

| عدالت | کیا اللہ تعالیٰ انسان کے اچھے اور برے اعمال کا ذمہ دار ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ انسان کے اچھے اور برے اعمال کا ذمہ دار ہے؟
شیخ معتصم السید احمد
قضا و قدر سے متعلق مختلف تصورات، خصوصاً اُن لوگوں کے لیے جو دینی افکار کے مخالف ہیں، انسان اور اللہ کی مشیئت کے باہمی تعلق کو سمجھنے میں فکری الجھنیں پیدا کرتے ہیں۔ ایسے میں بعض افراد سوال کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے اور اپنی مخلوق کے حال سے بخوبی واقف بھی ہے، تو پھر وہ ان مظالم کو کیوں نہیں روکتا جو انسانوں پر ڈھائے جارہے ہیں؟یہ منفی طرز فکر - جو اللہ کی مشیئت اور انسان کے ارادے کے مابین تعلق کو محدود اور جبر پر مبنی سمجھتا ہے - انسان کی زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز کے مقابلے میں اُس کی ذمہ داری کے احساس کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ تصور کہ انسان کی پوری زندگی تو پہلے سے ہی لکھی جا چکی ہے لہذا وہ اپنی تقدیر میں ذرّہ برابر بھی تبدیلی نہیں لا سکتا، انسان کو بے عملی کا شکار بنا دیتا ہے اور اس کی طبیعت میں جمود پیدا کر دیتا ہے۔ نتیجتاً، فرد نہ صرف اپنی ذاتی بلکہ معاشرتی ذمہ داریوں سے بھی غافل ہو جاتا ہے، اور یوں اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے اور معاشرے کی اصلاح میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے سے محروم رہتا ہے۔
یہ مغالط آرائی پر مبنی فکر بعض اسلامی حلقوں میں قضا و قدرکے بارے میں کی جانے والی ناقص تعبیرات سے مزید تقویت پاتی ہے، جن کے نزدیک انسان صرف اُن محدود راستوں پر چلنے پر مجبور ہے جو پہلے سے متعین کر دیے گئے ہیں، اور وہ اپنی تقدیر کو بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اگرچہ یہ خیال بعض فکری مباحث اور گفتگو میں عام پایا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ اللہ کی مشیئت اور انسان کے اختیار کے درمیان ربط کے صحیح مفہوم کی خلاف ورزی ہے۔اس کے باوصف اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ قضا و قدر انسانی ارادے کی آزادی کے منافی نہیں، بلکہ یہ دونوں عوامل بہم ملکر ہم آہنگی کے ساتھ انسان کی ذمہ دارانہ زندگی کے دائرے میں ساتھ ہمقدم چلتے ہیں۔
پس، اللہ تعالیٰ کی مشیئت وہ ہمہ گیر مشیئت ہے جو انسان کے لیے وہ تمام حالات اور وسائل مہیا کرتی ہے جن کی مدد سے وہ اپنے اہداف حاصل کر سکتا ہے، جبکہ انسان کی مشیئت یہ طے کرتی ہے کہ وہ ان وسائل اور حالات کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ اس طرح، انسانی ارادہ دراصل اُس الٰہی منصوبے کا ایک حصہ ہے جو انسان کو کائنات میں اُس کا مقام عطا کرتا ہے اور اُسے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
یہی ذمہ داری اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ انسان کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ درست یا غلط فیصلہ کر سکے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے ہدایت کے اصول، احکام اور امتناعی اصول وضع فرما ہیں تاکہ وہ راہِ راست کی طرف رہنمائی حاصل کر سکے۔ لہٰذا، انسان کے افعال کی ذمہ داری اللہ پر نہیں ڈالی جا سکتی، بلکہ خود انسان ہی اپنے اعمال کے نتائج کا ذمہ دار ہے، چاہے وہ اطاعت کے حامل ہوں یا نافرمانی کے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر، اور درست و غلط میں تمیز کی صلاحیت عطا کی ہے، اور اُسے نیکی کے حصول کے تمام ذرائع بھی فراہم کیے ہیں۔
