| اللہ تعالی کے ساتھ عہد و پیمان ( حج) | حج کے لیے استطاعت کی شرط قرآن و حدیث کی روشنی میں
حج کے لیے استطاعت کی شرط قرآن و حدیث کی روشنی میں
(إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (96) فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ(97)(سورة آل عمران ـ 96 ـ 97)
سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے۔۹۶ اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والا ہو گیا اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے۔۹۷
یہاں استطاعت سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز فراہم ہو جائے جس کی نیتجے میں انسان مستطیع ہو جائے۔ یہ چیزیں مادی اور معنوی ہر دو طرح کی ہو سکتی ہیں۔ زیادہ دقیق بیان کریں تو استطاعت سے مراد اس طاقت کا حاصل ہوجانا ہے جس کے ذریعے انسان بیت اللہ شریف اور دیگر مقدس مقامات تک جا سکے اور تمام مناسک حج کو طبعی طور پر جیسے عموما ادا کیے جاتے ہیں ادا کرسکے۔ وہ تمام رکاوٹیں ختم ہو جائیں جن کی موجودگی میں حج پر جانا ممکن نہ رہتا ہو۔ یہ وہ تمام موانع ہیں جن کی وجہ سے حج پر جانا ناممکن ہو جاتا ہے یا بہت مشکل ہو جاتا ہے تو ان کی موجودگی میں استطاعت نہیں رہتی۔
استطاعت مندرجہ ذیل امور سے متحقق ہوجاتی ہے:
۱۔مالی استطاعت: اس سے مراد یہ ہے جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہے وہ ان مقدس مقامات تک پہنچنے کے مالی وسائل رکھتا ہو اس طرح سے کہ جیسے عام لوگ جاتے ہیں ویسے وہ بھی جا سکے ۔مندرجہ ذیل امور کے حاصل ہونے سے مالی استطاعت حاصل ہو جاتی ہے:
اتنے پیسے ہوں کہ انسان حج پر جاسکے اور واپس بھی آسکے۔اس میں سواری، رہائش، کھانے اور ان امور کی بجا آوری کے لیے اخراجات موجود ہوں۔ اسی طرح حج سے واپسی پر اپنے ضروری اخراجات کے لیے رقم رکھتا ہو تاکہ زندگی کو بہتر انداز میں چلایا جاسکے یہ نہ ہو کہ وہ خود یا اس کے اہل عیال پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ذلت کا شکار ہو جائیں ۔اسی طرح اس کی ضروریات زندگی جن میں گھر، کام کی جگہ، اور گھر کا سامان موجود ہو تو اس پر حج فرض ہو جائے گا۔ اسی اگر انسان کے پاس ضرورت سے زیادہ سامان موجود ہو جن کی فروخت سے اسے استطاعت ہوسکتی ہے تو اس کو فروخت کرکے حج کیا جائے گا۔
اپنے خاندان کا نان و نفقہ بھی استطاعت میں شامل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ جو حج کرنا چاہتا ہے وہ سفر حج کے دوران خاندان کے ضروری اخراجات رکھتا ہو تبھی اس کو استطاعت حاصل ہو گی۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس کی زیر کفالت اس کی اولاد ہو یا اس کے باپ اور بھائی ہوں اگر ان کے پاس زیرکفالت افراد کے لئے خرچہ نہیں ہے تو اس پر حج واجب نہیں ہو گی۔ کیونکہ اللہ تعالی کسی مسلمان سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ اس طرح حج پر جائے کہ جن کا خرچہ اس پر واجب ہے اس کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔
اسی طرح مسکن وغیرہ کا خرچہ بھی استطاعت میں شامل ہے اگر گھر کا کرایہ نہیں ہے تو حج واجب نہ ہو گا کیونکہ اللہ نہیں چاہتا کہ وہ انسان حج پر جائے جس کے پاس اس کی ضروریات نہیں ہیں اس لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ تمام دنیاوی ضروریات میسر ہوں اگرچہ کم ترین حد پر ہی کیوں نہ ہوں جو اس کی عزت اور کرامت کے لیے کافی ہوں۔
۲۔ بدنی طاقت: اس سے مراد بدن کا اس بات پر قادر ہونا کہ وہ سفر کی صعوبات کو برداشت کرسکے اور مناسک حج کو ادا کرسکے۔ اس میں انسان کا جسمانی طور پر سلامت ہونا بالخصوص اس طرح سلامت ہونا کہ وہ حج کے تمام ارکان کو ادا کرسکے اگر ارکان کو ادا کرنا اس کے جسم کے لیے ممکن نہ ہو یا وہ بہت زیادہ مشکل ہو، وہ شخص مریض ہو اور مرض بھی ایسا ہو جس میں وہ ارکان حج کو انجام دینے سے عاجز ہو تو ایسی صورتوں میں حج واجب نہیں ہو گا۔ان وجوہات کی بنیاد پر حج ساقط ہو جائے گا کیونکہ وہ شخص جسمانی طور پر مستطیع شمار نہیں ہو گا۔
۳۔حج کاراستہ محفوظ ہو
دقیق انداز میں حج کے راستے کا ہر طرح کی رکاوٹوں سے پاک ہونا جو حج اور حاجی کے درمیان رکاوٹ بن کر مکہ اور مقدس مقامات تک پہنچنے سے روکے۔ اس کے لیے کبھی پرامن راستہ اور کبھی پہنچنے کی استطاعت کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ راستے کے خطرات کو بھی شامل ہے اسی طرح یہ پاسپورٹ، ٹکٹ وغیرہ جو ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے ضروری ہیں سب کو شامل ہے۔ اگر ویزہ نہ ملے یا پکڑے جانے کا خوف ہو تو ایسی صورتوں میں بھی حج نہیں ہے۔
۴۔وقت ہو
اس سے مراد یہ ہے کہ جس نے حج کا ارادہ کیا ہے وہ انتا وقت رکھتا ہو کہ مکہ مکرمہ جا کر تمام مناسک حج کو ان کے محدود اوقات میں ادا کرسکے۔ اگر کوئی شخص تاخیر سے حج کے لیے مستطیع ہوا ہے اس طرح کہ اس کے پاس اب اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ خود کو حج کے لیے تیار کر سکے تو وہ حج کے لیے مستطیع شمار نہیں ہو گا اور اس پر حج واجب نہیں ہو گا۔
آخر میں جس پر حج فرض ہو چکا ہو یعنی وہ مستطیع ہو چکا ہو ضروری ہے کہ وہ حج کو ادا کرے ۔اگر وہ اسے ادا نہیں کرتا تو اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور بڑے گناہ کا مرتکب ہوا کیونکہ اس نے استطاعت کے باوجود حج نہ کیا۔