26 ربيع الثاني 1447 هـ   18 اکتوبر 2025 عيسوى 12:18 am کربلا
موجودہ پروگرام
آج کے دن، سنہ 676 ہجری کو ابو القاسم نجم الدین جعفر بن الحسن، صاحبِ کتاب "شرائع الاسلام" المعرورف محقق حلی کی وفات ہوئی۔
مین مینو

 | عدالت |  کائناتی اقتدار کا مسئلہ: انسان اللہ تعالی ٰ کے سامنے جھکنے سے کیوں انکار کرتا ہے؟
2025-10-04   77

کائناتی اقتدار کا مسئلہ: انسان اللہ تعالی ٰ کے سامنے جھکنے سے کیوں انکار کرتا ہے؟

الشيخ باسم الحلي

آزادی اور خود مختاری کی فطری خواہش کے سامنے ایک نہایت گہرا سوال ابھرتا ہے جس کا تعلق اللہ کی بالادستی کے سامنے جھکنے کی فطرت سے متعلق ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ: کیا اللہ پر ایمان اور اس کے احکام کے آگے سر جھکانا انسان کی آزادی پر ایک قید ہے، یا درحقیقت یہ انسان کو زیادہ خطرناک اور گہرے بندھنوں سے رہائی فراہم کرتا ہے؟

یہ فلسفیانہ معمہ ہمیں مطلق خود مختاری کی خواہش اور ایک مستحکم اخلاقی ڈھانچے کی ضرورت کے درمیان جاری بنیادی کشمکش تک لے جاتا ہے ۔بطور نمونہ معروف فلسفی تھامس نیگل کا اس اندرونی کشمکش کا ایک نہایت سچا اور صاف اعتراف دیکھا جاسکتا ہے جہاں نیگل کھلے الفاظ میں کہتا ہے: میں چاہتا ہوں کہ الحاد سچ ہو، جبکہ مجھے اس بات سے بےچینی ہوتی ہے کہ میرے جاننے والوں میں سے سب سے زیادہ ذہین اور روشن خیال افراد ان لوگوں میں شامل ہیں جو دین پر ایمان رکھتے ہیں۔

معاملہ صرف یہ نہیں کہ میں خدا پر ایمان نہیں رکھتا، بلکہ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ میرے عقیدہ میں میں درست بھی ہو ۔ میں چاہتا ہوں کہ خدا نہ ہو! اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی خدا موجود ہو، اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ کائنات کسی کی مخلوق ہو۔

یہ سچا اعتراف الٰہیت کے تصور کو رد کرنے کے پیچھے چھپی ایک گہری نفسیاتی کیفیت کو عیاں کرتا ہے۔

تھامس نیگل خود اپنی حالت کو "کائناتی اقتدار کے مسئلے" کے طور پر بیان کرتا ہے۔ وہ اس خیال کو برداشت نہیں کر پاتا کہ ایک برتر ہستی موجود ہو جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس کے امور کو چلا رہی ہے۔ یہ رویہ انسانی محرکات کے لحاظ سے قابلِ فہم ہے، کیونکہ ہم میں سے اکثر چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے خود کریں، اپنی زندگی کا راستہ خود متعین کریں، اور اپنے اخلاقی معیار اور مقاصد کو خود وضع کریں، بغیر اس کے کہ کسی اعلیٰ طاقت کے سامنے جواب دہ ہوں۔

لیکن الٰہی اقتدار کے تصور کے خلاف یہ بغاوت بنیادی اشکالات سے خالی نہیں۔ جرمن فلسفی فریڈرک نیتشہ نے اس بغاوت کو اپنی انتہائی صورت میں مجسم کیا جب اس نے اعلان کیا:

"اب تک خدا کے وجود کا تصور ہی وجود کے خلاف سب سے بڑا اعتراض تھا، لہٰذا ہم خدا کے وجود کو رد کرتے ہیں... اور اس ذمہ داری کو بھی رد کرتے ہیں جو خدا ہم پر ڈالتا ہے، اور اسی کے ذریعے ہم دنیا کو نجات دیتے ہیں۔"