اسی مفہوم کو امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک زندیق (ملحد) کے اس سوال کے جواب میں واضح فرمایا، جب اُس نے ارادہِ الٰہی اور ارادہِ انسانی کے باہمی تعلق کے بارے میں پوچھا۔ روایت یوں ہے:
حضرت ہشام بن حکم سے روایت ہے کہ ایک زندیق (ملحد) نے امام ابو عبد اللہ جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا:"مجھے بتائیے کہ اللہ عزّ و جلّ نے تمام مخلوق کو مطیع اور موحِّد کیوں نہ پیدا کیا، حالانکہ وہ اس پر قادر تھا؟امام علیہ السلام نے فرمایا:اگر اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو مطیع پیدا کرتا، تو اُن کے لیے کوئی ثواب نہ ہوتا، کیونکہ جب اطاعت ان کی اپنی طرف سے نہ ہوتی، تو پھر نہ جنت ہوتی اور نہ دوزخ۔اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا، پھر انہیں اپنی اطاعت کا حکم دیا، اور اپنی نافرمانی سے روکا، اور ان پر اپنے رسولوں کے ذریعے حجت قائم کی، اور اپنی کتابوں کے ذریعے ان کے لیے عذر کا خاتمہ کیا، تاکہ وہ خود اطاعت یا نافرمانی کا چناؤ کریں، اور اپنی اطاعت کے بدلے ثواب کے مستحق ہوں، اور نافرمانی کے بدلے سزا کے۔
زندیق نے کہا:تو نیک عمل بندے کا اپنا فعل ہوتا ہے، اور بُرا عمل بھی بندے کا اپنا فعل ہوتا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:نیک عمل بندہ خود کرتا ہے، اور اللہ نے اُسے اس کا حکم دیا ہے؛ اور بُرا عمل بھی بندہ خود کرتا ہے، اور اللہ نے اُسے اُس سے روکا ہے۔
زندیق نے کہا:کیا وہ نیک و بد اعمال اس آلہ (یعنی انسانی جسم و قوت) سے نہیں ہوتے جو اللہ نے انسان میں رکھی ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں، لیکن اُسی آلہ سے جس سے اُس نے نیکی کی، وہ بدی بھی کر سکتا تھا، جس سے اُسے روکا گیا تھا۔
زندیق نے کہا:تو کیا بندے کے لیے (فیصلے میں) کوئی اختیار باقی رہتا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:اللہ نے کسی چیز سے بندے کو منع نہیں کیا، مگر یہ کہ اُس کو علم تھا کہ بندہ اُسے چھوڑنے کی طاقت رکھتا ہے؛ اور اللہ نے کسی چیز کا حکم نہیں دیا، مگر یہ کہ اُسے علم تھا کہ بندہ اُس پر عمل کر سکتا ہے؛ کیونکہ اللہ کی صفت میں نہ ظلم ہے، نہ بے مقصدیت، اور نہ ہی بندوں کو اُن کے بس سے باہر کسی چیز کا مکلف بنانا۔
زندیق نے کہا:تو کیا جسے اللہ نے کافر پیدا کیا، وہ ایمان لا سکتا ہے؟ اور کیا اُس کے ایمان نہ لانے پر اللہ کی طرف سے کوئی حجت باقی ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: اللہ نے اپنی ساری مخلوق کو مسلمان پیدا کیا۔ اُنہیں ایمان لانے کا حکم دیا، اور کفر اختیار کرنے سے روکا۔پس کفر تو اُس فعل کا نام ہے جو بندہ خود انجام دیتا ہے۔ اللہ نے کسی کو پیدا کرتے وقت کافر پیدا نہیں کیا۔ وہ شخص اُس وقت کافر کہلاتا ہے جب اُس پر اللہ کی طرف سے حجت قائم ہو چکی ہو، اور اُسے حق پیش کیا جائے مگر وہ اُس کا انکار کرے۔ پس جب وہ حق کا انکار کرتا ہے تو کافر کہلاتا ہے۔
زندیق نے پوچھا: تو کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ شر (برائی) بندے کا مقدر کرے، اور اُسے خیر (بھلائی) کا حکم دے جبکہ وہ خیر کو کرنے پر قادر نہ ہو، اور پھر اُسی خیر کے ترک پر اُسے عذاب دے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ اللہ کے عدل اور اُس کی مہربانی کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ بندے کے لیے برائی کو مقدر کرے اور اُس سے اُسی برائی کا ارادہ کرے، اور پھر اُسے ایسے کسی کام کا حکم دے جس کے کرنے کی قدرت اُس میں نہ ہو، اور اُسے اُس چیز سے رکنے کا حکم دے جس سے رکنا اُس کے بس میں نہ ہو، اور پھر اُسے اُس حکم کی نافرمانی پر عذاب دے جسے وہ بجا لانے کی استطاعت ہی نہ رکھتا ہو۔ (بحار الأنوار، جلد 5، صفحہ 18)
