| دین کیوں؟ | ہمیں دین کی ضرورت کیوں ہے؟ الحاد ترک کرنے والوں کےمشاہدات
ہمیں دین کی ضرورت کیوں ہے؟ الحاد ترک کرنے والوں کےمشاہدات
شیخ مقداد ربیعی
انسان کا افہام و تفہیم میں ارتقاء کا سفر جاری ہے ،مختلف ادوار میں افہام و تفہیم میں ایک بڑا چیلنج معنی اور مقصد کو سمجھنا ہے۔ معاشرے میں مختلف فکری اور فلسفی رجحانات موجود ہوتے ہیں اور وہ نشو و نما پا رہے ہوتے ہیں ۔مذہب انسان کی روحانی اور اخلاقی زندگی کو سمت دیتا ہے اور یہ سمت اسے الحاد کے راستے سے نہیں ملتی۔ مذہب وہ اصل بنیاد ہے جس سے اصول اور اقدار لی جاتی ہیں جو زندگی کو بامقصد بناتی ہیں۔الحاد عدم محض ہے اور عصبیت سے خالی ہے۔الحاد سے انسانی زندگی میں خلا رہ جاتا ہے جبکہ مذہب معاشرے اور فرد کی زندگی میں ہر طرح کے خلا کو پر کرتاہے۔
اس مقالہ میں ہم ان لوگوں کے ذاتی تجربات پیش کرنے کی کوشش کریں گے جو مادیت اور الحاد کے مسافر بنے اور زندگی سے معنویت اور عصبیت کو کھو بیٹھے اور گمراہی کی گہرائی میں چلے گئے۔ان لوگوں نے دوبارہ مذہب کی طرف رجوع کیا اور اپنی زندگی کو بامعنی اور با مقصد بنا کر زندہ رہے۔ مذہب وہ واحد چیز ہے جو اس بات پر قادر ہے کہ انسان کی زندگی کو معنویت عطا کرے اور اس انسان کےلیے مقصد حیات فراہم کرے۔روحانیت کی چاہت اور تڑپ انسان کی فطرت میں پائی جاتی ہے۔اگر انسان کو روحانیت نہ ملے تو یہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ یہ بیماریاں اسے خودکشی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔کچھ لوگ منشیات کا شکار ہو جاتے ہیں کچھ جنسی بے راہ روی کی لت میں پڑجاتے ہیں اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو روحانیت میں غلط راستے کا اتنخاب کر کے پیسے خرچ کرتے ہیں اور جادو ٹونے کا سہارا لے لیتے ہیں۔
گمراہی سے پلٹنے والوں کی گواہیاں
کارڈینل شونبور اپنی معروف کتاب "خدا کی ضرورت کسے ہے؟" میں، اس نے اپنے دلکش ذاتی تجربے کو بیان کیا وہ لکھتا ہے:۱۹۶۷ میری جوانی اور جستجو کا سال تھا،یہ ایک مشکلات سے بھرا سال تھا۔اسی سال جرمنی میں طلبہ کے انقلاب نے زور پکڑا تھا۔اس وقت میری عمر بائیس سال تھی۔اگرچہ میں ایک خانقاہ میں رہ رہا تھا مگر اس انقلاب نے ہر چیز کو تہس نہس کر دیا۔اس تبدیلی کے نتیجے میں ایک سال تک میں نے عبادت نہیں کی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ عبادت کرنا ایک فضول کام ہے۔دیگر بہت اہم کام ہیں جو کیے جائیں۔اس وقت میں سوچتا تھا کہ بہترین کام یہ ہے کہ سماجی کاموں میں مشغول رہا جائے۔میں پورے جوش و خروش کے ساتھ بے گھروں،شراب پینے والوں اور ضرورت مندوں کے کام آنے میں مصروف ہوگیا۔اس سال میں عبادت سے دور رہنے لگا۔سچ یہ ہے کہ کچھ مرتبہ عبادت کی بھی ہوگی تو بھی جان بوجھ اس سے دور ہونے لگا۔ شروع شروع میں جب میں نے عبادت چھوڑی تو مجھے کسی قسم کی کمی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ مجھے ایسے لگتا تھا کہ جیسے ایک بوجھ سے مجھے نجات مل گئی ہو۔میں نے سوچا یہی تو حقیقی آزادی ہے کیونکہ پہلے صبح صبح عبادت کے لیے جلدی جاگنا پڑتا تھا۔میں عبادت کی ذمہ داری اور ہر وقت اس کی پابندی کی تھکاوٹ سے آزاد ہو چکا تھا اور ان کے بغیر زندگی گزار رہا تھا۔لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے ویسے ویسے مجھے یہ محسوس ہونے لگا جیسے زندگی روکھی اور بے رنگی ہو گئی ہے ،زندگی کی چمک دمک بھی جیسے زندگی سے نکل رہی ہے۔میری زندگی کی یہ حالت جانے مجھے کس طرف لے جاتی اگر اللہ تعالی کا فضل نہ ہوتا۔
