

| عدالت | اطاعت اور نافرمانی کے درمیان انسان کی آزادی: کیا اللہ تعالیٰ نے انسان کو نافرمان پیدا کیے؟

اطاعت اور نافرمانی کے درمیان انسان کی آزادی: کیا اللہ تعالیٰ نے انسان کو نافرمان پیدا کیے؟
شیخ معتصم السيد احمد
بہت سے لوگوں کی زبان پر یہ سوال بار بار آتا ہے۔ کچھ کے لیے یہ ایک پیچیدہ الجھن بھی ہے، جبکہ بعض اسے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور عدل پر اعتراض کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ اگر سب کچھ اللہ کی تقدیر سے ہے تو پھر اُس نے نافرمان اور گناہگار انسانوں کو پیدا ہی کیوں کیا؟ یہ سوال بظاہر گہرا اور قابلِ غور دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کی بنیاد ایک غلط مفروضے پر قائم ہے۔ یعنی یہ گمان کر لینا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو پیدائشی طور پر مؤمن اور بعض کو لازماً نافرمان بنا دیا ہے۔ گویا انسان کو اپنے راستے کے انتخاب میں کوئی اختیار ہی نہیں، اور اللہ خود اپنی مخلوقات میں سے کچھ کے گناہوں کا ذمہ دار ہے۔ درحقیقت یہ تصور نہ صرف انسانی زندگی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ایک آزاد انسان کی ذمہ داری کے تصور سے بھی ٹکراتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور اختیار عطا کیا ہے، اور اسے یہ صلاحیت بھی دی ہے کہ وہ حق اور باطل، بھلائی اور برائی میں فرق کر سکے۔ پھر اللہ تعالی نے ایک واضح اور غیر مبہم اصول بیان فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾
(اور کہہ دیجیے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے)
یہ آیت ایمان و کفر کی ذمہ داری کو کسی باہر سے آنے والی مجبوری یا جبر و اکراہ پر نہیں، بلکہ خود انسان کی مرضی پر عائد کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو زبردستی نافرمانی پر مائل کرتا، نہ ہی کسی کو فرماں برداری سے روکتا ہے۔ایک اور آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کی اسی آزادی کو واضح فرمایا ہے:
(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِراً وَإِمَّا كَفُوراً) (سورۃ الدھر: آیت 3)
(ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔)
یعنی اللہ تعالیٰ نےشکر و اطاعت گزاری اور کفر و نافرمانی کے دونوں راستے واضح کر کے دکھایا ہےاور انسان کو اختیار دیا کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے۔ کسی بھی انسان کو ہدایت کے راستے پر چلنے سے کوئی ممانعت نہیں کی ہے۔ بلکہ اس نے تو ہدایت پر چلنے کے وسائل فراہم کئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو ہدایت کے راستے پہ لانے کے لئے انبیائ و رسل بھیجے، کتابیں نازل کیں اور ہر طرح کی حجت انسان پر تمام کی ہے۔لیکن پھر بھی کسی کو اطاعت یا نافرمانی پر مجبور نہیں کیا۔ جو چاہے اطاعت کرے اور جو چاہے اپنے ارادہ و اختیار سے اس سے روگردانی کرے۔
