنَةً۔ (لقمان: 20) [کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں۔]

سیاسی نظام، اسلام کی نگاہ میں

اسلامی سیاسی نظام کا ایک خاص رنگ ہے جس کے ذریعے حکومت اور لوگوں کی معاملات کی مدیریت کی جاتی ہے۔ اسے نظام شوریٰ کہا جاتا ہے جو اپنے قوانین اور قانون سازی میں کتاب اللہ کی تعلیمات اور سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتماد کرتا ہے۔ اس جیسے نظام کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی بلکہ حکومت کے عسکری نظام  کے قیام میں بھی لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کا خیال رکھا جائے۔ یہ نظام موجودہ جمہوری نظام کے مشابہ یا قریب قریب ہے۔ اسی طرح شورائی نظام ان فیصلوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے تاکہ شخصی حکم اور آمریت سے محفوظ رہا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی میں عوامی شرکت کے اصول کو حاصل کیا جائے: وَ الَّذينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ وَ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ أَمْرُهُمْ شُورى‏ بَيْنَهُمْ وَ مِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُون۔ (الشوریٰ: 38) [اور جو اپنے پروردگار کو لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات باہمی مشاورت سے انجام دیتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔]

شورائی نظام ان بہترین فیصلوں کی ضمانت دیتا ہے جو حیاتِ انسانی اور حکومت کی خدمت کرتے ہیں، کیونکہ یہ نظام اجتماعی اور مشاورت کے انداز میں حرکت کرتا ہے جس میں کسی بھی فیصلے کے لیے کسی ایک شخص پر انحصار نہیں ہوتا اور اس میں حاکم اس بات پر مامور ہوتا ہے کہ وہ  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کیے گئے احکام کے مطابق حکومت چلائے۔ پس جو شخص بھی اس امر پر عمل نہ کرے اسے کافر کہا گیا ہے:  وَ مَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ۔ (المائدۃ: 44) [اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلے نہ کریں پس وہ کافر ہیں۔] یا اسے ظالم اور فاسق کہا گیا ہے: وَ مَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ۔ (المائدۃ: 47) [اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ فاسق ہیں۔]

اس بنا پر اسلامی ریاست نے تینوں طاقتوں: مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ، کو مستقل اور الگ رکھنے کا اصول اپنایا۔ پس مقنّنہ کی قوت اپنی قانون سازی کے عمل میں احکام قرآنی اور صحیح سنت نبویؐ کے ساتھ ساتھ اجتہاد پر اعتماد کرتی ہے، جبکہ یہ اجتہاد ان موارد میں کیا جاتا ہے جو شریعت اسلامی کے اصولوں کے مخالف نہیں ہوتے۔

عدلیہ کی قوت اپنے فیصلوں میں کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی پابند ہوتی ہے۔ اور ان فیصلوں کے اجراء میں قوت نافذہ یا انتظامیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا اگرچہ قضاۃ (ججز) کی تعیناتی انتظامیہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، بلکہ عدلیہ کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ عنان حکومت سنبھالنے والے حکام کا محاکمہ اور محاسبہ کر سکتی ہے۔

جہاں تک قوت نافذہ یا انتظامیہ کا تعلق ہے تو یہ منتخب حاکم اوراس کی حکومت کے اختیارات میں سے ہے۔ اس حکومت پر واجب ہے کہ وہ عدالتی احکامات کا نفاذ کرے اور جن امور کو مسلمانوں کےلیے مناسب سمجھتی ہے ان پر مشاورت کے ذریعے عمل درآمد کرے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018