| قرآنی مضامین | گمراہی کا راستہ: ایک عابد کا قصہ اور عبرت کی دعوت
گمراہی کا راستہ: ایک عابد کا قصہ اور عبرت کی دعوت
تحریر: الشیخ مقداد الربیعی
کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی رات کے وقت ایک ویران صحرا میں چل رہا تھا۔ جب تنہائی اور خوف کا احساس شدت اختیار کر گیا تو وہ ایک چٹان پر کھڑا ہوا اور زور سے آوازیں نکالنے لگا تاکہ قریبی بستی کے کتے بھوکنا شروع کرےاور اسے آس پاس جانداروں کی موجودگی کا احساس ہواور اس کی وحشت میں کمی آسکے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا، اس کی آواز سن کر ایک بھیڑیا اس کی طرف آگیا۔ یہ دیکھ کر وہ آدمی افسوس کرتے ہوئے پکارا: "اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میری آواز تمہیں لے آئے گی تو کبھی آواز نہ نکالتا "
یہ ان لوگوں کے لئے ایک بہترین مثال ہے کہ جو بھلائی کی تلاش میں برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ انسانی اعمال کے گہرے اثرات اور ان کے نتائج سے غفلت کی صورت میں پیش آنے والی نامطلوب حالت کی بہترین تصویر کشی ہے، خاص طور پر دین اور اقدار کے معاملات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان نیک نیتی سے کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن لاپرواہی یا جہالت کے سبب شیطانی جال میں پھنس جاتا ہے، جس کا نتیجہ اخلاقی زوال اور اپنے اقدار و اصولوں کے نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔مثال کے طور پر، ایک آفیسر اپنے شعبے میں پیداوار بڑھانے کا خواہاں ہوتا ہے، لیکن وہ اس کے حصول کے لئے اپنے ملازمین پر ظلم کرنے لگتا ہے۔ ایک اور شخص نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی کوشش کرتا ہے، مگر اسیا کرتے ہوئے وہ اپنے والدین کے ساتھ ادب کا خیال نہیں رکھتا۔ ایسی مثالیں بے شمار ہیں۔
شیطان کی چال ، گمراہی کا سفر:
اللہ تعالی نے شیطان کی چالوں سے انسان کو آگاہ کرنے کے لئے ارشاد فرمایا:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗوَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)، ۔
اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلنا اور جو شخص شیطان کے نقش قدم پر چلے گا تو وہ بے حیائی اور برائی کا حکم دے گا اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے ایک شخص بھی کبھی پاک نہ ہوتا مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے اور اللہ خوب سننے، جاننے والا ہے۔(النور: 21)
قرآن مجید نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ بندے کی اصل حالت یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی پناہ میں ہو، جو اسے شیطان سے محفوظ رکھتا اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ تاہم، بندہ بعض اوقات ایسے اعمال کر بیٹھتا ہے جو اس تحفظ اور پناہ کے ختم ہونے کا سبب بن جاتے ہی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ)
"جو میرے بندے ہیں ان پر یقینا تیری بالادستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔" (الحجر: 42)
ایک اور مقام پر فرمایا: (إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا)
میرے بندوں پر تیری کوئی بالادستی نہیں ہے اور آپ کا رب ہی ضمانت کے لیے کافی ہے۔(الأسراء: 65)
اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ولایت سے نکل کر شیطان کی ولایت میں داخل ہو جاتا ہے کا مطلب یہی ہے ۔ متعدد احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کچھ اعمال ایسے ہیں جو اس بات کا سبب بنتے ہیں، جیسے بہتان لگانا۔
جس طرح مفضل بن عمر سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: (من روى على مؤمن رواية يريد بها شينه وهدم مروءته ليسقط من أعين الناس أخرجه الله من ولايته إلى ولاية الشيطان فلا يقبله الشيطان)