لہٰذا یہ سوال کرنا کہ اللہ تعالی نے نافرمان کیوں پیدا کئے؟ دراصل اطاعت اور معصیت کے مفہوم میں ایک بنیادی غلط فہمی ہے۔ اس گمان کے مطابق گویا نافرمانی کوئی ایسی اضافی صفت ہے جو انسان پر زبردستی مسلط کر دی گئی ہو، جسے روکنا ممکن ہی نہ ہو۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نافرمانی انسان کا ایک ذاتی اور انفرادی فیصلہ ہے، جو اُس وقت جنم لیتا ہے جب وہ اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ترجیح دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے؛ نہ اسے جبراً اطاعت پر مجبور کیا اور نہ ہی نافرمانی پر۔ بلکہ اسے فطری طور پر صحیح اور سالم مزاج کے ساتھ پیدا کیا، اسے عقل کی عظیم نعمت عطا کی، ہدایت کا راستہ واضح کیا، اور پھر اسے یہ آزادی دی کہ وہ اپنی مرضی سے اطاعت یا نافرمانی کا راستہ اختیار کرے۔
اسی لیے عالم موجودات میں ہدایت و ضلالت، حق و باطل، نیکی و گناہ، کا نظام بنایا ہے اور انسان کو ان کے درمیان کھڑا کر دیا ہے، اسے آزمائشوں و امکانات کے درمیانی میدان میں رکھا ہے تاکہ وہ اپنی حقیقت ظاہر کرے اور اپنے فیصلے خود کرے۔لہذا اگر انسان حق کو انتخاب کرنا چاہے تو کوئی "قدر" ایسی نہیں جو اسے روکے۔یا انسان باطل کا انکار کرنا چاہے تو بھی کوئی "قدر/تقدیر" ایسی نہیں کہ انسان کو باطل کے ساتھ رہنے پر مجبور کرے۔یہ تو انسان ہی ہے جو اپنی مرضی سے تقدیر کا تعین کرتا ہے، اور یہی و ہ عدل و انصاف پر مشتمل عقلی اور منطقی نکتہ ہے جس سے انسان پر اللہ تعالیٰ کے احکام نافذہوتے ہیں اور اسی وجہ سے انسان جزا یا سزا کا مستحق بنتا ہے۔
ایک اور آیت اس نکتے کے بارے میں مزید کھُل کر کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو زبردستی ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا:
"فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَارِهُونَ"(سورۃ ھود: آیت 28)
(مگر وہ تمہیں نہ سوجھتی ہو تو کیا ہم تمہیں اس پر مجبور کر سکتے
ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟)
یعنی
جب کوئی شخص خود ایمان لانا نہیں چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے
ہدایت کے راستے پر چلنے میں مجبور نہیں کرتا۔
یہی اللہ تعالیٰ کی عدالت کا مکمل تقاضا بھی ہے کہ کسی
کو جب کسی کام میں رغبت ہی نہیں تو اسے اسے
مجبور نہیں کرتا۔جب کوئی خود ہی جنت
میں جانا نہیں چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ جبرا اسے
جنت نہیں بھیجتا۔
دوسری طرف کوئی یہ نہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلق کرنے کے بعد اسے بے راہ روی میں چھوڑ دیا،اللہ تعالیٰ نے انبیائ اور رسول بھیجے، کتابیں نازل کیں، اس کے لئے عقلی دلائل قائم کئے اور کائنات اور انسان کے اندر اپنی واضح نشانیاں دکھائیں۔ اسی طرح کائنات کو ایک منظم نظام میں رکھا تاکہ انسان سے دیکھ کر ہی ہدایت حاصل کرے اور قلب انسان میں فطرت کا شعور رکھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو پسندیدہ اور دل کی زینت قرار دیا اور کفر، فسق و فجور اور معصیت کا ناپسندیدہ قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
"وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ"(سورۃ الحجرات: آیت 7)
(لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے
تمہارے دلوں میں مزین فرمایا اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو
تمہارے نزدیک ناپسندیدہ بنا دیا۔)
یہ
آیت وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے ایمان کا حسن اور رغبت کو انسان