کارڈینل شونبورن نے جس طرز زندگی کو اختیار کیا بہت سے لوگ اسی طرز حیات کو اختیار کرتے ہیں اور روحانی زندگی سے فرار کو آزادی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے یہ حقیقت ان پر آشکار ہوتی ہے کہ ان کی زندگی بے مقصد ہو چکی ہے اور یہ گویا ایک خلا میں پھنس چکے ہیں۔
خود کو فقط مارکیٹ کے ایک صارف کے طور پر حسی لذت کے حصول تک محدود رکھنے کے تلخ نتائج پیدا ہوتے ہیں۔نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے کہ چاہے اس راستے کو اپنی توانائیاں خرچ کرتے ہوئے اختیار کیا ہو یا کسی نے اس کا ارادہ نہ کیا مگر ایک بھڑ چال میں وہ اس طرز حیات تک پہنچ جائے۔
ہم جدید زمانے میں رہ رہے ہیں،اس زمانے کا پہلے زمانے سے ایک فرق یہ ہے کہ اس میں افرا تفری اور روحانیت ارزاں ہے۔ایسے لگتا ہے کہ دنیا سے روح غائب ہو چکی ہے جس پر ماتم کیا جا رہا ہے۔ساتھ ساتھ ہر اس چیز سے بھی دشمنی اور جنگ ہے جس سے انسان میں روحانیت کی پرورش ہوتی ہے۔
ہنری ڈی لباک، اپنی 1944 کی شاندار کتاب The Tragedy of Atheistic Humanism میں لکھتے ہیں: "یہ سچ نہیں ہے کہ انسان، جیسا کہ کبھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ خدا کے بغیر زمین کو منظم نہیں کر سکتا۔ لیکن جو بات سچ ہے وہ یہ ہے کہ خدا کے بغیر زندگی آخر کار اسے انسان کے خلاف ہی منظم کر دیتی ہے۔ خدا سے خالی انسانیت ایک غیر انسانی انسانیت ہے۔"
ہماری تاریخ کے المناک سانحات کو دیکھ کر ہر انسان معمولی سی کوشش سے اسے جان سکتا ہے۔
مشہور مصنف اور سیاح، سلوین ٹیسن نے انسانی روح میں اس بڑے اختلاف کو یہ کہتے ہوئے نمایاں کیا ہے: کہ "فرانس ایک ایسی جنت ہے جس میں ایسے لوگ آباد ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ جہنم میں ہیں۔" ایسے الفاظ جو گہرائی سے اس شدید تضاد کا خلاصہ کرتے ہیں جو کچھ لوگ اپنے ارد گرد کی نعمتوں اور تکلیف دینے والے مصائب کے درمیان تجربہ کرتے ہیں۔ یہاں سے وہ اس بڑے تضاد کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو کچھ لوگوں کو نعمتوں کی فراوانی اور آنے والی مصیبتوں اور مشکلات کے حوالے سے درپیش ہوتا ہے۔
اکیڈمک ایلن فنکلکراٹ، ایک سیکولر یہودی اظہار خیال کرتے ہوئے کہتا ہے: کہ یتیم اللہ، یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ دنیا روحانی اور معنوی تعلق سے محروم ہو رہی ہے۔اپنی کتاب "لوسٹ ہیومینٹی" میں انہوں نے بیسویں صدی میں روحانی اقدار اور اخلاقی اصولوں کے زوال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس کو اس چھت کے کھو جانے سے تشبیہ دیتا ہے جس نے انسانیت کی حفاظت اور رہنمائی کی، اس کی جگہ وجودی شکوک و شبہات کے انتشار نے لے لی۔
آئیے اب بیسویں صدی کے ایک ممتاز ادیب جیک مارٹین کی گواہی کی طرف آتے ہیں، جس نے الحاد کا ذائقہ چکھا۔ یہ دراصل اس کی زندگی میں کفر سے ایمان لانے کی گواہی ہے۔اس کی یہ کہانی اور تجربہ اس قابل ہے کہ اسے دنیا کے سامنے بیان ہونا چاہیے۔ یہ میریٹین جولس فیری کا پوتا ہے، ایک فری میسن اور تیسری جمہوریہ کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ وہ ایک جمہوریہ کا حامی اورمذہب مخالف ماحول میں پلا بڑھا۔وہ اس تبدیلی کے کئی سال بعد پوپ پال چہارم کا قریبی دوست اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے مسودہ کو حتمی شکل دینےو الوں میں سے ایک بن گیا۔
