
| قرآنی قصے | جب حق ظاہر ہو جائے تو عذر باقی نہیں رہتا: قومِ صالح سے حاصل ہونے والا سبق

جب حق ظاہر ہو جائے تو عذر باقی نہیں رہتا: قومِ صالح سے حاصل ہونے والا سبق
الشيخ مصطفى الهجري
تاریخ بشریت میں ایک خطرناک رویّہ بار بار نظر آتا ہے، ایک ایسا رویہ کہ جو کچھ قوموں کی ہلاکت کا سبب بنا، اور وہ ہے حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی اس کی مخالفت اور ہٹ دھرمی۔ جبکہ ایک اور رویہ کچھ دیگر اقوام کی نجات کا موجب بھی بنا ( یعنی کھلے دل سے حق کو تسلیم کرنا) دلوں کے لیے اس سے زیادہ تباہ کن اور معاشروں کے لیے اس سے بڑھ کر برباد کرنے والی کوئی چیز نہیں کہ انسان حق کو پہچان لے مگر اس کے باوجود تکبّر یا عناد کی وجہ سے اس سے منہ موڑ لے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ). تو جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس بات سے ڈریں کہ کہیں ان پر کوئی آزمائش نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے (سورۃ النور 24: 63)
قرآن مجید میں اس روش کی سنگینی پر سب سے واضح مثال قومِ ثمود اور حضرت صالحؑ کی داستان ہے۔ ان کا واقعہ اس حقیقت کی زندہ مثال ہے کہ واضح دلیل اور حجت کے ظاہر ہونے کے بعد ضد اور انکار ہی عذاب اور تباہی کا سب سے بڑا دروازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا۔ آپؑ انہیں حکمت، دلیل اور واضح نشانیوں کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتے رہے، لیکن انہوں نے ہٹ دھرمی اختیار کی اور ایمان لانے سے انکار کیا۔ بلکہ وہ اس قدر ضد پر اتر آئے کہ آپ سے ایک اپنی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے عجیب و غریب معجزہ طلب کرنے لگے ۔ اسی موقع پر احادیث ہمیں ان کے عناد کی گہرائی بیان کرتی ہیں۔ ان میں سب سے مفصل روایت الکافی میں ابو بصیر سے منقول ہے، جس میں آیا ہے:
(فبعث الله إليهم صالحاً فلم يجيبوه وعتوا عليه، وقالوا: لن نؤمن لك حتى تخرج إلينا من هذه الصخرة ناقة عشراء… فأخرجها الله كما طلبوا… ثم إنهم عتوا على الله ومشى بعضهم إلى بعض فقالوا: اعقروا هذه الناقة… ثم قالوا: من الذي يلي قتلها ونجعل له جعلاً؟ فجاءهم رجل… فقتلها… وأقبل فصيلها حتى صعد إلى الجبل فرغا ثلاث مرات إلى السماء، وأقبل قوم صالح فلم يبق منهم أحد إلا شركه في ضربته واقتسموا لحمها… فأتاهم صالح فقال: إن تبتم ورجعتم واستغفرتم غفرت لكم… فقالوا: يا صالح ائتنا بما تعدنا…فقال: تصبحون غداً ووجوهكم مصفرة، واليوم الثاني محمرة، واليوم الثالث مسودة… فلما كان اليوم الثالث أصبحوا ووجوههم مسودة…)
اللہ نے ان کی طرف حضرت صالحؑ کو بھیجا، لیکن انہوں نے ان کی بات نہ مانی اور ان کے مقابلے میں تکبّر کیا۔ اور کہنے لگے کہ "ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ اس چٹان سے ہمارے لیے دس مہینے کی حاملہ اونٹنی نہ نکال دیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے وہ اونٹنی اسی طرح ظاہر کر دی جیسا انہوں نے مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی، اور کچھ لوگ ایک دوسرے کو اکسانے لگے اور کہنے لگے کہ اس اونٹنی کو قتل کر دو! پھر کہنے لگے کہ کون ہے جو اسے قتل کرے؟ ہم اسے بدلے میں انعام دیں گے۔ تو ایک شخص آگے آیا… اور اس نے اسے قتل کر دیا۔ اس کا بچہ (فصیل) دوڑتا ہوا ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر تین مرتبہ زور سے چیخا۔ پھر قومِ صالح اکٹھی ہوئی اور ان میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جس نے اس جرم میں حصہ نہ لیا ہو، اور انہوں نے اس اونٹنی کے گوشت کو آپس میں تقسیم کر لیا۔
تھوڑی دیر بعد صالحؑ ان کے پاس آئے اور فرمایا: "اگر تم توبہ کر لو، اور اللہ سے استغفار کرو تو وہ تمہیں معاف کر دے گا۔ لیکن انہوں نے جواب میں کہا: "اے صالح! وہ عذاب لے آؤ جس کا تو ہمیں وعدہ دیتا ہے!" تو صالحؑ نے فرمایا: کل تمہارے چہرے زرد ہوں گے، دوسرے دن سرخ ہو جائیں گے، اور تیسرے دن سیاہ پڑ جائیں گے… پھر جب تیسرا دن آیا تو وہ سب صبح اٹھے اور ان کے چہرے سیاہ ہو چکے تھے۔ یہ روایت واضح کرتی ہے کہ قومِ ثمود کا جرم صرف ایک اونٹنی کو قتل کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ دراصل خود اس نشانی کے خلاف بغاوت تھی جو اللہ تعالی نے ان کے سامنے دلیل کے طور پر ظاہر کی تھی۔ وہ حجّت جو انہیں ایمان اور تسلیم کی طرف بلاتی تھی، اسی کے خلاف انہوں نے سرکشی کی۔ چنانچہ یہاں ان کا گناہ حق کے مقابلے میں کھڑی کھلی بغاوت تھا۔
کبھی یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ قومِ صالح اس قدر شدید عذاب کی مستحق کیوں ٹھری؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا جرم عام گناہ نہیں تھا، بلکہ انہوں نے حق ظاہر ہو جانے کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اونٹنی پتھر سے معجزے کے طور پر برآمد ہوئی، پھر وہ اس کے ساتھ وقت گزارتے رہے، اور اس ذاتِ الٰہی کی قدرت کو اپنی آنکھوں سے محسوس کرتے رہے، مگر اس کے باوجود وہ متحد ہو کر اس کے قتل پر آمادہ ہوئے، اور پھر گستاخی کے لہجے میں کہنے لگے(ائتنا بما تعدنا) وہ عذاب لے آؤ جس کا تم وعدہ کرتے ہو.
