

| قرآنی مضامین | قرآنی اقدار۔۔۔ ناقابل تغیر بھی اور تغیرات زمانہ سے ہم آہنگ بھی ۔

قرآنی اقدار۔۔۔ ناقابل تغیر بھی اور تغیرات زمانہ سے ہم آہنگ بھی ۔
قرآن کریم ، ناقابل تغیر بھی اور تغیرات زمانہ سے ہم آہنگ بھی ۔
تحریر: معتصم السيد احمد
قرآنِ کریم انسانیت کی ہدایت کے لیے ہمیشہ جاری رہنے والے چشمہ زلال کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں اقدار کے استحکام اور اطلاق کی لچک کو یکجا دیکھا جا سکتا ہے، جو اس کتابِ ہدایت کو ہر زمان و مکان کے لیے موزوں بناتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر قرآن کے نصوص مستقل ہیں اور اس کی اقدار میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، تو وہ دنیا میں ہونے والی سائنسی اور ثقافتی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیسے رہتا ہے؟ یہ سوال مستقل اور متغیر کے درمیان تعلق کے سمجھنے میں ایک الجھن پیدا کرتا ہے، کیونکہ کچھ لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ نصوص کا غیر متغیر ہونا ، بدلتے وقت کی ضروریات کے ساتھ متصادم ہوسکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن استحکام اور حرکت پذیری کے درمیان مکمل ہم آھنگی کی بہترین تصویر پیش کر رہا ہے ،جو اسے انسانیت کےلیے دستورِ حیات کے طور پر اپنا دائمی کردار ادا کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے ۔
حتیٰ کہ تشریعی دائرے میں بھی، احکام کے اقدار اور مقاصد وہ مستقل بنیادیں ہیں جو متغیرات کی حرکت کو قابو میں رکھتی ہیں۔ انصاف، رحمت، احسان اور توحید جیسی اقدار وہ محور ہیں جن کے گرد احکام گردش کرتے ہیں، اور یہی اقدار ہر زمانے میں ان احکام کو قابلِ عمل بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جب قرآن تجارت میں اخلاقی اقدار جیسے امانت اور وعدوں کی پاسداری کی بات کرتا ہے، تو یہ کسی ایسے خاص اقتصادی یا تجارتی نظام تک محدود نہیں جو نزولِ وحی کے وقت موجود تھا، بلکہ یہ ایسے عمومی اصول ہیں کہ جو ہر دور کے اقتصادی نظام پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، چاہے ان کے مظاہر کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔
آج ہم تصور کرسکتے ہیں کہ یہ اصول جدید تجارتی نظاموں، جیسے ای کامرس یا ڈیجیٹل بینکنگ، میں کیسے نافذ ہوسکتے ہیں۔ ان نظاموں میں الیکٹرانک معاملات میں دیانت داری بنیادی حیثیت رکھتی ہے، جیسے صارفین کی ذاتی معلومات کی حفاظت اور ان میں کسی قسم کی ھیرا پھیری سے اجتناب کو یقینی بنانا۔ یہ وہی دیانت ہے جو روایتی بازاروں میں سامان کی خرید و فروخت کے دوران ضروری سمجھی جاتی تھی۔ قرآن نے کسی خاص تجارت یا معاملات کے طریقے کو معین نہیں کیا، بلکہ امانت داری کا وہ اصول وضع کیا جو ہر قسم کی تجارت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے ، چاہے اس کے وسائل اور ٹیکنالوجی کتنی ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوں،
یہی اصول مختلف قسم کے ایگریمنٹس کی پابندی کے حکم کا بھی ہے۔ قدیم زمانے میں وعدوں کی پاسداری کا مطلب ان معاہدات کی پابندی تھا جو کسی بازار یا معاشرے میں افراد کے درمیان زبانی یا تحریری طور پر طے پاتے تھے۔ جبکہ جدید دور میں یہ معاہدات قانونی پیچیدگیوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں، جن میں کمپنیوں کے معاہدے، آن لائن ڈیجیٹل معاہدے، یا حتیٰ کہ بلاک چین (Blockchain) ٹیکنالوجی کے "اسمارٹ کانٹریکٹس" شامل ہیں۔ یہ ایسے پروگرام یا طریقے ہوتے ہیں جو فریقین کے درمیان طے شدہ شرائط کے پورا ہونے کی صورت میں خودکار طور پرمعاہدوں پر عمل کرتے ہیں ، اور اس میں کسی تیسرے فریق یا شخص کی مداخلت کی ضرورت نہیں رہتی۔ بلاک چین ایک تقسیم شدہ اور محفوظ ڈیٹا بیس ہے جو ریکارڈز کو اس طرح محفوظ کرتا ہے کہ انہیں درج کرنے کے بعد تبدیل یا حذف نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم معاہدات کی پاسداری کی قدر ہر دور میں مستقل رہتی ہے، چاہے ان معاہدات کو مکمل کرنے کے طریقے اور وسائل کتنے ہی تبدیل کیوں نہ ہوں۔اخلاقی اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر جدید نظاموں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ہی قرآن مجید کو ہر زمان و مکان میں قابلِ عمل بناتی ہے۔ قرآن اپنے جوہر میں مستحکم ہے اور اپنے اقدار کے دائرے میں عدل، دیانت، اور انسانی حقوق جیسے اصولوں کو شامل کرتا ہے۔ اس طرح قرآن انسانی معاشرے میں ابھرنے والے چیلنجز کا جواب دینے کی لامحدود صلاحیت رکھتا ہے، بغیر اس کے کہ اس کا استحکام متاثر ہو یا اس کی اقدار وقت اور جگہ کی تبدیلی سے متاثر ہوں۔