اس کی زوجہ رئیسہ نے مشہور کتاب "عظیم دوست" میں لکھا ہے:سولہ سالہ جیک اپنے کمرے کے فرش پر مایوسی میں ڈوبا بیٹھا تھا۔اس کے پاس بہت سے سوالات تھے مگر ان کے جوابات نہیں تھے۔وہ زندگی کی بنیادوں سے مایوس ہو کر اس طرف بڑھ رہا تھا جہاں مایوسی خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔۔۔۔گرمیوں کی ایک شام، جب میں اور جیک بوٹینیکل گارڈن میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ہم نے کچھ دیر کےلیے نامعلوم پر بھروسہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک تجربے کے طور پر ہم زندگی کو ایک موقع دیں گے، اس امید پر کہ یہ ہماری اس پرجوش پکار کے جواب میں ہمیں زندگی کے معنی بتائے گا اور یہ کہ اگر یہ تجربہ کامیاب نہ ہوا تو اس کا حل فقط خودکشی ہو گا۔ ہم چاہتے تھے کہ اگر حق کے مطابق جینا ممکن نہ رہے تو ہم آزادی کے ساتھ انکار کرتے ہوئے مرنا چاہتےتھے۔
(عظیم دوستی، ڈیکل ڈی برور پبلی کیشنز)
2018 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب "Life Without End" میں، مشہور مصنف فریڈرک بگ بیڈر نے اپنے مخصوص انداز بیان کو استعمال کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ تہذیبی چمک دمک میں اس بڑے عدم اطمنان کو نہیں سمجھا گیا۔ بگ بیڈر زندگی میں معنی تلاش کرنے کے اپنے ذاتی تجربے کو بیان کرتا ہےاور بتاتا ہے کہ کس طرح اس کی روحانی تلاش نے اسے عقیدے اور مذہب پر اس کے موقف پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔
بگ بیڈر کے تجربے کی بازگشت فلسفی ایڈتھ اسٹین کی کہانی میں بھی ملتی ہے، جس نے گہری مایوسی کا بھی تجربہ کیا جس کی وجہ سے وہ مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ اسٹین نے اپنی تبدیلی سے پہلے کی زندگی کو "ناقابل برداشت" قرار دیا، کیونکہ وہ اکثر خودکشی کے بارے میں سوچتی تھی۔ اس نے اپنی صورت حال خود بیان کی: ”میں اس مقام پر پہنچ گئی جہاں میری زندگی ناقابل برداشت لگ رہی تھی۔ میں اکثر اپنے آپ سے کہتی تھی کہ یہ مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے لیکن ان تمام دلیلوں کا میرے لیے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میں سڑک پار نہیں کرسکتی تھی کیونکہ میں سوچتی تھی کہ میں کار کی زد میں آجاوں گی،سفر پر جانا ممکن نہیں تھا کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ اگر سفر پر گئی تو کار کھائی میں گر جائے گی اور میں زندہ نہیں رہوں گی۔"
بگ بیڈر اور اسٹین اس خیال کو واضح کرتے ہیں کہ روحانیت اور مقصد کی تلاش ایک بنیادی انسانی کام ہے۔ایمان ہی اس دنیا میں سکون،معنی اور مقصد فراہم کرسکتا ہے جو اکثر ہمیں ظالمانہ اور بے معنی لگتاہے۔
ان ذاتی کہانیوں کو سنا کر، بگ بیڈر الحاد کے عصری بحران، مذہب میں دلچسپی کے دوبارہ پیدا ہونے اور اس بڑھتے ہوئے احساس کی کھوج کرتا ہے کہ بے معنی اور بےمقصد کے بغیر زندگی بہت تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔
دوسرے اثرات
