
| دین اسلام کیوں ؟ | معتدل اسلام : حقیقت یا نعرہ؟

معتدل اسلام : حقیقت یا نعرہ؟
الشيخ معتصم السيد أحمد
عصرِ حاضر کے ذرائع ابلاغ میں "اسلامی اعتدال" یا "اسلامی میانیہ روی" کی اصطلاح کا بہت چرچا ہے، یہاں تک کہ یہ اصطلاح بعض ریاستوں، اداروں اور جماعتوں کا سیاسی و ثقافتی نعرہ بن گئی ہے، جو اسے انتہا پسندی، تشدد اور جمود کے مسائل کا حل قرار دیتی ہیں۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: کیا اس اصطلاح کی بنیاد اسلامی نصوص میں موجود ہے تاکہ اسے ایک اصل و حقیقی تصور سمجھا جائے؟ اور کیا اس کی واضح حدود متعین کرکے اس پر ہم عملی طور پر کاربند ہو سکتے ہیں، یا یہ صرف ایک مبہم سا نعرہ ہے جسے اس لئے بلند کیا جاتا ہے کہ اسے حالات اور خواہشات کے مطابق ڈھالنا آسان ہے؟
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ "اعتدال" قرآنِ کریم کی تعلیمات میں کوئی اجنبی تصور نہیں، بلکہ یہ براہِ راست قرآن مجید کے نص میں وارد ہوا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾
اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنا دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔[البقرة: 143]
لہذا قرآنی تناظر میں "وسطیت" محض جدید سیاسی معنوں میں اعتدال کا نام نہیں، بلکہ اس سے مراد ایک ایسی امت ہے جو اپنے عقیدے، شریعت اور اخلاق میں توازن رکھتی ہو۔ وہ نہ تو بعض اقوام کی طرح غلو میں مبتلا ہے اور نہ ہی دوسری اقوام کی طرح حد سے زیادہ ڈھیل اور بے راہ روی کا شکار؛ بلکہ وہ امت عدل، اعتدال اور وحی کی پیروی پر قائم ہے۔
بلکہ قرآنی مفہوم اس امت کے دیگراوصاف میں بھی جھلکتا ہے جیسے: "امتِ عدل"، "گواہی دینےوالی امت"، اور "امتِ خیر"۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ تصور دین میں اپنی اصل کے ساتھ موجود ہے، جبکہ اس کی وسعت اور گہرائی موجودہ دور کے استعمال سے کہیں زیادہ جامع اور وسیع ہے۔
مگر یہ بھی درست ہے کہ اسلامی علمی ورثے میں ہمیں " معتدل اسلامِ " کے نام سے نہ کوئی مستقل اصطلاح ملتی ہے اور نہ کوئی مخصوص مکتب ۔ لیکن اسلامی علمی و تاریخی ورثے میں عدل، قسط ، صراطِ مستقیم، روح و جسم کے درمیان توازن، دنیا و آخرت کے تقابل، حقوق و فرائض کے درمیان اعتدال وغیرہ کی بات کی گئی ہے۔ لیکن "معتدل اسلام" کے نام سے کوئی سیاسی اصطلاح ان نصوص میں موجود نہیں ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اصطلاح اپنی لفظی صورت میں نئی ہے، تاہم دراصل یہ پرانے قرآنی معانی کو نئے سیاق و سباق کی زبان میں ڈھالنے کی ایک کوشش ہے۔
عصرِ حاضر میں "معتدل اسلام" کی اصطلاح مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ بعض مفکرین کے نزدیک یہ اس اسلام کو ظاہر کرتی ہے جو انتہا پسندی اور تشدد کو رد کرتا ہے، نصوص اور واقعیت کے درمیان توازن قائم کرتا ہے، اور اصالت و معاصرت کو جمع کرتا ہے۔ جبکہ بعض سیاسی نظاموں نے اسے اس لیے نعرہ بنایا تاکہ وہ ان اسلامی تحریکوں کا مقابلہ کرسکیں جنہیں وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے؛ اس طرح انہوں نے "اعتدال" کا پرچم بلند کیا تاکہ "انتہا پسندی" کا توڑ کیا جا سکے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں یہ اصطلاح زیادہ تر اس اسلام کے لیے استعمال ہوتی ہے جو مغربی لبرل اقدار کو قبول کرے یا موجودہ عالمی نظام میں ضم ہو جائے۔ ان متنوع استعمالات سے جو مشکل پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اصطلاح ایک ایسی خالی تختی بن گئی ہے جسے مختلف گروہ اپنے اپنے معانی سے بھر لیتے ہیں۔
یہیں سے سوال اٹھتا ہے: کیا ہم " معتدل اسلامِ " کی واضح حدود متعین کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کس چیز کو اپنی اصل بنیاد (مرجع) بناتے ہیں۔ اگر بنیاد قرآن و سنت کو بنایا جائے، تو اعتدال کا مطلب بغیر غلو و تفریط کے وحی پر قائم رہنے کا نام ہے۔ اس کا مطلب ہے زندگی کے معاملات کو توازن پر قائم رکھنا۔
اسلام میں کوئی ایسی رُہبانیت نہیں جو جسمانی ضروریات کو مٹا دے، اور نہ ہی کوئی ایسی مادیت ہے جو روح کا انکار کر دے۔ نہ ایسی سختی ہے جو رحمت کو ختم کر دے، اور نہ ایسا ڈھیلا پن ہے جو حق کو ضائع کر دے۔ اعتدال یہ ہے کہ آپ اس صراطِ مستقیم پر چلیں جسے اللہ نے مقرر کیا ہے، جو تمام انحرافی راستوں کے درمیان ایک معتدل راستہ ہے۔
