19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 11:58 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | عدالت |  ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟
2024-05-08   456

ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟

دعازمین و آسمان کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنے پروردگار سے جڑتا ہے۔دعا ہی انسان کے ایمان اور اللہ کی رضا کی علامت ہے۔دعا میں صرف الفاظ نہیں ہوتے بلکہ انسان کی زبان سے آواز کے ساتھ ساتھ اسکا اپنے رب سے تعلق اور روحانی رابطہ بھی ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔یہ روحانی تعلقانسان کی فطرت کے مطابق خالق سے مدد مانگ کر اس سے تعلق کی مضبوطی کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔دعا دراصل بندےکا رب سے مقدس تعلق ہے،دعا میں انسان خدا کے ساتھ راز و نیاز کرتا ہے،وہ اپنی دلی خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔دعا ہی وہ عمل ہے جس میں انسان اپنے بے بس او رمجبور ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ سے طلب کرتا ہے،دعا میں انسان پروردگار کی عظمت کا اعتراف کرتا ہے،اللہ پر توکل کرتا ہے۔اس سب میں وہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ سب سے غالب اور حکمت والااللہ تعالی ہے۔

پرودگار ہی عطاوں کا سرچشمہ ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا،وہ جائے سکون ہے جس کا فیض ختم نہیں ہوتا۔بہت سی آیات و احادیث میں دعا کی اہمیت اور اسے کرنے پر تاکید آئی ہے۔اسے عبادت کی روح قرار دیا گیا ہے۔دعا میں ہی روح عبادت اور حقیقت عبادت پوشیدہ ہے۔اسی میں انسان اللہ کے سامنے مکمل سرتسلیم خم ہو جاتا ہے۔دعا سے ہم مطمئن دل کے ساتھ یہ سیکھتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اور ہر چیز کا سرپرست اللہ تعالی ہے وہ جسے چاہے جو چاہے عطا کرتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

(وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ)، البقرة: 186

۱۸۶۔ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔

اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالی نے بہترین انداز میں دعا کی حقیقت اور اسلوب کو بیان کیا ہے۔یہ قرآن مجید کی واحد آیت ہے  جس میں اللہ تعالی کے لیے متکلم کی سات ضمیریں استعمال ہوئی ہیں۔اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ پرودگار اور اس کے بندوں کے درمیان رابطہ کتنا اہم ہے؟اللہ تعالی اپنے قرب کو دعا میں قرار دیتا ہے۔پروردگار نے اپنے قرب کو بندوں کی نسبت تاکیدا بیان کیا ہے اور یہ نہیں کہ میرے بندوں سے کہہ دو بے شک میں قریب ہوں۔۔۔

یہاں فعل مضارع یعنی فعل اجیب استعمال ہوا ہے یہ بھی تاکید اور ہمیشگی کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ اللہ یقینا ہمیشہ لوگوں کی دعاوں کو قبول کرتا ہے اور ان کی حاجات کو برلاتا ہے۔جیسے اللہ نے فرمایا ہے عبادی،یعنی میرے بندے، یہ ایک طرح سے دعاوں کے قبول کرنے کے وجہ بیان ہو رہی ہےاور سبب بتایا جا رہا ہے کہ اس سبب دعائیں قبول ہوتی ہیں۔عبد  انسانوں  سے وہ خاص لوگ ہیں جو اللہ کے بندے ہیں وہ اپنی کوئی ملکیت نہیں رکھتے،اس لیے ان پر مالک کا کرم ہوتا ہے اور وہ ان کی سرپرستی کرتا ہے۔

یہاں خدا اور انسان کے مالک ہونے کے درمیان فرق معلوم ہو جاتا ہے۔انسان کی ملکیت در اصل حقیقی ملکیت ہوتی ہی نہیں ہے کہ اسے سلب کرنےکا امکان ہو۔حقیقی ملکیت وہ ہے جسے سلب کرنے کا کسی کے پاس اختیار ہی نہیں ہوتا اور مالک کی مرضی کے بغیر اس میں تصرف نہیں کیا جا سکتا۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:

(لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ)، البقرة: 255

زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت ہے، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے؟

اس کا مطلب واضح ہے کہ یہ ملکیت خدا کی ہے اور خدا کی مرضی کے بغیر کوئی بھی اس میں تصرف نہیں کر سکتا۔

