19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 12:58 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | نبوت |  کیا بائبل مقدس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام یا صفات موجود ہیں؟
2024-04-23   479

کیا بائبل مقدس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام یا صفات موجود ہیں؟

کتاب مقدس کا دقت سے مطالعہ کیا جائے تو اس میں بھی آیا ہےاوراسی طرح دونوں عہد ناموں میں غور و فکر سے پتہ چلتا ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کی بشارتیں موجود ہیں۔ایک ایسا نبی آئے گا جس کا آسمانی پیغام پوری دنیا کے لیے ہو گا۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں بھی بتایا گیا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کی پیش گوئی آسمانی کتب میں موجود ہے۔بعض اسلام دشمنون نے اسے اسلام کے خلاف پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایسی کوئی بات انجیل میں نہیں ملتی،اگر ہے تو یہ کہاں ہے؟اس کی نشاندہی ہونی چاہیں۔اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ان آسمانی کتب میں آیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات حسنہ کا تذکرہ ان کتب میں کہیں موجود ہے؟

قرآن مجید کے مطابق اس سے پہلے کی آسمانی کتب میں بھی یہ بات آئی ہے ۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انبیاءؑ اور ائمہ کے نام ذکر نہیں ہوتے ان کی صفات حسنہ کا ذکر بشارت کی صورت میں آیا ہوتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسی مذکورہ نام کے کئی آدمی ہو سکتے ہیں مگر جو علامات اور نشانیاں بتائی جاتی ہیں وہ سب کی سب کسی ایک ہی شخصیت میں متحقق ہو سکتی ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے تورات میں حضرت مسیحؑ کے متعلق بشارت آئی ہے۔اس میں سے بعض کو ہم ذکر کریں گے۔امام مہدی ؑ کے متعلق موجود بشارتوں کے حوالے سے امت مسلمہ کے دو بڑے گروہوں میں بھی یہی مسائل ہیں۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان صفات کا تذکرہ کیا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے متعلق تورات و انجیل میں موجود ہیں۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)، الأعراف: 157

۱۵۷۔(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ( الفتح: 29)

۲۹۔ محمد (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ان کے یہی اوصاف ہیں، جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

قرآن کے مطابق کتاب مقدس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی یہ صفات بیان ہوئی ہیں۔

تفسیر قمی میں آیا ہے کہ عمر بن خطاب نے عبداللہ بن سلام سے کہا :کیا تم اپنی کتاب کی روشنی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پہچانتے تھے؟انہوں نے جواب دیا :ہاں،خدا کی قسم ہم آپ کو آپ کی صفات کی روشنی میں جانتے تھے جو اللہ نے ہمارے لیے بیان کر دی تھیں۔جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تم لوگوں میں دیکھا تو ہم نے انہیں ایسے پہچان لیا جیسے بیٹے کو دوسرے لڑکوں میں پہچان لیتے ہیں۔ ابن سلام جس کی قسم کھاتا ہے وہ یہ ہے: کہ میں اس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اپنے بیٹے سے زیادہ جانتا ہوں۔ تفسير القمي/ ج1، ص159.

اس روایت میں اس آیت مجیدہ کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:

(الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ)، البقرة: 146

۱۴۶۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول)کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ جان بوجھ کر حق کو چھپا رہا ہے۔

اس آیت مجیدہ کی تفسیر میں آیا ہے حریز ابی عبداللہ ؑ سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا:یہ آیت یہود و نصاری کے بارے میں نازل ہوئی،اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 (الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه)

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول)کو اسی طرح پہچانتے ہیں

یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو ایسے پہچانتے تھے جیسے

 ( كما يعرفون أبنائهم)

جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں

اللہ تعالی نے تورات و انجیل میں نبی اکرم ،صحابہ کرام،آپ کی بعثت اور آپ کی ہجرت کے بارے میں بتا دیا تھا۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

(محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار رحماء بينهم تريهم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا سيماهم في وجوههم من أثر السجود ذلك مثلهم في التورية ومثلهم في الانجيل)

محمد (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ان کے یہی اوصاف ہیں،

یہ اللہ کے رسول کی تورات و انجیل میں پہچان ہے،اسی طرح آپ کے اصحاب کی پہچان ہے۔جب اللہ تعالی نے آپ کو مبعوث کیا تو اہل کتاب نے آپ کو پہچان لیا اسی لیے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ  َلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ » البقرہ:۸۹

پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔

تفسير القمي، ج1، ص33.

