19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 8:54 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | عدمِ تحریف قرآن |  قرآن مجید کا عربی میں نزول اوراس میں موجود غیرعربی الفاظ کی دلالت
2020-05-30   1599

قرآن مجید کا عربی میں نزول اوراس میں موجود غیرعربی الفاظ کی دلالت

لفظ "کیوں" کے ذریعہ سے پوچھے جانے والے سوالات کسی چیز کی علت کی تلاش میں کی جاتی ہے اور جب سائل کو ان سوالوں کا اطمناں بخش اور واضح جواب ملتا ہے تو یہ اس کے اعتماد اور یقین میں اضافہ کا موجب بنتا ہے کہ جس سے ہر قسم کی شک و شبہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے سوالات ان چیزوں کےبارے میں بھی واقع ہوتا ہے جن کی بنیاد پر ہمارا عقیدہ استوار ہے اسی طرح قرآن کریم جس پر ہمارا ایمان ہے اس پر اس طرح کے تساولات  ہوے ہیں ۔

اسی طرح یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ قرآن مجید عربی زبان میں ہی کیوں نازل کیا گیا؟ اور کیا اس میں کوئی غیر عربی الفاظ ہیں؟اس سوال کو ایسے ہی نہیں چھوڑ سکتے اور یہ سوال ہر دور میں پیدا ہوتا رہا ہےجس کی چند وجوہات ہیں جن کو تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر علمی اور منطقی بحث کی ضرورت بھی ہے۔

جب کبھی ایسے سوالات کے ذریعے قرآن مجید پر اعتراض کیا جائے اور قرآن کو وحی الہی کے بجائے انسانی کلام بنا دیا جائے کہ یہ نبی اکرمﷺ نے ان دوسرے ادیان اور ثقافتوں سے جمع کیا ہے جو اس وقت جزیرہ عرب میں موجود تھیں اور اس پر دلیل یہ دی جائے کہ قرآن میں بعض غیر عربی الفاظ موجود ہیں اور یہ سوال اٹھایا جائے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے اپنے خیالات کا مجموعہ ہے لہذا اس کا وحی آسمانی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یعنی یہ ان کے اپنے خیالات ہیں جن کا وحی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسی طرح افتراء اور تہمتیں بڑھتی گئیں جن کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو اسلام ، نبی اکرمﷺ اور آسمانی کتاب سے دور کیا جائے۔

ہم نے قرآن مجید پر کیے جانے والے انہی شکوک و شبہات کو رد کرنے کے لیے اس موضوع کو اختیار کیا ہے اور اس کے ذریعے منطقی طور پر ان اعتراضات کو دلیل قطعی کے ذریعے غلط ثابت کیا جائے گا۔ پس ہم مضبوط دلیلوں کے ذریعے بتائیں گے کہ اللہ تعالی نے عربی زبان کو اپنا آخری دین اور کتاب پہنچانے کے لیے کیوں  اخیتار کیا؟ اور آخر میں اس کی بھی وضاحت آئے گی کہ قرآن میں غیر عربی الفاظ کیسے داخل ہوئے اور ان کی علت کیا تھی؟

اللہ تعالی نے قرآن پاک کو عربی میں نازل کیوں کیا؟

فطری طور پر لوگوں کی زبانیں مختلف ہیں اور زبانوں کا مختلف ہونا ان کی خلقت کا لازمہ ہونے کے ساتھ ساتھ خالق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بھی ہے۔چناچہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (وَمِنْ آَيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ) (الروم - 22)

اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

ہمارا روز مرہ کا تجربہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالی نے زبانوں کے اختلاف کو اپنی قدرت کی دلیل قرار دیا ہے اور زبانوں کا یہ اختلاف اصل میں فطری ہے۔فطرت خلقت کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالی نے مختلف قبائل اور قوموں کو مختلف بنایا کیونکہ وہ مختلف ماحول میں زندگی گزار نے کے ساتھ ساتھ اس ماحول سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور اسی اعتبار سے زبانیں بھی مختلف ہو جاتی ہیں۔پس اسی لیے ہر قبیلے اور قوم کی ایک خاص زبان ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری ہوتا ہے: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ) (الحجرات -13)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ جو نبی اس قوم یا قبیلے کی طرف مبعوث کیا جائے وہ  ان کی زبان بولتا ہوتاکہ ایک دوسرے کے لیے افہام و تفہیم آسان ہو۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ) (إبراهيم-4)

ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

رسول اکرم حضرت محمدﷺ جو عرب میں پیدا ہوئے یہیں پلے بڑھے اور یہ لازمی سی بات ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے  جس قوم میں نبی کو مبعوث کیا جا رہا ہے وہ اس قوم کی زبان کو جانتا اور سمجھتا ہو ۔یہی وجہ ہے کہ عرب میں اللہ نے ان کی زبان میں عربی جاننے اور بولنے والا رسولﷺ بھیجا۔قرآن کریم وہ کتاب ہدایت ہے جو نبی اکرم ﷺ لے کر مبعوث ہوئے اور وہ بھی عربی زبان میں ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ) (الشعراء ـ 192 ـ 195)

۱۹۲۔ اور بتحقیق یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہو اہے۔ ۱۹۳۔ جسے روح الامین نے اتارا۔ ۱۹۴۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ۔ ۱۹۵۔ صاف عربی زبان میں۔

فرض کرتے ہیں کہ اگر یہ قرآن عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو عربوں کے لیے ان الفاظ کے معانی اور اس کے مقاصد کو سمجھتا انتہائی دشوار ہوتا اور یہ نص قرآن کے خلاف ہوتا کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ) (إبراهيم ـ4)

ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

اسی طرح اگر کتاب کو جس قوم میں اتارا گیا اس کی زبان اور رسول کی زبان (جس قوم میں وہ بھیجاگیا اس سے) مختلف ہو تو بہت سے لوگ ہدایت سے محروم رہ جائیں گے کیونکہ وہ زبان کی جہالت کی وجہ سے ہدیات کو جان نہیں سکیں گے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ) (فصلت -3)

ایسی کتاب جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں، ایک عربی(زبان کا) قرآن علم رکھنے والوں کے لیے۔

اگر کتاب ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی تو لوگ شکوک کے دائرے میں پھنسے رہیں گے بالخصوص اس صورت میں جب یہ دعوی کیا جا رہا ہو کہ کتاب آسمانی وحی ہے اور ولوگوں کو ہدایت دیتی ہے اورکفر سے دور کرتی ہے۔لوگ بحث ومباحثہ ہی کرتے رہ جائیں گے اور تضادات کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ ان کی زبان وحی کی زبان سے مختلف ہو گی ۔قرآن مجید نے بڑی خوبصورتی سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور ایسے سوالوں کے جوابات دیے ہیں ارشاد باری ہوتا ہے: (وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَـئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ) (فصلت -44)

اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں قرار دیتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات کو کھول کر بیان کیوں نہیں کیا گیا؟ (کتاب) عجمی اور (نبی) عربی؟ کہدیجئے: یہ کتاب ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بھاری پن (بہرا پن) ہے اور وہ ان کے لیے اندھا پن ہے، وہ ایسے ہیں جیسے انہیں دور سے پکارا جاتا ہو۔

عربی زبان کے امتیازات:

عربی زبان جو کہ قرآن کی زبان ہے اس لحاظ سے دوسری زبانوں سے ممتاز ہے کہ اس کے مفردات بہت زیادہ ہیں اور اس کے مترادفات کثرت میں ہیں۔ہر لفظ قرآن کے معانی کو بیان کرنے اور اس کے مقاصد کو کئی جہات سے ادا کرنے اور پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ اولین معنی کو قاری تک پہنچا دیتا ہے۔ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ہم قرآن مجید کے عربی زبان میں نازل کرنے کی علت کو سمجھیں اس لیے کتاب محکم میں ارشاد ہوا: (إنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ) (يوسف -2)

ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو۔

صرف شیر کے لیے دس سے زیادہ الفاظ ہیں جیسے سبع ،لیث،اسد،غضنفر،قسورۃ،جساس،بيهس وغیرہ

