5 محرم 1447 هـ   1 جولائی 2025 عيسوى 11:46 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | قرآنی معجزات |  اعجازِ قرآنی: اس کی جہات اور الٰہی چیلنج کا راز
2025-03-04   309

اعجازِ قرآنی: اس کی جہات اور الٰہی چیلنج کا راز

تحریر: الشيخ معتصم السيد احمد

بلاشبہ قرآن کریم فصاحت، بلاغت اور نظم و اسلوب کے اعتبار سے اپنی معراج پر ہے۔ اس کا منفرد انداز بلند معانی، شاندار الفاظ، محکم ترکیب اور ہم آہنگ نظم کو یکجا کرتا ہے، جو اسے بیان میں بے مثال بنا دیتا ہے۔ تاہم، جب قرآن کے اعجاز کی توضیح محض لسانی پہلو تک محدود کر دی گئی تو بعض علماء نے نظریۂ صَرْفَہ کو اختیار کیا۔ اس نظریے کے مطابق، قرآن فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بذاتِ خود معجزہ نہیں، بلکہ اس کا اعجاز اس امر میں ہے کہ اللہ نے لوگوں کو، باوجود قدرت رکھنے کے، اس جیسا کلام پیش کرنے سے روک دیا۔

اسی بنیاد پر، نظریۂ صَرْفَہ کے حامیوں کا ماننا ہے کہ اللہ نے عربوں کو قرآن کی ہمسری کی کوشش سے روک دیا۔ یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ وہ قدرتی طور پر ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز تھے، بلکہ اللہ کی مشیّت نے انہیں اس سے باز رکھا۔ ان کے مطابق، یہ رکاوٹ یا تو ان کے دلوں میں خوف پیدا کرکے، یا ان کی نقالی کی صلاحیت چھین کر، یا ان کے فکری رجحانات کو اس انداز میں موڑ دیا گیا کہ وہ قرآن کے چیلنج کے سامنے بے بس ہو گئے اور ہار مان بیٹھے۔ ان کے نزدیک، یہی وجہ تھی کہ عرب، فصاحت و بلاغت کے تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود، قرآنی چیلنج کا سامنا کرنے سے گریزاں رہے۔

تاہم، یہ تفسیر کئی بنیادی مسائل پیدا کرتی ہے۔ اگر قرآن کا اعجاز صرف صَرْفَہ (یعنی لوگوں کو اس کی ہمسری سے روک دینے) کی بنیاد پر تسلیم کیا جائے، تو پھر قرآن کا معجزہ خود اس کے کلام کی فطری خوبیوں سے نہیں، بلکہ ایک خارجی عنصر یعنی اللہ کی مداخلت سے وابستہ ہو جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کا چیلنج اس کے الفاظ، معانی اور اسلوب کی بےمثال خوبیوں پر نہیں، بلکہ صرف اس بات پر ہے کہ اللہ نے لوگوں کو اس جیسا کلام پیش کرنے سے روک دیا۔ یہ نظریہ براہِ راست قرآن کی اُن آیات سے متصادم ہے جو واضح طور پر بتاتی ہیں کہ قرآن کا اعجاز اس کی اپنی اندرونی خصوصیات میں مضمر ہے، نہ کہ کسی بیرونی رکاوٹ میں جو لوگوں کو اس کی نقل سے باز رکھے۔ قرآن نے بارہا اپنے چیلنج کو اس کے منفرد اور اعلیٰ طرزِ بیان سے جوڑا ہے، جو اس نظریے کی نفی کرتا ہے کہ لوگ اصل میں اس کے مثل لا سکتے تھے مگر اللہ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔

مزید برآں، نظریۂ صَرْفَہ ان تاریخی شواہد سے بھی متصادم ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خود عرب قرآن کے اسلوب، فصاحت، اور معانی کی گہرائی سے محوِ حیرت تھے اور اس کی لسانی برتری کا اعتراف کرتے تھے۔ اگر ان کے قرآن کی نظیر پیش کرنے سے باز رہنے کی واحد وجہ محض صَرْفَہ، یعنی اللہ کا انہیں اس کی ہمسری سے روک دینا ہوتا، تو پھر ان کے لیے قرآن کی فصاحت و بلاغت پر حیرت کا کوئی جواز باقی نہ رہتا، اور نہ ہی ان کے لیے اس کے ادبی و معنوی تفوق کا اعتراف کرنا ضروری ہوتا۔ اس صورت میں، ان کی بے بسی کسی داخلی کمزوری یا قرآن کی منفرد خصوصیات کے بجائے محض ایک خارجی مداخلت کا نتیجہ ہوتی، جو اس حقیقت کے خلاف ہے کہ عربوں نے خود قرآن کے اسلوب کی بےمثالی کو تسلیم کیا اور اسے کسی بھی انسانی کلام سے برتر قرار دیا۔

چنانچہ جمہور علماء کے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ قرآنی اعجاز محض فصاحت و بلاغت تک محدود نہیں، بلکہ اس کی وسعت اس کی منفرد ترکیب، عمیق مضامین، روحانی و نفسیاتی تاثیر، اور علمی و کائناتی حقائق سے اس کے ارتباط تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان تمام جہات کا باہمی امتزاج قرآن کو ایک ایسا معجزہ بناتا ہے جس کا چیلنج متنوع اور جامع ہے، محض فصاحت تک محدود نہیں، جو اصولی طور پر اہلِ زبان کے لیے تقلید کے دائرے میں آ سکتی تھی۔

یہ امر ہمیں ایک بار پھر قرآنی اعجاز کے حقیقی راز کی جستجو کی طرف لے جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (فَلْيَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ) (یونس: 38)، تو یہاں "مِّن مِّثْلِهِ" کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کسی چیز کا مثل متعین کرنے کے لیے پہلے اس کی اصل حقیقت کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اپنی طرف سے قرآن کریم کی کوئی تعریف فرض کر لیں، ، مثلاً یہ فرض کر لیں کہ"قرآن فصیح کتاب ہے"اور پھر عربوں کے فصیح کلام میں اس کا مثل تلاش کریں، بلکہ ہمیں خود قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ دیکھ سکیں کہ اس نے اپنی حقیقت کو کس طرح بیان کیا ہے۔ تب ہی ہم الٰہی چیلنج کی نوعیت کو سمجھ سکتے ہیں اور اس مثل کو جان سکتے ہیں جو اللہ نے مراد لیا ہے۔

قرآن نے اپنی حقیقت کو کیسے متعارف کرایا؟

قرآن مجید نے کئی مقامات پر اپنی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ سب سے پہلے، ہم ان آیات کا جائزہ لیتے ہیں جو اسے)قرآنٌ عربی"(کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ بعض لوگ یہ گمان کر سکتے ہیں کہ اس کا مطلب صرف اس کی فصاحت و بلاغت تک محدود ہے، حالانکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع اور گہری ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ)(یوسف: 2) ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو۔اسی طرح، ایک اور مقام پر فرمایا: (وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ)(الرعد: 37) اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی میں ایک دستور بنا کر نازل کیا ہے اور اگر آپ نے علم آ جانے کے بعد بھی لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں آپ کو نہ کوئی حامی ملے گا اور نہ کوئی بچانے والا۔نیز، ایک اور آیت میں فرمایا:(وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ)(طه: 113) اور اسی طرح ہم نے یہ قرآن عربی میں نازل کیا اور اس میں مختلف انداز میں تنبیہیں بیان کی ہیں کہ شاید وہ پرہیزگار بن جائیں یا (قرآن) ان کے لیے کوئی نصیحت وجود میں لائے۔اسی حقیقت کو مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا:(بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ) (الشعراء: 195) صاف عربی زبان میں۔

