| نبوت | جادو اور معجزے میں فرق کیسے کریں گے؟
جادو اور معجزے میں فرق کیسے کریں گے؟
گزشتہ ماہ رمضان میں ایک ٹی وی ڈرامہ جس کا نام (الحشاشین) تھا دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اصل میں یہ ڈرامہ اسماعیلیوں کے ایک فرقے کے بانی کی حالات زندگی پر بنایا گیا ہے۔اسے دیکھ کر میں حیرت زدہ ہوا اور یہ سوال بڑی شدت سے پیدا ہوا کہ معجزہ اور کرامات میں فرق کیا ہے؟ کیونکہ اس ڈرامے نے کافی ابہامات کو جنم دیا۔ جب مولف ان کرامات کے بارے میں دکھاتا ہے کہ وہ کرامات کیسے حسن الصباح کے ہاتھ پر ظاہر ہوئیں؟ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی اصل دھچکہ اس وقت لگا جب یہ بتایا گیا کہ یہ سب کرامات جو حسن الصباح کی طرف منسوب کی جاتی ہیں بالکل ٹھیک تھیں۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کرامات ایک ایسے شخص سے کیسے ظاہر ہو سکتی ہیں جس کے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ اس کا دین باطل ہے اور یہ منحرف مذہب سے تعلق رکھتا ہے؟
اس سے ہٹ کر آپ اس بات کو بھی اسی سوال کا حصہ بنالیں بہت جگہوں پر ہم دیکھتے یا سنتے ہیں کہ بہت سے ایسے افعال ایسے لوگوں سے صادر ہو رہے جن کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اہل جہنم میں سے ہیں تو یہ غیر عادی افعال ان کے ہاتھوں پر کیسے ظاہر ہو گئے؟
کچھ لوگ مستقبل کے بارے میں خبریں دیتے ہیں،کچھ مریضوں کو شفا بخشتے ہیں،کچھ ایسے ہیں جو چند دنوں کے لیے خود کو زمین میں دفن کر لیتے ہیں اور پھر بالکل زندہ نکل آتے ہیں اس طرح کے دسیوں قصے معاشرے میں موجود ہیں۔ یہ باتیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہم ان کا راز جاننے کی کوشش کریں۔
ایسا صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ایسے واقعات ان لوگوں کے ساتھ بھی پیش آئے جن کے بارے میں لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کے لیے حق و باطل کے درمیان تمیز کرنا آسان تھا،وہ بھی بہت سے مقامات پر حیرت اور تعجب میں ڈوب گئے!!
مدینہ منورہ میں ایک یہودی تھا وہ لوگوں کو خبریں بتاتا تھا جو وہ نہیں جانتے تھے،ایک بڑے صحابی اس کے اس عمل سے بہت پریشان ہو گئے۔انہوں نے اسے مسلمانوں کے لیے ایک فتنہ قرار دیا۔ یہودی نے ان پر اپنا راز ظاہر کیا کہ اس نے مسلسل نفسانی خواہشات پر کنٹرول اور ان کی مخالفت کی وجہ سے یہ صلاحیت حاصل کی ہے۔
اگر ہم ان کو درست مان لیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ بعض لوگوں کو یہ قوت حاصل ہو جاتی ہے کہ عام طورپر جوچیزیں نہیں ہوسکتیں وہ کرنے پر قادر ہیں تو بھی ہم یہ کہیں گے کہ اور زور دے کر یہ کہیں گے کہ یہ چیزیں ان کے نطریات وعقائد کے سچا ہونے کی بنیاد نہیں بنیں گی۔ یہ اپنی جگہ درست ہے کہ یہ عام طور پر نہ ہونے والے امور ان کے ہاتھوں واقع ہونے کا سبب ہمیں معلوم نہیں ہو رہا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ انسان قدیم زمانے سے یہ جانتے ہیں کہ انسان جسم و روح سے مل کر بنا ہے اور اس روح میں ایسی طاقت ہے کہ وہ عجائبات واقع کرسکتی ہے۔مافوق الطرف قوتوں کے حصول کے لیے بہت سے عجیب و غریب افعال انجام دینے پڑتے ہیں اور مسلسل خاص انداز میں زندگی گزارنا ہوتی ہے۔ان مشقوں اور چلوں کے نتیجے میں انسان میں ایک ارادہ اور یقین پیدا ہو جاتا ہےکہ وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ بعض چیزوں کو ظاہری طو رپر دکھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔علامہ سید طباطبائی اس حوالے سے کہتے ہیں:
ان ریاضتوں کے نیتجے میں انسان کو علم یعنی یقینِ قطعی حاصل ہو جاتا ہےکہ جو وہ کرنا چاہتا ہے وہ کرسکتا ہے۔ جب یہ ریاضت درست ہوتی ہےاور مکمل ہوتی ہے تو وہ ایسے ہو جاتا ہے کہ اگر مطلوبہ کام کا ارادہ کرے،یا کچھ شرائط کے ساتھ کسی بچے کی روح کو آئینے میں حاضر کرے تو وہ یہ کر سکتا ہے۔
