

| عدالت | انسان خود کو بے نیاز سمجھتا ہے، مگر حقیقت میں وہ خدا کا محتاج ہے۔

انسان خود کو بے نیاز سمجھتا ہے، مگر حقیقت میں وہ خدا کا محتاج ہے۔
الشيخ مقداد الربيعي
جب سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے عقل و ارادہ عطا فرمایا، تب سے وہ دو متضاد قوتوں کے درمیان جیتا چلاآ رہا ہے۔ ان میں ایک اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی فطری محتاجی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس کی اپنے خالق سے بے نیازی کا خودساختہ گمان ہے، پس یہی کشمکش انسان کی ابتدا سے اس کے ساتھ چلی آ رہی ہے، اور اسی نے انسانی تہذیبوں کے رخ متعین کیے، اور معاشرے کی فکری بنیادوں کو متاثر کیا۔ ہر دور میں اس "استغناء" یعنی خود کفالت کی سوچ کی کوئی نہ کوئی شکل سامنے آتی رہی ہے،چاہے وہ عقل کی بنیاد پر ہو، اور یا پھر وہ علم، دولت، طاقت یا روحانیت کی بنیاد پر ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے (كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَىٰ، أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَىٰ) (العلق: 6-7) "ہرگز نہیں! انسان ضرور سرکشی کرتا ہے، جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے۔"
یہ آیت نہایت گہرائی کے ساتھ انسان کے اصل مسئلے کو بیان کرتی ہے کہ جب انسان یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اسے کسی کی ضرورت نہیں، تب وہ حدیں پار کرتا ہے اور اپنی کمزوری و محتاجی کو بھول جاتا ہے۔ اللہ سے بے نیازی کا یہ رویہ محض جدید دور کا شاخسانہ نہیں، بلکہ تاریخ میں یہ بارہا دہرایا جاتا رہا ہے۔ انسان نے بارہا یہ گمان کیا کہ وہ خدا کے بغیر اپنے معاملات خود سنبھال سکتا ہے۔ فرعون کا یہ دعویٰ کہ: (أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ) (النازعات: 24) میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں"۔یا قارون کا یہ زعم کہ:(إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي) (القصص: 78) یہ سب کچھ مجھے میرے اپنے علم کی بنیاد پر ملا ہے یہ تمام مثالیں اسی ذہنیت کا تسلسل ہیں، جو بعد میں روشن خیالی کے دور کے فلاسفر تک پہنچیں، جہاں "خودکفیل انسان" کو کائنات کا مرکز اور اپنے قانون کا خود خالق قرار دے دیا گیا۔ لیکن اس خیالی استغناء کے نتائج نہایت بھیانک نکلے۔کہ انسان روحانی طور پر اجنبی ہو گیا، بلکہ معاشرے اقدار سے خالی ہو گئے، اور مادی فوائد ہی ہر چیز کے پیمانے بن گئے۔ اس کے نتیجے میں خاندانوں کا شیرازہ بکھرا، ظلم عام ہوا، انصاف مفقود ہو گیا، اور سیاست، معیشت اور فکر کے میدانوں میں نئی اقسام کے استبداد نے جنم لیا۔
یہ سوچ یا نظریہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ انسان اب وہ کمزور مخلوق نہیں رہا، جو کبھی ماضی میں انجانے خوف، مافوق الفطرت ہستیوں، اساطیر اور خارجی احکامات کے تابع رہا کرتا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس، انسان اب ایک بلند مقام پر فائز ہو چکا ہے۔ وہ کائنات کے رازوں کو دریافت کر چکا ہے، اس نے قوانینِ فطرت کو سمجھا، اُن کی تشریح کی، اور زندگی کے بہاؤ کو متاثر کرنے والا ایک مؤثر عنصر بن گیا۔لہذاِ اب وہی انسان ہے جو قانون سازی کرتا ہے، جو ترقی و خوشحالی کی راہیں متعین کرتا ہے، اور جو مختلف شعبوں میں حیرت انگیز صنعتوں کا موجد ہے۔