یہ آیات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ قرآن کریم ایک واضح عربی زبان میں نازل ہوا۔ اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ قرآن فصاحت و بلاغت میں ممتاز ہے، کیونکہ اس کا بیان نہایت واضح ہے۔ تاہم، یہ آیات عربوں کو محض فصاحت کے ذریعے چیلنج کرنے کے سیاق میں نہیں آئیں، بلکہ اس بات پر زور دینے کے لیے نازل ہوئیں کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ان کے لیے قابلِ فہم ہے، جو ان کی اپنی زبان میں آئی ہے، جسے وہ سمجھتے ہیں اور جس میں وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ اسی لیے بعض آیات کے اختتام پر فرمایا گیا(أَفَلَا تَعْقِلُونَ)(کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟)، یعنی قرآن ان کی اپنی جانی پہچانی زبان میں ان سے خطاب کر رہا ہے اور انہیں اس کی گہری معانی پر غور و فکر کرنے کی دعوت دے رہا ہے، نہ کہ صرف اس کے بیانیہ پہلو پر رک جانے کے لیے۔

"نظریۂ صرفة" کے حامیوں کا مغالطہ

"صرفة" کے حامی ان آیات کو اپنے نظریے کے حق میں پیش کر سکتے ہیں، خاص طور پر (بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ) سے استدلال کرتے ہوئے کہ چونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور وہی لسانی قواعد اور اسلوب اختیار کیے جو عربوں کے لیے مانوس تھے، اس لیے اس میں کوئی ایسا معجزہ نہیں جو اسے دیگر عربی کلام سے منفرد بنائے۔ لیکن یہ مفروضہ ایک بنیادی غلط فہمی پر مبنی ہے۔اگر قرآن محض معروف لسانی اصولوں اور روایتی اسلوب کا مجموعہ ہوتا، تو عرب اس کا مثل پیش کرنے پر قادر ہوتے۔ مگر تاریخی شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت کے باوجود وہ اس چیلنج کو قبول کرنے سے قاصر رہے۔ دوسری جانب، اگر یہ کہا جائے کہ قرآن کا اسلوب عربوں کے لیے بالکل نیا اور اجنبی تھا، تو یہ بات خود قرآن کی آیات کے خلاف ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(أَفَلَا تَعْقِلُونَ)(کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟)۔یعنی قرآن ایسی زبان میں آیا جسے وہ سمجھ سکتے تھے، اور اس کے معانی پر غور و فکر کر سکتے تھے۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ قرآن ان کے فہم سے مکمل طور پر باہر ہو، اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ وہ اس کے مثل لانے پر قادر ہوں۔ یہی حقیقت اس کے اعجاز کی دلیل ہے۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ  قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍۭ بَعِيدٍ) (فصلت: 44)

اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں قرار دیتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات کو کھول کر بیان کیوں نہیں کیا گیا؟ (کتاب) عجمی اور (نبی) عربی؟ کہدیجئے: یہ کتاب ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بھاری پن (بہرا پن) ہے اور وہ ان کے لیے اندھا پن ہے، وہ ایسے ہیں جیسے انہیں دور سے پکارا جاتا ہو۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ قرآن کی حقیقت صرف اہلِ ایمان پر آشکار ہوتی ہے، کیونکہ ان کے لیے یہ(ہدًى وشفاءٌ)(ہدایت اور شفا) ہے۔ جبکہ کافر اس کی عظمت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ان کے کان سننے سے عاجز ہیں، اور ان کی آنکھیں دیکھنے سے محروم، گویا وہ کسی دور دراز مقام سے پکارے جا رہے ہوں، جہاں سے وہ آواز نہیں سن سکتے۔یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ کفار نہ صرف لسانی طور پر قرآن کا مثل پیش کرنے سے قاصر ہیں، بلکہ وہ اس کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔

نظریۂ صرفة" کی نئی تشریح

"صرفة" کے مفہوم کی ایک نئی تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ، بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ اللہ نے جبراً عربوں کو قرآن کی مانند کلام پیش کرنے سے روک دیا، یہ سمجھا جائے کہ کافروں نے اپنے انکار اور ضد کی وجہ سے خود کو اس کے نور سے محروم کر لیا۔ اللہ نے انہیں ان کی گمراہی پر چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف قرآن کے گہرے معانی کو سمجھنے سے قاصر رہے بلکہ اس کی مثل پیش کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے۔یہی حقیقت قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے: (وَإِذَا قَرَأْتَ ٱلْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا )(الإسراء: 45) اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک نامرئی پردہ حائل کر دیتے ہیں۔یعنی کافروں اور قرآن کی حقیقی فہم کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیا گیا ہے، جو انہیں اس کے ادراک سے روکتا ہے اور اس جیسا کوئی کلام پیش کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیتا ہے، کیونکہ وہ اس کی حقیقت کو سمجھنے کی بصیرت ہی نہیں رکھتے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(ذَٰلِكَ ٱلْكِتَٰبُ لَا رَيْبَ فِيهِ  هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ) (البقرة: 2)

