

| قرآنی مضامین | آغازِ زندگی پانی سے: ﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ﴾ پر ایک فکری مطالعہ

آغازِ زندگی پانی سے: ﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ﴾ پر ایک فکری مطالعہ
شيخ معتصم السيد احمد
آیتِ کریمہ ﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ﴾ اُن نمایاں آیات میں سے ہے جو پانی اور زندگی کے درمیان گہرے تعلق پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ آیت اپنے اندر ایسے علمی و معرفتی اشارات سموئے ہوئے ہے، جن کا مکمل ادراک انسان کے لیے زمانۂ نزولِ وحی میں ممکن نہ تھا۔ قرآنِ کریم یہاں ایک ایسی حقیقت کی صراحت کر رہا ہے جسے سائنسی تحقیق نے صرف جدید ادوار میں آ کر ثابت کیا، یعنی جدید سائنس کی رو سے نہ صرف زمین پر موجود تمام حیات پانی کی مرہونِ منت ہے، بلکہ بعض نظریات کے مطابق کائنات کی ابتدائی ترکیب میں بھی پانی یا پانی جیسی مائع حالت میں موجود بنیادی عناصر کا کلیدی کردار تھا۔یہاں آیت میں "الماء" کی تعبیر خود ایک علمی و تفسیری مکالمہ پیدا کرتی ہے۔ آیا اس سے مراد وہ طبعی و محسوس پانی ہے جسے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں، یا اس سے مراد وہ ابتدائی مادّہ ہے جس سے تمام موجودات کی تخلیق ہوئی؟ اس سوال نے مختلف تفسیری مکاتبِ فکر میں ایک فکری تحول پیدا کیا ہے، اور اس پر تفسیری و کلامی مباحث کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔یہ آیت اپنے اندر قرآن کے اعجازِ علمی کی ایک روشن مثال پیش کرتی ہے، جو ہر دور میں اہلِ فکر و تحقیق کے لیے غور و تدبر کے نئے دریچے وا کرتی ہے۔ قرآن کا یہی اعجاز ہے کہ وہ نہ صرف ماضی و حال کو محیط ہے بلکہ مستقبل کے انکشافات کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے۔اس مقالے میں ہم اس آیت کے دونوں تفسیری پہلوؤں—"الماء" کی طبعی تعبیر اور کائناتی تاویلات—کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کریں گے، تاکہ قرآن مجید کی صداقت، وسعتِ معانی، اور علمی افق کی بلندی کو بہتر طور پر اجاگر کیا جا سکے۔
سب سے پہلے ہم اُس تفسیر کا جائزہ لیتے ہیں جس کے مطابق "الماء" سے مراد وہ مائع ہے جو زمین پر پایا جاتا ہے اور جسے ہم عام طور پر پانی کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ تفسیر جدید سائنسی فہم کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جو پانی کو جملہ جانداروں کے لیے حیات کی اساس قرار دیتی ہے۔تحقیقات کے مطابق، پانی جانداروں کی بنیادی خلیہ کا ایک اہم جزو ہے، بلکہ بعض مخلوقات کے خلیات میں پانی کی مقدار 70 فیصد سے 90 فیصد تک پائی جاتی ہے۔ یہ تناسب اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ پانی صرف جسمانی ساخت کا عنصر نہیں، بلکہ حیات کی بقاء، نمو، اور افعال کے لیے بھی ناگزیر ہے۔مزید برآں، پانی اُن تمام کیمیائی و حیاتیاتی تعاملات کے لیے ایک مثالی ذریعہ ہے جو زندہ اجسام کے اندر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ان میں سرفہرست "عملِ استحالہ"ہے، جس کے ذریعے خلیات غذائی اجزاء کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیں، اور یہی توانائی جانداروں کی فعّال زندگی کے تمام مظاہر کو رواں رکھتی ہے۔