انسان کی ہر چیز کا حقیقی مالک اللہ تعالی ہے۔انسان کا مال،بدن،اہل عیال،سماعت و بصر اور تمام افعال کا مالک حقیقی اللہ ہی ہے۔انسان ان سب کو اللہ کی اجازت سے ہی استعمال کر سکتا ہے۔انسان کی حاجات صرف خدا پوری کر سکتا ہے۔دراصل انسان اپنی حاجات و ضروریات میں پرودگار کی طرف ہی رجوع کرتا ہے اگرچہ وہ ظاہری ہاتھ بلند نہ بھی کرے عملی طورپر مانگ اسی سے ہی رہا ہوتا ہے۔صاحب تفسیر المیزان فرماتے ہیں:وہ اللہ ہے ہر چیز سے زیادہ انسان کے قریب ہے،وہی ہےجو ہر قابل موازنہ سے چیز قریب ہے:یعنی پروردگار اولاد،شوہر،دوست،مال،مقام،ہر طرح کے حق والوں کی نسبت زیادہ انسان کے قریب ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ: ق:85

۸۵۔ اور (اس وقت) تمہاری نسبت ہم اس شخص (مرنے والے) کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ) ق: 16

۱۶۔ اور بتحقیق انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور ہم ان وسوسوں کو جانتے ہیں جو اس کے نفس کے اندر اٹھتے ہیں کہ ہم رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔

 اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ)الأنفال: 24

۲۴۔ اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔

دل، آگاہ نفس ہے۔

ہر چیز کا مالک اللہ تعالی ہے۔دنیا میں ظاہری طور پر جو بھی کسی کی ملکیت نظر آتی ہے سب کی سب اس کی عطا کردہ ہے۔اللہ تعالی اپنی ملکیت کو جو حکم دیتا ہے وہ اس میں واقع ہو جاتا ہے۔جب اللہ کسی کو کوئی مال نہ دے تو کوئی مال کسی کو نہیں مل سکتا،اسی طرح جب تک اللہ تعالی حکم نہ دے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اگرچہ انسان اس کے لیے جتنی چاہے کوشش کر لے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )، الفاطر: 15

۱۵۔ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

الميزان، ج2، ص16

خلاصہ کلام یہ ہے کہ بغیر کسی شرط کے عبودیت اللہ تعالی کی ملکیت ہے۔یہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالی ہی ہر چیز پر قادر اور ہر چیز کا مالک ہو اور وہی حاجات کو پورا کرنے والا ہو۔اس کے ساتھ ساتھ جب سب ملکیت کا حق اللہ کا ہے تو دعاوں کو قبول بھی اللہ تعالی کرے گا ارشاد ربانی ہوتاہے:

(وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ)، غافر: 60

۶۰۔ اور تمہارا رب فرماتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ از راہ تکبر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں یقینا وہ ذلیل ہو کر عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔

ایسی صورت میں ہم دعا کے قبول نہ ہونے کی وضاحت کیسے کریں گے؟یعنی جب دعائیں اللہ تعالی نے قبول کرنی ہیں  تو جب انسان بہت سی دعائیں کرتا ہے تو وہ قبول کیوں نہیں ہوتیں؟

اسی آیت کے شروع میں جواب دے دیا گیا ہے (أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ) دعا کی قبولیت کی یہ دو شرائط ہیں۔پہلی شرط تو یہ ہے کہ دعا حقیقت میں مانگی جا رہی ہو،اس طرح کہ وہ حاجت اصلی ہو۔اگر وہ ایسی دعا کرے جس کا اسے فائدہ ہی نہ ہو اور مانگنے والا اس حقیقت کو ہی نہ جانتا ہو تو یہ دعا قبول نہیں ہوتی۔شرط ہے کہ یہ دعا انسان دل و زبان دونوں سے مانگے،صرف لقلقہ زبانی نہ ہو۔جیسے کوئی ماں بیٹے کے خلاف بددعا کرتی ہے تو یہ اصل میں اس کی قبولیت چاہ ہی نہیں رہی ہوتی۔اصلی دعا یہ ہے جس میں  دعا دل سے نکلے اور انسان کی زبان بھی مانگ رہی ہو۔ایسا نہ ہو کہ صرف زبان ہل رہی ہو۔زبان کبھی سچ بولتی ہے،کبھی جھوٹ بولتی ہے،کبھی مذاق کرتی ہے،کبھی حقیقت کا اظہار کرتی ہے اور کبھی مجازا گفتگو کرتی ہے۔اس لیے طلب حقیقی میں انسانی زبان کا کوئی کردار نہیں ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

(يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ)، الرحمن: 29

۲۹۔ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی سے مانگتے ہیں، وہ ہر روز ایک (نئی) کرشمہ سازی میں ہے۔

مخلوقات اللہ تعالی سے طلب کرتی ہیں اور وہ مانگنا زبان کے ذریعے نہیں ہوتا یہ ان کی فطری حاجات ہوتی ہیں۔

