

| دین کیوں؟ | بعض نوجوان دین میں تشکیک کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ موجودہ حالات یا علم کی کمی کا اثر؟

بعض نوجوان دین میں تشکیک کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ موجودہ حالات یا علم کی کمی کا اثر؟
الشيخ معتصم السيد أحمد
بعض نوجوانوں کے دینی نظریات میں جو بنیادی اور شدید تبدیلی آئی ہے وہ کسی عقیدے کی بنیادوں میں موجود حقیقی اعتراضات یا پیچیدہ فکری مسائل کی وجہ سے نہیں تھی کہ جن کے جوابات انہیں نہ مل سکے ہوں۔ زیادہ تر یہ تبدیلی ان کے اپنے گرد و پیش کے حالات سے منفی متاثر ہونے کا نتیجہ تھی، یہ حالات نفسیاتی، سماجی، سیاسی یا ثقافتی ہو سکتے ہیں۔اسلامی عقیدہ، اپنے علمی عمق اور عقل و فطرت میں پیوستہ جڑوں کے باعث، آسانی سے متزلزل نہیں ہو سکتا، خاص طور پر اس شخص کے لیے جس میں کسی سطح پر بھی دینی شعورموجود ہو ۔جب تک کچھ ایسے عوامل شامل نہ ہو جائیں جو اس شعور کو کمزور کر دیں اور اس کی سمت کو بھی مخدش کر دیں۔اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ خود دین میں نہیں بلکہ اس کے فہم و ادراک کے طریقے میں ہے اور وہ خارجی اثرات ہیں جو انسان کے ذہن کو منتشر کر دیتے ہیں اور کسی کمزوری کے لمحے میں اس کی بصیرت پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔
جب ہم دین کی بنیادی اقدار میں شک کی بلند ہوتی فصیلوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس شک کو فکری طور پر جائز قرار دے رہے ہیں یا اس کے لیے کوئی جواز فراہم کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف اُن حالات اور سیاق و سباق کو سمجھنا ہوتا ہے جنہوں نے بالخصوص نوجوانوں کے درمیان اس رجحان کے پیدا ہونے اور پھیلنے کی راہ ہموار کی ہوتی ہے۔آج کی دنیا میں جو تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہ افراد کو تقریباً روزانہ کی بنیاد پر فکری، نفسیاتی اور سماجی چیلنجز کے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ مقابلہ غیر متوازن ہوتا ہے، خاص طور پر جب فرد اس علمی و فکری بنیاد سے محروم ہو جو اسے شکوک و شبہات اور خطرناک سوالات کی آندھیوں کے مقابلے میں ثابت قدم رکھنے کے قابل بنا سکے۔
یہیں سے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی شخصیت ایک درمیانی واسطہ ہے جو عقل اور خارجی حقائق کے درمیان واقع ہوتی ہے۔ اور اکثر اوقات یہ شخصیت ان حقائق کو غیر جانب دار طریقے سے منتقل نہیں کرتی بلکہ اپنے جذبات، مزاج اور نفسیاتی تجربات کی بنیاد پر اُن کی نئی تشکیل کرتی ہے۔اسی لیے جو شخص کسی اندرونی بحران سے گزر رہا ہویا مایوسی، ناامیدی، یا سماجی و تربیتی تضادات کا شکار ہو، وہ دین کو اس کی اصل حقیقت کے مطابق نہیں دیکھتا بلکہ جیسے اس کی مضطرب شخصیت کا آئینہ اسے دکھاتا ہے، ویسے سمجھتا ہے۔لہٰذا مسئلہ دین کی ان ثابت بنیادوں میں نہیں ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں ناقابل تردید دلائل کے ساتھ مستحکم ہو چکی ہیں بلکہ اصل مشکل اس زاویۂ نگاہ میں ہے جس سے ان بنیادوں کو دیکھا جا رہا ہے۔ اس اعتبار سے یہ مسئلہ سائنسی یا علمی سے زیادہ ایک نفسیاتی حیثیت رکھتا ہے۔