نطشہ نے خدا کے وجود کے انکار کو گویا آزادی کا اعلان اور تمام دینی و اخلاقی قیود سے نجات سمجھا۔ لیکن ان "قیود" سے آزاد ہونے کی اس کی کوشش نے اسے ایک تباہ کن اخلاقی فلسفے کو اپنانے پر مجبور کیا۔ اس کے نزدیک "نیکی" وہ سب کچھ تھی جو انسانیت کو زیادہ طاقتور بنائے، اور "برائی" وہ سب کچھ جو کمزوری سے جنم لے۔ اس گمراہ کن منطق نے اسے اس نتیجے تک پہنچایا کہ دینی اخلاق، جو کمزوروں پر رحم و شفقت کی ترغیب دیتی ہے، درحقیقت انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے، اور یہ کہ کمزوروں کے فنا ہونے میں قدرتی انتخاب کی مدد کرنی چاہیے۔ انسان کا اللہ کی بندگی اور اس کے سامنے جھکنے سے انکار کرنے اور پھر ظلم و طغیان کی راہ پر چل پڑنے کے درمیان ربط کو قرآن کریم نے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى. أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى

ہرگز نہیں! انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔  اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے(العلق: 6 ـ 7)

یعنی جب انسان یہ عقیدہ بنا لیتا ہے کہ وہ اللہ سے بےنیاز ہے تو وہ سرکشی پر اتر آتا ہے۔ علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"جملہ {أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى} تعلیل کے مقام پر ہے، یعنی انسان اس لیے سرکش ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب، اپنے محسن سے بےنیازی کا عقیدہ رکھتا ہے اور اس کی ناشکری کرتا ہے۔ وہ اپنی ذات اور ان ظاہری اسباب میں مشغول ہو جاتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے، اور یوں اپنے رب سے غافل ہو کر اس کا ذکر اور اس کی نعمتوں پر شکر چھوڑ دیتا ہے، پھر آگے بھر کر سرکشی اختیار کرتا ہے۔"

مجمع البیان میں ایک واقعہ مذکور ہے جو اس موقع کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس آیت {أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى} کے نزول کا سبب یہ تھا کہ ابو جہل نے کہا: "کیا محمد (ص) واقعی تمہارے سامنے اپنا چہرہ خاک پر رکھتے ہیں؟" صحابہ نے کہا: "ہاں"۔ تو ابو جہل نے کہا: "اس ذات کی قسم جس کی میں قسم کھاتا ہوں! اگر میں نے انہیں ایسا کرتے دیکھا تو ان کی گردن روند ڈالوں گا۔" پھر ایک بار ان سے کہا گیا: "یہ لو وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔" ابو جہل ان کے گردن روندنے  آگے  بڑھا ، لیکن یکایک وہ پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے بچاؤ کرنے لگا۔ لوگوں نے پوچھا: "کیا ہوا ابو الحکم؟" اس نے کہا: "میرے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق ہے اور (فرشتوں کے) پروں کا ہجوم ہے!" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے۔" تب اللہ نے یہ آیات نازل کیں: { أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى} سے سورہ کے آخر تک۔ ( صحیح مسلم )۔

یہ دیکھو کہ کس طرح نبی اکرم ﷺ کا اپنے رب کے حضور عاجزی اور تذلل ابو جہل کو جلا دینے والا محسوس ہوا!۔  اس انکاری منطق کا أصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک بڑے وہم پر قائم ہے، اور وہ وہم یہ ہے کہ انسان مطلق آزادی حاصل کر سکتا ہے، یعنی کوئی قید یا حساب کتاب نہ ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ منطقاً اور عملاً ناممکن ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں ہر شخص اپنے اہداف، اپنی حقیقت اور اپنی اخلاقیات کو مکمل طور پر آزادانہ طور پر طے کرے، لازماً مفادات اور اقدار میں تضاد پیدا ہوگا۔ اگر میرا مقصد یا اخلاقیات آپ کو نقصان پہنچائیں اور آپ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے سے روک دیں، تو آخر کون سا نظام یا معیار نافذ العمل ہوگا؟

یہ سوال اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ اخلاق اور حقیقت کے بارے میں تمام متضاد آراء کو قبول کرنا ناممکن ہے۔ اگر ہم اس اصول کو مان لیں تو ہمارے پاس یہ کہنے کی کوئی معقول بنیاد باقی نہیں رہے گی کہ اڈولف ہٹلر جیسا شخص بُرا تھا، اور نہ ہی جھوٹ یا جھوٹی گواہی کی مذمت کرنے کا کوئی جواز بچے گا، کیونکہ ہر شخص اپنی پسند کو درست سمجھے گا چاہے اس کے نتائج دوسروں کے لیے کتنے ہی تباہ کن کیوں نہ ہوں۔