جو شخص کسی مؤمن کے بارے میں ایسی بات روایت کرے جس سے اس کی بے عزتی، اور معاشرے میں اس کی وقار کو ختم کرنا مقصود ہو، تواللہ اسے اپنی ولایت سے نکال کر شیطان کی ولایت میں دے دیتا ہے ،اور شیطان بھی اسے قبول نہیں کرتا۔ (الکافي، ج2، ص358)
اور اسی طرح ارشاد رب العالمین ہے کہ: (تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)
اللہ کی قسم! آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف ہم نے (رسولوں کو) بھیجا لیکن شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے پس آج وہی ان لوگوں کا سرپرست ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔(النحل: 63)
اوپر ذکر شدہ باتوں سے بھی زیادہ واضح وہ روایت ہے جو ابن مسکان نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کی، کہ امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا:
(ما من عبد إلا وعليه أربعون جنة، حتى يعمل أربعين كبيرة، فإذا عمل أربعين كبيرة انكشفت عنه الجنن فتقول الملائكة من الحفظة الذين معه: يا ربنا هذا عبدك قد انكشفت عنه الجنن فيوحي الله عز وجل إليهم أن استروا عبدي بأجنحتكم، فتستره الملائكة بأجنحتها فما يدع شيئا من القبيح إلا قارفه حتى يتمدح إلى الناس بفعله القبيح، فتقول الملائكة: يا رب هذا عبدك ما يدع شيئا إلا ركبه، وإنا لنستحيي مما يصنع فيوحي الله إليهم أن ارفعوا أجنحتكم عنه، فإذا [فعل ذلك] أخذ في بغضنا أهل البيت فعند ذلك يهتك الله ستره في السماء ويستره في الأرض فتقول الملائكة: هذا عبدك قد بقي مهتوك الستر فيوحي الله إليهم: لو كان لي فيه حاجة ما أمرتكم أن ترفعوا أجنحتكم عنه)
کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جس پر چالیس پردے نہ ہوں، یہاں تک کہ وہ چالیس بڑے گناہ کر بیٹھے۔ جب وہ چالیس بڑے گناہ کر لیتا ہے تو اس کے یہ حفاظتی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ اس پر اس کے ساتھ رہنے والے محافظ فرشتے عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! یہ تیرا بندہ ہے، اس کے پردے ہٹ گئے ہیں۔ تو اللہ عز و جل انہیں وحی کرتا ہے: اپنے پروں سے میرے بندے کو چھپاؤ۔ تب فرشتے اپنے پروں سے اسے چھپاتے ہیں۔ لیکن وہ کسی برائی کو نہیں چھوڑتا مگر یہ کہ اسے انجام دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے برے اعمال پر لوگوں کے سامنے فخر کرنے لگتا ہے۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں: اے رب! یہ تیرا بندہ ہے جو کسی برائی کو نہیں چھوڑتا، اور ہم اس کے اعمال سے شرم محسوس کرتے ہیں۔ تو اللہ انہیں وحی کرتا ہے: اپنے پروں کو اس سے ہٹا لو ،تب فرشتے اپنے پروں کو ہٹا دیتے ہیں،
پھر وہ شخص ایسا کرنے لگتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) سے دشمنی اختیار کرلیتا ہے۔ اس وقت اللہ اس کا آسمانی پردہ ہٹا دیتا ہے لیکن زمین پر اسے ڈھانپے رکھتا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں:یا رب: یہ تیرا بندہ ہے، جس کا پردہ ہٹ گیا ہے۔ تو اللہ انہیں وحی کرتا ہے: اگر مجھے اس سے کوئی سرو اکر ہوتی تو میں تمہیں اس سے اپنے پروں کو ہٹانے کا کیوں دیتا ؟ علل الشرائع، جلد 2، صفحہ219
یہ بات واضح ہوئی کہ شیطان کے کچھ قدم ایسے ہیں جن کے ذریعے وہ مؤمنین کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، وہ اقدامات کیا ہیں ؟۔
اللہ تعالیٰ نے ان اقدامات کو یوں بیان فرمایا:( وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا). (النساء: 119-121)
"اور یقیناً میں انہیں گمراہ کروں گا، اور انہیں امیدیں دلاؤں گا، اور انہیں حکم دوں گا تو وہ جانوروں کے کان کاٹیں گے، اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی تخلیق کو بدل دیں گے، اور جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا ولی بنائے گا تو وہ کھلے نقصان میں پڑ گیا۔ النساء: 119-121
پہلا قدم، فکری گمراہی:
