3 شوال 1446 هـ   2 اپریل 2025 عيسوى 2:49 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | توحید |  اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟ — مختلف آراء اور پہلو
2025-02-25   87

اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟ — مختلف آراء اور پہلو

ہمیں اللہ تعالیٰ نے کیوں پیدا کیا؟ اور اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ یہ دونوں سوالات بظاہر ایک دوسرے سے متضاد معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم، ان کے معانی سیاق و سباق کے مطابق بدل سکتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات ان میں مشابہت بھی پیدا ہو جاتی ہے، اور کبھی تو ان کے مفاہیم یکساں محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہی امر ان سوالات کے جوابات دینے کے انداز پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور مسئلے کے حل میں کچھ پیچیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ میری ایک کتاب (اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ سوال کے سیاق و سباق اور عمومی جوابات پر تنقید)اسی موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اس سوال کے پس منظر کو واضح کرنا، اس کے معانی کو گہرائی سے سمجھنا اور اسے اس انداز میں بیان کرنا ہے کہ اس کا تسلی بخش جواب دینا آسان ہو جائے۔

اسی طرح، اس مضمون کا مقصد بھی سوال"اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟' کے مختلف معانی اور مقاصد کو واضح کرنا ہے تاکہ اس کا جواب دینا آسان ہوجائے اور اس کی پیچیدگیوں کو کم کیا جاسکے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ سوال کو سمجھنا آدھا جواب ہوتا ہے،یہ مضمون اس بات کی بھی کوشش کرتا ہے کہ جوابات کو آسان اور عام فہم انداز میں پیش کیا جائے، بغیر کسی پیچیدہ فلسفیانہ اصطلاحات کے۔ اس میں حتی الامکان اختصار سے کام لیا گیا ہے تاکہ مختصر مگر جامع انداز میں اس اہم موضوع کو بیان کیا جا سکے، کیونکہ یہ ایک مختصر مضمون ہے اور اس میں طویل تفصیلات بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

سوال (اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟) اگرچہ ظاہری طور پر ایک ہی سوال لگتا ہے اور اس کا مقصد اور مراد دونوں واضح ہیں یعنی مقصد اور غرض کا پتہ لگایا جائے لیکن اس سوال کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تین مختلف مقاصد پر مشتمل ہے۔ کبھی یہ سوال ایمان کی داخلی سطح کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، جس کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ مخلوق کی غایت کیا ہے؟ اور اس کی توقعات کیا ہیں؟ کبھی یہ سوال نسبتا ایک پیچیدہ شکل میں اٹھتا ہے جو فکر کو چیلنج کرتا ہے کیونکہ اس میں اس بات کا استفسار کیا جاتا ہے کہ خالق کی ذات کا انسان کی تخلیق میں کیا مقصد ہے؟ اس میں یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ سوال کرنے والا یہ تصور کرے کہ شاید خالق میں کوئی کمی یا نقص تھا جسے پورا کرنے کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کمالِ مطلق ہیں اور ہر قسم کی کمی، نقص اور محتاجی سے پاک ہیں، جیسا کہ دیگر فاعلوں کے افعال میں پایا جاتا ہے۔ یہ سوال اسلامی علم کلام میں سب سے پیچیدہ اور زیادہ زیرِ بحث سوالات میں سے ایک ہے، جس پر بحث کی جاتی ہے کہ "کیا اللہ کے افعال غایات کے ذریعے معقول ہیں؟۔ اس لئے اس سوال پر ہم دیگر سوالات سے زیادہ تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ اور کبھی یہ سوال اس بات کی تفہیم کے لئے پوچھا جاتا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو کیوں پیدا کیا ؟جبکہ اس کو ہمارے انجام کا علم تھاتاکہ بے مقصدیت کے امکان کو دور کیا جا سکے۔

(1)