پروفیسر پال کلیٹن فٹز نیو یارک یونیورسٹی کے ممتاز ماہر نفسیات ہیں انہوں نے اپنی علمی تحقیق اور اشاعتوں کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ الحاد، خاص طور پر جب یہ انتہا پسندانہ شکل اختیار کرلیتا ہے، اکثر کسی فرد کے والد کی طرف "نفسیاتی" تشدد سے پیدا ہوتا ہے۔ اسے "عیب دار باپ کا مفروضہ" کہا جاتا ہے۔ اس نے درجنوں مشہور انتہا پسند ملحدین کی زندگیوں کا بھی مطالعہ کیا جنہوں نے تاریخ پر اپنے نقوش چھوڑے۔اس نے نفسیات میں تحقیق کی بنیاد پر یہ بات کی ہے۔
اگرچہ اس میں کچھ مستثنیات بھی ہیں، ان کے متعدد تحقیقی مطالعات نے الحاد ار والد کے تشدد کے درمیان اس حیرت انگیز تعلق کو ثابت کیا ہے۔ اس کے برعکس، اس نے یہ ثابت کیا کہ جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ "مثبت" تعلقات استوار کرتے تھے وہ اکثر خدا کے ساتھ مثبت تعلق برقرار رکھتے ہیں۔
امریکی ماہر عمرانیات اور ماہر تعلیم ولیم سمز بینبریج نے یہ بھی ثابت کیا کہ الحاد اور بانچھ پن کے درمیان ایک ناقابل تردید رشتہ ہے،
اور دوسری طرف الحاد اور انفرادیت کے درمیان بھی ایک تعلق موجود ہے۔("الحاد"، بین الضابطہ جرنل آف ریلیجیئس ریسرچ، جلد 1، آرٹیکل نمبر 2، 2005، صفحہ 1-26)۔
الحاد پر ایک عالمی مطالعہ میں، ماہر عمرانیات فل زکرمین نے ثابت کیا کہ سب سے زیادہ ملحد ممالک میں خودکشی کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔
آخر میں، ماہرین تعلیم ،نفسیات اور سائنس کے محقق، سارہ زیمور اور لی این کاسکوٹا نے ثابت کیا ہے کہ مذہبی عقیدہ نشے کی مختلف نقصان دہ شکلوں کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حل صرف مذہب کے پاس ہے
لوک فیری، مشہور فلسفی اور سابق فرانسیسی وزیر برائے قومی تعلیم، جدید دور میں مذہب کے زوال کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: "میں مذہبی شخص نہیں ہوں؛لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بے چینی کو کم نہیں سمجھنا چاہیے جو لوگ دنیا میں اس روحانی زوال کی وجہ سے محسوس کرتے ہیں۔"
یہاں تک کہ مشہور ملحد فلسفی آندرے کومٹے سپون ویل نے بھی تسلیم کیا کہ "ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب ملحد خود کو مکمل طور پر بے اختیار محسوس کرتا ہے۔ جب وہ اپنے کسی عزیز کو کھو دیتا ہے، چاہے وہ ماں باپ ہو، بیوی ہو، بچہ ہو، یا بہترین دوست، موت اسے اس سے چھین لیتی ہے... ناقابل تسخیر مصائب کے وقت، انسان خدا پر یقین رکھنے کی خواہش کرتا ہےاور کبھی کبھی ایمان والوں سے حسد کرتا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ مذہب کا مضبوط پہلو ہے اور وہ اس مقام پر ناقابل شکست ہیں۔" تو اس کا حل کیا ہے؟
مشہور فرانسیسی ماہر نفسیات بورس سیرلنک نے اپنی کتاب "Psychothérapie de Dieu" میں ہمیں نفسیاتی توازن کے حصول کے لیے بنیادی ستون کے طور پر انسانی زندگی میں مذہبی جہت کی اہمیت کا بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں: کہ "اپنے والدین کا مذہب سیکھنا لگاؤ کے بندھن کو اتنا ہی مضبوط کرتا ہے جتنا کہ ان کی زبان بولنا اور موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں بتائی گئی کہانیاں، بعد کی زندگی میں راستے کو روشن کرتی ہیں اوریہ انسان کے لیے ایسا طرز عمل اور اخلاقی بنیادیں فراہم کرتی ہیں جن سے انسان خود کو خدا کی مرضی کے مطابق پہنچانتا ہے۔"