پانی کی اہمیت محض اس کے خلیوں کا بنیادی جزو ہونے تک محدود نہیں، بلکہ یہ جانداروں کے جسمانی نظام میں کئی کلیدی افعال بھی انجام دیتا ہے۔ پانی جسم کے درجہ حرارت کوبرقرار رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اور پانی غذائی اجزاء اور توانائی بخش مرکبات کی ترسیل کا ذریعہ بھی ہے، اور جسم سے فاضل مادّوں کے اخراج میں بھی معاون ہوتا ہے۔مثال کے طور پر، پانی آکسیجن اور ضروری غذائی اجزاء کو خلیات تک پہنچانے میں مدد دیتا ہے، جبکہ فاضل اور مضر مادّات کو پیشاب یا پسینے کے ذریعے جسم سے خارج کرتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق، کوئی بھی جاندار پانی کے بغیر طویل عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتا۔
اگرچہ پانی زمین پر زندگی کے لیے ایک بنیادی عنصر ہے، لیکن سائنس دان اب دوسرے سیاروں پر بھی پانی کے ممکنہ اثرات اور وہاں زندگی کے امکانات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ درحقیقت، زمین کے علاوہ دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش کا دارومدار بھی زیادہ تر پانی کی موجودگی پر ہوتا ہے۔ کسی سیارے پر پانی کی موجودگی کو وہاں ممکنہ زندگی کے ایک قوی اشارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
دوسری تفسیر کے مطابق، "الماء" سے مراد وہ پانی نہیں ہے جو ہم روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں، بلکہ یہاں اس آیت کریمہ میں پانی سے مراد وہ بنیادی عنصر اور مادہ ہے ، جس سے کائنات کی تخلیق ہوئی، جس میں سیارے اور کہکشائیں بھی شامل ہیں۔ اس تفسیر کے مطابق، جو پانی آج ہم جانتے ہیں، وہ بھی اسی ابتدائی مادے سے تخلیق شدہ ہے۔ اس طرح، یہ آیت کائنات کی مادی تخلیق کے ابتدائی مراحل کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو تخلیق کی ابتدا سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر ہم آیت کا پورا مفہوم دیکھیں، جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ)۔ تو یہ آیت کائنات کی ابتدائی تخلیق کی حقیقت کو بیان کرتی ہے، جب آسمان اور زمین ایک اکائی کی مانند تھے اور انہیں جدا کیا گیا، جو کہ جدید سائنسی تحقیق، خاص طور پر "بگ بینگ تھیوری سے ہم آہنگ ہے۔
یہ بات مسلم ہے کہ (Big Bang) کا نظریہ کائنات کی پیدائش کو سمجھنے کے لیے سائنس کی سب سے جدید اور معتبر توضیح ہے۔ اس نظریے کے مطابق، کائنات کی ابتدا ایک نہایت ہی گرم اور انتہائی دباؤ والی حالت سے ہوئی، جو ایک نہایت چھوٹے اور مرکوز نقطے میں سمٹی ہوئی تھی۔ سائنس کی زبان میں اس نقطے کو "تفرّد" (Singularity) کہا جاتا ہے، جس کی کیفیت اتنی پیچیدہ تھی کہ موجودہ فزکس کے قوانین اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ "دھماکہ" یہاں کسی معمولی یا روایتی دھماکے کی طرح نہیں ہوا، بلکہ یہ ایک زبردست اور حیرت انگیز وسعت پذیری تھی جو اچانک شروع ہوئی۔ ابتدا کے لمحے کو "زمانِ صفر"کہا جاتا ہے، جب نہ وقت تھا، نہ جگہ، نہ مادہ، اور نہ توانائی۔ پھر اچانک وہ انتہائی مختصر نقطہ پھیلنا شروع ہوا اور اسی کے ساتھ وقت، جگہ، مادہ اور توانائی بھی وجود میں آ گئے۔آج ہم کائنات میں جو کچھ دیکھتے ہیں—جیسے کہ کہکشائیں، ستارے اور سیارے—یہ سب اسی مسلسل پھیلاؤ کا نتیجہ ہیں، جو تقریباً 13.8 ارب سال پہلے شروع ہوا تھا۔
یقیناً یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی یہ آیت کائنات کی تخلیق، آسمانوں اور زمین کی ابتدا کا ذکر کرتی ہے، اور اسی تسلسل میں "پانی" کا تذکرہ آتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آیتِ مبارکہ میں "پانی" سے مراد صرف وہ مائع نہیں جسے ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں، بلکہ یہاں پانی اس بنیادی مادے کی علامت ہے جس سے تمام مخلوقات کی تخلیق ہوئی۔اسی معنی کی تائید امام محمد باقرؑ کی ایک نہایت اہم اور بصیرت افروز حدیث سے ہوتی ہے، جس میں آپؑ فرماتے ہیں:"اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اُس چیز کو پیدا کیا جس سے تمام اشیاء کو وجود ملا، اور وہ شے 'پانی' تھی۔ چنانچہ اللہ نے تمام مخلوقات کی نسبت پانی کی طرف دی ، جبکہ پانی کو کسی اور چیز سے منسوب نہیں کیا۔"