سوال کا سب سے آسان اور سادہ جواب وہ ہے جو اللہ کی پیدا کی گئی مخلوق کے مقصد کو جاننا چاہتا ہے۔ گویا یہ سوال اللہ کے ارادے کو جاننے کے لیے ہے اور انسان کے بارے میں اس کا بنیادی مقصد جو اسے دنیا میں پیدا کرنے اور زمین پر بھیجنے کی وجہ ہے۔ اگر ہم اس سوال کو مختلف انداز میں پوچھیں جو قریب ترین معنی دیتا ہو تو ہم اسے اس طرح بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا؟، ہمارے پیدا ہونے کا مقصد کیا ہے؟، اللہ ہمیں کہاں پہنچانا چاہتا ہے جب اس نے ہمیں پیدا کیا اور وہ کون سا مقصد ہے جسے وہ ہم سے حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یقیناً اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے وہ اپنی مخلوق کے لئے صرف وہی چاہتا  ہے جس میں ان کے لئے فائدہ ہواور جو کچھ بھی کرتا ہے، وہ ان کی بھلاائی کے لئے ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نصوص کی طرف مراجعہ کریں تو بہت سی آیات و احادیث انسان کی خلقت کے مقاصد کو بیان کرتی ہیں۔ان مقاصد میں بہت سے امور شامل ہیں۔ اللہ کی عبادت، اس کی معرفت، اس کی رحمت، انصاف اور عدل کا قیام وغیرہ ،یہ مقاصد اگرچہ متعدد ہیں اور ان سے متعلقہ نصوص بہت زیادہ ہیں لیکن جو شخص ان پر غور کرے گا وہ ان کے درمیان تعلق تلاش کر لے گا اور اس کے سامنے ایک واضح تصویر ہو گی کہ حقیقی مقصد دونوں جہانوں میں خوشی و کامیابی ہے، جو اللہ کی عبادت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اور اس سوال کا مختصر اور جامع جواب قرآن کی سورہ الذاریات کی آیت 56 میں بیان کیا گیا ہے:(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ) اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

یہی وہ راستہ ہے جو اعلیٰ مقصد کی طرف لے جاتا ہے جبکہ باقی اغراض اور مقاصد جو نصوص میں ذکر کیے گئے ہیں،ان کا تعلق بھی اسی مقصد سے ہے۔ یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہی اعلی ترین مقصد ہے۔جیسے صاحبِ تفسیر "الميزان" نے فرمایا:انسان کی زندگی کا مقصد دین داری، توحید اور عبادت خدا ہےجس کے ذریعے انسانوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ نے انسانوں کو زندگی عطا کی جس کا مقصد انہیں رب کی عبادت کے قابل بنانا ہے نہ کہ انہیں دنیا کی لذتوں میں مشغول کرنا یا گمراہی اور غفلت کے راستوں میں بھٹکنے دینا۔ (الميزان 2-123)۔ خوش قسمتی سے بعض احادیث میں ان مقاصد کو ذکر کیا گیا ہے، جیسے امام حسین علیہ السلام سے ایک حدیث میں مروی ہے: "اللہ عزّ و جلّ نے بندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ اسے پہچانیں، پھر جب وہ اسے پہچان لیں گے تو اس کی عبادت کریں گےاور جب وہ عبادت کریں گے تو اس کی بندگی انہیں دوسروں کی بندگی سے بے نیاز کر دے گی ." (علل الشرائع، جلد 1، صفحہ 9)۔

یہاں جس چیز کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے، وہ یہ حقیقت ہے کہ سورہ ذاریات کی آیت (56) میں تخلیق کے مقصد کو صرف عقلی مخلوقات، یعنی انسانوں اور جنوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت میں خالق کے مقصد کا تعین نہیں ہو رہا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کی کمی اور ضرورت سے پاک ہے، اور اس کے مقاصد اعلیٰ اور بلند تر ہیں۔ اگر اس معاملے کو مکمل طور پر سمجھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک پہلو نہیں بلکہ تین مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہے، جن میں سے دو پہلو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں۔یہ آیت اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو تخلیق کیا، اور یہ عمل تخلیق کسی بے مقصدیت پر مبنی نہیں تھا۔ قرآن کی دیگر آیات بھی اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہر تخلیق میں ایک حکمت، مقصد اور فائدہ موجود ہے، جو بالآخر بندوں کے لیے ہی باعثِ منفعت بنتی ہے۔