روضہ کافی میں اس سلسلہ سند على بن ابراهيم عن أبيه عن الحسن بن محبوب عن محمد بن الفضل عن أبى حمزة کے ساتھ امام ابی جعفر ؑ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں:ہر نبی ؑ نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بشارت دی ہے یہاں تک کہ حضرت عیسیؑ بن مریمؑ کو اللہ نے مبعوث رسالت فرمایا۔انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نبوت کی بشارت دی۔اسی لیے اللہ کا فرمان ہے (يجدونه) یعنی یہود و نصاری پاتے ہیں، (مكتوبا) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی صفات کو اپنے پاس لکھا ہوا۔یعنی ان کے پاس تورات و انجیل میں یہ لکھا ہوا ہے۔۔۔یہ حدیث بہت لمبی ہے ہم نے اس میں اتنے حصے کو ذکر کیا ہے جتنا ہمارے مورد بحث سے تعلق رکھتا ہے۔ الكافي، ج8، ص117.

یہاں یہ اشکال پیدا ہے کہ: پچھلی امتوں میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے وہ قرآن کہتا ہے کہ اہل کتاب میں بھی تھیں جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ اس لیے صفات کو صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی صداقت کے لیے کیسے خاص کیا جا سکتا ہے۔خود قرآن ان صفات کو اہل کتاب کے لیے ثابت کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ)، آل عمران 114

۱۱۳۔ سب برابر نہیں ہیں، اہل کتاب میں کچھ (لوگ) ایسے بھی ہیں جو (حکم خدا پر) قائم ہیں، رات کے وقت آیات خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود ہوتے ہیں۔ ۱۱۴۔وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نیک کاموں کا حکم دیتے، برائیوں سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوں میں سے ہیں۔

نیز اچھی چیزوں کی اجازت اور بری چیزوں کی ممانعت پر عموماً الہامی مذاہب متفق ہیں۔ ان پر بوجھ لدا ہوگا اور گلے میں طوق  ہو گا یہ حکم حضرت مسیحؑ کی شریعت میں آیا ہے اور اس پر دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے جو یہ حکایت کر رہی ہے:

(وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ)، آل عمران: 50

اور اپنے سے پیشتر آنے والی توریت کی تصدیق کرتا ہوں اور جو چیزیں تم پر حرام کر دی گئی تھیں ان میں سے بعض کو تمہارے لیے حلال کرنے آیا ہوں۔

جواب:یہ تمام احکامات اسلام سے پہلے موجود تھے اور اسلام قبل از اسلام موجود آسمانی ادیان کے احکامات کی بھی تصدیق کرتا ہے۔اسلام ان احکام کی تکمیل کے لیے آیا ہے۔فرق یہ ہے کہ اسلام صرف انہی احکامات تک محدود نہیں بلکہ اسلام نے ان میں اضافہ بھی کیا ہے تاکہ انسان عروج تک پہنچے۔اسلام وہ واحد دین ہے جس میں نیکی کا حکم دیا گیا ہے اور برائی سے روکا گیا ہے اور اس کا دائرہ زندگی کے تمام شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اللہ کے راستے میں مال و جان کےجہاد کا درجہ دیا ہے۔

یہ وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانی زندگی سے متعلق تمام امور اور اعمال کے بارے میں رہنمائی کی ہے۔پھر اسے پاکیزہ اور ناپاک چیزوں میں تقسیم کیا ،پاکیزہ کو حلال قرار دیا اور ناپاک کو حرام قرار دیا ہے۔یہ دنیا کے قوانین کی طرح نہیں ہے کہ جیسے وہاں کچھ اجتماعی قوانین کو بیان کیا جاتا ہے۔ پھر انہیں اچھی چیزوں میں تقسیم کیا، جن کو جائز قرار دیا اور بری چیزوں کو ممنوع قرار دیا۔کوئی مذہبی قانون یا معاشرتی قانون اس کے برابر نہیں ہے۔ یہ یہ وہ مذہب ہے جس نے اہل کتاب اور خاص طور پر یہودیوں پر عائد تمام سخت احکام کو منسوخ کر دیا اور جو ان کے علماء نے ان پر عائد کیے تھے اور ان کے علماء اور راہبوں نے یہ احکامات خود سے گھڑ لیے تھے۔

دوسرے الفاظ میں ،نبی اکرم اپنے کمالات کےذریعے دوسرے سے ممتاز ہوتے ہیں یہ کمالات  دوسرے ادیان کے ماننے والوں میں نہیں ہیں۔یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسی بنی اسرائیل میں حضرت مسیحؑ کے کمالات تھے۔ مسیحی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ صفات جو حضرت مسیحؑ میں تھیں وہ کسی اور شخصیت میں بھی ممکن ہیں مگر یہ کہ حضرت عیسیؑ میں یہ صفات اپنے کمال کے ساتھ موجود تھیں اور اسی وجہ سے حضرت عیسیؑ دیگر سے ممتاز ہوئےکہ کوئی دوسرا ان صفات میں ان کے مقام کا نہیں تھا۔

