14 ربيع الثاني 1446 هـ   18 اکتوبر 2024 عيسوى 10:51 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | عدالت |  دنيا میں انسانی المیوں اور مشکلات کے وجود کا فلسفہ کیا ہے ؟
2024-05-08   344

دنيا میں انسانی المیوں اور مشکلات کے وجود کا فلسفہ کیا ہے ؟

امریکہ میں کئے گئے ایک سروے میں لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ؛ اگر آپ کو خدا سے ایک سوال کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور آپ کو معلوم ہو کہ ا س سوال کا جواب یقینا دیا جائے گا۔ تو آپ اللہ سے کیا سوال کریں گے ؟ سب سے زیادہ جو سوال لوگوں نے پوچھنے کی خواہش کا اظہار کیا وہ سوال یہ تھا کہ دنیا میں یہ دکھ درد اور رنج و غم کیوں ییں ؟

یہ وہی سوال ہے کہ جسے ملحدین اپنے لئے لائف لائن کے طور پر دیکھتے ہیں، اور یہی وہ سوال ہے کہ جسے زمانہ قدیم سے اب تک ملحدین اپنے ملحد ہونے کی دلیل کے طور پر دیکھتے ہیں. اس شبہے کی نسبت یونانی فلاسفر بقراط کی طرف دی جاتی ہے۔ اگر دینی فلسفہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ انسانی فکر کو درپیش مشکل ترین سوالات میں سے ایک شمار ہوتا ہے ۔ خصوصا جب ہم ایک علیم و قدیر اللہ کے وجود پر ایمان بھی رکھیں اور پھر دنیا میں شر کا وجود بھی ہو۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ قادر، عالم اور رحیم پروردگار دنیا میں شر کے وجود کو قبول کرے ۔

مگر شر کیا ہے

قرآنی نقطہ نظر سے خیر کا مطلب ہر وہ چیزجس سےانسان اپنے ہدف اور مقصد کے قریب  ہو سکے،  پس ہر وہ شئ جس کے ذریعے وہ اپنے مقصد کو پا سکے وہ خیر کہلائے گا۔ مثلا آنکھ جب اپنے غرض و غایت کو پورا کر رہی ہو جو کہ دیکھنا ہے تو پھر یہ خیر کا سامان ہے لیکن اگر اسی آنکھ سے بینائی چلی جائے اور بیماریوں کا مسکن بن جائے تو یہی شر کہلائے گی۔ یعنی جو فعل جس مقصد کے لئے انجام دیا جاتا ہے اگر اس فعل سے وہ غرض حاصل ہو جائے تو وہ فعل اچھا اور خیر ہے لیکن اگر اس سے وہ مقصد حاصل نہ ہو تو وہ فعل اس شخص کی نسبت  برا اور شر ہے ۔ قرآن کی نظر میں خیر وشر کا یہ معیار ہے ۔

لیکن لوگوں کے نزدیک خیر وشر کا مفہوم اور ہے۔ لوگوں کے نزدیک ہر وہ چیز جو اس کی آرزووں اور تمناؤں کے بر خلاف ہو وہ شر اور برائی ہے،اس کے برعکس جو بھی ان کے موافق ہو وہ خیر اور اچھائی ہے۔

قرآنی نظریے کے مطابق اللہ رب تعالی جو کچھ بھی کرتا ہے اور جو بھی خلق فرماتا ہے وہ حسن اور اچھا ہے، کیونکہ وہ اپنی غرض تخلیق اور مقصد خلقت کو پورا کر رہا ہے، کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی چیز خدا کی جانب سے طے شدہ غرض و مقصد سے انحراف کر رہی ہو ؟ کیا کوئی شئ ایسی ہے کہ جو خدا کو اس کے مراد و مقصود تک پہنچنے  سے روک سکے ؟، (وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ) اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ،( الأنعام: 61)، اسی طرح فرمایا: (وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا) اللہ کو آسمانوں اور زمین میں کوئی شے عاجز نہیں کر سکتی، وہ یقینا بڑا علم رکھنے والا، بڑی قدرت رکھنے والا ہے ، (فاطر: 44) پس اللہ عز وجل کو مخلوقات کے حوالے سے کسی قسم کے ارادہ یا فیصلہ یا عمل سے کوئی چیز مغلوب یا عاجز نہیں کر سکتی۔

پس قدرتی آفات جیسے زلزلہ ، سیلاب ، بیماریاں اور اسی طرح دیگر چیزیں سب کے سب خدا وند متعال کی طرف سے خاص مقصد کے تحت خلق کی ہوئی چیزیں ہیں۔ یہ چیزیں اپنی غرض خلقت کو پورا کرنے کی وجہ سے خیر ہی خیر ہیں، البتہ بعض لوگوں کی نسبت ان کی شخصی مفادات اور خواہشات کے خلاف ہونے یا انہیں نقصان پہنچنے کی وجہ سے  شر سمجھا جاتا ہے۔.