دوسرا پہلو اس حقیقی مقصد کی وضاحت کرتا ہے، جس کے لیے انسانوں اور جنوں کو پیدا کیا گیا، اور وہ ہے عبادت۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ان دو مخلوقات کو اس مقصد کے لیے تخلیق کیا کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ تاہم، جیسا کہ ذکر کیا گیا، یہ مقصد دراصل عمل کی طرف لے جاتا ہے اور اسی لیے آیت میں صیغہ متکلم استعمال نہیں کیا گیا۔ اگر یہ کہا جاتا: "میں عبادت کروں" یا "میں اس کی عبادت کروں گا" تو یہ ذاتی عمل کی نشاندہی کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "تاکہ وہ میری عبادت کریں"۔یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عبادت ایک ایسا مقصد ہے جو مخلوق کی جانب لوٹتا ہے۔ اس سے مخلوق کی کمی اور ضرورت پوری ہوتی ہے، کیونکہ عبادت کرنے سے انسان اپنی اصل غایت کو پورا کرتا ہے۔ یہ عبادت خالق کی ضرورت نہیں بلکہ بندوں کی اپنی تکمیل اور فلاح کے لیے ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی محتاجی اور ضرورت سے پاک ہے۔

مجموعی طور پر یہ آیت تخلیق کے لئے ایک مقصد کے وجود کو ثابت کرتی ہے اور اس مقصد کو عبادت کے ذریعے متعین کرتی ہے۔ آیت کا واضح مفہوم اور براہ راست معنی یہ ہے کہ مکلّفین کو عبادت گزار ہونا چاہیے نہ یہ کہ اللہ کو معبود بننا چاہیے۔ یہ آخری بات اس تیسری جہت میں آتی ہے جس کو آیت نہیں بتا رہی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا۔ اس لئے اگر سوال (اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟) سے مراد وہ مقصد ہے جو پہلے بیان کیا گیا ہے تو اس کا جواب صرف اسی آیت سے ملتا ہے۔ لیکن اگر سوال کا مقصد اللہ کے مقصد کو معلوم کرنا ہے تو آیت سے اس کا جواب نہیں مل سکتااور اس کے لئے کسی اور طریقے کی تلاش کرنا ہوگی، جس کی وضاحت ہم اس کے دوسرے سیاق میں کریں گے۔

(2)

سوال (اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟) ایک پیچیدہ سیاق میں آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے مقصد کے بارے میں بحث سے متعلق ہے۔ اس سوال کا فرق پچھلے سوال سے یہ ہے کہ یہاں یہ پوچھا جا رہا ہے کہ اللہ کا مقصد کیا تھا جب اس نے پورے عالم کو پیدا کیا؟جبکہ سورہ الذاریات کی آیت (56) میں ذکر کردہ مقصد صرف اللہ کے فعل سے متعلق تھااور آیت کا مفہوم تمام مخلوقات سے نہیں خاص طور پر جنوں اور انسانوں سے تعلق رکھتا ہے۔

اس سوال کی گہرائی اور اہمیت اس بات سے بڑھ گئی ہے کہ یہ پچھلے سوال کے جواب دینے کے بعد بھی دوبارہ سامنے آتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا تو اب سوال یہ ہوگا: "اللہ کی عبادت کا مقصد کیا ہے؟حالانکہ وہ خود اس سے بے نیاز ہے؟۔ دوسری طرف اس سوال کا مضمون ایک پیچیدہ پہلو رکھتا ہے، جو واضح طور پر دو باتوں پر توجہ دینے کے بعد سامنے آتا ہے: پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ حکمت والا فاعل ہے اور حکیم فاعل کبھی بھی بے مقصد کام نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے افعال مقاصد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ عبث نہیں ہیں اور نہ ہی کھیل کود کے لیے کچھ کرتا ہے ان سے پاک ہے۔یہ بات قرآن کریم میں بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کمالِ مطلق ہیں اور کمال کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی قسم کی کمی یا حاجت نہیں ہے جبکہ کسی فاعل کے عمل میں ضرورت کو ثابت کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ فاعل ناقص اور محتاج ہے۔جو اپنے عمل کے ذریعے اپنی کمی کو پورا کرتا ہے۔ یہی بات اس پیچیدگی کو جنم دیتی ہے، جو اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔یعنی اللہ تعالی محتاج ہو گیا؟

