

| قرآنی قصے | کیا حضرت حوّا کو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا؟

کیا حضرت حوّا کو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا؟
السيد علي العزام الحسيني
یہ قضیہ (یعنی حوّا کا حضرت آدمؑ کی پسلی سے پیدا ہونا ) مسلمانوں کی احادیث میں بیان ہوا ہے، اور اہلِ سنت و اہلِ تشیع دونوں کے حدیثی ذخیرے میں اس کا ذکر ملتا ہے۔البتہ اس میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے کہ اہلِ سنت کے نزدیک یہ روایت اور اس کا مفہوم تقریباً متفقہ طور پر قابلِ قبول ہے، جبکہ مکتبِ اہلِ بیتؑ میں صورتِ حال مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موضوع پر اہلِ بیتؑ سے منقول احادیث میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگرچہ ان روایات کی تعداد کافی زیادہ ہے، لیکن مجموعی طور پر انہیں دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلی قسم:
وہ احادیث جو اہلِ سنت کے موقف کی تائید کرتی ہیں کہ حوّا حضرت آدمؑ کی پسلی سے پیدا ہوئی تھیں۔
مثلاً امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: (إنّ الله تبارك وتعالى خلق آدم من الماء العذب، وخلق زوجته من سنخه، فبرأها من أسفل أضلاعه، فجرى بذلك الضلع سببٌ ونسب۔۔۔)
"بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدمؑ کو میٹھے پانی سے پیدا کیا، اور ان کی زوجہ کو بھی انہی کی جنس سے پیدا کیا، پس انہیں ان کی نیچی پسلیوں میں سے ایک سے بنایا۔ چنانچہ اس پسلی سے سبب اور نسب جاری ہوا۔" (الکافی، ج10، ص881)
دوسری قسم:
وہ احادیث جو اس تصور کو سختی سے رد کرتی ہیں۔ جیسا کہ شیخ صدوقؒ نے "علل الشرائع" اور "من لا یحضره الفقیه" میں زرارہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:
سُئل أبو عبد الله الصادق(عليه السلام)..:إنَّ أُناسًا عندنا يقولون: إنَّ الله عزَّ وجل خلَقَ حوَّاء من ضلع آدم الأيسر الأقصى، فقال (ع): "سبحان الله وتعالى عن ذلك علوَّا كبيرا! أيقولُ مَن يقول هذا: إنَّ الله تبارك وتعالى لم يكن له من القدرة ما يخلقُ لآدم زوجةً من غير ضلعه، وجعل للمتكلِّم من أهل التشنيع سبيلًا إلى الكلام؟! يقول: إنَّ آدم كان ينكحُ بعضُه بعضًا، إذا كانت من ضلعه، ما لهؤلاء؟!!..
امام جعفر صادقؑ سے پوچھا گیا کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ عزّ وجل نے حوّا کو آدمؑ کی بائیں سب سے آخری پسلی سے پیدا کیا۔ تو آپؑ نے فرمایا:
"سبحان اللہ! اللہ اس سے بہت بلند و برتر ہے! کیا یہ کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس یہ قدرت نہ تھی کہ وہ آدمؑ کے لیے ان کی پسلی کے بغیر بیوی پیدا کر دیتا؟ اور اس طرح اہلِ اعتراض و طعن کے لیے موقع فراہم کر دیتا کہ وہ کہیں کہ اگر حوّا ان کی پسلی سے بنی تھیں تو گویا ، آدمؑ نےاپنے ہی وجود کے ایک حصے سے نکاح کیا تھا، ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ !" (من لا یحضره الفقیه، ج3، ص379) چنانچہ ہم یہاں واضح طور پر روایات کے اختلاف اور تعارض کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ اور ان روایات کو آپس میں کیسے جمع کیا جائے؟
شیخ یوسف بحرانی (م 1186ھ) فرماتے ہیں: ان روایات میں تطبیق کے دو احتمالی طریقے ہیں:
1- وہ احادیث جو حوّا کے آدمؑ کی پسلی سے پیدا ہونے پر دلالت کرتی ہیں، انہیں تقیہ پر محمول کیا جائے؛ کیونکہ یہ قول عامہ (اہل سنت) کے ساتھ سازگار ہے، اور اہلِ بیتؑ نے اس کے رد پر سختی کی ہے۔
2- "حوّا آدمؑ کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئیں" سے مراد یہ ہے کہ وہ آدمؑ کی بائیں پسلی کی طینت سے پیدا ہوئیں، جیسا کہ آخری حدیث میں وضاحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے، اور دوسری روایات میں اجمال کے ساتھ آیا ہے کہ وہ آدمؑ کی اضافی طینت سے تخلیق ہوئیں۔ پس جب اہلِ بیتؑ فرماتے ہیں کہ حوّا آدمؑ یا ان کی پسلی سے پیدا ہوئیں، تو اس کا وہ مطلب نہیں جو اہلِ سنت نے سمجھا اور بیان کیا، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ آدمؑ کی طینت سے تخلیق کی گئیں۔ اس صورت میں عامہ کی تردید دراصل ان کے اس غلط فہمی کی ہے جو انہوں نے اس روایت سے لیا۔ (الحدائق الناضرة، ج23، ص7)
خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت بھی ہو کہ حوّا آدمؑ کی پسلی سے پیدا ہوئیں، تو اہلِ بیتؑ کی روایات نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حوّا کو آدمؑ کے جسم کی باقی ماندہ طینت سے پیدا کیا گیا تھا۔