19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 2:23 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | امامت |  مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی حقیقت
2024-05-10   334

مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی حقیقت

مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف صرف منصب خلافت پر براجمان ہونے والی شخصیت کے حوالے سے شروع ہونے والا کوئی اختلاف نہیں تھا، بلکہ یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اسلامی حکومت اور حکومتی امور کے حوالے سے موجود بنیادی تصورات میں اختلاف کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ امامت اسلامی نقطہ نظر میں صرف حکومت نہیں ہے ،بلکہ اس کا مطلب دینی و دنیوی تمام امور میں قیادت و رہنمائی ہے۔ اس بات کو علماء علم کلام نے بیان کیا ہے، جیسے تفتازانی نے مقاصد میں اور ایجی نے مواقف میں امامت کی یہ تعریف کی ہے کہ "امامت دین و دنیا کی قیادت کا نام ہے" گویا وہ امام کو تشریع و ہدایت کا ایک مصدر سمجھتے ہیں، صرف سربراہ مملکت نہیں سمجھتے۔ قرآن مجید نے اس معاملے کو مختلف آیات میں اس طرح واضح بیان کیا ہے کہ جس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ قرآن نے ولایت کو خدا ، رسول اور اس مؤمن کے لئے خاص کیا کہ جس نے حالت رکوع میں زکاۃ دی، شیعہ و سنی روایات کے مطابق حالت رکوع میں زکوۃ دینے والی شخصیت صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کوئی نہیں ہے ،

پس تاریخی اعتبار سے وہ مؤمن علی علیہ السلام ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ)،تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز

قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں المائدة: 55

آیت مجیدہ میں جس ولایت کا ذکر ہے وہ ولایت در تشریع ہے، یعنی رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علی علیہ السلام ہی احکام شرعیہ کے لئے مصدر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اس بات کا سمجھنا مزکورہ بالا آیت کی تفسیر کے سمجھنے پر موقوف ہے ،اس سلسلے میں علامہ طباطبائی رح نے اپنی مشہور تفسیر المیزان میں جو فرمایا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے جو ولایت اپنے لئے ثابت فرمائی ہے وہی ولایت اپنے رسول اور حالت رکوع میں زکوۃ دینے والے مومنین کے لئے بھی ثابت فرمائی ہے ، کیونکہ اگر ان کی ولایت میں کوئی فرق ہوتا تو اس کی طرف توجہ دلانے کے لئے آیت مجیدہ میں ولایت کا تکرار ہونا چاہئے تھا ، مثلا یوں کہا جانا چاہئے تھا (إنما وليكم الله ووليكم الرسول والذي آمنوا..) یعنی کلمہ ولیکم کا تکرار فرماتا تاکہ پرھنے والے سمجھ سکیں کہ دو ؐمختلف ولایتیں ہیں،

جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بعض جگہوں پر فرمایا ہے ،مثلا (قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ)، کہدیجئے:وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کے لیے تصدیق کرتا ہے اور تم میں سے جو ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہیں ، التوبة: 61.

اس آیت میں لفظ یؤمن کو دوبار ذکر کیا گیا تاکہ پتہ چلے کہ یہاں یہ دو مختلف معانی میں استعمال ہوئے ہیں ، پس پہلے یؤمن سے مراد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی کی تصدیق مراد ہے ، جبکہ دوسرے یؤمن سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مؤمنین کی تصدیق کا اظہار فرمانا ہے۔

اگرچہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے کذب کو جانتے تھے۔ آپ ان کو فاش کرنے کی بجائے ایسا ظاہر فرماتے تھے جیسے کہ آپ کو ان پر یقین آرہا ہو۔ یہ آپ کے اخلاق کریمانہ کی ایک مثال تھی ۔ یا اللہ تعالی کا یہ فرمان :(قُلْ أَطِيعُوا للَّهَ اوَأَطِيعُوا الرَّسُولَ)،النور: 54