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کائنات کی تخلیق اور دنیا کا وجود دو ممکنہ صورتوں میں ہے اور ان میں ہر دو صورتوں کا نتیجہ دو محذوروں میں سے ایک محذور کی صورت میں نکلتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے:دونوں میں سے کوئی بھی اختیار کرنا  ممکن نہیں ہے۔ پہلا امکان یہ ہے کہ اللہ نے مخلوق کو بغیر کسی ضرورت یا مقصد کے پیدا کیا، جس سے عبثیت لازم آتی  ہے، ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ اللہ حکیم ہیں اور عبث سے پاک ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ اللہ نے مخلوق کو اپنی ضرورت کے لئے پیدا کیا، لیکن اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہیں کہ اسے کسی کی ضرورت ہواور اگر اس صورت کو مانتے ہیں تو یہ کمالِ مطلق میں کمی کی طرف اشارہ کرے گا، جیسا کہ ہم نے دوسری بات میں ذکر کیا تھا۔

اس موضوع کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقصد تخلیق کو ثابت کرنے میں توازن قائم کیا جائے تاکہ یہ نہ ہو کہ عبث اور فضول لازم آئے اور ساتھ ہی اللہ کے کمال اور بے نیازی کو بھی مدنظر رکھا جائے تاکہ یہ نہ ہو کہ اللہ کو حاجت مند اور ضرورت مند بنا دیں۔ منطقی طور پریہ پیچیدہ صورتحال اختیار بن جاتی ہے جس کا نتیجہ دہرے مغالطہ میں ڈال سکتا ہے، جیسے کچھ مسائل میں ہے: 'یا تو تم میرے ساتھ ہو، یا تم میرے مخالف ہو، اس میں غیر جانبداری موجود ہی نہیں ہے، اسی طرح جنت میں ایمان والے ہوں گےاور  جہنم میں کافر ہوں گے۔ ایسی باتیں جو صرف سیاہ یا سفید کے زاویے سے چیزوں کو دیکھتی ہیں اور دوسرے رنگوں کو نظرانداز کرتی ہیں۔ ان مسائل کا حل اس غلط   یعنی یہ یا یہ کو  توڑنے میں ہے جس کے ذریعے انتخاب کو واضح کیا جا سکے۔

اگر ہم سوال پر غور کریں اور اس میں موجود مشکل کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ مسئلہ ضرورت اور عبثیت کے موازنہ پر قائم ہے اور یہ مانتا ہے کہ فعل کے لیے مقصد کے اثبات اور کمال کے درمیان تضاد موجود ہے۔ یہ سوال بتاتا ہے: اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو پیدا کیا یا تو اس نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پیدا کیا، جس سے حاجت کا مسئلہ آتا ہے یا اسے بغیر کسی ضرورت و حاجت کے پیدا کیا، جس سے عبثیت لازم آتی ہے۔ حقیقت میں ایسا کوئی تضاد یا موازنہ نہیں ہے۔ عبثیت کا مقابلہ حکمت سے ہوتا ہےنہ کہ حاجت و ضرورت  سے اور غایت کو فاعل کے فعل کے ساتھ جوڑنے میں کمال کے ساتھ کوئی تضاد نہیں ہے۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے فاعل اپنے نقص کو پورا کرنے کے لیے غایت رکھتے ہیں جیسا کہ بھوکا کھاتا ہے تاکہ اپنی بھوک مٹائے، یا پیاسا پانی پیتا ہے تاکہ اپنی پیاس بجھائے لیکن یہ ہمیشہ ایک ہی طرح سے نہیں ہوتا۔ ہر فعل جو فاعل کی غایت کو پورا کرتا ہے وہ ہر جگہ فاعل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پروہ شخص جو پیٹ بھر کر دوسروں کو کھانا کھلاتا ہے، یا جو پانی کے کنویں پر کھڑا ہو کر پیاسوں کو پانی پلاتا ہے، وہ یہ سب عبث یا بے وقوفی سے نہیں کرتا بلکہ ایک اچھے مقصد کے تحت اور ایک بلند غایت کے لیے کرتا ہے۔یہ اس کی فطری پاکیزگی اور انسانیت کے کمال کی علامت ہے۔یہ غایت اس کے کمال اور بے نیازی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہےکیونکہ وہ اپنی بھوک یا پیاس کو دور کرنے کے لیے یہ عمل نہیں کرتابلکہ اسے ایک خوبصورت مقصد کے تحت کرتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں یہاں فاعل کی غایت اس کے کمال اور بے نیازی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔

جب ہم نے اس مسئلہ کو حل کر لیا تو پھر ہم سوال (اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟) کے اصل معنی کی بحث کی طرف دوباہ پلٹ سکتے ہیں جو دنیا کی تخلیق کے پیچھے اللہ کا مقصد سمجھنے کی کوشش ہے۔ ہم نے ذکر کیا تھا کہ اس سوال کا جواب دینے کے لیے سورہ الذاریات کی آیت (56) کا حوالہ دینا مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہ آیت پہلے بیان کردہ سیاق کے اندر سوال کا جواب دیتی ہے اور مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا مگر وہ ان کی عبادت سے بے نیاز ہے اور وہ ان کی نافرمانی کی صورت میں کسی بھی نقصان سے محفوظ ہے۔ اللہ کو بندوں کی اطاعت سے کسی قسم کا فائدہ نہیں ہوتا اور بندوں کی نافرمانی سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ ہم اللہ کے فعل اور اس کی ذات کے درمیان تعلق کو نہ سمجھیں کیونکہ ہر فاعل کا کوئی مقصد ہوتا ہے جو اس کی ذات سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور اس کا مقصد اس کے وجود اور صفات کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً وہ شخص جو بہادری کے لیے جانا جاتا ہے اور شجاعت اس کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے تو یہ بالکل غیر متوقع نہیں ہوگا کہ وہ بے خوفی سے لڑے اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرےکیونکہ یہ اس کی شجاعت کی خصوصیت ہے اور اس کی طبیعت کا تقاضا بھی۔

اگر آپ چاہیں تو مثال کو تبدیل بھی کر سکتے ہو،جیسا مثال ہے جو چیز اصل کے مطابق ہو، اس کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتابلکہ سوال اس چیز سے ہوتا ہے جو اصل سے ہٹ کر ہو۔ مثلاً اگر کسی شخص کی فطرت میں سخاوت ہو اور اس کی عادت جود و کرم کی ہو تو اس سے اپنے مہمان کی عزت افزائی کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا بلکہ اگر وہ اپنے مہمان کے ساتھ تنگ دلی اور بخیلی سے پیش آئےتو اس سے سوال کیا جائے گاکیونکہ اس کا عمل اس کی فطرت سے متضاد ہوگاتو جب خلاف عادت کیا تو سوال اٹھے گا۔ اسی طرح اللہ کا مقصد اس کے فعل سے متعلق ہے جو اس کی ذات سے نکلتا ہے اور اس کی صفات سے باہر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جود و کرم کا مالک ہے، ہمیشہ احسان کرنے والا ہے، اس کا معمول ہے کہ وہ ہر وقت خیر و بھلا ئی دیتا ہے،اس کی بخشش جاری رہتی ہے اور ہمیشہ اپنے بندوں پر فضل و کرم جاری رکھتا ہے۔

(3)

اس سوال کا تیسرا سیاق پچھلے دونوں سیاقوں سے مختلف ہےاور ان سے جڑا ہوا بھی نہیں ہے۔ ہم نے اسے سیاق کی تکمیل اور اس میں موجود فائدے کے لیے ذکر کیا ہے۔ سوال یوں ہے اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا جبکہ وہ ہمارے انجام سے بخوبی آگاہ ہے؟یہ سوال اللہ کی ازلی علم کی صفت سے پیدا ہوتا ہے اور حکمت کی حقیقت کو جانچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ بندے کا انجام کیا ہوگا اور ان کے اعمال انہیں جنت یا جہنم میں لے جائیں گے۔یہ علم ازلی، حتمی اور ناقابل تبدیل ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو پیدا کرنے کا مقصد کیا تھا ؟جب ان کا انجام پہلے سے معلوم تھا؟ دوسرے الفاظ میں، انسان کا جو کچھ بھی عمل اس دنیا میں کیا جائے گا وہ اللہ کے لیے پہلے ہی معلوم ہےتو پھر کیوں انہیں پیدا کیا گیا اور امتحان میں ڈالا گیا؟جب کہ اللہ کو ان کے نتائج کا پہلے ہی علم تھا؟