یہ تفسیربالکل وہی ہے جو عیسائیوں نے یہودیوں کو عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ثابت کرنے کے لیے استعمال کی تھی، عہد نامہ قدیم میں کئی آیات بیان کی گئی تھیں جنہیں عیسائیوں نے یسوع مسیح کی بشارت سمجھا تھا۔ استثنا 18:18-19: "میں ان کے لیے ان کے بھائیوں میں سے آپ جیسا ایک نبی بھیجوں گا اور میں اپنی باتیں اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور وہ ان سے ہر وہ بات کہے گا جو میں اسے کہوں گا، اور جو کوئی اس کی باتوں پر عمل نہ کرے جو وہ میرے نام سے کہتا ہے تو میں بدلہ لینے والا ہوں گا۔

انہوں نے دلیل قائم کی کہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگلا نبی تمہارے بھائیوں میں سے ہو گا یعنی بنی اسرائیل میں سے ہو گا۔وہ ان تک خداوند کے احکامات پہنچاتا ہو گا۔ (اور میں اپنے الفاظ اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور وہ ان کو وہ سب کچھ بتائے گا جو میں اسے حکم دیتا ہوں) یسعیاہ 52 کی کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے: "آپ کے باپ دادا نےانبیاء کو ستایا؟جب انہوں نے اُن کو مار ڈالا جو پہلے گزر چکے تھے، اِس لیے اُنہوں نے اُس صادق کے آنے کی پیشین گوئی کی، جسے تم نے اب پکڑوایا اور قتل کر دیا۔" اس کے ذریعے حضرت عیسی کو سچا قرار دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ تمام خصوصیات یسوع مسیح پر لاگو ہوتی ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ یہ ساری صفات صرف حضرت عیسیؑ کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔جیسے ان کا بنی اسرائیل میں سےہونا،اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا کرنا۔یہ اس وقت نشانی ہو گی جب آپ میں یہ تمام صفات کمال کی شکل میں موجود ہوں۔

الخالدین، صفحہ 53 میں محمد عطیس کہتے ہیں کہ ان کی نشانیوں میں سے ان کی شریعت کا درجہ کمال تک پہچنا بھی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت ان کے معجزات میں اتنی نہیں ہے جتنی ان کی تعلیمات میں ہے۔ جس نے تاریخ انسانیت میں انقلاب برپا کیا اور تاریخ کا دھارا بدل دیا۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بائبل مقدس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کا تذکرہ کرنے والی بیشتر آیات میں آپ کی صفات کا ذکر ہے جنہیں اہل کتاب خصوصاً یہودی جانتے تھےجیسا کہ وہ اپنے بچوں کو جانتے ہیں۔ کمال اور تکمیل کی تفصیل انجیل میں مذکور ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بائبل مقدس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آلؑ کا تذکرہ کرنے والی بیشتر آیات میں آپ کی صفات کا ذکر ہے جنہیں اہل کتاب خصوصاً یہودی جانتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے وہ اپنے بچوں کو جانتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اس فرمان الہی میں موجود ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ) الصف: 6

۶۔ اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہو گا، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔

احمد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ نام نامی ہے جس کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے چچا اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد آپ کو پکارا کرتے تھے اور شعر کہتے تھے۔اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے نام کی وضاحت کی گئی ہے مگر یہ اس بات پر دلالت نہیں ہے کہ اسی طرح یہ بات انجیل میں بھی آئی ہے۔ یہ زبانی ورثے کا حصہ ہو سکتا ہے جسے ان قوموں نے محفوظ رکھا، اس کا بائبل میں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ  قرآن نے انجیل میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے نام کے مذکور ہونے کی بات کی ہے تو اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔بہت سے محققین (کچھ مخالفین کی رائے میں یہ حرفی لوگ ہیں) کہتے ہیں کہ لفظ باراکلیتوس جو یوحنا کی انجیل میں آیا ہے یہ نبی اکرمﷺ کے نام احمد ﷺ کی طرف اشارہ ہے۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ انجیل یسوع کے بارے میں بتاتی ہے کہ ان کی گرفتاری اور مقدمے سے پہلے، اور اپنے شاگردوں کے ساتھ اپنی آخری ملاقات میں، جب وہ انہیں تسلی دینے اور درد سے نجات دلانے والے تھے، یہ کہتے ہوئے کہ ان کا جانا پیراکلیٹس کی بعثت  کا باعث بنے گا، جو کیتھولک چرچ نے اسے تسلی دینے والے کے طور پر تعبیر کیا۔یوحنا کی انجیل میں آیا ہے: ’یقینی طور پر، میں آپ سے کہتا ہوں، آپ روئیں گے اور ماتم کریں گے اور دنیا خوش ہوگی۔ تم غمگین ہو گے لیکن تمہاری اداسی خوشی میں بدل جائے گی۔ جب عورت جنم دے رہی ہوتی ہے تو وہ غمگین ہوتی ہے کیونکہ اس کا وقت آ گیا ہوتا ہے لیکن جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو اس کی خوشی میں تکلیف یاد ہی نہیں رہتی اور ایک انسان دنیا میں پیدا ہوتا ہے۔تم اسی طرح ہو اور ابھی تم غمو ں میں ہو۔میں جلد تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم خوش ہو اور تمہارے دل فرحت میں ہے اور فرحت و شادابی کو کوئی بھی چھین نہیں پائے گا۔" يوحنا16/19-28 " یہ باتیں میں نے تم سے اس لیے کہی ہیں کہ میری خوشی تم میں قائم رہے اور تمہاری خوشی پوری ہو۔" يوحنا15/11 لہذا، وہ ان کے بوجھ کو کم کرنے والا ہے اور اپنے بعد پیراکلیٹس کے آنے سے انہیں تسلی دینے والا ہے، اور اس نے اس کا اظہار کیا - چرچ کی تشریح کے مطابق (تسلی دینے والے کے طور پر۔)پھر کہتا ہے:" لیکن تسلی دینے والا (پارکلیٹوس)، روح القدس، جسے باپ میرے نام پر بھیجے گا، وہ آپ کو سب کچھ سکھائے گا اور جو کچھ میں نے آپ سے کہا ہے وہ آپ کو یاد دلائے گا۔" يوحنا14/26

"اور جب تسلی دینے والا (پارکلیٹوس) آئے گا، جسے میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، روحِ حق جو باپ کی طرف سے آتی ہے، وہ میری گواہی دے گا، اور تم بھی گواہی دو گے کیونکہ تم آغاز سے میرے ساتھ ہو ۔" يوحنا15/26-27 یہ پارکلیٹوس سچائی کی طرف استاد اور رہنما ہوگا، اور وہ یسوع کی دعوت کو توسیع دینے والااور اس کی تکمیل کرنے والا ہے، انہیں ہر وہ چیز یاد دلاتا ہے جو اس نے کہی تھی، اور وہ اس کی پیشن گوئی کا گواہ ہے جس طرح شاگرد گواہ تھے۔ "

یہ واضح ہے کہ یہ تمام خصوصیات خدا کے رسول محمد میں پائی جاتی ہیں، اسی مناسبت سے بائبل کی یہ آیات محمد کی بشارت کو ثابت کرتی ہیں۔

بعد میں آنے والے زیادہ تر مسلم مفسرین کا خیال ہے کہ لفظ پراکلیٹس اپنی آواز میں تحریف شدہ ہے، اس سے جو مسیح نے کہا تھا، یا جس کا ترجمہ گیلیلین آرامی سے کیا گیا تھا جو مسیح نے بولا تھا، وہ کلمہ بِرِكليتوس تھا جس کے معنی احمد ،مدح یا حمد کے ہوتے ہیں۔

جو بھی انجیل یوحنا کے مخطوطات میں پائے جانے والے لفظ پراکلیٹس کو دیکھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اگر آپ اس لفظ کو اس کی کچھ آوازوں میں تھوڑا سا بدل دیں گے تو یہ احمد (Pericletos) کا معنی بن جائے گا، اور بہت سے عیسائیوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے،۔شیخ عبد الوہاب النجار نے اپنی کتاب سٹوریز آف دی انبیاء میں بتایا ہے کہ وہ جامعہ دارالعلوم مصر میں معروف مستشرق ڈاکٹر کارلو نیلینو کے ساتھی تھے۔ ان کے درمیان جو باتیں ہوئیں ان میں عبدالوہاب النجر کا یہ قول بھی تھا: " میں جانتا ہوں کہ ڈاکٹر کارلو نیلینونے قدیم یونانی یہودی ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اس لئے اس سے پوچھا کہ Pericletus کا کیا مطلب ہے؟ اس نے مجھے یہ جواب دیا کہ پادری کہتے ہیں کہ اس لفظ کا مطلب ہے (تسلی دینے والا)