اسی طرح عربی زبان میں یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ایک کلمے سے کئی کلمے نکلتے ہیں۔یہ اس کی اہم خصوصیت ہے اسی لیے بہت سی زبانوں سے جدا ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں کثرت الفاظ کی وجہ سے تعبیر معنی کے لیے کثیر الفاظ مل جاتے ہیں۔اسی وجہ سے اللہ تعالی نے عربی زبان کو آخری کتاب کے لیے چنا، مثال کے طور پر عربی کا ایک لفظ "قاری" ہے اس سے قرا،یقرا،اقرا،قراء، یقروون اور قرآن جیسے کلمات نکلتے ہیں۔

ایک اور لحاظ سے عربی زبان ممتاز ہوتی ہے وہ اس کی اعلی بلاغت ہے عربی زبان اس بات پر قادر ہے کہ کم ترین الفاظ کے ساتھ بہت زیادہ معنی دے جس سے باقی زبانیں بے بس ہوں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (وقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ) (هود-44)

اور کہا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! تھم جا اور پانی خشک کر دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی (کوہ) جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا ظالموں پر نفرین ہو۔

یہاں پر یہ جملہ يأرض إبلعي ماءك، ويا سماء أقلعي حکم خدا کی طرف اشارہ ہے جو جو حضرت نوح ؑ کے زمانے میں طوفان کے اختتام کی طرف ہے۔یہ قرآن کی بہترین بلاغت ہے۔اس طرح اور بھی بہت سی دلیلیں ہیں جو عربی کو قرآنی زبان ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

قرآن مجید میں عجمی الفاظ کیوں ہیں؟

اللہ تعالی نے ارادہ کیا ہے اور یہ تخلیق کے تقاضوں میں سے ہے کہ قبائل اور اقوام کے درمیان رنگ،نسل اور زبان کا اختلاف ہو گا یہ اختلاف ان کے درمیان تعارف کا ذریعہ ہے ۔اس اختلاف کا مقصد تکامل ہےاس سے اور کوئی مقصد نہیں ہے۔اسی اختلاف کا نتیجہ ہے کہ جب بعض چیزیں معلوم نہیں ہوتی تو انہیں سیکھنے سے تکامل کا سفر جاری رہتا ہے۔عرب اقوام بھی دوسری اقوام کے ساتھ رابطے میں تھیں اس سنت الہی کے مطابق ہی عمل کر رہی تھیں۔ عرب تجارت کرتے تھے تجارت کے لیے مختلف اقوام اور تہذیبوں کے لوگوں سے رابطہ رہتا تھا اس میل جول کے نتیجے میں بعض عجمی الفاظ بھی عربی زبان کاحصہ بن گئے جیسے فارسی، رومی، حبشہ اور ترکی زبان کے الفاظ عربی زبان میں شامل ہوئے۔مثلا عربی کے الفاظ المشکاۃ،نشا،یوتکم کفلین اور قسورہ اصل میں بالترتیباکوۃ،قام الیل،ضعفین اور اسد کے مقابل ہیں جو حبشہ کی زبان سے آئے ہیں۔الغساق البارد ترکی زبان کا ہے،القسطاط المیزان رومی زبان کا ہے،والطورالجبل،الیم البحر سریانی زبان کے ہیں،سجیل فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی وہ پتھر جو مٹی سے ہو کے ہیں اسی طرح استبرق فارسی کا ہے اور اس کا دیباج ہے۔

یہ تمام الفاظ دوسری اقوام اور تہذیبوں سے حاصل کیے گئے ہیں بالخصوص ان اقوام اور تہذیبوں سے جو جزیرۃ العرب کے آس پاس رہتی تھیں۔اب جب عربی میں داخل ہو گئے تو یہ بھی عربی ہو گئے۔زبانوں کے الفاظ میں باہمی تداخل اور تشابہ پایا جاتا ہےاس میں کوئی شک نہیں ہے اور عربی زبان بھی اسی طرح ہے۔عربی ،سریانی اور عبرانی ایک ہی قبیل کی زبانی ہیں جو سامی قبیل ہے۔اسی لیے یہ زبانیں الفاظ،قواعد اور اشتقاقات میں ایک سی ہیں۔ زبانوں میں یہ معمول کی بات ہے ہم ترکی،فارسی اور کردی زبان کا باہمی قریب زبانیں پاتے ہیں ان کے بہت سے الفاظ ایک سے ہیں۔اسی طرح فرانسی اور اسبانی زبان کی اصل لاطینی ہے اور انگریزی اور جرمن کی اصل جرمانی ہے۔