اسی تصور کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اب انسان کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ وہ کسی ایسی بالادست ہستی کے تابع ہو جو اس کی ذات سے باہر ہو۔ کسی خارجی اتھارٹی یا مافوق الفطرت قوت کو تسلیم کرنا اس کی خودمختاری، عقل و شعور، اور جدید ترقی سے انکار کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر انسان کسی بیرونی قوت کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے، تو گویا وہ اپنی ساری سائنسی، فکری اور تمدنی کامیابیوں سے پیچھے ہٹتا ہے۔ اسی طرزِ فکر کی عکاسی معروف مغربی مفکر جولیان ہکسلی کے اس قول میں ہوتی ہے:
"انسان نے خدا کے سامنے اس لیے سر جھکایا تھا کیونکہ وہ عاجز اور جاہل تھا، لیکن اب، جب کہ وہ علم حاصل کر چکا ہے اور فطرت پر قابو پا چکا ہے، تو وقت آ چکا ہے کہ وہ ان تمام ذمہ داریوں کو خود سنبھالے، جنہیں وہ دورِ جہالت اور کمزوری میں خدا کے سپرد کیا کرتا تھا؛ چنانچہ اب اُسے خود 'خدا' بن جانا چاہیے۔ (بحوالہ:مذاہب فکریہ معاصرة، محمد قطب، ص 631)
خودکفیل انسانیت کا تاریخی ظہور:
"انسانیت"کی اصطلاح جدید مغربی فکر میں سب سے پہلے عصرِ نشاۃ الثانیہ کے دوران، یعنی سولہویں صدی میں سامنے آئی۔ اس دور میں یہ لفظ اُس فکری تحریک کے لیے استعمال کیا گیا جو انسانی علوم اور ادب کی گہرائی سے تحقیق و مطالعہ کی داعی تھی، اور جس کا مقصد قدیم یونانی و رومی تہذیبوں کے فکری، فلسفیانہ اور ثقافتی ورثے کو دوبارہ زندہ کرنا تھا۔اگرچہ اس تحریک کی ابتدائی بنیاد مذہب کی مخالفت پر نہیں تھی، تاہم اس نے بتدریج ایک ایسی فکری فضا قائم کی جو آگے چل کر دین سے آزادی کی راہ ہموار کرنے لگی۔ اسی فکری تحریک نے انسان کو مرکزِ توجہ بنایا اور اس کی علمی و فنی صلاحیتوں کو بے پناہ اہمیت دینا شروع کی۔پھر سترہویں صدی میں، جب سائنسی انقلاب کی لہر اٹھی، تو انسانی فکر میں بغاوت کی شدت کئی گنا بڑھ گئی۔ اس دور میں عقل کو مذہب پر فوقیت دی گئی، اور انسان کو کائنات کا مرکز تصور کیا جانے لگا۔ چنانچہ معروف ادیب ذکی نجيب محمود اس تبدیلی کو یوں بیان کرتے ہیں:
"جب ادبی نشاۃ ثانیہ آئی تو اس کے ساتھ اسی انسان کی فکری آزادی کا اعلان بھی ہوا، اور عقل کو اسکولاستک فلسفے (مدرسی فلسفہ) کی زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا... یہاں تک کہ ایک نیا مکتب فکر وجود میں آیا جسے 'مکتبِ انسانیت کہا جاتا ہے، جو انسان کو اعلیٰ ترین مقام پر فائز کرتا ہے، اور اس کی مصلحت کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے۔" (قصة الفلسفة الحديثة، جلد 1، صفحہ 46)
انسانی مرکزیت کی یہ تحریک اٹھارہویں صدی میں دورِ روشن خیالی کے ساتھ اپنے اس عروج پر پہنچ گئی، جہاں انسانی عقل کو ایک نئے معبود کی حیثیت دے دی گئی۔ اس دور کے مفکرین کا دعویٰ تھا کہ : "عقل ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم مظاہر کے پسِ پردہ موجود حقیقت تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں... اور یہی عقل ہمیں توہمات، مافوق الفطرت تصورات اور عقل دشمن خرافات کے پردے چاک کر کے حقیقتِ مطلقہ سے آشنا کرے گی۔"
معروف مؤرخ پول ہازار (Paul Hazard) اس فکری انقلاب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "اب انسان، اور صرف انسان ہی، ہر چیز کا پیمانہ بن چکا ہے؛ وہی اپنے وجود کی توجیہ بھی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد بھی۔" (تشکیل العقل الحديث، کرین برینٹن، ص 117)