قبولیت دعا رزق کے اصولوں سے بھی جڑی ہوئی ہے،اللہ تعالی انسان کو رزاق اس کی ہدایت کی قابلیت کےمطابق دیتا ہے۔معاشی، سماجی، صحت اور دیگر حالات کا تعین اللہ تعالیٰ نے اس کی اس حیثیت کے مطابق کرتا ہے  جو بندے کو اس کی ہدایت یا گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:اے ابن آدم تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں،تم سب محتاج ہو سوائے اس کے جسے میں نوازوں،تم سب ہلاک ہونے والے ہو سوائے اس کے جسے میں نجات دوں،مجھ سے سوال کرو،میں تمہارے لیے کافی ہوں،میں تمہاری سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کروں گا۔میرے مومن بندوں میں سے ہیں جن کی اصلاح غربت میں ہے اگر انہیں مال ملے تو وہ  انہیں خراب کر دے گا۔کچھ میرے بندے وہ ہیں  جن کی اصلاح صحت سے ہی ہوتی ہے اگر بیمار کردوں تو یہ بگڑ جائیں گے۔میرے کچھ بندے وہ ہیں جن کی اصلاح صرف مرض سے ممکن ہے اگر ان کا جسم صحیح ہو گا وہ انہیں گمراہ کر دے گا۔میرے بندوں میں سے وہ ہے جو میرے عبادت کی کوشش کرتا ہے،رات کوقیام کرتا ہے اس پر نیند طاری ہوتی ہے اس حالت میں کہ میری توجہ اس کی طرف ہوتی ہے،وہ صبح تک سوتا رہتا ہے،پھر اٹھتا ہے اور اپنے آپ کو کوستا ہے۔ اگر میں اسے آزاد چھوڑ دیتا تو وہ اپنے عمل سے عجب میں داخل ہو جاتا۔اس کی تباہی اس کے عجب اور اس کی خود پسندی کی وجہ سے ہوتی۔یہ گمان کرتا کہ وہ عبادت گزاروں سے سبقت لے گیا ہے ،مقصرین سے آگے نکل گیا ہے، اس طرح وہ مجھے سے دور ہو جاتا حالانکہ وہ سوچتا رہتا کہ وہ میرے قریب ہے ۔عمل کرنے والوں کو اپنے اچھے عمل پر بھی بھروسہ نہیں ہونا چاہیے۔گناہ گاروں کو اپنے گناہوں کی مغفرت کے لیے مجھ سے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔انہیں چاہیے میری رحمت پر بھروسہ رکھیں،میرے فضل کے امیدوار رہیں۔میرے حسن نظر سے مطمئن رہیں۔یہ سب اس لیے ہے کہ میں اپنے بندوں کے فائدے میں اقدمات  کی تدبیر کرتا ہوں۔میں ان کے لیے لطیف و خبیر ہوں۔ أمالي الطوسي، ج1، ص144

غور کریں کیسے پرودگار اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے مناسب تدبیریں فرماتا ہے تاکہ وہ ہدایت تک پہنچ جائے؟ ایسے ہوتا ہے کہ انسان ایسی چیز کا سوال کرتا ہے جو اس کے مفاد میں نہیں ہوتی اور اسے سیدھے راستے پر چلانے والی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)، البقرة: 216

۲۱۶۔تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو، (جیسا کہ) ممکن ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے بری ہو، (ان باتوں کو) خدا بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

کتاب فضائل شیعہ میں شیخ صدوقؒ اپنی اسناد عن محمد بن مسلم عن ابی جعفرؑ روایت کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا:اللہ تعالی دنیا اسے بھی دیتا ہے جو اسے چاہتا ہے اور اسے بھی عطا کرتا ہے جو اسے پسند نہیں کرتامگر آخرت صرف اسی کو عطا کرتا ہے جو  اس سے محبت کرتا ہے۔مومن اپنے رب سے معمولی چیز طلب کرتا ہے مگراللہ تعالی نہیں دیتا،مومن اللہ سے آخرت طلب کرتا ہے تو وہ اسے جو مانگتا ہے عطا کر دیتا ہے۔کافر کو جو وہ چاہتا ہے دنیا میں اس کے مانگنے سے پہلے وہ عطا کر دیتا ہے اور آخرت میں وہ معمولی سی چیز مانگتا ہے وہ  اسے نہیں دی جاتی۔فضائل الشيعة الرقم ٣٢

