| قرآنی مضامین | قرآنی مفاہیم: برائی عام اورنیکی خاص
قرآنی مفاہیم: برائی عام اورنیکی خاص
شیخ مقداد الربيعي:
لوگوں میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ: " برائی عام اورنیکی خاص "۔ یہ بات صرف ایک نظریہ تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا عملی اطلاق بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات کسی ادارے کا مسؤل یا ذمہ دار شخص یہ سوچتے ہوئے اپنے ماتحت لوگوں میں سے چند افراد کی غلطیوں کی وجہ سے اجتماعی طور پر سب کو سزا دیتا ہے، کہ اس میں کوئی بھلائی ہے۔ وہ اپنی اس کارروائی کی justification کے لیے اس مثل کا حوالہ دیتا ہے: " برائی عام اورنیکی خاص "۔
لیکن اگر ہم اس کہاوت کو شریعت کے ترازو پر رکھیں تو ہمیں یہ بات واضح طور پر شریعت کے مخالف نظر آتی ہے۔ جہاں تک شر کا تعلق ہے، یہ صرف اس کے فاعل تک محدود ہے اور اس کی عقوبت میں دوسرے شامل نہیں ہوسکتے۔ اس کے شواہد قرآن میں بکثرت موجود ہیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: )مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيد( (سورة فصلت: 46)۔ ترجمہ: " جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہی کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے خود اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور آپ کا رب تو بندوں پر قطعاً ظلم کرنے والا نہیں ہے۔"اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ) لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى( (سورة الأنعام: 164)۔ ترجمہ: " اور ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمے دار ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس برائی کے ساتھ کسی کا تعلق نہ ہو، اس برائی کی وجہ سے اسے سزا نہیں دی جائے گی، بلکہ سزا صرف برائی کا رتکاب کرنے والے کے ساتھ مختص ہے۔
جبکہ بھلائی یا نیکی کی جہاں تک بات ہے، تو بہت سارے نصوص میں یہ ثابت ہے کہ کسی کے نیک اعمال کا اثر دوسروں تک بھی پہنچتا ہے۔یہ تشیع اور اہل سنت دونوں فریقین کے نصوص میں آیا ہے کہ کسی معاشرے کے بعض لوگوں کے نیک اعمال کی وجہ سے دوسروں کی دنیوی سزائیں معاف ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ اصول کافی کے باب 'إن الله يدفع بالعامل عن غير العامل' میں علی بن ابراہیم سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جسے انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے علی بن معبد سے، انہوں نے عبداللہ بن قاسم سے، انہوں نے یونس بن ظبیان سے اور انہوں نے حضرت ابوعبداللہ امام جعفر الصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:" إن الله يدفع بمن يصلي من شيعتنا عمن لا يصلي من شيعتنا ولو أجمعوا على ترك الصلاة لهلكوا، وإن الله ليدفع بمن يحج من شيعتنا عمن لا يحج من شيعتنا ولو أجمعوا على ترك الحج لهلكوا وهو قول الله عز وجل: (ولو لا دفع الله الناس بعضهم ببعض لفسدت الأرض ولكن الله ذو فضل على العالمين) فوالله ما نزلت إلا فيكم ولا عنى بها غيرك " ترجمہ: " بیشک اللہ ہمارے شیعوں میں سے جو نماز پڑھتے ہیں، ان کی برکت سے ہمارے ان شیعوں سے بھی بلائیں دور کرتا ہے جو نماز نہیں پڑھتے، اور اگر وہ سب نماز چھوڑ دیں تو ہلاک ہو جائیں۔ اسی طرح، اللہ ہمارے شیعوں میں سے جو حج کرتے ہیں، ان کی برکت سے ہمارے ان شیعوں کی مدد کرتا ہے جو حج نہیں کرتے، اور اگر وہ سب حج چھوڑ دیں تو ہلاک ہو جائیں۔ یہ اللہ کا فرمان ہے:" اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین میں فساد برپا ہو جاتا، لیکن اہل عالم پر اللہ کا بڑا فضل ہے"۔پس! اللہ کی قسم! یہ آیت صرف تمہارے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس سے مراد تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔
شیخ محمد صالح المازندرانی اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کہ یہاں اس روایت(إن الله ليدفع بمن يصلي من شيعتنا عمن لا يصلي من شيعتنا ولو أجمعوا على ترك الصلاة لهلكوا- إلى آخره) میں "ہلاکت" سے مراد دنیاوی ہلاکت ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ نیک لوگوں کی موجودگی بُرے لوگوں کے بچاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ دفع اور ہلاکت صرف مذکورہ واجبات کے انجام دینے یا ترک کرنے کے ساتھ خاص نہ ہوں، اور ممکن ہے کہ 'فواللہ! یہ آیت صرف تمہارے بارے میں نازل ہوئی ہے' کے الفاظ کا مطلب یہ ہو کہ بنیادی طور پر یہ نازل شدہ آیت تمہارے لیے ہے اور تم ہی اس کے اصل مقصود ہو، مگر اس کا عمومی مفہوم دوسرے لوگوں کے لیے بھی شامل ہو سکتا ہے۔(شرح اصول کافی جلد 10، ص 200)
پس! اس حدیث کے مطابق بعض لوگوں کے نیک اعمال دوسرے لوگوں کی بھی کچھ دنیوی سزائیں معاف ہونے کا باعث بن سکتے ہیں،( لیکن اخروی سزاؤں کی معافی کا باعث نہیں۔) پس نیکی دوسروں کو بھی فائدہ دیتی ہے۔
اگر آپ کہیں: اسی طرح کچھ نصوص ہیں جو اس بات(برائی عام اور نیکی خاص) کی تائید کرتی ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان :)وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً" (( سورة الأنفال: 25)۔ اور اس فتنے سے بچو جس کی لپیٹ میں تم میں سے صرف ظلم کرنے والے نہیں بلکہ (سب) آئیں گے۔
ہم جواب دیں گے: اس آیت میں دو مختلف قرائتیں ہیں۔ پہلی قرائت میں (لتصيبن) "لام" کا استعمال قسم کے لیے ہے، جو امام زین العابدین اور امام محمد باقر علیہما السلام کی تفسیر ہے، نیز زید بن ثابت، ربیع بن انس اور ابو العالیہ کی قرائت بھی یہی ہے جیسا کہ تفسیر مجمع البيان میں ذکر ہے۔ اس صورت میں " واتقوا فتنة " کا مطلب ہوگا: "قسم ہے! یہ عذاب تم میں سے ظالموں کے علاوہ کسی کو نہ ملے گا"۔پس! یہ سزا ظالموں سے مخصوص ہوگی ، عام نہیں۔
دوسری قرائت میں "لا" ناہیہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنے اور عذاب صرف ظالموں تک محدود نہیں ہیں۔ یہاں ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے، لیکن اگر ہم جانیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کر رہے تھے، تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سب ہی گنہگار ہیں، اور یوں سب کو سزا ملنے کا مستحق قرار دیا جائے گا۔پس اشکال دور ہوتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں، اگر ایک گروہ نےگناہوں کا ارتکاب کیا اور باقی لوگ، جو گنہگار نہیں تھے، ان کو منکر سے روکے بغیر بیٹھے رہے تو سب کے سب گنہگار ہو جاتے ہیں۔ پہلا گروہ اپنے گناہوں کی وجہ سے، جبکہ دوسرے لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دینے کی وجہ سےگناہ گار ہوئے۔
پس اس صورت میں سزا میں سب کی شمولیت کسی فرد کے فعل کی سزا دوسرے پر عائد کئے جانے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ انہوں نے ایک واجب کو ترک کرکےایک حکم کی نافرمانی کی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سزا صرف ان پر عائد کی جائے جو اس کے مستحق ہیں، اور دوسروں کو اس کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ جبکہ رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ خیر اور برکت کا دائرہ وسیع ہو، یہاں تک کہ غیر مستحقین بھی اس میں شامل ہوں۔پس یہ چیز اس بات کے خلاف ہے جو لوگوں میں مشہور ہے(برائی عام اور نیکی خاص ہے)۔ بلکہ ممکن ہے یہ بات اُن دینی اصولوں کے بھی خلاف ہو کہ جن کی بنیاد پر شریعت قائم ہے۔