قرآن پر اعتراضات:

بعض لوگوں نے قرآن مجید میں عجمی الفاظ کے موجود ہونے پر اعتراض کیا ہے اور قرآن میں عجمی الفاظ کی موجودگی کو ایک خامی کے طور پر پیش کرتے ہیں ان کے جواب میں کہا جائے گا۔

۱۔زبانوں کے درمیان تعامل رہا ہے ہر زبان اس سے متاثر ہوئی ہے اور یہ ہر دور میں ہوتا آیا ہے اسلام سے پہلے بھی ایسے ہی تھا یہ انسانی معاشرے کا ایسا طریقہ ہے جو تبدیل نہیں ہوتا۔زبانوں کے باہمی تعامل کے نتیجے میں الفاظ کا تبادلہ لازمی امر ہے جیسے عبرانی زبان میں عربی کے الفاظ ہیں اور اس کے برعکس بھی ہے۔اسی طرح سریانی،فارسی،ترکی اور رومی میں ہوتا ہے۔اس پر بہت سے تاریخی شواہد بھی موجود ہیں عربوں کے تجارتی قافلے فارس،حبشہ،یمن اور شام جاتے تھے مکہ ایک اہم تجارتی مرکز تھا اور اس میں عکاظ کا بازار تھا جو ان ممالک سے آنے والوں کے لیے ایک تجارتی مرکز تھا اس لیے عرب کبھی بھی عجمی الفاظ کے قرآن مجید میں آنے کا انکار نہیں کرتے دراصل یہ عجمی الفاظ بھی عربوں کی زبان کا حصہ بن گئے تھے جو وہ سمجھتے تھے اور جن کو وہ بولتے تھے۔

۲۔قرآن مجید میں کچھ عجمی نام اور اصطلاحات بھی موجود ہیں جیسے جبرائیل،اسرافیل، عمران،نوح اور لوط۔ یہ سب اتنے کم ہیں کہ قرآن کے عربی ہونےکو عجمیت کی طرف نہیں لے جا سکتے قرآن عربی ہے اور اللہ تعالی خود اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اسے عربوں کی زبان میں نازل کیا گیا۔ارشاد باری تعالی ہے: (وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ) (الشورى-7)

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن بھیجا ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے گرد و پیش میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور اجتماع (قیامت) کے دن بارے میں بھی(تنبیہ کریں) جس میں کوئی شبہ نہیں ہے، (اس روز) ایک گروہ کو جنت جانا ہے اور دوسرے گروہ کو جہنم جانا ہے ۔

۳۔یہ کہنا کہ نبی اکرمﷺ ان تمام زبانوں کو جانتے تھے  اور انہوں نے خود سے قرآن کو بنا لیا درست نہیں  اور خدا نے قرآن کے کسی بشر کی طرف سے ہونے  کی نفی کی ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَـذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ) (النحل-103)

اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ لوگ (آپ کے بارے میں) کہتے ہیں: اس شخص کو ایک انسان سکھاتا ہے، حالانکہ جس شخص کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن) تو واضح عربی زبان ہے۔

۴۔سامی زبانوں کی تاریخ پر غور کیا جائے تو انسان کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ کس لفظ کو کس زبان سے لیا گیا ہے؟ یہ واضح نہیں ہوتا اس لیے  یہ بات مورد شک ہی رہے گی کہ یہ لفظ کسی دوسری زبان سے آیا۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ) (الزمر-27)

اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں دی ہیں شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

۵۔آخر میں یہ بات کہ شک میں پڑنے والوں نے اگر یہ فرض کیا ہے کہ قرآن عربوں کی کوئی قومی کتاب کیونکہ یہ عربی ہے تو یہ فرض بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن ایک عالمگیر کتاب ہے ۔جب اللہ تعالی نے اسے نازل کیا تو کسی زبان میں تو اسے لکھا جانا تھا ؟ جس بھی زبان میں لکھا جاتا اس پر یہ اعتراض ممکن تھا ۔یہ ممکن نہیں کہ قرآن ایسی زبان میں نازل ہوتا جو ہر کسی کو سمجھ میں آتی کیونکہ ایسی زبان ابھی تک محال ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018