یہ آیت قرآن کی قطعی سچائی کو بیان کرتی ہے، جس میں کسی بھی شک کی گنجائش نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ہر لحاظ سے مکمل اور بے عیب ہے، چاہے وہ اس کے مضامین ہوں، اسلوب ہو، بیان ہو یا ہدایت۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا اعجاز کسی ایک پہلو، جیسے محض فصاحت، تک محدود نہیں، بلکہ اس کی تمام جہات پر محیط ہے۔ مزید برآں، آیت میں قرآن کی ہدایت کو تقویٰ سے جوڑا گیا ہے، جو اس نکتے کو مزید واضح کرتا ہے کہ قرآن کی حقیقت کو وہی لوگ مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں جو باطنی طور پر ہدایت کے متلاشی ہوں۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں—کہ مؤمن ہی قرآن کے راز کو جان سکتا ہے، جبکہ کافر اپنی روحانی رکاوٹوں کی وجہ سے اس کے فہم سے محروم رہتا ہے۔

آیاتِ تحدی کو صرف زبان و بیان کے مقابلے تک محدود نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ قرآن کی جامع حقیقت کا امتحان ہے۔ مؤمن اس کی عظمت کو پہچان کر اسے وحیِ الٰہی تسلیم کرتا ہے، جبکہ کافر اس کی مثل پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے، نہ صرف اس کی فصاحت و بلاغت کے سبب، بلکہ اس لیے بھی کہ اس کی بصیرت حقیقتِ قرآن کو سمجھنے سے محروم کر دی گئی ہے۔

نتیجہ

مندرجہ بالا مباحث سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قرآنی اعجاز محض فصاحت و بلاغت تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل اور ہمہ جہت نظام ہے، جو ہدایت، گہرے معانی، اور الہامی حقائق پر مشتمل ہے، جو عام انسانی ادراک سے بالاتر ہیں۔ قرآن صرف ایک منفرد ادبی شاہکار نہیں، بلکہ وہ نورِ ہدایت اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو انسانی عقل و قلب کو ان کی استعداد اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت کے مطابق متاثر کرتا ہے۔

الٰہی چیلنج صرف فصیح و بلیغ عربوں کے لیے مخصوص نہیں تھا، بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے تھا، بشمول انکار کرنے والے اُن لوگوں کے جن کے اور قرآن کے درمیان اللہ نے ایک پردہ حائل کر دیا۔ اسی بنا پر وہ اس کی عظمت کو سمجھنے سے قاصر رہے اور اس کی مثل پیش نہ کر سکے۔ یہ کسی بیرونی پابندی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ ان کے قلوب و بصائر پر چھا جانے والی تاریکی نے انہیں قرآن کی حقیقت کے ادراک سے محروم کر دیا۔یہی پہلو قرآنی اعجاز کو "نظریۂ صرفة" کی محدود تفہیم سے بلند کر دیتا ہے، کیونکہ قرآن کا اعجاز کسی خارجی رکاوٹ کی پیداوار نہیں، بلکہ یہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ جسے نورِ ایمان نصیب نہ ہو، وہ نہ اس کے رازوں کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی مثل پیش کر سکتا ہے۔

اگر ہم قرآن کی تمام آیات پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ اس کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت تک محدود نہیں، بلکہ یہ حقائق، معانی اور ہدایت کا ایک مکمل اور ہمہ گیر نظام ہے، جس کی نظیر پیش کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کی گہرائی اور حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جسے نورِ ایمان اور بصیرت عطا کی گئی ہو۔

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018