12 ربيع الاول 1447 هـ   5 ستمبر 2025 عيسوى 10:07 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلامی ضابطہ اخلاق |  ہم امام حسینؑ کی نصرت کیسے کریں؟
2025-07-16   109

ہم امام حسینؑ کی نصرت کیسے کریں؟

شیخ مقداد الربیعی

امام حسین علیہ السلام کی آواز عاشور کے دن سے آج تک تاریخ کے دامن میں گونج رہی ہے۔ "هل من ناصر ينصرني؟"  "ہے کوئی جو میری مدد کرے؟" یہ صدا آج بھی دلوں کو ہلا دیتی ہے، آنکھوں کو اشکبار کر دیتی ہے۔ یہ صرف کربلا کا نعرہ نہیں، بلکہ ہر دور، ہر خطے اور ہر اس انسان کے لیے ہے جو حق و انصاف کا متلاشی ہو۔ امام حسینؑ کی نصرت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اُن کی تحریک کو صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک زندہ پیغام اور اقداری راستہ سمجھنا ہوگا جو قیامت تک باقی رہے گا۔

یہ بات صرف عاشورہ کے دنوں یا محرم کی مجالس تک محدود نہیں۔ بلکہ ہر لمحہ، ہر دن اور ہر عمل میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ، کیا ہم امام حسینؑ کے مددگار ہیں یا ان کے چھوڑنے والوں میں سے؟ یہ فیصلہ بظاہر مشکل لگتا ہے، لیکن ائمہ اہل بیتؑ نے اس کی وضاحت کر دی ہے، "ہمارے شیعہ وہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں" (جامع أحاديث الشيعة، ج14، ص91)
پس، جو اللہ کی اطاعت کرتا ہے، وہ حسینؑ کا مددگار ہے؛ اور جو نافرمانی کرتا ہے، وہ یزید کی صف میں ہے۔

حسینؑ کی نصرت... روزمرہ زندگی میں

حسینؑ کی نصرت صرف تلوار سے یا نعرہ لگانے سے نہیں ہوتی، بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ ، وہ  تاجر  جو ایمانداری سے مال بیچتا ہے اور ناپ تول میں کمی نہیں کرتا، وہ اُستاد جو پوری محنت سے طلبہ کو پڑھاتا ہے، وہ مزدور جو دیانتداری سے اپنا کام کرتا ہے، وہ ماں جو اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرتی ہے، باپ جو اپنی اولاد کی ضروریات کے لیے تھک ہار کر بھی محنت کرتا ہے۔یہ سب حسینؑ کے سچے مددگار ہیں۔ ہر نیک عمل، ہر اچھی بات، ہر انصاف پر مبنی رویہ ۔یہ سب حسینؑ کی نصرت میں شمار ہوتے ہیں۔اور ہر گناہ، ظلم، خیانت یا نافرمانی ۔ یہ یزید کی صف میں شامل ہونا ہے۔

کاش ہم آپ کے ساتھ ہوتے!   ایک زندہ دعوت

ہم اکثر کہتے ہیں: "یا لیتنا کنا معکم" ، "کاش ہم آپ کے ساتھ ہوتے!" لیکن اگر ہم صرف ماضی کے واقعات میں الجھے رہیں اور حال میں حق کا ساتھ نہ دیں، تو یہ تمنا کھوکھلی ہے۔ ہم آج بھی حسینؑ کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ جب بھی ہم ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، حق کا ساتھ دیتے ہیں، انصاف کی بات کرتے ہیں ، تب ہم حسینؑ کے قافلے میں شامل ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "حسین کی شہادت سے مؤمنوں کے دلوں میں ایسی گرمی پیدا ہوگی جو کبھی ٹھنڈی نہ ہوگی"۔یہی "گرمی" ہر دور میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے ،پہلے اپنے نفس کے خلاف، پھر معاشرے اور دنیا کے خلاف۔

حسینؑ کی نصرت: ایک طرزِ زندگی

امام حسینؑ کی نصرت کوئی موسمی نعرہ نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل زندگی کا طریقہ ہے۔ یہ ایک نظامِ اقدار ہے، جو ہمیں ہر وقت، ہر مقام پر عدل و حق کی طرف بلاتا ہے، اور ظلم و فساد کے خلاف جہاد کا درس دیتا ہے۔ کربلا میں حسینؑ نے حق کا ساتھ تنہا دیا، مگر آج وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ ، "کیا تم میری مدد کو آؤ گے؟" پس، ہمارا ہر نیک قدم، ہر حق بات، ہر انصاف کا فیصلہ ۔حسینؑ کی صدا کا عملی جواب ہے۔

دل سے نکلا پیغام

کہ اے وہ شخص جو یہ سطور پڑھ رہا ہے، اگر تُو حسینؑ سے محبت رکھتا ہے اور ان کی نصرت چاہتا ہے، تو جان لے کہ یہ موقع تیرے ہاتھ میں ہے۔آسمان سے کسی معجزے کا انتظار نہ کر، حالات کے بہتر ہونے کا انتظار نہ کر؛ بلکہ خود سے آغاز کر۔ دل کو حسد و بغض سے پاک کریں،  سچ بولیں، امانت ادا کر، ضرورت مندوں کی مدد کریں، ظلم کا مقابلہ حکمت اور دلیری سے کریں۔ اوراپنے دل سے پوچھ لیجئے "کیا میں واقعی حسینؑ کا مددگار بننا چاہتا ہوں؟" اگر ہاں، تو ابھی، اسی لمحے، اسی مقام سے اپنی نصرت کا آغاز کر۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018