

| امامت | وجود امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف):ضمیرِ مومن میں ایک زندہ احساس

وجود امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف):ضمیرِ مومن میں ایک زندہ احساس
الشيخ معتصم السيد أحمد
عقیدتی اور فکری تبدیلیوں کے اس دور برق رفتار میں، امام مہدی (عجل الله تعالى فرجه الشريف) سے وابستگی کا سوال اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والےمخلص اہلِ ایمان کے لیے سب سے زیادہ اہم اوردرپیش سوالات میں سے ہے، یہ محض ایک غیبت سے متعلق سوال نہیں، بلکہ ایک ایسا سرنوشت ساز سوال ہے جو دینی شناخت کے جوہر اور امامت و ولایتِ اہل بیت (علیہم السلام) سے حقیقی وابستگی کے معیار سے متعلق ہے۔ اور اصل سوال یہ ہے: ہم امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے اپنے تعلق کو کس طرح مضبوط بنا سکتے ہیں؟ اور وہ کیا چیز ہے جو ہمیں واقعی ان کے مقربین میں شامل کر سکتی ہے؟
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ولایت اور امامت صرف نعرے، جذباتی وابستگیاں یا فکری تعلقات کا نام نہیں، بلکہ یہ حق کے ساتھ مکمل اور عملی وابستگی اور باطل کی ہمیشہ کے لیے نفی کرنے کا نام ہے۔ آئمہ اہلِ بیت (علیہم السلام) محض عقیدتی عہدیدارنہیں ہیں، بلکہ وہی صراطِ مستقیم ہیں جو بندے کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے جوڑتا ہے اور اسے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اہلِ بیت (علیہم السلام) کی راہ پر چلنے کا مطلب دراصل اصول عقیدہ ، سیرت اور اخلاق میں اسلام سے وابستگی ہے، اور یہی حقیقت ان سے منقول متعدد روایات سے بھی ثابت ہوتی ہے۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:
ہمارے شیعہ صرف وہی ہیں جو تقویٰ اختیار کریں اور اللہ کی اطاعت بجا لائیں۔ وہ صرف عاجزی و خشوع، امانت کی ادائیگی، اللہ کے کثرتِ ذکر، روزہ و نماز، والدین کی خدمت، محتاج اور مسکین ہمسایوں، قرض داروں اور یتیموں کی دیکھ بھال، سچ بولنے، قرآن کی تلاوت کرنے، اور لوگوں کے بارے میں زبان کو (غلط باتوں سے) روکنے کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ اور وہ اپنی برادری میں امانت دار شمار ہوتے ہیں۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
ہمارے شیعہ وہ ہیں جو پرہیزگار اور محنتی ہوں، وفاداری اور امانت کے حامل ہوں، زہد و عبادت والے ہوں۔ وہ دن اور رات میں اکیاون رکعت نماز پڑھتے ہیں، رات کو قیام کرتے ہیں، دن کو روزے رکھتے ہیں، اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، خانۂ خدا کا حج کرتے ہیں، اور ہر حرام سے اجتناب کرتے ہیں۔
امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا:
علی (علیہ السلام) کے شیعہ وہ ہیں جو راہِ خدا میں اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ موت ان پر آجائے یا وہ خود موت پر جا پڑیں۔ اور علی (علیہ السلام) کے شیعہ وہ ہیں جو اپنے بھائیوں کو اپنی جان پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے خود محتاج ہوں۔ وہ وہی ہیں جنہیں اللہ وہاں نہیں پاتا جہاں اُس نے منع کیا ہے، اور وہاں سے غائب نہیں پاتا جہاں اُس نے حکم دیا ہے۔ اور علی (علیہ السلام) کے شیعہ وہ ہیں جو اپنے مومن بھائیوں کی عزت کرنے میں علی علیہ لسلام کی پیروی کرتے ہیں۔
یہ تمام روایات امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے حقیقی وابستگی کا نہایت واضح معیار طے کرتی ہیں ۔ یہ محض زبانی طور پر محبت کے دعوے کا نام نہیں، بلکہ تقویٰ، محنت، پاکدامنی اور درست رویہ ہی وہ صفات ہیں جو بندے کو امام کی خوشنودی اور محبت کا مستحق بناتی ہیں۔