سرلنک ہماری توجہ اس تربیت کے ماحول کے طرف بھی کراتاہے جس کی وجہ سے لوگ خدا سے نفرت کرتے ہیں۔وہ کہتا ہے: کہ "اس کے بجائے (اس قسم کا تربیتی ماحول)، ایک سماجی یوٹوپیا پیش کیا جاتا ہے جو ایک مثالی دنیا میں ایک اور زندگی کا تصور کرتا ہے، جیسے کہ دنیاوی کمیونسٹ جنت یا مادی کامیابی کی جنت کہتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو کچھ نہیں دیتے ہیں وہ انہیں ترقی کے لیے رہنمائی سے محروم کر دیتے ہیں، انہیں خوابوں یا منصوبوں کے بغیر بے معنی کے صحرا میں آوارہ چھوڑ دیتے ہیں، جہاں منصوبہ ساز اپنے سامان کی مارکیٹنگ کے لیے لوٹنے آتے ہیں۔
یہ مشاہدہ آسٹریا کی صوفیانہ ماریہ سما کے بیان کے ساتھ واضح طور پر مطابقت رکھتا ہے وہ کہتی ہیں: کہ "سیکولر دنیا کہتی ہے کہ اس دور میں جس میں سائنس اور نفسیات کا غلبہ ہے، روحانیت کی اب ضرورت نہیں رہی۔ یہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ ان سے سوال پھر لوگ کیوں ہزاروں کی تعداد میں گنگا کے کنارے غور و فکر کرنے کے لیے ہندوستان آتے ہیں؟ اور منحرف فرقے اور گروہ ہمارے شہروں میں کیوں ہجوم کرتے ہیں؟ انسان کے روحانی پہلو کو دیگر تمام پہلوؤں کی طرح پرورش اور پانی کی ضرورت ہے۔ آج بہت زیادہ جہالت اور الجھنیں ہیں جب اس اہم پہلو (مذہبی اور روحانی جہت) کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، تو انسان لاشعوری طور پر کسی متبادل کی تلاش شروع کر دیتا ہے، جس پر تکیہ ہو سکے۔ یہاں لوگ آسانی سے منشیات، شراب اور سیکس کے جال میں پھنس جاتے ہیں، یا پیسے، طاقت اور رتبے کے جنون میں مبتلا ہو جاتے ہیں، یا کسی ایسے فرقے میں شامل ہو جاتے ہیں جو انہیں خوشی اور امن کا وعدہ کرتا ہے، یہ سمجھے بغیر کہ ان کے رہنما شیطانی روحوں سے رابطے میں ہیں۔ "
جب بت پرستی ایمان کی جگہ لے لیتی ہے۔
فلسفی ریمی بریگ نے اپنی بہترین کتاب "مذہب کے بارے " لکھی ہے، جس میں ایک پریشان کن رجحان کو اجاگر کیاہے وہ کہتا ہے کہ اب معاشرے میں عقیدے کی جگہ مادیت پسندانہ نظریات اور فلسفے کی تقدیس نے لے لی ہے اور ان کو مذاہب میں تبدیل کر دیا گیا ہے: بریگ نے حیرت کا اظہار کیا: کیا الحاد ایک مختلف تصوف کو جنم دے سکتا ہے؟ وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے جواب دیتا ہے کہ مطلق العنان نظریات، چاہے نازی ازم ہو یا لینن ازم، نے "سیکولر مذہب" یا "سیاسی مذہب" سے ملتا جلتا ہی کچھ پیدا کیا ہے۔ یہ اصطلاحات، جو ریمنڈ آرون اور ایرک ووجیلن جیسے عظیم مفکرین نے استعمال کی ہیں، ان پر تنقید کی جاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ نظریات، عقلیت کے دعوے کے باوجود، غیر معقول ہیں اور غیر عقلی عقائد کے حامل ہیں۔
بریگ ان نظریات کو ایک ہی وقت میں مذہب اور سائنس کی سطحی تقلید سے تشبیہ دیتا ہے، لینن ازم میں سیاسی معیشت اور نازی ازم میں ڈارون کی حیاتیات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ نظریہ سائنس اور مذہب سے دوہرے انحراف کے سوا کچھ نہیں ہے، جو ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے ذریعے بگاڑ رہے ہیں۔