دعا قبول نہ ہونے کا دوسرا اہم سبب

دعا مانگنے والا اللہ سے مانگتا ہی نہیں ہےبلکہ وہ کسی اور اللہ کو پکار رہا ہوتا۔اگر ہم اپنی دعاوں پر غور کریں گے تو  پتہ چل جائے گا کہ ہم ایک ایسے اللہ سے مانگ رہے ہیں جو اسباب کے ضمن میں مدد کرتا ہے۔ہم دعا تو اللہ سے مانگ رہے ہوتے ہیں کہ وہ شفاء دے مگر  عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ  جو کچھ ہو گا وہ طبیب کی دوا سے ہو گا۔ہم بھول جاتے ہیں کہ ڈاکٹر یا دوا  میں یہ شفاء کی قدرت و طاقت اللہ تعالی نے رکھی ہے۔اسی طرح کوئی اللہ سے رزق مانگتا ہے ساتھ میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وسائل اللہ کےمقابلے میں مستقل ہیں جنہیں میں نے وسعت رزق کے لیے اختیار کیا ہے۔اس طرح بہت سے مثالیں ہیں۔ جس خدا سے دعا مانگ رہے ہیں یہ دراصل حقیقی خدا ہے ہی نہیں بلکہ کوئی اور خدا ہے۔درحقیقت بہت بار اللہ کو پکار ہی نہیں رہے ہوتے۔

یہ بیماری بہت سے لوگوں کو لگ چکی ہے اور اس کا سبب مسب الاسباب سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ہم استطاعت کے مسئلہ میں سابقہ عنوان جادو یا معجزہ میں کیسے فرق کریں ؟ میں کافی تفصیل سے بتا چکے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے۔جو مجھےیہ جانتے ہوئے دعا کریں کہ میں نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر ہوں تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔عدة الداعي، ص131امام صادقؑ سے مروی ہے آپ سے ایک گروہ نے پوچھا:ہم دعا مانگتے ہیں مگر ہماری دعا قبول نہیں ہوتی؟امام نے جواب دیا اس لیے کہ تم طلب کرتے ہو مگر معرفت نہیں رکھتے۔التوحيد للصدوق، ص 209، باب أنه لا يعرف الا به

امام رضاؑ سے بزنطی نے پوچھا کہ دعا قبولیت میں تاخیر کیوں ہوتی ہے؟یہ دعا قبول نہ ہونا نہیں ہے۔امامؑ نے جواب دیااللہ پرسب سے زیادہ یقین کرنے والے بنو کیونکہ اللہ نے وعدہ کیا،کیا اللہ نہیں فرماتا ہے:

(وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ) البقرہ:۱۸۶

۱۸۶۔ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

 (قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ) الزمر:۵۳

۵۳۔ کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔

وقال: (الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)البقرہ:۲۶۸

۲۶۸۔ شیطان تمہیں تنگدستی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کی ترغیب دیتا ہے، جبکہ اللہ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ بڑا صاحب وسعت، دانا ہے۔

اللہ پر کسی بھی دوسرے سے زیادہ یقین رکھو،ہمیشہ اپنے بارے میں اچھا سوچو تمہیں بخش دیا جائے گا۔قرب الإسناد، 228

اللہ کے علاوہ دیگر پر اعتماد کرتے ہوئے ہم  نے یہ سیکھا ہے،یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حقیقت پر اللہ کے علاوہ کسی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔جب انسان حقیقت کو جان جاتا ہے اور اپنا مکمل اعتماد و یقین صرف اللہ پر کر لیتا ہے  تو اس کی دعا ہر صورت میں قبول ہوتی ہے۔اللہ ہر بے قرار کی دعا کو قبول کرتا ہے ارشاد ہوتا ہے:

(أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)، النمل: 62

۶۲۔ یا وہ بہتر ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔

یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب غیر سے امیدیں توڑ دی جاتی ہیں اور نظریں خدا پر مرکوز کر لی جاتی ہیں۔

خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن مجید کی آیت ( اِذَا دَعَانِ) ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ دعا دو وجہ سے قبولیت کی منزل پر نہیں پہنچتی۔پہلا یہ کہ  دراصل وہ حقیقت میں دعا ہوتی ہی نہیں ہے یعنی انسان حقیقت میں طلب ہی نہیں کررہا  ہوتا، اور وہ چیز اس کی حقیقی ضرورت ہی نہیں ہوتی اگرچہ زبان سے مانگ رہا ہوتا ہے۔یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ چیز انسان کے فائدے میں نہیں ہوتی یا اس چیز کا ہونا ممکن ہی نہیں ہوتا۔دوسرا یہ کہ یہ دعا اللہ سے نہیں مانگی جا رہی ہوتی،دعا اس سے مانگی جا رہی ہوتی ہے جو اسباب کا محتاج ہوتا ہے یہ اللہ نہیں ہے یعنی حقیقت میں اللہ سے مانگا ہی نہیں جا رہا ہوتا۔

شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018