کی فطرت میں جگہ دی، ایمان کو ان کے اندر محبوب بنایا اور نافرمانی
و فسق کو ناپسندیدہ بنایا۔ انسان کے لئے اطاعت کے تمام وسائل فراہم
کئے اور گمراہی کے اسباب ان کے لئے مشکل بنا دئے۔ لیکن آخری فیصلہ
پھر بھی انسان پر چھوڑ دیا۔ اگر کوئی گمراہی و معصیت کا راستہ
انتخاب کرے تو اس نے اپنی مکمل اآزادی سے ان تمام خیر اور نیکی کے
کاموں سے منہ موڑا ہے۔ اب اسے یہ توقع نہیں رکھنی
چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے بچانے کے لئے زبردستی
مداخلت کرے گا، جبکہ وہ خود بچنا نہیں چاہ رہا ہے۔ پس جس نے ہدایت
سے روگردانی کی اور اپنا راستہ خود انتخاب کیا، اس کے لئے یہ ہرگز
درست نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلاف دلائل پیش کرے کہ اللہ تعالیٰ
نے ہی اسے گناہگار بنایا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی اسے
گناہ پر مجبور نہیں کیا۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو اسے مکمل قدرت اور
آزادی دی تھی، اس نے خود اس قدرت اور آزادی سے
کام نہیں لیا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی حقیقی عظمت سامنے آتی ہے: وہ کائنات کے تکوینی نظام میں محض ایک مجبور مخلوق نہیں کہ خود پر کوئی اختیار نہ ہو، بلکہ وہ تو ایک مکلف، آزاد، فاعل مختار اور ذمہ دار مخلوق ہے، جو نیکی اور بدی دونوں کو اختیار کر سکتا ہے، اور اپنےارادہ و اختیار سے نجات یا ہلاکت کا راستہ انتخاب کرسکتا ہے اور اپنے انتخاب سے اپنے مقدّر کو رقم کرتا ہے۔ اسی آزادانہ انتخاب کا عمل وہ راز ہے جس کی بنائ پر انسان کو مکلف بنایا ہے۔ یہی ارادہ ہی اس کے اعمال کا حساب و کتاب اور جزا و سزا کا معیار ہے۔
اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنت کو ئی اندھی بانٹ نہیں اور جہنم بھی بس کسی کا حتمی مقدر نہیں۔ بلکہ یہ دونوں انسان کے اسیآزاد ارادہ و اختیار کا لازمی نتیجہ ہے۔جس نے جنت کے لئے کوشش کی اور عمل کیا ، وہ جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ جس نے اپنی خواہشات کی غلامی اختیار کی اور راہ راست سے منحرف ہوا، اُس نے اپنے اختیار سے جہنم کا عذاب کا مستحق بنا دیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
"وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ"(سورۃ فصلت: آیت 46)
(اور آپ کا رب تو بندوں پر قطعاً ظلم کرنے والا نہیں ہے۔)
چنانچہ یہ سوال کہ " اللہ تعالیٰ نے نافرمان کیوں پیدا کیے؟"سے زیادہ مناسب سوال یہ ہے کہ"کیا وجہ تھی کہ بعض لوگوں نے نافرمانی کا انتخاب کیا حالانکہ اس کے لیے تمام وسائل ہموار تھے؟" یہاں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ اللہ تعالیٰ کی خلقت کا نہیں، بلکہ انسان کےارادہ و اختیار کا ہے، اس کے انتخاب کاہے۔ کہ انسان نے کیوں اس نور کا انکار کیا جو انہیں راستہ دکھاتا ہے؟۔ ہدایت کی باتیں سننے کے بعد انسان غفلت میں کیوں رہا؟پس ہلاکت کسی بھی انسان کا مقدر نہیں۔ بلکہ یہ تو انسان کے اس ہدایت کو انکار کرنے کی فطری نتیجہ ہے۔ حالانکہ وہ چاہتے تو اللہ تعالیٰ سے ملنے کے تمام شرائط اور وسائل فراہم تھے۔