بریگ تصورات سے آگے زندہ حقیقت کی طرف جاتا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جدید دور نے خودساختہ خواہشات کی پیروی کے نتیجے میں لاتعداد سانحات اور قتل عام کا مشاہدہ کیا ہے۔ وہ متنبہ کرتا ہے کہ موت کا کھیل زندگی کے احترام کو خطرے میں ڈالتا ہے، لالچ یکجہتی کو مجروح کرتا ہے، معاشی مفاد خاندان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہےاور انتہائی انفرادیت پرستی انسانی وقار کو کچل دیتی ہے۔
بالآخر، بریگ بتاتا ہے کہ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج نظریات اور مفادات کے تصادم کے درمیان پھسلتی ہوئی دنیا میں اعلیٰ انسانی اقدار کا تحفظ ہے۔
چونکہ الحاد انسانی روحوں میں جڑی روحانی خواہشات کی پیاس کو بجھانے میں ناکام رہا تھا، اس لیے آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح پراسرار فرقوں اور مذاہب سے لے کر جادوئی اور چھپے ہوئے طریقوں اور مشتبہ انحرافات کی مختلف شکلوں میں نئے روحانی رجحانات سامنے آرہے ہیں۔ ہمارے ہم عصر لوگ ایک جادوئی سحر میں ہیں۔ اس میں ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو سچے دل سے ملحد ہونے یا مذہب سے آزاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔مگر عملی زندگی میں کوئی قدم نہیں اٹھاتے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرتے ہیں جب تک کسی کاتب، نجومی یا جادوگر سے مشورہ نہ کر لیں، یا قسمت کا حال بتانے والے سے پوچھ نہ لیں۔ "غیر معقولیت" کا بازار گرم ہے سیکولر معاشروں میں ایسی جہالت کی پیروی کبھی نہیں تھی جیسی آج ہے۔ اگر "خدا مرگیا ہے،" جیسا کہ نطشے نے کہا، مگر جدید انسان کی روحانیت کی پیاس زندہ اور متحرک رہتی ہے۔ جیسے جیسے پجاریوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، ہم چڑیلوں اور قدیم دیوتاؤں کی واپسی اور نو بت پرستی کی لہر کے عروج کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کا بہترین ثبوت سنیما ، ادبی کاموں اور ان موضوعات کے گرد گھومنے والی ٹیلی ویژن سیریز کی حیرت انگیز کامیابی شکل میں دیکھتے ہیں ۔بڑی لائبریریوں کا دورہ کرنا یا سوشل نیٹ ورکس کو براؤز کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ یہ رجحان کتنا مقبول اور وسیع ہے۔ کسی شخص کو اس چیز سے محروم رکھنا جو اس کی مذہبی زندگی کی پرورش کرتی ہے نامعقول ہے انسان کی روحانی پیاس مذاہب یا مذہبی نظاموں کے ذریعے سے ہی بجھے گی۔
سائنسی اور نفسیاتی نقطہ نظر سے مذہب انسان کی روحانی ضرورت ہے اور فطری تقاضا ہے۔ بہت سی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ انسان فطرتاً ایک روحانی وجود ہے جو اپنی جسمانی اور مادی ضروریات کے علاوہ اپنی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مذہب انسانوں کو رسومات اور طرز زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔یہ عقیدے کا اظہار کرنے اور خالق کے ساتھ بات چیت کرنے، دماغ، جسم اور روح کے درمیان توازن حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ مذہبی رسومات اندرونی اطمینان اور سکون کے احساس کو بڑھانے میں معاون ہیں۔مومن کو زندگی دباؤ اور مشکلات سے مقابلے کی طاقت دیتی ہیں۔
آخر میں، جب معلوم ہے الحاد عصبیت دور اور خالی پن کے احساس کی طرف لے جاتا ہے، مذہب مومنوں کو کائنات اور زندگی کا ایک جامع اور ہم آہنگ وژن پیش کرتا ہے، جس سے وہ نفسیاتی اور سماجی توازن حاصل کرتاہے جو با مقصد اور بامعنی سے بھرپور زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