لہٰذا، اقدار کے استحکام کا مطلب جمود نہیں ہو سکتا ، بلکہ وہ بنیاد فراہم کرنا ہے کہ جو سماجی اور معاشی تبدیلیوں کے ساتھ حرکت اور ہم آہنگی کو ممکن بنائے ۔ قرآنِ کریم نصوص کی حرکت پذیری کا ایک منفرد نمونہ پیش کرتا ہے، جہاں یہ حرکت پذیری انسانی زندگی میں مسلسل آنے والی تبدیلیوں کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس خصوصیت کا مطلب نصوص کو تبدیل کرنا یا ان سے تجاوز کرنا ہر گز نہیں ہے، بلکہ ان میں مذکور اقدار کو سمجھنے کے ذریعے متغیرات کو قبول کرنے کی بہترین صلاحیت کا اظہار ہے۔ قرآن میں موجود جزوی احکام ان کلی اقدار کے عملی نمونے کے طور پر آتے ہیں، جو انسانی عقل کو متغیر حالات پر ان کا اطلاق کرنے کے لیے اجتہاد کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
قرآنی نصوص سے استفادہ کا طریقہ کار
قرآنِ کریم کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسامدبرانہ طریقہ کار اپنایا جائے جو نصوص سے اقدار اور سنتوں کو استنباط کرنے پر مشتمل ہو۔ یہ اقدار ایک نقشہ فراہم کرتے ہیں جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ نصوص کس طرح عملی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ) اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں مگر ان کو علم رکھنے والے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں،(العنکبوت، 43)
یعنی، نصوص میں تدبر گہری سمجھ اور ان اقدار کے شعور کا متقاضی ہے جن کی طرف یہ ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ بنیادی اقدار کو تلاش کیا جائے اور کلی اور جزوی نصوص کے درمیان تعلق کو سمجھا جائے۔ یہ منہج قرآنی نصوص کے استحکام اور عملی زندگی کی حرکت پذیری کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے، جس کے نتیجے میں قرآنِ کریم ہر زمان و مکان میں قابلِ عمل مرجع بن جاتا ہے۔
قرآنِ کریم کے فہم میں درپیش سب سے اہم چیلنجز میں سے ایک یہ ہے کہ تفسیر یا تو تاریخی جمود کا شکار ہو جائے یا محدود عصری تشریح کے دھارے میں گم ہو جائے۔ تاریخی تفسیر نصوصِ قرآنی کو ایک مخصوص زمانی حالات کا مرہونِ منت سمجھتی ہے، جس کے نتیجے میں یہ ماضی کے دائرے میں مقید ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس، عصری تفسیر نصوص کو موجودہ دور کی ضروریات کے تابع کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس سے ان کی اصل شناخت کے مٹنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا بہترین حل ایک متوازن طریقہ کار میں مضمر ہے، جو قرآنی اقدار کو ایک مستحکم فریم ورک کے طور پر سمجھنے سے شروع ہوتا ہے، جس کے تحت عملی حالات کے متغیرات کے لیے لچک کو برقرار رکھتے ہوئے قرآنی نصوص کو حقیقت کےلیے رہنما بنایا جائے، بجائے اس کے کہ نصوص قرآن کو ان متغیر حالات کے تابع بنایا جائے۔ اس طریقے سے دین کی پائیداری اور نت نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت کو یقینی بنائی جا سکتا ہے۔
ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں ثابت اور متغیر کے درمیان تعلق تقابلی نہیں بلکہ تکمیلی ہے، جو نصوص کی حرکت پذیری کوقبول کرتا ہے۔ ثابت اور غیر متغیر وہ اعلیٰ اقدار ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوتیں، جبکہ متغیر وہ عملی اطلاقات ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ یہ تعلق اسلام کو اپنے مستحکم اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کی متغیرات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت عطا کرتا ہے، اور اسے ہر زمان و مکان کے لیے موزوں بناتا ہے۔یہ کیفیت مسلمانوں سے تقاضی کرتی ہے کہ وہ نصوص کی جزوی تشریحات سے آگے بڑھیں اور ان اقدار اور سنتوں کو اخذ کرنے پر توجہ دیں جو نصوص کو عصرِ حاضر کی تبدیلیوں کے ساتھ بہترین انداز میں چلنے کے قابل بناتی ہیں۔اسی تناظر میں، اسلامی خطاب کو مسلسل نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت بالکل عیاں ہو کر سامنے آتی ہے، جو قرآن کے نصوص کی گہری سمجھ کے ساتھ ہر دور کے ثقافتی اور سماجی تناظر کو مدنظر رکھے۔ یہ عمل اسلام کی عالمگیریت کو تقویت دینے، اسے ہر قسم کی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ بنانے، اور اس کی بنیاد و اصالت کو قائم رکھنے کا موجب ہے۔
آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآنی اقدار کا استحکام اور ان کے اطلاق کی حرکت پذیری تقدساور لچک کے درمیان توازن قائم کی بہترین مثال ہے۔ یہ قرآن کو انسانیت کے لیے ہمیشہ ایک دائمی ذریعہ ہدایت بناتا ہے۔ اس تکمیلی تصور کے ذریعے، اسلام ہر دور کی تبدیلیوں کے ساتھ سازگار ہو سکتا ہے، مسلمان الہی اصولوں سے اپنی وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کے تمام پہلوؤں کے ساتھ متحرک اور ہم آہنگ رہ سکتا ہے۔