اس سیاق میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہم ان عمومی اسباب اور خاص وجوہات کے درمیان فرق کریں جو نوجوانوں میں شک اور تردد کے رجحان کو جنم دیتی ہیں۔ عمومی اسباب وہ ہوتے ہیں جو پوری امت کے موجودہ حالات کو شامل ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد کو تشکیک میں مبتلا کرتے ہیں جبکہ مخصوص اسباب ہر فرد کے ذاتی تجربے، پس منظر اور نفسیاتی حالات کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں۔عمومی اسباب کو ہم ان مختلف بحرانوں میں بیان کر سکتے ہیں جن سے آج کے اسلامی معاشرے دوچار ہیں، جیسے سیاسی، اقتصادی اور سماجی ناکامیاں وغیرہ۔ ان بحرانوں نے ایک ایسی فضا کو جنم دیا ہے جو مایوسی، ناکامی اور محرومی سے بھرپور ہے۔ اس ماحول میں کچھ نوجوان اپنے تلخ حالات سے اکتاکر اور کامیابی کی تلاش میں بیرونی افکار کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، جن میں الحاد (خدابےزاری) اور دینی مسلمات میں شک و شبہ بھی شامل ہیں۔
وہ جوان جس کی پرورش ایسے بحران زدہ ماحول میں ہوتی ہے جہاں سیاسی ظلم و استبداد، اقتصادی بد حالی اور سماجی پسماندگی کی کیفیت ہو اور جہاں اسے نظر آنے والا غالب دینی طبقہ اس کے سوالات کا جواب نہیں دیتا اور اس کے مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات ظلم کو جائز ٹھہرانے اور استبداد کو خوبصورت دکھانے میں براہِ راست کردار بھی ادا کرتا ہے، وہ آہستہ آہستہ دین کی افادیت پر سوال اٹھانے لگتا ہے۔ یہ تردید، دین میں موجود کسی نقص کے باعث نہیں بلکہ اس مایوسی کی وجہ سے ہوتی ہے۔یہ غلط فہمی دنیاوی مسائل اور دین کی غلط تفہیم سے ہوئی ہے۔ بدترین مرحلہ وہ ہے جب یہ جوان دیکھتا ہے کہ بعض تنظیمیں اور تحریکیں جو اسلام کے نام پر قائم ہیں، یہی اسلام کے نام پر وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں۔ ایسے میں یہ جوان دین کے بارے میں فیصلہ اس کی نصوص اور اصولوں کی بنیاد پر کرنے کے بجائے پیروکاروں کے طرزِ عمل کی روشنی میں کرنے لگتا ہے۔
اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے والی بات یہ ہے کہ بعض دینی ادارے عصری فکری چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے قابل نہ تھے اور انہوں نے ایسا ابلاغی و فکری اسلوب بھی نہیں اپنایا جو نئی نسل کے مسائل اور سوالات کا مؤثر طور پر جواب دے سکے۔ اس کے نتیجے میں اعلی عقلی و فکری اپروچ پسِ منظر میں چلی گئی اور اس کی جگہ روایتی وعظ و نصیحت پر مبنی طرزِ گفتگو نے لے لی۔یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ براہِ راست ایسے پیچیدہ فکری و فلسفیانہ نظریات نوجوانوں تک پہنچا رہے ہیں، جن کا جواب اسی سطح کی فکری گہرائی اور دلیل کے ساتھ دیا جانا ضروری ہے۔ سوال اور جواب کے درمیان اس عدم توازن کے باعث ایک علمی اور نفسی خلا وجود میں آیا، جس نے بعض نوجوانوں کو دینی بنیادوں سے باہر دھکیل دیا۔
جہاں تک مخصوص اسباب کا تعلق ہے تو وہ ان انفرادی تجربات سے متعلق ہوتے ہیں جن سے افراد گزرتے ہیں ۔یہ تجربات ہر شخص کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں، اگرچہ ان میں عمومی طور پر نفسیاتی اور جذباتی پہلو مشترک ہوتا ہے۔کتنے ہی نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے ایسے افراد کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے دین پر سے اعتماد کھو دیا، جو خود کو دین کے نمائندے ظاہر کرتے تھے؟کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں جنہوں نے دین کے نام پر سخت تربیتی تجربات یا ظالمانہ امتیازی رویوں کا سامنا کیا اور اس سے منفی طور پر متاثر ہوئیں؟ کتنے ہی افراد ایسے ہیں جو شدید نفسیاتی صدمات سے دوچار ہوئےلیکن انہیں نہ کوئی سمجھانے والا میسرآیا اور نہ ہی کوئی سہارا ملا۔انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ ان کی تکلیف کا سبب خود دین ہے ۔ حقیقت میں یہ بگڑا ہوا سماجی نظام تھا جو دین کا جھوٹالبادہ اوڑھے ہوئے تھا۔
