19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 2:25 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | نبوت |  مذہب بدلتے ہوئے معاشرے کی ضروریات کو کیسے پورا کر سکتا ہے؟
2024-03-10   335

مذہب بدلتے ہوئے معاشرے کی ضروریات کو کیسے پورا کر سکتا ہے؟

اسلام آخری آسمانی دین ہے اور اس کے ساتھ ہی سلسلہ نبوت بھی ختم ہو گیا ہے قرآن مجید میں ارشاد پروردگار ہوتا ہے:

(مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا)، الأحزاب:40 محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

انسانی ضروریات اور طرز حیات میں تبدیلی آ چکی ہے اور اب انسان کا رہن سہن بہت جدید ہو گیا ہے۔سماجی تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل ہوئی ہے اور وہ بھی نئے انداز اختیار کر چکے ہیں۔اس صورتحال میں وہ دین جس کے احکامات بہت محدود اور تبدیل بھی نہیں ہوتے وہ انسان کی جدید  ضروریات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب کیسے دے سکتا ہے؟ اور تبدیلیوں کا یہ سلسلہ تو قیامت تک جاری بھی رہنا ہے۔سوال بہت واضح ہے کہ مذہب کے احکامات متعین ہیں اور انسانی ترقی کے ساتھ ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ایسی صورت میں روز بروز بڑھتی انسانی ترقی کے ساتھ پیدا ہونے والےسوالات کا جواب دینا کیسے ممکن ہے؟

یہ بات واضح ہے کہ انسان کی ضروریات کی دو قسمیں ہیں کچھ ضروریات ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہیں اور کچھ وقت اور جگہ کی تبدیلی سے بدل جاتی ہیں۔اسلام ہر طرح کی انسانی ضروریات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیتا ہے۔وہ ضروریات جو ہر انسان کی ہر جگہ ایک جیسی رہتی ہیں ان کے احکامات بھی ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی۔اسی طرح دین میں ایسے قواعد و ضوابط ہیں جو انسان کی ضروریات کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں جیسے ہی نئی صورتحال پیش آتی ہے اس کے نئے احکامات آ جاتے ہیں۔وہ امور جنہوں نے مذہب کے احکامات میں لچک پیدا کی اور جدید انسانی ضروریات کے مطابق نئے احکامات  جو ان ضروریات کے مطابق ہوں وہ فراہم کیے ان کا جاننا بہت ضروری ہے۔ان ذرائع میں ایک عقل ہے۔اللہ تعالی  نے قرآن کو  انسان کے لیے باطنی حجت قرار دیا ہے جیسے نبی اور امام ہر انسان پر ظاہری حجت ہوتے ہیں۔اس اعتبار سے عقل دو طرح سے اسلامی شریعت کا  ماخذ بن جاتی ہے۔

پہلا تو صاحبان عقل یہ کہتے ہیں کہ  شریعت اور عقل کے فیصلوں میں ملازمہ پایا جاتا ہے یعنی شریعت کے فیصلے عقل کے مطابق ہوتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کے فیصلے اللہ تعالی طرف سے ہوتے ہیں وہ ناصرف عاقل ہے بلکہ عقل کا خالق اور عقلا کا سردار ہے۔اس لیے جب سب عقل والے ایک حکم پر متفق ہو رہے ہیں تو شارع مقدس بھی ان کے ساتھ ہوگا۔ جب شارع نے عقلا کے طریقے کو رد نہیں کیا تو اس پر اعتبار کرنے اور اس کے قابل بھروسہ ہونے پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہ جاتا۔

دوسرا یہ کہ کچھ چیزیں مستقلات عقلیہ کے نام سے موجود ہیں جنہیں عقل مستقلا درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے عصر حاضر میں نئے آنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی بھی فقیہ کی اس سے بڑی مدد ہو جاتی ہے۔ جیسے مقدمہ واجب ہے یا ضد کا مسئلہ ہے، اسی طرح جب دو حکم آپس میں ٹکرا جائیں تو ایسی صورت میں ان میں اہم حکم کو انجام دیا جائے گا اور جو مہم ہوگا اسے ترک کردیا جائے گا اور مسئلہ امر و نہی کا جمع ہو جانا اور اس طرح کے کافی مسائل ہیں جنہیں عصر حاضر کا فقیہ مستقلات عقلیہ سے حل کر لیتا ہے۔