یہاں پر ہم ایک روایت کو ذکر کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےپاس بات ہوئی:حضرت عیسیؑ کے کچھ ساتھی پانی پر چلتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اگر ان کا یقین اس سے بھی پختہ ہوتا تو وہ ہوا پر چلتے۔آپ نے حدیث میں ملاحظہ کیا اصل معیار اللہ تبارک و تعالی پر یقین ہے اس سے کائنات کے اسباب درمیان سے ہٹ جاتے ہیں۔انسان کا اللہ پر بھرسہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ درمیان میں موجود اسباب ہٹ جاتے ہیں اور امور اس کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ یہ بات نہایت قابل توجہ ہے۔ اس سلسلے میں سب سے جامع بیان امام جعفر صادقؑ کا یہ قول ہے۔ بدن کمزور نہیں ہوتا جس کے بارے میں آپ کا ارادہ مضبوط ہے۔یعنی اگر ارادہ مضبوط ہے تو بدن کی کمزوری مانع نہیں آتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ (ج6، ص104)
ایک اور مقام پر فرمایا:جب لوگ ارادہ، یقین،ایمان مستحکم اور فولادی عزم رکھتے ہیں تو وہ ایسے کام کر جاتے ہیں جنہیں کرنے پر عام انسان قادر نہیں ہوتا۔اسی طرح عام اسباب میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ انہیں انجام دے سکیں۔ نفس المصدر السابق
بات گھوم پھر کر انسان کی قوت ارادی کے حصول کی طرف آ گئی یعنی اس کا وہ ارادہ ہے جو اسے یقین تک پہنچا دے۔یہ ریاضت سے حاصل ہوتا ہے،اس کے لیے انسان کو اپنی خواہشات کی مخالفت کرنا پڑتی ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے کسی خاص عقیدہ کا پیروکار ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس کا عقیدے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ہمارے لیے جس چیز پر توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان تمام معاملات کے وقوع پذیر ہونے کا انحصار اس سے باہر کے معاملات میں مشغولیت سے ہے۔ خاص طور پر جسمانی لذتوں سے دوری اختیار کرنا ۔یہ بات کلی طور پر سمجھ لیں کہ تمام ریاضتوں جو بہت زیادہ مشقتوں پر مشتمل اور کئی اقسام کی ہیں ان میں بنیادی بات نفس کی مخالفت کرنا ہے۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ روح کو اس کی خواہشات کی اطاعت سے روکنا ہے یعنی جو نفس کہے اس کی مخالفت کرنی ہے۔انسان کی رہنمائی کرنا کہ وہ ظاہری خواہشات کی طرف سے اپنی توجہ روحانی خواہشات کی طرف کرلے۔انسان روحانی مشغولیات میں آجاتا ہےا ور نفس کی خواہشات کو ختم کر دیتا ہے۔ (المصدر نفسه)
یہاں بہت ہی اہم سوال پیدا ہوتا ہے:جو کچھ جادو گروں کی طرف سے ہے وہ حق نہیں ہے ،یہاں تک ٹھیک ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے تو ہمیں کیسے معلوم ہو کہ جو کچھ انبیاءؑ لے کر آئے وہ اسی طرح کا نہیں ہے؟ یعنی وہ بھی اسی ریاضت کا نتیجہ نہیں ہے؟ شاید یہ صرف جادو تھا جس سے انہوں نے لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کیا؟!دوسرے الفاظ میں اگر غیر عادی امور کا انبیاءؑ کے علاوہ لوگوں کے ہاتھوں سے ہونا بھی ممکن ہے تو معجزہ کی حجت ہونا ختم ہو جائے گا۔معجزہ حق کی دلیل ہونے سے نکل جائے گا کہ جس نے معجزہ دکھایا ہے وہ حق پر ہے۔ہم جادو اور معجزہ میں کیسے فرق کریں گے؟کیونکہ اسی فرق کے ذریعے ہی معجزہ نبی کی نبوت پر دلیل بنے گا۔معجزہ کی دوسرے غیر عادی افعال سے تمیز ضروری ہے۔اس مسئلے کو علم کلام کے مباحث کی روشنی میں واضح کرنا ضروری ہے۔اللہ تعالی نے دنیا کے نظام کو اسباب کے ساتھ خلق فرمایا ۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر حادث اور مسبب کے لیے کوئی علت یا سبب ہو۔ربعی بن عبداللہ نے امام ابی عبداللہ ؑ سے روایت کی ہے آپؑ فرماتے ہیں اللہ تعالی نے ہر چیز کو مسبب کے لیے سبب قرار دیا ہے ،اس لیے ہر جیز کے ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔۔۔ الكافي، ج1، ص183
ہر واقعہ یا حادثہ کچھ امور پر موقوف ہوتا ہے،جب تک وہ تمام امور انجام نہ پائیں وہ واقع نہیں ہوتا اس لیے ان تمام امور کا واقع ہونا اس کام کے ہونے کے لیے مکمل علت بنتا ہے۔یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ تمام کے تمام امور صرف مادی نہیں ہوتے،ممکن ہے بعض اہم ترین ایسے ہوں جن پر اس کام کا ہونا موقوف ہے اور ان کا تعلق مادہ سے نہیں ہے۔آپ کسی بھی کام کی مثال لے لیں پانی پینے کو ہی لے لیتے ہیں۔پانی کا پینا کئی مادی امور پر مشتمل ہے۔جیسے پانی ہو،اس کے پینےمیں کوئی رکاوٹ نہ ہو وغیرہ اسی طرح پانی کا پینا کچھ غیر مادی امور پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ جیسے پانی اٹھانے اور پینے کی طاقت کا حاصل ہونا۔اگرچہ باہر ہم اس قدرت کا اظہار اپنے جسم کے ذریعے ہی کرتے ہیں مگر اس کا فیض اللہ سے ہی ملتا ہے۔یہ فیض کی ایک غیر مادی علت ہے جو اللہ تعالی سے ملتی ہے۔یہ قدرت و طاقت انسان کے جسم میں مستقر چیز نہیں ہے۔یہ اللہ کی طرف سے ہر آن انسان کو ملتی رہتی ہے۔ہم اس کی طرف کم ہی متوجہ ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فیض مسلسل جاری رہتا ہے۔