میں نے کہا: میں ڈاکٹر کارلو نیلینو سے پوچھ رہا ہوں، جنہوں نے قدیم یونانی زبان کے ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، میں کسی پادری سے نہیں پوچھ رہا ہوں۔ اس پر اس نے جواب دیا: اس کا معنی ہے جس کی بہت تعریف ہو۔ تو میں نے اس سے کہا: کیا یہ سب سے افضل (حمد) کے ہم معنی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا: اللہ کے رسول کا ایک نام احمد ہے۔ اس نے کہا: بھائی آپ کو بہت چیزیں یاد ہیں، پھر ہم الگ ہوگئے۔ انبیاء کے قصے، ص 398۔

ولیم سینٹ کلیئر ٹیسڈیل نے اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھی، جس کا انگریزی میں ترجمہ ولیم مائر نے (Sources of Islam، p. 63) کے عنوان سے کیا، جس میں اس نے کہا: "یہ بہت ممکن ہے کہ عرب صوتی طور پر الجھ گئے ہوں کہ (Praclitus) اور (Pericleitus) ہے تو انہوں نے لفظ (Pericletus) لیا، جس کا مطلب ہے احمد ہے، یوحنا کی انجیل میں مبشر کا نام ہے۔اس لیے احمدہی مراد لینے پر دلیل نہیں بنتا؟

اس کا جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ مسیحی لٹریچر کو لکھنے میں کافی تاخیر ہوئی ہے: یوحنا کی انجیل پہلی صدی کے آخر میں یا دوسری صدی کے آغاز میں لکھی گئی تھی یہ دیر سے مسیحی ورثے میں منتقلی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ یوحنا کی روایت میں اس نام کی اپنی آواز میں غلطی ہو گئی ہو۔یہ غلطی دو وجوہات کی بنا پر ممکن ہے: پہلی ،پہلی صدی کے ادب میں احمد نام کی غرابت ہے اور دوسری وجہ لفظ "پراکلیٹس" (جس کا مطلب وکیل ہے) کی مقبولیت ہے، یوں روایت بڑی تیزی سے پہلے معنی سے ہٹ کر دوسرے معنی کی طرف چلی گئی۔ خاص طور پر "Pericletos" کے بارے میں جمہور کی رائے کے مطابق مسیح کی گفتگو آرامی زبان میں ہے، جب ترجمہ ہوا تو سامعین کو غیر مانوس لفظ احمد اور مشہور لفظ وکیل کلمہ میں الجھن ہو گئی کہ کون مراد ہے۔

انجیل مقدس میں بہت زیادہ اختلافات ہیں(اس سے مراد اصوات کے اختلافات ہیں)مختلف مخطوطات کے درمیان کتابت کا اختلاف ہے جیسے نص متی 2/ 23،اسی طرح البردیہ ۷۰ (نزرت)، اسی طرح افریقی نسخے اور واشنگٹن (نزرث)، اور مخطوطہ سانگلینسس ان سب میں آپس میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

فرانسیسی انسائیکلو پیڈیا میں اس سلسلے میں جو معلومات دی ہیں وہ کافی قابل توجہ ہیں، اس میں آیا ہے کہ : "محمددین اسلام کے بانی، خدا کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ لفظ (محمد) کا معنی ہے جس کی بہت زیادہ تعریف کی جاتی ہے اور یہ (تعظیم) سے ماخوذ ہے جس کے معنی تعظیم اور تسبیح کے ہیں اور اتفاق سے اسی کا دوسرا نام (الحمد) ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے جو لفظ (محمد) کا مترادف ہے جس کا مطلب ہے (احمد) اور یہ یقینی طور پر ممکن ہے کہ حجاز کے عیسائیوں نے (فارقلیتا) کے بجائے (احمد) کا لفظ استعمال کیا ہو۔

 (احمد) کا مطلب: وہ جس کی تعریف کی گئی ہے اور بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے، اس لفظ کا ترجمہ ہے: (Pericletos)، جسے شبہ کی بنا پر (Paracletus) لفظ سے بدل دیا گیا ہے، اس لیے مسلمان مصنفین نے بار بار اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس لفظ سے مراد پیغمبر اسلام کے ظہور کی بشارت ہے اور قرآن کریم نے بھی اس موضوع کو سورہ الصف (آیت 2) (3) میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔ " عظیم فرانسیسی انسائیکلوپیڈیا، جلد 23، صفحہ 4176۔

الشيخ مقداد الربيعي - باحث وأستاذ في الحوزة العلمي

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018