لیکن اگر بنیاد سیاسی یا ثقافتی خواہشات کو بنایا جائے، تو اعتدال ہمیشہ ایک مبہم سا تصور رہے گی جو سیاست اور مفادات کے لیے استعمال ہوتی رہے گی، اور کبھی کبھی یہ "اعتدال" کمزوری یا تفریط کو جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
یہاں ایک نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ اعتدال کا مطلب اصولوں پر سودے بازی نہیں، بلکہ عدل و انصاف پر قائم رہنا ہے۔ حقیقی معنوں میں معتدل اسلام وہ ہے جو ظلم و استبداد کے خلاف واضح مؤقف اختیار کرے، لیکن اس کے ساتھ اندھی طاقت اور انتقامی تشدد کو بھی رد کر دے۔ یہی اسلام ہے جو دوسروں کے ساتھ مکالمے کے دروازے کھولتا ہے، مگر اپنے اصولوں سے دستبردار ہوئے بغیر۔ اس لیے اعتدال کو محض انتہا پسندی کے انکار تک محدود نہیں کیا جا سکتا؛ بلکہ یہ ایک مثبت اور جامع طرزِ حیات ہے جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔
اگر ہم اسلامی تاریخ کے تجربات پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ اعتدال ہمیشہ مطلوب رہا ہے، لیکن اس پر عمل آسان نہیں تھا۔ کبھی مسلمان غلو میں پڑ گئے جب کچھ مکاتب فکر نے سخت گیر رویہ اختیار کرلیا، اور کبھی تفریط میں جا گرے جب اندھی تقلید یا بگاڑ کی موجوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ قرآن بار بار یاد دہانی کراتا رہا کہ اعتدال کا معیار خواہشات نہیں بلکہ حق ہے:
﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا﴾
جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ (اللہ کی طرف) پلٹ آئے ہیں ثابت قدم رہیں اور (حد سے) تجاوز بھی نہ کریں ۔[هود:112]
ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو اعتدال کوئی ایسا نسبتی یا ذوقی تصور نہیں جسے ہر شخص اپنی پسند کے مطابق متعین کر لے۔ اسلام میں اعتدال کو نصوص نے واضح کر دیا ہے: معاملات میں عدل، عبادت میں توازن، اور سلوک میں میانہ روی ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اعتدال کا مطلب کچھ واجبات چھوڑ دینا یا چند محرمات کو نظرانداز کر دینا ہے، تو یہ اعتدال نہیں بلکہ تفریط ہے۔ اور جو شخص نصوص کی اپنی طرف سےئ تاویل کرے اور غلو میں جا پڑے، وہ بھی معتدل نہیں ہے ۔ اسی لیے اعتدال کی صحیح حدود سمجھنے کے لیے وحی کی طرف رجوع ضروری ہے، اور اہلِ بیت (علیہم السلام) کے طرزِ عمل کی پیروی لازمی ہے، کیونکہ انہوں نے اعتدال کے حقیقی مفہوم کو اپنی سیرت میں مجسم کر کے دکھایا۔
جب میڈیا "معتدل اسلام" کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اکثر اس کی حدود واضح نہیں کرتا بلکہ اسے مبہم چھوڑ دیتا ہے، تاکہ اسے کسی بھی سیاق میں برتا جا سکے، اور یہی چیز اس کی علمی حیثیت کو کمزور کرتی ہے۔ جبکہ صحیح اسلامی فکرمیں اعتدال قرآنی حقیقت، نبوی طرزِ عمل اور اخلاقی قدر کے طور پر موجود ہے۔ یہ کوئی وقتی سیاسی اصطلاح نہیں بلکہ خود اسلام کے پیغام کا جوہر ہے، جو ایک متوازن انسان تشکیل دیتا ہے جس میں کوئی پہلو دوسرے پر غالب نہیں آتا۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ جدید میڈیا میں جس "اسلامی اعتدال" کا چرچا ہے وہ تراثی اصطلاح نہیں، لیکن کسی حد تک اس قرآنی حقیقت کی طرف اشارہ ضرور کرتا ہے جسے قرآن نے "اُمّت وسط" کہا ہے۔ البتہ اس حقیقت کو سمجھنے کا واحد طریقہ وحی کے ذریعے وارد ہونے والے نصوص ہیں، نہ کہ وقتی سیاسی یا ابلاغی مفادات۔ اعتدال محض انتہا پسندی کے رد کا نعرہ نہیں، بلکہ دین کے فہم اور اس پر عمل کا ایک جامع نظام ہے، جو انسانی وجود کے تمام پہلوؤں میں توازن قائم کرتا ہے۔ لہٰذا اعتدال کو عملی بنانے کی کوئی بھی کوشش کا آغاز قرآن، معصومین علیہم السلام کی سنت، اوران کے عملی تجربات سے ہونا چاہیے، جنہوں نے اعتدال کو اپنی بلند ترین صورت میں زندہ کر کے دکھایا۔ اگر یہ اصطلاح حدود کے بغیر چھوڑ دی گئی تو یہ کبھی افراط کو اور کبھی تفریط کو جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بن جائے گی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اعتدال وہی صراطِ مستقیم ہے جو نہ دائیں جھکتا ہے اور نہ بائیں ۔