مگر سوال یہ ہے کہ ان قدرتی آفات کی غرض و غایت کیا ہے، وہ کون سی چیزہے کہ جس کا حصول ان آفات پر موقوف ہے ۔

آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے اختیار وارادہ کو عملی جامہ پہنانا ، جس طرح قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان فرمایا: (مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا)۔ جو شخص عجلت پسند ہے تو ہم جسے جو چاہیں اس دنیا میں اسے جلد دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم کو مقرر کیا ہے جس میں وہ مذموم اور راندہ درگاہ ہو کر بھسم ہوجائے گا (18) وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا  اور جو شخص آخرت کا طالب ہے اور اس کے لیے جتنی سعی درکا رہے وہ اتنی سعی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی سعی مقبول ہو گی (19) كُلًّا نُّمِدُّ هَٰؤُلَاءِ وَهَٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا) ہم(دنیا میں) ان کی بھی اور ان کی بھی آپ کے پروردگار کے عطیے سے مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کا عطیہ ـ(کسی کے لیے بھی) ممنوع نہیں ہے۔ ، (الأسراء: 20)

پس قرآن مجید کا یہ بیان ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے اوپر یہ لازم کر رکھا ہے کہ انسان کو اس کے اختیار کردہ منزل تک پہنچائے ، خواہ وہ انتخاب دنیا ہو یا آخرت ۔ اسی لئے فرمایا : فقال كلا نمد هؤلاء ، یعنی دنیا والے اور آخرت والے وما كان عطاء ربك محظوراً یعنی کسی کو بھی اس کے اختیار تک پہنچنے سے خدا مانع نہیں ہوتا ۔

بعض اوقات انسان یا معاشرہ زمینوں اور سمندروں میں فساد کا راستہ اختیار کرتا ہے جیسا کہ رب العزت کا ارشاد ہے:  (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ) لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آجائیں، (روم: 41)،چونکہ لوگ اپنی خواہشات اور رغبتوں کو پورا کرنے اور اس دنیا کی لذتوں کو حاصل کرنے کے لئے دوسروں کے حقوق اور آب و ہوا دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ،تو اس کا نقصان پھر بڑے پیمانے پر لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے ، جس طرح آج کل کے دور میں مختلف آلودگیوں کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں، یہ جو شر اور بلا ہے اس کی نسبت خود انسان کی طرف دی جائے گی، نہ کہ خدا کی طرف ۔ کیونکہ جس نے افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا اور خدا کی نعمتوں کے استعمال میں بے دردی کا ثبوت دیا جس کے نتیجے میں آب و ہوا میں تبدیلی اور سیلاب وغیرہ نے لوگوں اور فصلوں کو نقصان ہہنچایا یہ سب انسانوں اور معاشروں کا اپنا کیا دھرا ہے

مندرجہ بالا باتوں سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بعض روایات میں کائناتی تبدیلیوں کا سبب گناہوں کو کیوں قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سدیر نے روایت کی ہے کہ: ایک شخص نے امام جعفر الصادق علیہ السلام سے اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا

(قالوا ربنا باعد بين أسفارنا وظلموا أنفسهم..الآية) تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "یہ ایک قوم تھی کہ جن کے گاؤں متصل تھے ، ایک دوسرے کو دیکھتے تھے ، نہریں جاری تھیں اور مال ودولت وافر مقدار میں تھیں ، پھر انہوں سے کفران نعمت کا ارتکاب شروع کردیا ، اور جس حالت پر تھے اس حالت میں تبدیلی لائی  تو خدا نے بھی ان پر نعمتوں کی بہتات کا جو سلسلہ تھا اسے روک دیا ۔ خدا کسی قوم کو اس وقت تک تبدیل نہیں فرماتا جب تک وہ قوم اپنی حالت کو تبدیل نہیں کرتی ، پس جب انہوں نے تباہی کا راستہ اپنا ہی  لیا تو خدا نے سیلاب کو بھیجا اور ان کے گاؤں غرق آب اور شہروں کوخراب کر دیا ، ان کا مال بھی ان کے ہاتھوں سے چلا گیا ، ان کے باغات کی جگہ دو ایسے باغات سے بدل دیا ۔ پھر فرمایا: (ذلك جزيناهم بما كفروا وهل نجازي إلا الكفور) ان کی ناشکری کے سبب ہم نے انہیں یہ سزا دی اور کیا ایسی سزا ناشکروں کے علاوہ ہم کسی اور کو دیتے ہیں ؟".( الكافي، ج2، ص274.)

اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ: "خدا نے کسی قوم میں انبیاء میں سے کسی نبی کو بھیجا، اور اس نبی پر وحی بھیجی کہ وہ اپنی قوم سے کہے: کہ کوئی شہر یا گاؤں ایسا نہیں ہے کہ جس کے رہنے والے میرے اطاعت گزار ہوں ، پھر اس حالت میں ان پر خوش حالی آئی تو انہوں نے میری پسندیدہ حالت کو ترک کر کے ناپسندیدہ حالت کو اختیار کیا تو میں نے انہیں ان کی پسندیدہ حالت سے ناپسندیدہ حالت میں تبدیل نہ کیا ہو۔ اسی طرح کوئی شہر یا گاؤں ایسا بھی نہیں ہے کہ جس کے رہنے والے میری معصیت و نافرمانی میں زندگی گرارتے تھے ، پھر اس حالت میں ان پر سختی آئی تو انہوں نے میری ناپسندیدہ حالت سے پسندیدہ حالت کو اختیار کیا تو میں نے ان کو ان کی ناپسندیدہ حالت سے نکال کر پسندیدہ حالت میں نہ پہنچایا ہو ۔ ان سے کہو: میری رحمت میرے غضب سے پہلے ہے ،پس میری رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں، کیونکہ میرے نزدیک کوئی گناہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اسے میں نہ بخشوں ۔ . (نفس المصدر)

پس ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ گناہ و معصیت ایسے امور ہیں کہ جن سے اللہ نے اس لئے منع فرمایا ہے کہ ان میں انسان کے لئے بہت بڑے اور عظیم مفاسد موجود ہیں جو ان کو دکھ اور رنج و الم سے دوچار کر سکتے ہیں۔ خدا یہ نہیں چاہتا کہ انسان مشکلات میں پڑے جبکہ انسان اپنے ضد اور تکبر سے خدا کے حکم کو نہیں مانتا اور اسی مصیبت میں پھنس جاتا ہے کہ جس سے خدا اسے بچانا چاہتا تھا ۔ بحر وبر میں اس طرح فساد اور تباہی پھیل جاتی ہے تو اس میں خدا کا کیا قصور ہے ؟ بناء بر ایں بعض اوقات انسان اس معاشرے کے گناہوں کی سزا برداشت کرتا ہے کہ جس میں وہ زندگی بسر کر رہا ہے ، ،جبکہ اس کا اپنا کوئی قصور نہیں ہوتا ، مثلا جنگ احد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دانت گر جاتے ہیں، آپ کا چہرہ مبارک زخمی یو جاتا یے، دیگر بہت سے مسلمان شہید ہو جاتے ہیں جبکہ اس معاملے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی قصور یا کوتاہی نہیں تھی ، آپ تو معصوم تھے ۔.

خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں بہت ساری خرابیوں اور قدرتی آفات کا سبب انسان کے غلط اختیار کا نتیجہ ہے یا پھر بعض اوقات ایسا بھی ہے کہ ایک چیز شر کے طور پر دکھائی دیتی ہے مگر وہ حقیقت میں خیر ہی خیر ہے، رب العالمین اپنے بندوں کے لئے کسی حالت کا انتخاب کرتا ہے جو کہ اس کے حق میں بہترین ہے لیکن بندہ اس حالت میں موجود اپنی مصلحت سے غافل ہوتا ہے یوں وہ اس حالت کو اپنے لئے شر کے طور پر دیکھتا ہے ، جس طرح حضرت موسی اور خصرعلیہما السلام کے قصے میں قران مجید ہمیں بتا رہا ہے، اس قصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس عبد صالح کے افعال ظاہر بین نگاہوں میں شر تھے مگر حقیقت میں وہ خیر اور بہت بڑی مصلحتوں سے لبریز تھے، مثلا کشتی میں سوراخ کرنا ظاہرا شر ہے لیکن اگر یہی سوراخ نہ ہوتے تو یہ کشتی فقیروں سے چھین کر بادشاہ کے کارندے لے جاتے ، پس معمولی عیب کے ساتھ کشتی کا مالک کے پاس رہ جانا اس کے غصب ہو جانے سے بہت بہتر ہے کیونکہ اس عیب کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح بچے کو قتل کرنا ظاہرا شر ہے مگر والدین کو رنج والم دینے اور تکلیف پہنچانے والی اولاد کا نہ ہونا ہی والدین کے لئے خیر اور خدا کی طرف سے رحمت ہے، کیونکہ خدا جانتا ہے کہ یہ بچہ اپنے کفر اور طغیان کی وجہ سے وبال جان بن جائے گا تو خدا نے اپنی رحمت سے ان کے لئے اس کے بدلے نیک اور صالح بیٹے کا ارادہ فرمایا۔

نتیجہ کلام یہ ہے کہ جسے ہم شر کے طور پر دیکھتے ہیں وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی غلطیوں کا نتیجہ ہے جبکہ خود اس شئ کے خلق کرنے میں کوئی شر نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے تو خیر ہی خیر ہے مگر لوگوں سے خیر کی وہ صورت مخفی رہ جاتی ہے۔

شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018