مندرجہ بالاصورت میں ہم عقل کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں عصر حاضر کا فقیہ احکام کے استنباط میں اور لوگوں کو عصری مسائل کا حکم بتانے میں عقل  سے بڑی مدد لیتا ہے۔

دوسرا فقہی اجتہاد ہے یعنی ایک فقیہ اپنی پوری قوت ادلہ شرعیہ سے حکم شرعی کو جاننے کے لیے خرچ کر دیتا ہے ۔فقیہ کی یہ ادلہ قابل اعتبار ہوتی ہیں وہ ظن و شک  میں مبتلا کر دینے والی ادلہ سے استنباط نہیں کرتا۔اس طریقے سے وہ کوشش کرتا ہے کہ قیامت تک آنے والے مسائل کو تمام انسانی معاشروں کے لیے بیان کر دے۔ موجودہ زمانے کے بڑے مفکر نے کہا ہے مختلف شعبوں میں اسلامی قانون سازی میں ایسے اصول اور عمومی ضابطے شامل ہیں جو ہزاروں فروعات کے لیے کافی ہیں اور ان فروعات کی قیامت تک آنے والی نسلوں اور معاشروں کو ضرورت ہے۔علم کا یہ خزانہ ملت اسلامیہ کو دوسری تمام ملتوں سے ممتاز کرتا ہے۔اس خزانے کی وجہ سے ہی ملت اسلامیہ دوسری کسی ملت کی محتاج نہیں ہے اور نہ ہی کسی ظن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جس کے حجت ہونے پر دلیل نہ ہو۔

علامہ حلیؒ آٹھویں صدی (648 - 726 ہجری) کے شیعہ فقہا میں سے ہیں انہوں نے اسلام کے معتبر اصولوں کی روشنی میں کئی کتابیں اور انسائیکلوپیڈیا لکھے ان میں تحریر الاحکام الشریعہ اہم کتاب کے طور پر شامل ہے۔آپ نے چالیس ہزار سے زیادہ فروعات کو قرآن ،سنت اور آئمہ اہلبیت سے مذکور احکامات میں درج اصولوں کی روشنی میں لکھا۔ انہوں نے اسے عبادات،معاملات، عقود اور احکام میں تقسیم کیا۔

تیسرا مصادیق میں وسعت پیدا کی،یہ نہیں کہ جو پہلوں نے کہہ دیا اس پر رک گئے۔اکثر معاملات میں احکام شرعیہ میں مکلف کے وظیفہ کو بیان کیا جاتا ہے وہ کس طرح انجام دے گا اس کی طرف نہیں دیکھا جاتا۔یہ بات بہت واضح ہے کہ اکثر مقامات پر حالات اور صورتحال مختلف ہوتی ہے یہاں پر مصداق مختلف ہو جاتا ہے اصل حکم شرعی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہم اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہیں ۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

 (وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ)، الأنفال: 60

اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہو گی۔

اس آیت مجید ہ میں حکم شرعی کو واضح کر دیا گیا ہے کہ دشمنوں کے مقابلے میں قوت و طاقت کو جمع کرو،اب اس میں اسلحہ کی تفصیل نہیں بتائی کہ کون سا ہونا چاہیے؟ کسی ایک کو معین نہیں کیا۔یہ بات واضح ہے کہ وہ ہر زمانے کے مطابق ہو گا پہلے زمانے کا اسلحہ اس وقت  قصہ پارینہ بن چکا ہے ہم اکثر مقامات پر آنے والی تبدیلیوں میں مصداق کو ہی تبدیل کریں گے۔

چوتھی چیز جو ہماری مددگار ہوتی ہے وہ احکام ثانویہ ہیں،یہ بھی احکام شرعیہ میں سے ہی ہیں اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے تمام احکامات  پر حاکم ہیں یعنی ان کے آنے کے بعد پہلے سے موجود احکام پر عمل نہیں ہوتا۔جیسے اصول حرج ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 (وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ)، الحج: 78

اور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا، یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس (قرآن) سے پہلے اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول تم پر گواہ رہے اور تم لوگوں پر گواہ رہو، لہٰذا نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کے ساتھ متمسک رہو، وہی تمہارا مولا ہے سو وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔

اسی طرح قاعدہ لاضرر ،قاعدہ اصل بقاء النوع و حفظ الاسلام ہیں۔اس طرح کے فقہی قواعد کے ذریعے سے بہت سی مشکلات اور مشکل صورتحال کو آسان بنایا جاتا ہے اور احکام شرعیہ کی تطبیق کی جاتی ہے۔