یعنی عقل انسانی کو نہ صرف حاکمِ مطلق بنا دیا گیا بلکہ انسان خود کو دنیا کا مرکز اور محور سمجھنے لگا۔ یہ رجحان انیسویں صدی میں مزید شدت اختیار کر گیا، جب انسانیت پرستی نے مذہب سے ماورا ہو کر نئے مذاہب اور نظریات کو جنم دینا شروع کیا۔ ایسے میں اوگست کونت نے باقاعدہ طور پر "انسانی مذہب " (Religion of Humanity)کی بنیاد رکھی، جہاں انسان کو مرکزِ عبادت بنایا گیا۔لودوِگ فیورباخ (Ludwig Feuerbach) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ: "وہ روحانی ہستی جسے انسان فطرت سے ماورا سمجھ کر پوجتا ہے، دراصل انسان ہی کا روحانی جوہر ہے جسے اُس نے اپنے سے باہر مجسم کر دیا ہے۔"
یہی فکر بالآخر فریڈرک نطشے کی بے باک اور جارحانہ ملحدانہ سوچ تک پہنچی، جس نے صاف الفاظ میں اعلان کیا کہ "خدا مر چکا ہے، اور اب ہم صرف اُس برتر انسان کے منتظر ہیں جو ہماری امیدوں کا واحد سہارا بنے گا۔"(أصل الدين، ص 92)
معروف مفکر تزفیطان تودوروف (Tzvetan Todorov) نے "روحِ تنویر" میں یہ واضح کیا کہ:"عصرِ روشن خیالی میں مغربی فکر نے پہلی مرتبہ تاریخ میں یہ فیصلہ کیا کہ اب انسان خود اپنے مقدر کا مالک ہو گا، اور انسانی فلاح و بہبود ہی تمام اعمال کا اعلیٰ ترین مقصد قرار پائے گی(روح الأنوار، ص 7) اور یوں، انسانیت پرستی ایک سادہ ادبی و ثقافتی تحریک سے بڑھ کر ایک باقاعدہ فلسفہ حیات میں تبدیل ہو گئی، جس نے انسان کو خدا کے مقابل ایک متبادل کے طور پر پیش کرنا شروع کیا۔ اب انسان ہی مرکز ہے، فیصلہ ساز ہے، اور ہر قدر و معیار اسی سے ماخوذ ہیں۔
"خودکفیل انسانیت" کے نظریے پر تنقید :
اگرچہ خودکفیل انسانیت (Self-sufficient Humanism) کے علمبردار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انسانی اقدار اور انسانی عظمت کی حفاظت کر رہے ہیں، لیکن جب اس فلسفے کی بنیادوں کا گہرا تجزیہ کیا جائے، تو حقیقت اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ اس نظریے کے تحت انسانی فطرت کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے، وہ نہ صرف ناقص بلکہ انسانیت کی روح کے خلاف بھی ہے۔
یقین کی بنیادوں میں بگاڑ:
انسان پرستی (ہیومینزم) کی خودمختار سوچ کچھ ایسے مفروضات پر قائم ہے جو حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ان میں ایک بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ خدا کے وجود پر ایمان، جو کائنات پر کامل اختیار رکھتا ہے، انسانی کمال کے منافی ہے۔ یہ دعویٰ دراصل ایک منطقی مغالطے پر مبنی ہے جسے "مصادرہ علی المطلوب" کہا جاتا ہے ، یعنی کسی بات کو ثابت کرنے سے پہلے ہی اس کو سچ مان لینا۔ یہ ایک مسلمہ عقلی خطا ہے۔اس سوچ کا ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ انسان صرف اپنی عقل کی طاقت سے، بغیر کسی بیرونی مدد کے، ہر حقیقت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل خود اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں: "سائنس دان عاجزی سے تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ ایسے دائرے ہیں جن تک علم کی رسائی ممکن نہیں۔ (ماخذ: دین اور علم، صفحہ 171)