دنیا میں کوئی بھی حادثہ ہوتا ہے تو اس کے کچھ مادی یا غیر مادی اسباب ہوتے ہیں۔اس طرح معجزہ دیگر امور کی طرح ان اسباب سے خالی نہیں ہوتا۔ معجزہ اور غیر معجزہ کام میں فرق اسباب کے غیر مادی ہونے کا نہیں ہے۔مثلا جادو مادی اور غیر مادی اسباب کا مجموعہ ہے بالکل معجزہ بھی ایسے ہی ہے مگر فرق یہ ہے کہ جادو کا سبب ایک غیرمادی اور حد بندی والا کمزور سبب ہے اور وہ وہی جادو گر ہے۔جبکہ معجزہ کا غیر مادی سبب لامتناہی یعنی اللہ تبارک و تعالی ہے۔
اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ فرق انجام دینے والے کی نسبت سے ہے۔معجزہ اور جادو کے انجام دینے والوں کی طاقت و قدرت میں فرق ہے۔معجزہ ایک ناقابل تسخیر قوت کی طرف سے ہے جس کے ساتھ کسی اور قوت کا تقابل ہی ممکن نہیں ہے اور جادو وغیرہ میں اسباب انتہائی محدود اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔جب حضرت موسیؑ اور جادو گروں میں مقابلہ ہوا تو معجزہ اور جادو کی قوت آمنے سامنے تھی،جب جادو گروں نے عصا کو اژدہا بنتے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ یہ کسی انسان کی طاقت کے بس میں نہیں ہے۔انسانی روح جتنی مرضی طاقت حاصل کر لے وہ ایسا کرنے پر قادر ہو ہی نہیں سکتی اس لیے انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ خدا کا کام ہے۔
ان جادو گروں کا فورا حضرت موسیؑ پر ایمان لےآنے کا سبب یہی اللہ کی قدرت و طاقت کا معجزے کی صورت میں اظہار بنا۔وہ فورا ظالم کے مددگاروں سے مومنین کے مدد گار بن گئے۔ انہوں نے اسی دربار میں علانیہ کہا کہ ہم اپنے دین کو چھوڑتے ہیں اور حضرت موسی ؑ کے دین پر ایمان لاتے ہیں۔
علامہ سید طباطبائی فرماتے ہیں: مختصر یہ کہ تمام مافوق الفطرت امور خواہ انہیں معجزہ کہا جائے، جادو کہا جائے یا کچھ اور کہا جائے جیسے اولیاء کی کرامات اور دیگر تمام خصوصیات جو ریاضتوں اور جدوجہد کے ذریعے حاصل کی گئی ہیں، یہ سب نفسانی اصولوں اور ارادہ کے تقاضوں پر مبنی ہیں۔اس کی طرف اللہ تعالی کا کلام ہماری رہنمائی کرتا ہے۔معجزہ اور دیگر میں ایک فرق یہ ہے کہ یہ غیر عادی فعل جب انبیاء،رسل اور مومنین کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتا ہے تو وہ ہر حالت میں ہر سبب پر غالب رہتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ.171 إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ.172 وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ)، الصافات: 173
اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔ ۱۷۲۔ یقینا وہ مدد کیے جانے والے ہیں، ۱۷۳۔ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
(كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ)، المجادلة: 21
اللہ نے لکھ دیا ہے: میں اور میرے رسول ہی غالب آکر رہیں گے، یقینا اللہ ہی بڑی طاقت والا، غالب آنے والا ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ)، المؤمن: 51
ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہیں گے اور اس روز بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
یہ آیات مطلق ہیں اور انہیں کسی قید کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا۔ الميزان، ج1، 78
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ معجزہ صرف غیر عادی کام نہیں ہے بلکہ معجزہ کے ذریعے ہونے والا کام مقابل کی تمام قوتوں پر غالب ہوتا ہے۔ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی ایسا عمل ہو جو معجزہ کے مقابل آئے اور معجزہ کو بےاثر کر دے۔
شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