یوں ان کی ضد ایک اجتماعی بغاوت میں تبدیل ہوگئی ، کفر پر اصرار، توبہ سے انکار، اور اللہ کے نبی کی کھلم کھلا تکذیب۔ جب کوئی قوم اس درجہ کے رویّے تک پہنچ جائے تو پھر اللہ کی سنت جاری ہوتی ہے، اور رب کی طرف سے پردہ اٹھ جاتا ہے، اور عذاب اتر آتا ہے۔ لہذا قومِ ثمود کا قصہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ بار بار یاد دلایا جانے والا الٰہی انتباہ ہے۔ جیسا کہ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:
(كلّ ما كان في الأمم السالفة فإنّه يكون في هذه الأمة مثله، حذو النعل بالنعل والقذّة بالقذّة)
پہلی امتوں میں جو کچھ ہوا ہے، وہی اس امت میں بھی ویسا ہی ہوگا، بالکل قدم بہ قدم، اور بالکل اسی طرح جیسے جوتا جوتے کے سانچے کے مطابق ہوتا ہے، اور جیسے ایک تیر کی کمان میں رکھا ہوا پر دوسرے پر کے برابر ہوتا ہے۔اور ایک دوسری روایت میں فرمایا جب آیتِ کریمہ نازل ہوئی (لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ) یقیناً تم ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ضرور منتقل ہو گے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: (لتركبنّ سنّة من كان قبلكم… حتى لو دخل من قبلكم جحر ضبّ لدخلتموه) تم لازماً اُن ہی لوگوں کی روش اختیار کرو گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں… یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی اسی میں داخل ہو جاؤ گے۔" یعنی راستہ وہی ہے: اگر حجّت ظاہر ہو جائے، اور لوگ ضد اور انکار پر قائم رہیں، تو پھر آزمائشیں اور عذاب نازل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِه) تو جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں (النور 63)
حق کے ساتھ ضد کی سب سے خطرناک شکل یہ ہے کہ یہ انسان کے دل کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ غلطی کرنے والا شخص توبہ اور ندامت کے ذریعے واپس لوٹ سکتا ہے، مگر معاند شخص توبہ کا دروازہ ہی اپنے اوپر بند کر لیتا ہے، کیونکہ اس کا تکبّر اسے خطا تسلیم کرنے نہیں دیتا، حتیٰ کہ وہ جانتے ہوئے باطل پر قائم رہتا ہے۔ اور آج کے دور میں ایسے لوگوں کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ وہ لوگ جن کے سامنے دلیل واضح ہو جائے، اہلِ علم حجّت بیان کریں، مگر وہ مسلسل بحث کریں، ضد کریں، اور اصرار کریں ۔
حق کی تلاش کے لیے نہیں، بلکہ اپنی رائے بچانے، ذمہ داری سے بھاگنے، یا خواہشات کی پیروی کے لیے۔یہی وہ لوگ ہیں جن کا رویّہ اُن لوگوں کے مشابہ ہے جنہوں نے حضرت صالحؑ سے کہا تھا: (لو أهلكنا جميعاً ما سمعنا قول صالح) (یعنی: اگر ہم سب تباہ ہو جائیں تب بھی صالح کی بات نہیں مانیں گے۔) ایسے رویّے کے لیے خدا کی سنت ایک جیسی ہے اور کسی کے لیے نہیں بدلتی۔ پس قومِ ثمود کا قصہ دراصل ایک اونٹنی کی کہانی نہیں تھا بلکہ ضد اور سرکشی کی کہانی تھی ، اور وہ بغاوت اپنے کرنے والوں کو لے ڈوبی۔ یہ ہر انسان کے لیے ایک سوال ہے کہ جب حق ظاہر ہو تو کیا وہ اس کا اتباع کرتا ہے یا اس سے منہ موڑ لیتا ہے؟ کیا اسے دلیل چلاتی ہے یا خواہشات؟ سلامتی کا راستہ ہمیشہ ایک ہے کہ حق کو مان لینا جب وہ واضح ہو جائے۔ اور ہلاکت کا راستہ بھی ہمیشہ ایک رہا ہے کہ حق کے مقابلے میں تکبّر اور ضد۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ) (النور: 63 ) قومِ ثمود ہمیشہ اس بات کی گواہی رہے گی کہ حق کے مقابلے میں ضد ہلاکت کا سب سے بڑا دروازہ ہے، اور حق کے آگے جھک جانا نجات کا پہلا قدم۔