مشہور طبیعات دان آئن اسٹائن بھی انسانی عقل کی محدودیت کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں: "انسانی عقل، چاہے جتنی بھی تربیت یافتہ اور اعلیٰ درجے کی ہو، کائنات کے اسرار کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی۔ ہم اس بچے کی مانند ہیں جو ایک بہت بڑی لائبریری میں داخل ہو، جہاں دیواروں تک کتابیں بھری ہوں، اور وہ مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہوں۔ بچہ یہ تو جان لیتا ہے کہ ان کتابوں کو کسی نے ضرور لکھا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتا ہے کہ انہیں کس نے لکھا، نہ یہ کہ کیسے لکھا، اور نہ ہی وہ ان زبانوں کو سمجھتا ہے جن میں یہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ (ماخذ: آئن اسٹائن اور نظریۂ نسبیت، عبد الرحمن مرحبا، صفحہ 145)
انسانی عظمت کی پامالی:
الحادی انسان پرستی (Atheistic Humanism) نے بالآخر خود انسان کی قدر و قیمت کو ہی تباہ کر دیا۔ اس کی وضاحت چیکوسلوواکیہ کے سابق صدر واکیلاف ہاول یوں کرتے ہیں کہ "جس لمحے انسانیت نے خود کو دنیا کا اعلیٰ ترین حاکم قرار دیا، اُسی لمحے دنیا نے اپنا انسانی پہلو کھونا شروع کر دیا۔"اسی حقیقت کو علی عزت بیگووچ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ"الحادی انسانیت پسندی دراصل ایک باطنی تضاد ہے، کیونکہ اگر خدا کا وجود ہی نہ رہے، تو انسان کا حقیقی وجود بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر انسان نہ ہو، تو وہ انسانیت جس کا یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں محض ایک کھوکھلا تصور بن کر رہ جاتی ہے۔ جو شخص انسان کے خالق کو نہیں مانتا، وہ انسانیت کے حقیقی مفہوم کو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔"(العلمانية الجزئية والعلمانية الشاملة، عبد الوہاب المسیری، جلد ۲، صفحہ ۲۶)
اخلاقی بنیادوں کا انہدام:
الحادی انسان پرستی نے چونکہ مطلق اصولوں اور قائم و دائم اقدار کا انکار کر دیا، اس لیے اخلاقی بحران ناگزیر ہو گیا۔ علی عزت بیگووچ اس پہلو کو نہایت جامع انداز میں یوں بیان کرتے ہیں کہ "ایسے ملحد موجود ہیں جو اخلاق پر کاربند ہوتے ہیں، لیکن 'الحاد' بذات خود کسی اخلاقی نظام کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ الحاد پر مبنی کوئی اخلاقی ضابطہ قائم نہیں ہو سکتا۔ (اسلام بین الشرق والغرب، صفحہ ۲۰۵)
یہی حقیقت کئی مشہور الحادی فلسفیوں نے بھی تسلیم کی ہے۔ ژاں پال سارتر کا قول ہے کہ "وجودیت کا ماننا ہے کہ یہ بہت اذیت ناک بات ہے کہ خدا کا وجود نہیں، کیونکہ جیسے ہی خدا کا تصور ختم ہوتا ہے، ہم خیالات کی دنیا میں کسی بھی قدر و قیمت کو تلاش کرنے کی ہر امید کھو بیٹھتے ہیں۔ (الوجودية الإلحادية، آدریین کوخ کی کتاب آراء فلسفیة فی أزمة العصر، صفحہ ۲۷۲)
زندگی کو بے معنی بنا دینا:
جب انسان پرستی (ہیومینزم) خدا کے وجود اور اس کی ربوبیت کا انکار کرتی ہے، تو وہ انسان کو ایسی مربوط فکر دینے سے قاصر ہو جاتی ہے جو زندگی کو کوئی بلند مقصد یا معنویت عطا کرے۔ خدا کی عبادت اور اخلاقی فضیلت کے حصول جیسے اعلیٰ اہداف کی جگہ انسان اب ایک ایسی کائنات میں جی رہا ہے جس کے کوئی معنی نہیں، اور اُس کا وجود کسی حقیقی مقصد یا منزل سے خالی ہے۔ یہ تمام دلائل اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ خودکفیل اور الحادی انسان پرستی ( اپنے تمام تر دعووں کے باوجود ) دراصل حقیقی انسانیت کی بنیادوں کو مسمار کر دیتی ہے، اور اسے اس کے اصل مفہوم سے خالی کر دیتی ہے۔یہی حقیقت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ایک متوازن، بامقصد اور باوقار انسانی زندگی کی تعمیر کے لیے خدا پر ایمان کو بنیاد بنانا ناگزیر ہے۔