14 رمضان 1446 هـ   14 مارچ 2025 عيسوى 6:26 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | امامت |  امام مھدی عجل اللہ تعالی کا ظہور کب ہوگا ؟ امام محمد باقر علیہ السلام کا جواب ۔
2024-12-14   464

امام مھدی عجل اللہ تعالی کا ظہور کب ہوگا ؟ امام محمد باقر علیہ السلام کا جواب ۔

الشيخ مقداد الربيعي

زرارہ سے روایت ہے کہ حمران نے امام باقر علیہ السلام سے ظہور امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے بارے میں سوال کیا۔ حمران نے عرض کیا: مولا ! "اللہ مجھے آپ پر قربان کردے، کاش آپ ہمیں یہ بتا دیتے کہ یہ امر(ظہور امام مھدی ع جل اللہ تعالی فرجہ) کب ہوگا؟، تاکہ ہمیں خوشی حاصل ہو۔"

 امام علیہ السلام نے فرمایا"اے حمران! تمہارے بھی دوست، بھائی اور جاننے والے ہیں ، (سنو) کسی زمانے میں ایک عالم تھا جس کا ایک بیٹا تھا، وہ اپنے والد کے علم میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کرتا تھا۔ جبکہ اس عالم کا ایک پڑوسی تھا جو اس کے پاس آتا، اس سے سوالات کرتا اور اس سے علم حاصل کرتا تھا۔ جب عالم کی موت کا وقت قریب ہوا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا: 'بیٹے! تم ہمیشہ میرے علم سے دور رہتے رہے اور اس میں دلچسپی نہیں لی ۔ تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کرتے تھے۔ ہماراجو پڑوسی ہے وہ میرے پاس آتا تھا، سوال کرتا تھا اور مجھ سے حاصل شدہ علم کو محفوظ رکھتا تھا۔ بیٹا میرے بعد اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو اس کے پاس جانا۔" اس نے اپنے بیٹے کو اپنے پڑوسی کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

عالم کی وفات ہو گئی اور اس کا بیٹا زندہ رہا۔ اس زمانے کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا۔ بادشاہ نے اس شخص کے بارے میں پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ وہ فوت ہو چکا ہے۔ بادشاہ نے پوچھا: 'کیا اس کا کوئی بیٹا ہے ؟ بادشاہ سے کہا گیا: "ہاں، اس کا ایک بیٹا ہے۔ بادشاہ نے کہا: "اسے میرے پاس لے آؤ۔" چنانچہ بیٹے کو بلانے کے لیے قاصد بھیجا گیا۔ لڑکے نے کہا: "اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ بادشاہ نے مجھے کیوں بلایا ہے۔ میرے پاس کوئی علم نہیں ہے، اور اگر اس نے مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تو میں شرمندہ ہو جاؤں گا۔ پھر اسے اپنے والد کی وصیت یاد آئی۔ وہ اس شخص کے پاس گیا جو اس کے والد سے علم حاصل کرتا تھا اور کہا: "بادشاہ نے مجھے بلایا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ کیوں بلایا ہے ۔ میرے والد نے مجھے وصیت کی تھی کہ اگر مجھے کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں تمہارے پاس آؤں۔

اس شخص نے کہا: "مجھے معلوم ہے کہ بادشاہ نے تمہیں کیوں بلایا ہے۔ اگر میں تمہیں بتا دوں تو جو کچھ اللہ تمہیں دے گا اس میں ہم دونوں برابر کے حصہ دار ہونگے ۔" لڑکے نے کہا: "ٹھیک ہے۔" اس شخص نے اسے قسم دے کر عہد لیا کہ وہ وعدہ پورا کرے گا، اور لڑکے نے حامی بھر لی۔اس شخص نے کہا: "بادشاہ تم سے اپنے ایک خواب کے بارے میں سوال کرے گا کہ یہ کون سا زمانہ ہے۔ تو تم کہنا: یہ بھیڑئیے کا زمانہ ہے۔لڑکا بادشاہ کے پاس گیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا: "کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟" لڑکے نے کہا: "آپ نے مجھے اس لیے بلایا ہے کہ آپ اپنے ایک خواب کے بارے میں سوال کریں گے کہ یہ کون سا زمانہ ہے"۔

بادشاہ نے کہا: "بالکل درست۔ تو بتاؤ، یہ کون سا زمانہ ہے؟" لڑکے نے جواب دیا: "یہ بھیڑئیے کا زمانہ ہے"۔بادشاہ نے اسے انعام دینے کا حکم دیا۔ لڑکے نے انعام لیا اور اپنے گھر واپس چلا گیا، لیکن اس نے اپنے وعدے کو پورا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: "شاید میں یہ مال ختم کرنے یا کھانے سے پہلے ہی مر جاؤں، یا شاید مجھے اس جیسی ضرورت کبھی دوبارہ پیش ہی نہ آئے، جیسی اس بار پیش آئی۔" پھر وہ ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہا ۔