قرآنِ کریم میں ہمیں متعدد مقامات پر ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان ہی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے، اور اُسے اس دنیا میں خلافت یعنی ذمہ داری و امامت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿إِنَّا جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ﴾ (سورۂ فاطر: آیت 39) یہ آیت اِس تصور کی ترجمان ہے کہ انسان کو زمین کی آبادکاری، ماحول کے ساتھ تفاعل، اور قدرتی وسائل کے استعمال کی ذمہ داری اسطرح سے دی گئی ہے - کہ وہ ان تمام امور کو الٰہی مقاصد کے مطابق سرانجام دے۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان زندگی کے سفر میں بغیر کسی الہامی رہنمائی کے چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام وسائل، صلاحیتیں اور مواقع عطا کیے ہیں جو اُس کے مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہیں، اور اُسے ایسی ہدایت و رہنمائی بھی دی ہے جو اُسے سیدھے راستے کی طرف لے جاتی ہے۔
لہٰذا، اسلام کی نگاہ میں انسان صرف تقدیر کا شکار یا مفعول محض نہیں ہے، بلکہ وہ اس دنیا میں ایک مؤثر، تخلیقی عنصر اور ذمے دار فاعل ہے، جو اپنی عقل، ارادے اور اختیار سے فیصلے کرتا ہے اور اُن کے نتائج کا سامنا بھی کرتا ہے۔ قرآنِ کریم میں (تسخیر) کا جو تصور پیش کیا گیا ہے، وہ انسانی زندگی میں ذمہ داری کے بیان کا ایک نمایاں مفہوم ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ (سورۃ لقمان: آیت 20)
یہ تسخیر اس بات کی دلیل نہیں کہ انسان محض تقدیر کے حوالے کر دیا گیا ہے، یا وہ کسی مداخلت کے بغیر اللہ کے فیصلوں کے سامنے مجبور و بے بس ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو انسان کے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے، اس سے فائدہ اٹھائے، اور اس میں اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وسائل و قوتیں عطا فرمائیں تاکہ وہ ان سے تعمیر و ترقی کے مراحل طے کرے اور کائنات میں اپنی فعّال حیثیت کو قائم رکھے۔
اللہ نے انسان کو تخلیق اور ارتقاء کے عمل کا ایک بنیادی جزو بنایا، اور اسی تصور کی عکاسی قرآن میں ان الفاظ سے ہوتی ہے:﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ﴾ (سورۃ الأحزاب: آیت 72) یہ آیت اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ انسان ہی وہ مخلوق ہے جس نے شعوری طور پر یہ امانت (یعنی اختیار، ارادہ اور ذمہ داری) اٹھانے کا فیصلہ کیا، اور اللہ کے سامنے اس امانت کی ذمہ داری قبول کی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں انسان کو ایک ذمہ دار، بااختیار، اور خودمختار ہستی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو اللہ کی دی ہوئی آزادی اور وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھا کر، ایک بامقصد اور تعمیری زندگی گزارنے کا مکلف ہے۔اس تعلق (یعنی اللہ کی مشیّت اور انسان کے ارادہ و اختیار) کودرست سمجھنے میں حکمت کارفرما ہے کہ اللہ کی مشیّت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کے ارادے کو قید کر دیا گیا ہے یا اس سے اس صلاحیت کو چھین لیا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ارادے کو اللہ کی ہدایت کے دائرے میں رہنمائی دی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا موقع دیا ہے، اور اُسے زمین میں کوشش کرنے، محنت سے مقاصد حاصل کرنے، اور دوسروں سے مثبت انداز میں تفاعل (رابطہ و عمل) اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب، ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ فردی ذمہ داری سے فرار اختیار کرنا، اور زندگی میں پیش آنے والے ہر واقعے کا الزام اللہ پر ڈال دینا - ایک ایسی شیطانی سوچ ہے، جو انسان کو جمود، پسماندگی، ظلم، فقر، اور استبداد کے سامنے مکمل طور پر سپردگی کی حالت میں لے آتی ہے۔