اللہ تعال؛یٰ کسی کو بھی معصیت کار بنا کر اس پر ظلم نہیں کرتا۔ بلکہ اس نے تو انسان کو اطاعت کی طاقت عطا کی ہے۔ اس کے بعد ہدایت و گمراہی دونوں کے راستے بتا دئے ہیں ، پھر اسے پوری آزادی دی ہے ۔ پس جس نے اپنی مرضی سے گمراہی کا انتخاب کیا تو وہی اس کی سزا بھگتے گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں چاہا ہے کہ وہ گناہ کرے، بلکہ اس نے خود گناہ کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو کسی کو بھی اطاعت یا گناہ پر مجبور نہیں کیا۔
نتیجہ
اس سوال پر بحث کرنا کہ " اللہ تعالیٰ نے نافرمان کیوں پیدا کیے؟" ایک ظاہری اشکال ہے۔ اس کے پیچھے انسانی وجود کا فلسفہ اور اس کی زندگی میں دین کے کردار کے بارے میں ایک گہری غلط فہمی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو محض قضا و قدر کے ہاتھوں کا ایک کھلونا نہیں بنایا۔ بلکہ اسے اس لئے خلق کیا ہے تاکہ وہ خود ایک فاعل مختار، اآزاد، عاقل، ذمہ دار اور اپنے راستے کا خود انتخاب کرنے پر قدرت رکھنے والا بنایا ہے۔ انسان کی یہ آزادی صرف ایک وجودی خاصیت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دی گئی ایک عزت و احترام ہے۔ اسی عزت و شرف والی خسوصیت کی وجہ سے انسان دوسری مخلوقات سے ممتاز ہوتا ہے۔ اور اسی خاصیت ہی کی بنیاد پر اس کا محاسبہ ہوتا ہے اور اسے عزت و اہانت کا فیصلہ بھی اسی بنا پر ہوتا ہے۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کو فقط چند ایک احکام کا مجموعہ سمجھنا ، جو انسان پر فرض کئے گئے ہیں، ایک نامکمل اور چھوٹی سوچ ہے۔ دین درحقیقت ایک انسان کامل کی تعمیر کا ایک جامع منصوبہ ہے۔ دین کا مقصد انسان کو اس سفر کے لئے تیار کرنا ہے جس کے لئے اسے وجود میں لایا ہے۔ یہ سفر زمین سے شروع ہوتا ہے اور تا ابد جاری رہتا ہے۔ پس مورد بحث "اللہ اور بندہ نافرمان" نہیں ہونا چاہئے، جس طرح بعض کا یہی توہم ہے۔ بلکہ سوال یا بحث "انسان اور اس کے فیصلے " پر ہونا چاہئے۔بات یہ ہونی چہئے کہ انسان کیا ہے اور اسے کیا ہونا چاہئے۔ لہذا انسان کے لئے ذروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بارے میں نظر ثانی کرے۔ اس کی زندگی بے ہودہ اور عبث کاموں کے لئے ہے نہ ہی صرف اور صرف مجبور و لا چار اور بے اختیار ہے۔ بلکہ اس کے وجود کی بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ وہی ذمہ داری ہے جسے انسان نے قبول کیا تھا جبکہ آسمانوں اور زمین نے اسے اٹھانے سے انکار کیا تھا۔ اس لئے یہ جان لینا چاہئے کہ دین فقط چند ایک قواعد و احکام کا نام نہیں جن کی مخالفت سے سزا ملتی ہے۔ بلکہ یہ تو ہدایت کا راستہ دکھانے والا رہنما ہے جو اسے قبول کرے اس کی ہدایت کرتا ہے، جو اس سے منہ موڑے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
جب انسان اس شعور تک پہنچتا ہے، تو "اللہ نے نافرمانوں کو کیوں پیدا کیا؟" جیسے سوالات محض عارضی اور سطحی معلوم ہوتے ہیں، جو خود بخود حل ہو جاتے ہیں، جب انسان اپنی حقیقت کو پہچان لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ وہ شریعت و تکلیف (ذمہ داری) کا مرکز ہے، نہ کہ کسی جبر کا شکار یا کوئی مظلوم مخلوق۔یہی وہ مقام ہے جہاں اصلاح کا سفر شروع ہوتا ہے فکر کی اصلاح، ارادے کی اصلاح، اور اللہ، اپنی ذات، اور کائنات کے ساتھ تعلق کی اصلاح۔چنانچہ دین کی صحیح فہم انسان کی دنیا میں فلاح اور آخرت میں نجات کی جانب پہلا اور بنیادی قدم ہے۔