پھر بادشاہ نے ایک اور خواب دیکھا اور اسے دوبارہ بلایا۔ لڑکا اپنی سابقہ حرکت پر شرمندہ ہوا اور کہا: "اللہ کی قسم! میرے پاس کوئی علم نہیں ہے جو بادشاہ کو پیش کر سکوں، اور مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنے ساتھی سے کا سامنا کروں، کیونکہ میں نے اس کے ساتھ بدعہدی کی اور اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔" اس نے کہا: "میں کسی بھی صورت میں اس کے پاس جاؤں گا، اس سے معافی مانگوں گا، اور اسے قسم دے کر یقین دلاؤں گا۔ شاید وہ مجھے دوبارہ کچھ سکھا دے"۔وہ اس شخص کے پاس گیا اور کہا: "میں نے وہ کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا، میں نے تمہارے ساتھ بدعہدی کی اور تمہارے ساتھ جو طے ہوا تھا اسے پورا نہیں کیا۔ میرے پاس اب وہمال بھی نہیں جو مجھے ملا تھا، اور اب مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ خدا کے لیے مجھے بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس بار جو بھی مجھے ملے گا، وہ ہمارے درمیان برابر ہوگا۔ بادشاہ نے مجھے بلایا ہے، لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے کیا پوچھے گا"۔اس شخص نے کہا: "بادشاہ تم سے خواب کے بارے میں پوچھے گا کہ یہ کون سا زمانہ ہے۔ تو تم کہنا: یہ بھیڑکا زمانہ ہے۔لڑکا بادشاہ کے پاس گیا اور اندر داخل ہو کر کہا: "آپ نے مجھے اس لیے بلایا ہے کہ آپ اپنے خواب کے بارے میں سوال کریں گے کہ یہ کون سا زمانہ ہے۔" بادشاہ نے کہا: "بالکل درست۔ تو بتاؤ، یہ کون سا زمانہ ہے؟" لڑکے نے جواب دیا: "یہ بھیڑ کا زمانہ ہے"۔بادشاہ نے اسے انعام دینے کا حکم دیا۔ اس نے انعام لیا اور گھر واپس آیا۔ پھر سوچا کہ آیا وہ اپنے ساتھی سے وعدہ پورا کرے یا نہ کرے۔ کبھی وہ ارادہ کرتا کہ وعدہ پورا کرے اور کبھی ارادہ کرتا کہ نہ کرے۔ آخرکار اس نے فیصلہ کیا کہ وہ وعدہ نہیں کرے گا اور کہا: "شاید اب مجھے اس کی کبھی ضرورت نہ پڑے"۔

اس کے بعد ایک عرصہ تک وہ اسی حالت میں رہا ، پھر بادشاہ نے دوبارہ خواب دیکھا اور اسے بلایا۔ اس نے اپنے پچھلے دو بار کیے ہوئے دھوکے پر افسوس کیا اور کہا: "میں کیا کروں؟ میرے پاس علم نہیں ہے۔" آخرکار اس نے فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ اس شخص کے پاس جائے گا۔وہ اس کے پاس گیا، خدا کی قسم دے کر منت کی، اور کہا: "اس بار میں وعدہ پورا کروں گا۔ جو کچھ بھی مجھے ملے گا، وہ ہمارے درمیان برابر ہوگا۔" اس نے قسم دی اور یقین دلایا کہ وہ دوبارہ دھوکہ نہیں دے گا۔اس شخص نے کہا: "بادشاہ تم سے خواب کے بارے میں پوچھے گا کہ یہ کون سا زمانہ ہے۔ تم کہنا: یہ ترازو (میزان) کا زمانہ ہے"۔لڑکا بادشاہ کے پاس گیا۔ بادشاہ نے کہا: "میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟" لڑکے نے کہا: "آپ نے خواب دیکھا ہے اور آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کون سا زمانہ ہے۔" بادشاہ نے کہا: "بالکل ٹھیک۔ تو بتاؤ، یہ کون سا زمانہ ہے؟" لڑکے نے جواب دیا: "یہ ترازو (میزان) کا زمانہ ہے۔بادشاہ نے اسے انعام دینے کا حکم دیا۔ وہ انعام لے کر اپنے ساتھی کے پاس گیا اور اسے اس کے سامنے رکھ دیا،عالم نے لڑکے سے کہا:

پہلا زمانہ بھیڑیے کا تھا، اور تم بھیڑیوں میں سے تھے۔ دوسرا زمانہ بھیڑ کا تھا، جو ارادہ کرتا لیکن عمل نہیں کرتا، اور تم بھی ایسے ہی تھے ، ارادہ کرتے لیکن وفا نہ کرتے۔ یہ زمانہ ترازو (میزان) کا تھا، اور اس میں تم وفاداری کے ساتھ ہو۔ اپنا مال لے جاؤ، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔" اور اس نے مال اسے واپس کر دیا۔ (روضة الكافي: ص 362-363)

امام علیہ السلام کا پیغام

امام علیہ السلام اس واقعے کے ذریعے ممکنہ طور پر یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ظہور نہ تو "بھیڑیوں کے زمانے" میں ہوگا، جب لوگ دھوکہ دہی، ظلم اور غداری میں مبتلا ہوں، اور نہ "بھیڑوں کے زمانے" میں، جب لوگ ارادے تو کریں لیکن عمل نہ کریں۔ امام عجل اللہ عتالی فرجہ الشریف  کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگ یہ سمجھ لیں گے کہ ان کے لیے امام کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور وہ اپنی مکمل اطاعت امام کے سپرد کر دیں گے۔

یہ کہانی امام کے پیروکاروں کو تقویٰ اپنانے، قربانی کے لیے خود کو تیار کرنے، اور امام کے مقاصد کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ایک تربیتی منصوبہ ہے جس میں بندے کو اس اعلیٰ ہدف کے لیے تیار رہنا ضروری ہے۔

علامہ مجلسی رح اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تم اس بات کا اندازہ اپنے جاننے والوں اور بھائیوں کے حال سے لگا سکتے ہو۔ جب تم ان میں دیکھو کہ وہ امام کی اطاعت اور فرمانبرداری کےلیے مکمل آمادگی رکھتے ہیں، تو سمجھو کہ یہ امام قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کا زمانہ ہے۔ کیونکہ امام کا قیام اسی بات پر منحصر ہے، اور ہر زمانے کے لوگ عمومی طور پر ایک جیسی حالت میں ہوتے ہیں، جیسا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ (بحار الأنوار، ج 14، ص 500۔)'

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018