اس سوال کا جواب علم خدا کے موضوع سے جڑا ہوا ہے جو کہ علم کلام میں ایک وسیع موضوع ہے۔ جس پر تفصیل سے بات کرنا ممکن نہیں ہے، تاہم ہم اسے مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:

موجودات کے بارے اللہ کا علم دو قسموں میں تقسیم ہوتا ہے ایک ہے ذاتی علم، یہ علم چیزوں کے وجود سے پہلے کا علم ہےجیسے اللہ کا بندوں کے حالات اور ان کے اعمال کا کے بارے میں ان کے وجود سے پہلے ہی علم ہے۔یہ صرف ایک سابقہ علم ہوتا ہے، جو ان کی رہنمائی نہیں کرتا۔ دوسری قسم ہے فعلی علم، یعنی اللہ کا ان چیزوں کے بارے میں اس وقت کا علم جب وہ وجود میں آ کر حقیقت میں تبدیل ہو جائیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک اہم فرق یہ ہے کہ انسان پہلے والے علم کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اس تک اس کی رسائی نہیں اور یہ علم بداء یعنی تبدیلی کے تحت نہیں آتا، اس کے برعکس، دوسرا علم انسان کے سمجھنے کے قابل ہے اور اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ یہاں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ایک تکوینی ارادہ اور لازمی مشیئت کے تحت تمام معاملات کو اسباب کے ساتھ جاری کرے اور اشیاء کو ان کی علل کے ذریعے پیدا کرےتاکہ اللہ کی انسانوں پر حجت قائم ہو سکے، جس کے ہوتے ہوئے لوگ کوئی عذر نہ کر سکیں۔

مندرجہ بالا دونوں باتوں کو ملا کر دیکھیں تو انسانوں کی جزاء و سزا اور جنت کی نعمتیں اور جہنم کا عذات سمجھ میں آتا ہے جو حقیقی اسباب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ التزامی علل کے ساتھ وابستہ ہےاور اس کے لیے اس کی موضوعی شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہ اسباب اور علل جو اللہ کی تقدیر اور مشیت کے تحت ہیں انسانوں کے اعمال ہیں جو انہوں نے اپنی مرضی سے کیے ہیں اور ان کے وہ امور ہیں جو انہوں نے اپنی آزاد مرضی سے انجام دیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کا جزا کا نظامِ کائنات میں اس کے اعمال کا نتیجہ ہے نہ یہ کہ اللہ کے ازلی علم اور سابقہ تقدیر کا نتیجہ ہے۔ اگر فرض کیا جائے کہ جزا کا نظام تقدیرِ سابقہ کے مطابق ہوتا اور عمل کو اس میں کوئی دخل نہ ہوتا، تو اللہ کی حجت ناقص ہو جاتی اور عذر کا دروازہ کھل جاتااور اہلِ جہنم یہ دعویٰ کر سکتے تھے کہ اللہ نے انہیں حقیقت میں امتحان کا موقع نہیں دیا، خاص طور پر جب لوگ عذر تراشنے میں ماہر ہیں، ہمیشہ بہانے ڈھونڈنے والے ہیں، جیسے کہ ایک قوم نے پہلے کہا تھا: (لَوْ أَنَّا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ")(الأنعام-157) اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہو جاتی تو ہم ان سے بہتر ہدایت لیتے،پس اب تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل، ہدایت اور رحمت تمہارے پاس آ گئی ہے"

ہم اس بات کو واضح کرنے کے لیے ایک مثال لیتے ہیں جیسے ایک استاد جو اپنے طلبا کے ساتھ طویل عرصہ گزار چکا ہو اور ان کی صلاحیتوں کو جانتا ہو، وہ اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ کون محنتی اور کوشش کرنے والا ہے اور کون سست اور غافل ہے؟ مگر اس کے باوجود وہ ایک امتحان لیتا ہے جس کے واضح انصاف پر مبنی قوانین ہوتے ہیں، جس کے تحت کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس حالت میں، ہم دیکھتے ہیں کہ استاد نے اپنی معلومات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امتحان لیا اور جو کچھ استاد نے کیا وہ حکمت کے مطابق ہے اور اس میں کوئی عبثیت نہیں ہے، اس کے علاوہ اس عمل کے ذریعے استاد نے طلبا پر اپنی حجت پوری کی اور ان کے لیے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018