یہ انفرادی تجربات، اگرچہ ظاہری طور پر مختلف دکھائی دیتے ہیں لیکن ان سب کابنیادی نکتہ پر اشتراک ہوتا ہےکہ دین کے بارے میں صحیح شعور کا فقدان اور نفسیاتی و علمی حفاظتی نظام نہ ہونا جو فرد کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنے چیلنجز سے گزر جائے اور اس کا الزام مقدسات پر نہ ڈالے۔تشویشناک بات یہ ہے کہ آج کے دور میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم ان ذاتی تجربات کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور انہیں عقلی دلائل کے طور پر دکھاتے ہیں حالانکہ حقیقت میں یہ صرف نفسیاتی ردِّ عمل ہوتے ہیں جن کے ساتھ مناسب فکری معاملہ نہیں کیا گیا ہوتا۔
لہٰذا، اس رجحان کا مقابلہ صرف فکری مباحثوں یا علمی مناظروں کے ذریعے نہیں کیا جا سکتابلکہ اس کا آغاز سب سے پہلے ایک متوازن اور نفسیاتی طور پر مضبوط شخصیت کی تعمیر سے ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ایک صحت مند تعلیمی و تربیتی ماحول فراہم کرنا بھی ضروری ہے جو نئی نسل کو ان کے دین کی عقل و فہم پر مبنی گہری اور سنجیدہ تفہیم عطا کرے ، ایسا فہم جو خوف یا محض رٹنے پر مبنی نہ ہو۔اسی طرح عصرِ حاضر کے دینی خطابات کا تنقیدی جائزہ لینا اور ان کے اسلوب و ذرائع کو اس انداز میں ترقی دینا بھی ضروری ہے کہ وہ جدید انسان سے اس کی اپنی زبان، مسائل اور سوالات کی سطح پر مؤثر طور پر ہم کلام ہو سکیں۔
دوسری طرف، حقیقی اصلاح کا آغاز اس اعتراف سے ہوتا ہے کہ جو انحرافات ہمیں نظر آتے ہیں، وہ دراصل سماجی، سیاسی اور ثقافتی نظام میں پائے جانے والے بگاڑ کا لازمی نتیجہ ہیں۔ ان خرافات کا علاج اس وقت تک ممکن نہیں جب تک امت اپنے تمدنی و تاریخی کردار کا شعور دوبارہ حاصل نہ کرےاور یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام صرف عبادات یا رسوم و رواج کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل فکری و اقداری نظام ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کی ترقی و بیداری کا ضامن ہے۔لہٰذا، ضرورت اسلام کو ترک کرنے کی نہیں بلکہ اسے ان تاریخی تجربات کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی ہے جو اس کی اصل روح سے ہٹے ہوئے تھے۔ ہمیں اسلام کو دوبارہ سمجھنے کی کوشش قرآن اور معصومینؑ کی سیرت کی روشنی میں کرنی چاہیے نہ کہ بگڑے ہوئے اور مسخ شدہ زمینی حالات کی عینک سے ایسا کریں۔
آخر میں یہ جو دین کی بنیادوں میں شک کی پھیلتی ہوئی کیفیت ہے یہ درحقیقت اسلامی عقیدے کے بحران کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ موجودہ دور کے مسلمان انسان کے اندرونی بحران کی غماز ہے۔ اس کی اپنی ذات کو سمجھنے میں، اپنے حالات کا سامنا کرنے میں اور اپنے رب، دین اور معاشرے سے تعلق قائم کرنے میں جو الجھنیں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں اسی کا اظہار ہے۔اسی لیے علاج کی پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم دین کو اس کی اصل سے پہچانیں۔ یعنی فرق کریں کہ دین بذاتِ خود کیا ہے؟ اور دین کو کیسے سمجھا اور برتا جا رہا ہے؟ اسلام ایک الٰہی پیغام ہےجبکہ مسلمان ایک زمینی اور بدلتا ہوا وجود رکھتے ہیں۔ ایمان کی تجدید کا راستہ دین کو ترک کرنے میں نہیں بلکہ اس کے فہم کی تجدید، نفس کی اصلاح اور باطن کی تربیت سے ہو کر گزرتا ہے