امامؑ مزید فرماتے ہیں: "اللہ نے پانی سے ہوا کو پیدا کیا، پھر ہوا کو پانی پر مسلط کیا، اور اس نے پانی کی سطح کو چیرنا شروع کیا، یہاں تک کہ اللہ کی مشیت کے مطابق پانی سے جھاگ اٹھا۔ اس جھاگ سے اللہ نے زمین کو خلق کیا، جو نہایت سفید اور پاکیزہ تھی، جس میں نہ کوئی دراڑ تھی، نہ سوراخ، نہ کوئی نشیب و فراز اور نہ ہی کوئی درخت۔ پھر اللہ نے اس زمین کو لپیٹ کر پانی پر رکھ دیا۔ اس کے بعد اللہ نے پانی سے آگ کو پیدا کیا، پس آگ نے پانی کو چیرنا شروع کیا، یہاں تک کہ پانی سے بقدر مشیتِ الٰہی دھواں اٹھا، پھر اللہ نے اس دھوئیں سے ایک صاف و شفاف آسمان خلق کیا، جس میں نہ کوئی دراڑ تھی، اور نہ ہی کوئی شگاف۔" (الکافی، جلد ۸، صفحہ ۹۴)
امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک اور روایت الکافی میں منقول ہے، جس میں آپؑ فرماتے ہیں:"شروع میں ہر چیز پانی ہی تھی، اور اللہ کا عرش بھی پانی پر قائم تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا، تو وہ شعلہ ور ہو کر آگ میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے بعد اللہ نے آگ کو حکم دیا تو وہ ٹھنڈی ہو گئی، اور جب وہ سرد ہوئی تو اس سے دھواں اٹھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی دھویں سے آسمانوں کو پیدا کیا، اور زمین کو اس کی راکھ سے خلق فرمایا ۔" (الکافی، جلد ۸، صفحہ ۱۵۳)
یہ روایت اُس مفہوم سے گہری مماثلت رکھتی ہے جو جدید سائنسی نظریے "نظریۂ بگ بینگ"میں بیان کیا گیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، کائنات کا آغاز ایک عظیم مادی دھماکے سے ہوا، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھوئیں اور توانائی سے بعد میں ستارے، سیارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں۔
تفسیر علی بن ابراہیم میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک نہایت اہم روایت نقل ہوئی ہے۔روایت کے مطابق، ایک شخص "ابرش" نے امام علیہ السلام سے سوال کیا:"اے ابو عبد اللہ! مجھے بتائیے کہ اللہ کے اس فرمان: 'کیا وہ لوگ نہیں دیکھتے جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان و زمین ایک ساتھ جُڑے ہوئے تھے، پھر ہم نے ان کو الگ کیا' — میں 'رتق' (جُڑاؤ) اور 'فتق' (جُدائی) سے کیا مراد ہے؟" امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:"اے ابرش! یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اللہ نے خود بیان فرمایا ہے۔ اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ پانی ہوا پر تھا، اور ہوا کی کوئی حد نہ تھی، اُس وقت ان دو کے سوا کوئی اور مخلوق موجود نہ تھی۔ اُس وقت پانی میٹھا اور خوش ذائقہ تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا، تو ہواؤں کو حکم دیا کہ پانی پر چلیں۔ وہ پانی کی سطح سے ٹکرائیں تو پانی موجزن ہو گیا۔ پھر پانی سے جھاگ پیدا ہوا، اور وہ جھاگ ایک جگہ اکٹھا ہو گیا۔ اللہ نے اس جھاگ کو ایک پہاڑ کی شکل دی، اور اسی مقام سے زمین کو پھیلایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