یہ بات سمجھنا نہایت اہم ہے کہ امام مہدی (عجل الله فرجه الشريف) کوئی دور کی غیبی سوچ نہیں بلکہ ایک زندہ اور فعال حقیقت ہیں۔ وہی قلب رحیم ہیں جو ہماری تکلیفوں کو محسوس کرتے ہیں، ہماری حالتِ زار پر غمگین ہوتے ہیں، اور جن کے بابرکت وجود کے صدقے اللہ عذاب و بلاؤں کو ٹالتا ہے اور دشمنوں کے مکر کو ناکام کرتا ہے۔ ان کی ذاتِ مقدس ہی وہ حصار ہے جس نے تشیع کے راستے کو بکھرنے اور مٹنے سے بچایا، حالانکہ تاریخ کے طوفانوں نے نہ صرف اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو، بلکہ خود امام کی سیرتِ مبارکہ کو بھی ہمیشہ نشانہ بنایا ہے۔
ذرا غور کریں کہ شیعہ طول تاریخ میں کس قدر مصائب اور ظلم و ستم کا شکار رہے، پھر اس کا تقابل کریں دیگر فرقوں اور مکاتب کے انجام سے جو بالآخر مٹ گئے۔ مثال کے طور پر، جب متوکل عباسی نے معتزلہ کے خلاف رخ موڑا۔ جو مامون اور معتصم کے عہد میں اقتدار پر چھائے ہوئے تھے۔ تو ان کی فکر قائم نہ رہ سکی اور وہ مکتب معدوم ہوگیا۔ لیکن تشیع مسلسل آزمائشوں، ظالم حکمرانوں کی ایذا رسانیوں اور دیگر مکاتب کی دشمنیوں کے باوجود باقی رہا۔ اس بقا کی اصل وجہ، اللہ کے لطف کے بعد، امامِ حجت (عجل الله فرجه) کا وجود ہے؛ وہی الہی نگہبان جو اپنے شیعوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی سرپرستی سے غافل رہتے ہیں۔
اسی حقیقت کو خود امام (عجل الله فرجه) نے اپنے ایک مکتوب میں شیخ مفید اور اس کے ذریعے تمام مؤمنین کے سامنے واضح فرمایا: ہم تمہاری نگرانی میں کوتاہی نہیں کرتے اور نہ ہی تمہیں یاد رکھنے سے غافل ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو مصیبتیں تم پر ٹوٹ پڑتیں اور دشمن تمہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ۔ پس اللہ سے ڈرو اور ہمارے ساتھ تعاون کرو تاکہ ہم تمہیں اس آزمائش سے نجات دیں جو تمہیں گھیر چکی ہے۔ اس فتنے میں وہ ہلاک ہوگا جس کی موت کا وقت آ گیا ہے، اور وہ بچا لیا جائے گا جو اپنی امید کے ساتھ اس راہ پر چل رہا ہو گا ۔ یہ ہماری تحریک کے قریب آنے اور تمہیں ہمارے اوامر و نواہی سے براہِ راست آشنا کرنے کی نشانی ہے، اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرےـ
یہ کلمات نہایت وضاحت سے بتاتے ہیں کہ غیبت کا مطلب غفلت نہیں، اور غیب کا مطلب قطع تعلق نہیں؛ بلکہ یہ تاریخ کے ایک خاص مرحلے میں الٰہی تدبیر کی ایک صورت ہے۔ اس مرحلے میں مؤمن کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا حق ادا کرے، اور اس الٰہی تدبیر کا حصہ بنے، نہ کہ اس پر بوجھ ۔
پس بہترین ذریعہ کیا ہے کہ انسان اپنی روح کو امام مہدی (عجل اللہ فرجہ) سے جوڑ سکے؟
اس کا جواب بھی روایات میں آیا ہے:
اعمال کی اصلاح۔ روایت میں ہے کہ مومن کے اعمال امام معصوم پر پیش کیے جاتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اپنے امام کو کسی برے عمل، کمزور ہمت یا عہد میں خیانت کے ذریعے رنجیدہ نہ کرے۔ امام اپنے شیعوں کے نیک عمل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور ان کے گمراہی و لغزش پر رنجیدہ۔
اعمال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ انسان کو چاہیے کہ اپنی محبت اور وفاداری کا عہد بھی بار بار تازہ کرے، جیسا کہ دعائے عہد میں ہے:
اے اللہ! میں آج کی صبح اور اپنی زندگی کے ہر دن میں اس کے لیے اپنی گردن میں عہد، پیمان اور بیعت کو تازہ کرتا ہوں، جس سے کبھی پلٹوں گا نہیں اور نہ ہی کبھی ہٹوں گا۔
مؤمن کو ہمیشہ یادِ امام اور شوقِ دیدار کی کیفیت میں رہنا چاہیے، جیسا کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی دعاؤں میں آیا ہے: اے اللہ! مجھے وہ نورانی و سعید جلوہ دکھا اور اس کے حسن و جمال کے دیدار سے میری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔
دعائے ندبہ میں: "اے آقا! اے شدید القوی… اے احمد مرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند! کیا آپ سے ملاقات کی کوئی سبیل ہے؟"
دعائے عُمری میں (امام زمانہؑ کی جانب سے): "اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اپنے ولی کو ظاہر اور نافذ الامر دیکھنے کی سعادت عطا فرما۔
اور ایک دعا میں ہے: "اے اللہ! ہمیں اپنی زندگی میں اور موت کے بعد بھی اپنے ولی کے مبارک چہرے کی زیارت عطا فرما۔
تاہم شوق اور دعا کی اہمیت کے باوجود، ولایت پر ثابت قدم رہنا ہی اصل ربط کا محور ہے۔ جیسا کہ امام باقر (علیہ السلام) کی روایت میں آیا ہے: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ان کا امام ان سے غائب ہوگا۔ خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جو اس زمانے میں ہمارے امر پر ثابت قدم رہیں گے۔ ان کے لیے ادنیٰ ترین ثواب یہ ہے کہ پروردگار عالم ندا دے گا: اے میرے بندو اور میری باندیو! تم نے میرے راز پر ایمان لایا اور میرے غیب کی تصدیق کی، خوش ہو جاؤ میرے بہترین انعام سے۔ تم واقعی میرے بندے اور باندیاں ہو۔ میں تم سے قبول کروں گا، تمہارے گناہوں سے درگزر کروں گا، تمہیں بخش دوں گا، تمہاری برکت سے اپنے بندوں کو بارش عطا کروں گا اور ان سے بلائیں ٹال دوں گا۔ اگر تم نہ ہوتے تو میں ان پر اپنا عذاب نازل کرتا۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ زمانۂ غیبت میں ثبات و پائیداری کا مقام خاص ہے، جس کے اثرات صرف فرد تک محدود نہیں رہتے، بلکہ پورے معاشرے، حتیٰ کہ فطرت اور کائنات تک پھیل جاتے ہیں۔
امام حجت (علیہ السلام) سے تعلق کو مضبوط کرنے کا ایک اور ذریعہ ان کے لیے دعا کرنا ہے: ان کی سلامتی، نصرت اور ظہورمیں تعجیل کے لیے۔ جیسا کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی دعا ہے: اے اللہ! اسے ہر ظالم اور سرکش کے شر سے محفوظ رکھ ، اپنی تمام مخلوقات کے شر سے بچا، اسے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں سے حفاظت عطا فرما، اس پر نگہبانی کر اور اسے کسی برائی کے پہنچنے سے محفوظ رکھ ۔ اپنے رسول اور آل رسول کی امانت کو اس میں محفوظ رکھ ، اس کے ذریعے عدل کو ظاہر فرما، اور اسے نصرت کے ساتھ تقویت عطا فرما۔ یہ بھی واضح ہے کہ جو دعائیں، زیارات اور مستحبات اہل بیت (علیہم السلام) سے نقل ہوئی ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ امام غائب سے ایک دائمی روحانی و عقلی ربط قائم رہے، تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ زندہ اور بیدار شعور کے ساتھ امت کے دل و دماغ میں باقی رہے۔
خلاصہ
امام مہدی (عجل اللہ فرجہ) سے تعلق محض ایک وقتی جذبہ یا چند دعاؤں کا تکرار نہیں، بلکہ یہ ایک دائمی عہد اور عملی التزام ہے، جو اہل بیت (علیہم السلام) کے سلوک پر چلنے، ان کے راستے پر ثابت رہنے اور اس شعور کے ساتھ جینے کا نام ہے کہ ہم ایسے امام کے عہد میں زندہ ہیں جو زندہ و موجود ہیں، ہمارے اعمال کو دیکھتے اور ہماری حالت پر نظر رکھتے ہیں۔
جس قدر ہماری حالت بہترہو گی، اتنی ہی قربت ہمیں حاصل ہوگی، اور جتنا ہم گناہوں اور لغزشوں میں مبتلا ہوں گے، اتنا ہی ہم ان سے دور ہوتے جائیں گے۔
پس جو کوئی حقیقی طور پر امام مہدی (عج) کے انصار میں شامل ہونا چاہے، اسے ویسا ہی ہونا ہوگا جیسا اہل بیت (علیہم السلام) نے بیان کیا ہے: پرہیزگار، محنتی، پاکدامن، سچا، مخلص، اور حق کی نصرت کے لیے ہمیشہ تیار، خواہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ تب ہی امام سے تعلق کوئی خواب یا آرزو نہیں رہے گا، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہوگی جو ہماری ہر سانس میں ہمارے ساتھ ہو ۔