پانچواں وہ احکام جو ایک مجتہد جامع الشرائط کے ساتھ خاص ہیں۔اللہ تعالی نے اسلامی حاکم کو بعض ایسے اختیارات دیے ہیں جن کو استعمال میں لا کر وہ امت کے مصلحتوں کا خیال رکھتا ہے اور معاشرے کے اجتماعی امور میں آنے والی مشکلات کو حل کرتا ہے۔ یہ معاشرے کے اجتماعی نظام کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس سے معاشرے کے امور چلانے میں بہت آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اسے بعض فقہائے کرام نے منطقہ فراغ کے نام سے یاد کیا ہے او ر اس مراد یہ ہے کہ  اسلامی حکمران کو ایسے  اختیارات  دیے ہیں جہاں وہ ایسے موضوعات میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق فیصلے کر سکتا ہے جن میں ان امور کو ضروری قرار دینے والی کوئی نص نہیں آئی۔شہید باقر الصدرؒ فرماتے ہیں کہ منطقہ فراغ میں ان اختیارات کو دینے کا ثبوت قرآن مجید کی یہ آیت ہے:

 (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ .. الآية)، النساء: 59

 اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو

منطقہ الفراغ جس کی وجہ سے اولی الامر کو بہت سے اختیارات مل جاتے ہیں اس آیت کی روشنی میں ہر مباح کو شامل ہے یعنی عام حالات میں جس کا شرعی حکم مباح تھا۔ہر وہ عمل و نظریہ جس میں کوئی شرعی دلیل نہیں آئی کہ یہ حلال ہے یا حرام ہے؟ یہاں پر اولی الامر کا دائرہ اختیار شروع ہو جاتا ہے کہ وہ اسے ضروری کر دے یا اس سے منع  کر دے۔ جب امام کسی مباح کام سے منع کر دے گا تو وہ حرام ہو جائے گا۔وہ امور جو دلیل سے حرام ہونا ثابت ہیں جیسے سود یہاں پر اولی الامر کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کوئی حکم جاری کرے۔اسی طرح وہ کام جسے شریعت نے واجب قرار دیا جیسے زوجہ کا خرچہ شوہر پر فرض ہے اب یہاں اولی الامر یہ نہیں کر سکتا کہ اسے حرام کر دے۔یہ بات یاد رہے کہ  اللہ تعالی نے ولی امر کی اطاعت اسی صورت میں فرض قرار دی ہے جب اس کا حکم اللہ کی حدود سے نہ ٹکرا رہا ہو۔عام زندگی میں  مباح امور وہ میدان ہے جہاں منطقہ فراغ تشکیل پاتا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ دین مبین اسلام کے پاس ایسے میکانزم ا ور طریقہ ہائے کار موجود ہیں جو دینی احکام کو زمانے کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کےمطابق لچکدار بناتے ہیں اور زمانےسے ہم آہنگ بھی کرتے ہیں۔اسلام  ایک مکمل مذہب ہے اور اس میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے اوریہ ہر دور کے انسانی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔امیر المومنین ؑ کا خوبصورت فرمان ہے: کیا اللہ تعالی نے دین کو ناقص نازل کیا اور پھر ان سے مدد مانگی کہ اس کو مکمل کر دیں؟!یا وہ اللہ کے شریک تھے کہ وہ جو کہیں وہ اس پر راضی ہے؟!کیا اللہ نے تو اس دین کو نازل کیا اور نبی اکرم نے اسے پہنچانے اور اس کو بتانے میں کوتاہی کی ہو؟!خدا کی قسم اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 (وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ)، الأنعام: 38

اور زمین پر چلنے والے تمام جانور اور ہوا میں اپنے دو پروں سے اڑنے والے سارے پرندے بس تمہاری طرح کی امتیں ہیں، ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر(سب) اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے۔

اس فرمان  میں مولا تعجب کا اظہار کر رہے ہیں یعنی سوچا بھی کیسے کہ اللہ نے دین کو ناقص نازل کیا ،یا دشمنان خدا اس کے شریک تھے یا اللہ کے رسول نے پہنچانے میں توبہ نعوذ باللہ کوئی کمی کی۔اللہ کا دین مکمل ہے،دشمنان خدا اس کے شریک نہیں ہیں اوراللہ کے نبی نے اسے مکمل دیانتداری کے ساتھ پہنچا دیا ہے۔

الشيخ مقداد الربيعي – محقق اور استاد حوزه علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018