12 ربيع الاول 1447 هـ   5 ستمبر 2025 عيسوى 10:03 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلامی ضابطہ اخلاق |  امام حسینؑ کی راہ میں تواضع پر تنقید کیوں ؟
2025-08-08   197

امام حسینؑ کی راہ میں تواضع پر تنقید کیوں ؟

الشيخ مصطفى الهجري

چند روز قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں چند بچے امام حسینؑ کے زائرین کے پاؤں دھو رہے تھے۔ یہ منظر سوشل میڈیا پر خاصی توجہ کا مرکز بنا، اور مختلف آراء کا سبب بھی۔ بعض افراد نے اس عمل کو  ذلت کی تعلیم  قرار دیا، خصوصاً جب زائر کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھتا ہو۔

میں اکثر ایسے اعتراضات کرنے والوں کے لیے عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کیونکہ روحانیت کے ماحول سے ان کی دوری، انہیں اعمال کی پشت پر کارفرما نیتوں اور روحانی مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رکھتی ہے۔ اسی طرح بعض ممالک کے حوالے سے ان کے سیاسی یا نظریاتی تحفظات بھی، اس ناپسندیدگی کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتے ہیں۔

لیکن وہ لوگ جن کے دل زندہ اور ضمیر بیدار ہیں، جانتے ہیں کہ وہ اعمال جو انسان میں تواضع، انکساری اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، کس قدر بلند اور عظیم ہیں۔ پاؤں دھونا کوئی ناپسندیدہ عمل نہیں بلکہ کئی آسمانی ادیان میں یہ ایک معروف دینی شعار کے طور پر رائج ہے۔ مثال کے طور پر، عیسائیت میں "خميس العهد" کے دن پاپائے روم باقاعدگی سے قیدیوں اور پسماندہ طبقات کے پاؤں دھوتے ہیں۔ یہ عمل حضرت عیسیٰؑ کی سنت کی پیروی ہے، جیسا کہ بائبل (یوحنا 13:4) میں مذکور ہے: "وہ کھانے سے اٹھا، اپنے کپڑے اتارے، ایک تولیہ لیا اور اپنی کمر پر باندھا، پھر ایک طشت میں پانی ڈالا اور شاگردوں کے پاؤں دھونا شروع کیے اور تولیے سے انہیں پونچھا۔"

اس لیے امام حسین علیہ السلام کے خدام کی طرف سے زائرینِ سید الشہداءؑ کی خدمت کو سطحی اور منفی تاویلات کے ذریعے محدود کر دینا درست نہیں۔ بلکہ لازم ہے کہ ہم اس کو محبت اور اخلاص کی علامت کے طور پر دیکھیں -ایسی علامت جو ایثار کے عظیم مفہوم کو نمایاں کرتی ہے، ایسی قربانیاں جن کا مقصد فقط رضائے الٰہی ہوتا ہے، چاہے لوگوں کی عقلیں اس کے راز کو سمجھ نہ سکیں۔اور جیسا کہ علامہ طباطبائیؒ نے اپنی گراں قدر تفسیر الميزان میں خوب فرمایا ہے کہ: "عشق کے قوانین عقل کے تابع نہیں ہوتے"

لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ان مناظر کو ایثار کے ایک مظہر کے طور پر دیکھیں - ایک ایسا عمل جو مؤمن کو مزید قربانی کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ جتنا زیادہ ہمارا ایمان اللہ تعالیٰ اور آخرت پر مضبوط ہوگا، اتنا ہی ہمیں یہ یقین ہوگا کہ ہم جو بھی چیز خدا کے حضور پیش کرتے ہیں، اس کا صلہ ہمیں یا تو اسی دنیا میں ملے گا، یا آخرت میں، یا دونوں میں۔اور جب یہ ایمان جڑ پکڑ لیتا ہے تو انسان کے اندر قربانی دینے کی آمادگی بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایثار پیشہ بنے تو اسے اسی طرح  ایمان اور کربلا کے پیغام  کے مطابق تربیت حاصل کرنی ہوگی۔ اور یہ تربیت محض بڑے امتحانات سے نہیں ہوتی، بلکہ چھوٹے چھوٹے مواقع اور معمولی آزمائشوں سے شروع ہوتی ہے - یہاں تک کہ جب بڑے امتحانات آئیں، تو معاشرے کے دیندار افراد گھٹنے نہ ٹیکیں بلکہ اور آگے بڑھیں۔ جو لوگ حق کا ساتھ نہ دے سکے، اگرچہ باطل کا ساتھ بھی نہ دیا، وہ ان لوگوں سے کم برے ضرور ہو سکتے ہیں جنہوں نے باطل کی حمایت کی ،لیکن پھر بھی ان کی ملامت کی جانی چاہئے، کیونکہ انہوں نے حق کو سمجھنے کے باوجود اس کی نصرت نہیں کی۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں شاید کوئی شرعی یا اخلاقی رکاوٹ ہو جو انہیں باطل کی حمایت سے تو روکتی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی وہ قربانی دینے پر آمادہ بھی نہیں ہوتے ، حق کا ساتھ دینے اور انبیاء و رسل کی راہ پر چلنے کے لئے وہ نہ  اس دنیا کے کسی فائدے کو چھوڑنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں اور نہ کسی وقتی آسائش سے دستبردار ہونے کے لیے۔  یہ وہ طبقہ ہے جو حق کی راہ پر چلنے کو تو تیار ہوتا ہے، لیکن بغیر کسی زحمت، مشقت یا قربانی کے۔ اور جیسے ہی ان سے دنیا کی کسی چیزیں (مال، جان یا اولاد ) کی قربانی کا مطالبہ کیا جائے، تو یہ فوراً رک جاتے ہیں، کیونکہ انہیں اپنی دنیا کا خوف ہوتا ہے۔ اور یہی کچھ کربلا میں بھی ہوا۔

مثال کے طور پر، وہ تاجر جو مشکل حالات میں-جب لوگ پریشانی میں مبتلا ہوں-اپنے منافع میں سے تھوڑا سا حصہ قربان کرنے پر بھی آمادہ نہ ہو، درحقیقت امام حسینؑ اور اُن کی اقدار سے دور ہے۔ جو شخص معمولی دنیوی فائدے کی قربانی نہیں دے سکتا، تاکہ حسینؑی پیغام کا ساتھ دے، وہ اُس وقت کیا کرے گا جب جان، اولاد یا ہر شے قربان کرنا پڑے؟ جو شخص آسان اور معمولی آزمائشوں میں ناکام ہو، وہ سخت اور بڑے امتحانوں میں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟

اسی لیے ضروری ہے کہ جس طرح ہم نے امام حسینؑ کے پیغام کو وسیع مفہوم میں سمجھا ہے، اسی طرح ہمیں قربانی کے مفہوم کو بھی وسیع تناظر میں دیکھنا ہوگا،تاکہ ہماری پوری زندگی، ہمارے تمام موقف اور ہمارے تمام معاملات چاہے وہ تربیتی ہوں یا سماجی، ثقافتی ہوں یا معاشی، مالی ہوں یا انتظامی سب قربانی کے اسی جذبے پر استوار ہوں۔ یہی قربانی ہمیں راہِ حق میں موقف، عمل اور ہدایت عطا کرے گی۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018