شیطان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان کو صحیح عقیدہ اور سلیم فکر سے دور کر دے۔ وہ گناہوں کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اور انہیں ایک معمولی یا فطری عمل کے طور پر دکھاتا ہے۔مثال کے طور پر بعض خواتین کے پردہ چھوڑنے کے عمل کو دیکھ لیں، جبکہ پردہ دین میں واجب قرار دیا گیا ہے، لیکن وہ مختلف بہانے بناتے ہوئے اس کا انکار کرتی ہیں۔ یہ بہانے ایسے نظریات پر مبنی ہوتے ہیں جو دینی تعلیمات سے میل نہیں کھاتے ۔یہی گمراہی کا پہلا قدم ہے، جہاں سے انسان حق سے دور ہو کر انحراف کے راستے پر چل پڑتا ہے۔
دوسرا قدم، جھوٹی امیدیں:
شیطان انسان کے لیے جھوٹی امیدوں اور خیالی اہداف، کہ جن کا انسان کے غرض خلقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتاـ کی دنیا دکھاتا ہے، جبکہ انسان کی تخلیق کے اصل مقصد یعنی اخلاقی فضائل اپنانے سے پورے ہو سکتے ہیں۔ اور چونکہ یہ جھوٹی امیدیں پہلی فکری گمراہی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہیں، اس لئے انسان ان خیالی خواہشات کو اپنے اعمال کے لیے جواز بنا لیتا ہے۔مثال کے طور پر، آزاد خیالی کے جھوٹے نعروں یا عارضی خوشیوں کے پیچھے دوڑنا، جن کی قیمت اصولوں اور اقدار سے ہاتھ اٹھانا ہو وہ بالآخر اخلاقی اور سماجی زوال کا سبب بنتی ہیں۔
تیسرا قدم: مکمل غلامی
جب شیطان انسان کے دل و دماغ پر قابض ہو جاتا ہے، تو انسان اس کا مطیع اور فرمانبردار بن جاتا ہے۔ اس مقام پر وہ ایسے اعمال اور قوانین بناتا ہے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ)
اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرو؟ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ۔(یس 60)
برصیصا عابد کی کہانی اس سلسلے کی بہترین مثال ہے، جو اپنے زمانے کے سب سے زیادہ عبادت گزار لوگوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن شیطان نے تدریجی انداز کے ذریعے اس کے دل میں جگہ بنا لی۔ شیطان نے پہلے اسے چھوٹے گناہوں کی طرف مائل کیا اور پھر اسے بڑے گناہوں میں مبتلا کر دیا۔ یوں اس عابد کا انجام ان سب کے لیے عبرت بن گیا جو شیطان کےچالوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ، بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا جس کا نام برصیصا تھا۔ وہ طویل عرصے تک اللہ کی عبادت کرتا رہا، یہاں تک کہ لوگ پاگلوں کو اس کے پاس لے آتے تاکہ وہ انہیں دم کرے، اور وہ اس کے ہاتھ سے شفایاب ہو جاتے۔ ایک دن اس کے پاس ایک معزز خاندان کی عورت لائی گئی جو پاگل ہو چکی تھی۔ اس کے بھائی اسے برصیصا کے پاس چھوڑ گئے۔ شیطان مسلسل اس کے دل میں وسوسے ڈالتا رہا اور برائی کو اس کے لیے مزین کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ اس عورت کے ساتھ زنا کر بیٹھا اور وہ حاملہ ہو گئی۔جب اس کا حمل ظاہر ہو گیا، تو برصیصا نے اسے قتل کر کے دفن کر دیا۔ شیطان پھر اس کے ایک بھائی کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ عابد نے یہ جرم کیا ہے اور اسے کہاں دفن کیا ہے۔ پھر شیطان اس کے باقی بھائیوں کے پاس گیا اور یہی بات کہی۔ بھائیوں نے آپس میں بات اور کہا: "خدا کی قسم، میرے پاس کوئی آیا جس نے ایسی بات بتائی جو مجھے بہت گراں گزری۔" یہ بات آپس میں ایک دوسرے سے کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے بادشاہ تک پہنچ گئی۔ بادشاہ اپنی رعایا کے ساتھ اس کے پاس آیا اور اسے گھاٹی سے نیچے اتار لیا۔ اس نے اپنے کئے کا اعتراف کر لیا، تو بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے سولی پر چڑھا دیا جائے۔
جب اسے سولی پر چڑھایا گیا تو شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوا اور کہا: "میں وہی ہوں جس نے تجھے اس حال تک پہنچایا۔ کیا تو میری بات مانے گا اگر میں تجھے اس مصیبت سے نجات دوں؟" اس نے کہا: "ہاں۔" شیطان نے کہا: "تو مجھے ایک سجدہ کر لے۔" اس نے کہا: "میں اس حالت میں کیسے تجھے سجدہ کروں؟" شیطان نے کہا: "مجھے اشارہ کرنے سے بھی کام چل جائے گا۔" چنانچہ اس نے شیطان کو سجدے کا اشارہ کیا، اور یوں وہ خدا کا منکر ہو گیا، اور قتل کر دیا گیا".( بحار الأنوار، ج ١٤، الصفحة ٤٨٦)