ان مفکرین سے جو حقیقت اوجھل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے سامنے جھکنا آزادی پر کوئی قید نہیں بلکہ کہیں زیادہ خطرناک غلامیوں سے رہائی ہے۔ جو انسان اقتدارِ الٰہی کو رد کرتا ہے وہ حقیقی طور پر آزاد نہیں بنتا، بلکہ نفسی خواہشات، سماجی دباؤ، مادی مفادات اور مستقبل کے خوف جیسی زیادہ جابرانہ قوتوں کا اسیر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (الجاثیہ: 23)

"کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا، اور اللہ نے اسے جانتے بوجھتے گمراہ کر دیا، اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا؟ تو اللہ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے؟

دین کے صحیح فہم میں اللہ کوئی ایسا آمر (ڈکٹیٹر) نہیں جو انسان کی آزادی چھین لے، بلکہ وہی ہے جس نے انسان کو بنیادی طور پر آزادی عطا کی۔ ہم کٹھ پتلیاں نہیں ہیں بلکہ صاحب اختیار مخلوق ہیں جو اپنے فیصلوں کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنی اطاعت پر مجبور نہیں کرتا بلکہ اس کی طرف دعوت دیتا ہے کیونکہ یہی ہماری حقیقی بھلائی ہے۔

﴿إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا (الانسان: 3)

"ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔"

جب انسان اللہ کے سامنےجھکتا ہے تو وہ اپنی نفس اور اس کی تباہ کن خواہشات کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ ایسے فیصلے کرنے کے قابل بنتا ہے جو ثابت اور عادلانہ معیار پر مبنی ہوں، نہ کہ بدلتی ہوئی خواہشات یا تنگ مفادات پر۔

خدا کے سامنے اس خضوع میں وہ ایک ایسا اخلاقی ڈھانچہ پاتا ہے جو اسے انحراف سے بچاتا ہے، اور ایک اقداری نظام جو اس کی زندگی کو معنی بخشتا ہے۔

لیکن جو انسان مطلق آزادی کا خواہش مند ہے، وہ آخرکار زیادہ سخت پابندیوں کے اسیر ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی شہوات کا غلام بن جاتا ہے، خوف کا اسیر، اور لامحدود اختیارات کی بھٹکی ہوئی دنیا میں بغیر کسی اخلاقی قطب نما کے گم ہو جاتا ہے۔

سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ "کائناتی اقتدار کا مسئلہ" اُس وقت بھی باقی رہتا ہے جب اللہ تعالی کو صحیح اور حقیقی انداز میں  سمجھا جائے۔

جبکہ اگر اللہ غفور و رحیم ہے، صالح و عادل ہے، امین و صادق اور محب ہے، تو پھر اُس کی حاکمیت کو رد کرنے میں یہ ضد کیوں؟ آخر ہم کیوں اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ایسا خدا موجود نہ ہو؟

اس کا جواب انسانی تکبر میں پوشیدہ ہے، اور اس خواہش میں کہ ہم اپنی ذات کے خدا بن جائیں۔ ہم خود طے کرنا چاہتے ہیں کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے، وہ قوانین بنانا چاہتے ہیں جو ہمیں موافق ہوں، اور اپنی زندگی میں سب سے بڑی مرجعیت خود بننا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ تباہ کن خواہش آخرکار ہمیں اخلاقی انتشار اور روحانی گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا:

﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (الفرقان: 43)

"کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟ تو کیا تم اس کے ذمے دار بن سکتے ہو؟"

﴿وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (ص: 26)

"خواہش کی پیروی نہ کرو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بہکا دے گی۔"

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ  تعالی کے سامنے جھکنا غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے، یہ کوئی قید نہیں بلکہ حقیقی آزادی کی طرف پرواز ہے۔ یہ نفس کے طغیان، خواہشات کی غلامی اور ارمانوں کے اسیر ہونے سے نجات ہے۔ اسی خضوع میں انسان اپنی حقیقی عزت پاتا ہے، اور اسی عبودیتِ الٰہی میں اپنی اصل آزادی دریافت کرتا ہے۔

جبکہ مطلق آزادی کے نام پر الٰہی اقتدار سے بےنیازی کی جستجو درحقیقت اور زیادہ ذلیل کرنے والی  سخت غلامیوں کا راستہ ہے۔ یہ محض آزادی کا دھوکا ہے جو انسان کو اپنی ذات کے قید میں جکڑ دیتا ہے اور اس اخلاقی قطب نما کو کھو دیتا ہے جو اسے سکون اور نجات کے ساحل تک پہنچا سکتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018