'(إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ)بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا، وہ ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور تمام جہان والوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ۔' (سورہ آل عمران: 96)"پھر اللہ نے جتنا چاہا، اسی حالت میں توقف فرمایا۔ پھر جب اللہ نے آسمان کو پیدا کرنا چاہا، تو ہواؤں کو حکم دیا کہ سمندروں پر چلیں۔ پس پانی جھاگ اُگلنے لگا، اور ان موجوں اور جھاگوں کے بیچ سے بغیر کسی آگ کے دھوئیں جیسا مادہ اٹھا۔ اللہ نے اسی ساطع (روشن) دھوئیں سے آسمان کو پیدا کیا، اور اس میں بروج، ستارے، سورج و چاند کے مدار بنائے، اور ان سب کو افلاک میں گردش پر مامور کر دیا ۔ اس وقت آسمان کا رنگ سبز تھا، ویسا ہی جیسا سبز پانی ہوتا ہے، اور زمین کا رنگ خاکی (غُبراء) تھا، جیسے میٹھے پانی کا رنگ ہوتا ہے۔ دونوں، یعنی آسمان و زمین، آپس میں جُڑے ہوئے تھے اور ان میں کوئی دروازہ یا شگاف نہ تھا۔"(بحار الأنوار، جلد ۵۶، صفحہ ۳۷۱)
اس مقالے کے اختتام پر ہم یہ بات واضح کرتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کو (بک بینک) کے ذریعے سمجھنے کی کوشش محض سائنسی مفروضات پر مبنی ہے، جن میں وقت کے ساتھ تبدیلی اور ارتقاء ممکن ہے۔ سائنسی علم کسی حتمی مقام پر رکنے والا نہیں، بلکہ جوں جوں انسان اپنی فہم میں ترقی کرتا ہے، نئی جہتوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں، اور اُس کی لاعلمی کی وسعتیں مزید نمایاں ہوتی جاتی ہیں۔ شاید اسی حقیقت کی طرف ایک معروف سائنس دان نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: "جتنا ہمارا فہم بڑھتا ہے، اتنے ہی عجیب امکانات ہماری لاعلمی میں ظاہر ہوتے ہیں۔" یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ کائنات کی ماہیت ہماری عقل و ادراک سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور بعیدالفہم ہو سکتی ہے۔
کائنات کی ابتدا کو سمجھنے کے لیے کی جانے والی سائنسی کوششوں کے مقابلے میں، اہل بیت علیہم السلام کی بعض روایات میں ایسی نشانیاں ملتی ہیں جو بظاہر موجودہ سائنسی مفاہیم سے مماثلت رکھتی ہیں۔ تاہم، ان تفسیروں کو قطعی طور پر سائنسی تصورات کے مطابق کہنا ممکن نہیں ہے۔ دراصل، یہ صرف ایک کوشش ہے کہ قدیم متون کو آج کے سائنسی دائرے میں دوبارہ سمجھا جائے۔ جیسے "ہوا"، "دھواں"، "جھاگ" وغیرہ کی اصطلاحات، ممکنہ طور پر اپنے وقت میں سمجھے جانے والے مفاہیم کی علامت ہو سکتی ہیں، جو اس عہد کی زبان میں بیان کی گئی تھیں، اور آج کے محقق ان کو کائناتی طبیعیات کے موجودہ مفاہیم سے قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم، یہ تمام تفسیرات صرف اجتہاد اور غور و فکر کے دائرہ میں ہیں، نہ کہ کسی قطعی تطابق کی حدود میں۔
چنانچہ، اہل بیت علیہم السلام کی روایات ایک ایسا خزانہ ہیں جو انسان کو کائنات کی تخلیق کے بارے میں غور و فکر کے نئے زاویے فراہم کر سکتی ہیں، بغیر اس کے کہ یہ سائنسی تحقیق کے آلات کا متبادل ہوں یا ان سے وابستہ ہوں۔ یہ نصوص ایسی نشانیاں رکھتی ہیں جو بعض سائنسی مفاہیم سے ہم آہنگ ہو سکتی ہیں، جو بعض سائنسی مفاہیم سے ہم آہنگ ہو سکتی ہیں، مگر ساتھ ہی یہ اپنے روحانی اور فکری پہلو کو بھی برقرار رکھتی ہیں، جو انہیں وجود اور اس کی ابتداء کو سمجھنے کے لیے ایک منفرد نقطہ نظر عطا کرتی ہیں۔
اس مقال کا بنیادی مقصد قرآنِ مجید کی آیت "وجعلنا من الماء كل شيء حي" میں موجود معجزے پر روشنی ڈالنا ہے، چاہے پانی کو اس کے ظاہری معنی کے مطابق زمین پر زندگی کے منبع کے طور پر سمجھا جائے، یا اسے اس ابتدائی مادے کے طور پر لیا جائے جس سے کائنات کی تخلیق کا آغاز ہوا۔ یہ آیت اتنی گہری اور وسیع ہے کہ اسے جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں غور و فکر کےمنتخب کیا جا سکتا ہے، جو قرآنِ مجید کے نص میں ایک معجزاتی پہلو کو ظاہر کرتی ہے، جو ہر بار علم کی ترقی اور انسان کے معارف میں اضافے کے ساتھ نئی حیرتوں کو جنم دیتی ہے۔