کہدیجئے: اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔

اس آیت میں لفظ اطیعوا کا تکرار کیا گیا تاکہ ان کے درمیان معنی میں اختلاف پر یہ دلالت کرے۔ یہاں پہلے اطیعوا سے مراد رسول گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو احکام الہی نازل ہو رہے ہیں ان میں خدا کی اطاعت مراد ہے جبکہ دوسرے اطیعوا سے مراد احکام شرعیہ کے علاوہ باقی معمالات میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم ہے جیسے رسول خدا کے اوامر ولائی اور آپ کے فیصلے وغیرہ ۔ کیونکہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب لفظ کا تکرار ہو جبکہ اس کے مختلف معانی ہوں تو اصل ہر استعمال کا الگ معنی لیا جانا ہے ،اسی ایک معنی کی تاکید مراد لینا نہیں ہے ،یہ قاعدہ دونوں فریقین کے ہاں علم صول فقہ میں مسلم ہے ۔ اب جب ہم دوبارہ آیت ولایت کی طرف دیکھتے ہیں

تو ہم یہ پاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آیت میں لفظ ولایت کا تکرار نہیں کیا ،یہاں سے ہم وحدت سیاق کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حالت رکوع میں زکوۃ دینے والے مؤمنین کی ولایت ایک ہی معنی میں ہے ۔

 اگر اللہ کی ولایت اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور (و الذین آمنوا) کی ولایت میں فرق ہوتا تو اللہ تعالی کے لئے ضروری تھا کہ اس کو بیان فرماتا ،کیونکہ یہ مقام شک و تردد ہے ، اب جبکہ اللہ نے لفظ ولایت کا تکرار نہیں فرمایا تو ہمارے لئے کہ واضح ہو گیا کہ معنی ایک ہی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب آیت میں اللہ کی ولایت اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت ایک ہی معنی میں ہے تو اس ولایت کا مطلب کیا ہے ؟ قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے سے ہمیں دو طرح کی ولایتوں کی نسبت اللہ کی طرف دی ہوئی نظر آتی ہے

پہلی ولایت تکوینی ہے کہ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کائنات کے ہر شئی میں تصرف کر سکتا ہے ، اور مخلوقات کے جملہ امور کی تدبیر اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔اس مطلب کی طرف بہت سی آیات میں اشارہ ہوا ہے جیسا کہ یہ آیت (أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ سرپرست بنا لیے ہیں؟ پس سرپرست تو صرف اللہ ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔، الشورى: 9.

اسی طرح ارشاد رب العالمین ہے کہ (اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ)  وہ آسمان سے زمین تک امور کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر ایک ایسے دن میں اللہ کی بارگاہ میں اوپر کی طرف جاتا ہے جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔، السجدة: 4.

 جبکہ دوسری ولایت تشریعی ہے ،اس کا مطلب شریعت کے معاملے میں مؤمنین پر حاصل ولایت ہے جس طرح یہ ارشاد گرامی ہے (اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ) اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے، وہ انہیں تاریکی سے روشنی کی طرف نکال لاتا ہے، البقرة: 257. اس قسم کی ولایت کی نسبت رسول خدا ص سے بھی کئی آیات میں دی گئی ہے جیساکہ (النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ .. الآية) نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے، الأحزاب: 6 اور اسی معنی کو بتانے والی یہ آیت (إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا( اے رسول: ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔، النساء: ۔ 150.

 ولایت کا یہی معنی ہی مزکورہ آیت میں بیان ہوا ہے کہ جس میں اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان جو ھالت رکوع میں زکوۃ دے ، شامل ہیں (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ) تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں ، المائدة: 55

 پس دلالت سیاق کے ذریعے ہم نے سمجھا کہ یہ ولایت ایک ہی ہے مگر اس کی نسبت خدا وند معتال کی طرف اصالتا ہے جبکہ رسول خدا اور مؤمنین کی طرف باذن اللہ اور خدا کی طرف سے ہے ۔

آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ امام کی ولایت امت کے لئے مصدر تشریع ہونا اور امت کی رہنمائی ہے ،اس اعتبار سے یہ ایک سیاسی منصب سے بلند و بالا ہے خواہ وہ سیاسی منصب کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ،بلکہ امامت ایک دینی منصب ہے کہ جس کی ذمہ داری امت کو اللہ عز وجل کی مرضی کے مطابق ہدایت کی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے ۔

شیخ مقداد الربیعی: استاد و محقق حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018