حالانکہ اللہ پر ایمان لانا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان زندگی میں پیش آنے والے تمام چیلنجز اور مواقع کے ساتھ مکمل شعور اور فعال شرکت کے ساتھ نبردآزما ہو۔پس جب ہم غربت، ظلم، یا ناانصافی جیسے مسائل کا سامنا کریں، تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کا مقابلہ ذمے داری کے ساتھ کریں، اور اجتماعی عمل اور فعال جدوجہد کے ذریعے ان کے لیے مؤثر اور عملی حل تلاش کریں۔یہی وہ حقیقی ایمان ہے جو انسان کو ظلم کے خلاف کھڑا کرتا ہے، اور اُسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے معاشرے کی حالت بدل سکے۔
پس، اگر انسانیت ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو جائے، اور اس ناکامی کے نتیجے میں ظلم و زیادتی کا ماحول پیدا ہو، تو پھر اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پلٹ کر اللہ تعالیٰ کو اس عدم مداخلت کا ذمہ دار ٹھہرائے۔معاملات کو اللہ کے حوالے کرنا، اس بہانے سے کہ ہم ان میں کچھ نہیں کر سکتے، ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو اس کی شخصی و اجتماعی ذمہ داری سے بری کر دیتا ہے، اور اُسے معاشرے میں اپنے مؤثر کردار سے پیچھے ہٹا دیتا ہے۔حالانکہ انسان ہی وہ اصل فریق ہے جو اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی میں تبدیلی لانے کا ذمہ دار ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ﴾ (سورۃ الرعد: آیت 11) یعنی:بیشک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔"
یہ آیت اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ تبدیلی کی کنجی انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے، اور اس کی اصلاح کا آغاز اُسی کی ذات سے ہونا چاہیے۔بیشک فقر و ظلم اللہ تعالیٰ کی کسی کمزوری یا انسان کی ضروریات پوری کرنے سے عاجزی کی وجہ سے نہیں ہیں، بلکہ یہ انسان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں، جیسے کہ دستیاب وسائل کا صحیح استعمال نہ کرنا، یا اس کا جہالت، لالچ، ظلم، اور دوسروں کو مفلس بنانے کا رویہ۔ لہٰذا، اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب ہے کہ ہم ان مسائل کا مقابلہ کریں، اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے، اخلاص کے ساتھ اس کی رضا کے لیے کوشش کریں اور اپنی ذمہ داری کو نبھائیں۔ یہ سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے اور ہمیں مثبت تبدیلی کی طرف لے جاتا ہے جو عدل و مساوات کی قدروں کی عکاسی کرتا ہے۔
خلاصہ کام یہ ہے کہ اسلام کی صحیح فہم و فکر انسان کو حالات کے سامنے ہتھیار ڈالنے، غربت، جہالت اور پسماندگی کو تقدیر کا لازمی حصہ سمجھ کر محض صبر کی تلقین نہیں کرتی، بلکہ اسلام ہمیں ان سب کو بدلنے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام اس تصور کو مسترد کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی طرف سے اس کی ذمہ داریاں خود سنبھالے گا، یا یہ کہ زندگی کے چیلنجز ایسی تقدیر ہیں جن پر قابو پانا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اختیار عطا فرمایا ہے، اور اس پر لازم کیا ہے کہ وہ اپنی حالت کو بدلے اور اپنی زندگی کو بہتر بنائے۔چنانچہ فقر و ظلم اللہ کی کمزوری کا نہیں بلکہ انسان کیاپنی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