24 جمادي الثاني 1447 هـ   15 دسمبر 2025 عيسوى 8:34 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-12-11   32

بعض نوجوانوں میں دینداری کیوں کم ہو رہی ہے؟ وجوہات اور حل

شیخ مصطفیٰ الہجری

مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے بڑھتے ہوئے رابطے کے ساتھ آج ہمارے نوجوان اپنی مذہبی شناخت کے حوالے سے ایک نہایت اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول دین دراصل ایک زندگی کا نظریہ ہے، یعنی عقائد کا وہ مجموعہ جس پر انسان کا طرزِ عمل قائم ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دین صرف عبادت اور رسومات کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل راستہ اور رہنمائی ہے جو انسان کی پوری زندگی کا رخ متعین کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

کہہ دیجئے کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔(الأنعام: 162)

یہ آیت دین کی اصل روح کو واضح کرتی ہے کہ انسان کی زندگی کا ہر پہلو خواہ عبادت ہو یا معاملات، زندگی ہو یا موت اللہ سے جڑا ہو اور اسی کی رضا کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو مسلمان کی شناخت اور اس کی بنیاد بنایا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ

بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے" اور فرمایا:

﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا ۔ پس اسلام کا مطلب اللہ تعالی  کی وحدانیت کو دل سے مان کر اس کے آگے جھک جانا، اس کی اطاعت کرنا، اور شرک و اہلِ شرک سے براءت اختیار کرنا ہے۔ یہی دین وہ نظام ہے جو امت کے وجود اور اس کی شناخت کو محفوظ رکھتا ہے اور دوسری قوموں کے درمیان اسے ایک منفرد حیثیت عطا کرتا ہے۔انسانی شناخت اور دینی شعور کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب قرآنِ کریم اور اہلِ بیتؑ کی ہدایات کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، جیسا کہ حدیثِ ثقلین میں اس کی تصریح کی گئی ہے جو تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک معتبر ہے۔

آج کے نوجوان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر وقت موبائل میں مصروف رہتا ہے اور بغیر کسی احتیاط کے انٹرنیٹ کی دنیا میں کھو جاتا ہے، اس حال میں کہ اسے حق اور باطل میں تمیز کرنے کی طاقت بھی نہیں ہوتی۔ ڈیجٹل آزادی کے اس دور میں معلومات، شبہات اور نظریات کی یلغار مسلسل جاری ہے۔ افکار اور رجحانات باہم ٹکراتے ہیں، اور وہ نوجوان جس کے پاس درست دینی علم اور تنقیدی فکر کی صلاحیت نہ ہو، بہت جلد گمراہی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ایک اور اہم  مسئلہ رول ماڈل کی کمی ہے۔آج کے دور میں وقتی شہرت رکھنے والے فنکاروں اور شوبز سے وابستہ شخصیات کا غلبہ ہے ، جبکہ علماء، مفکرین اور صالح لوگوں کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:  العلم وراثة كريمة، والآداب حلل مجدِّدة، والفكر مرآة صافية( نهج البلاغة: 3/4)

علم ایک باوقار وراثت ہے، اور تہذیب وہ زیور ہے جو عزت کو تازہ رکھتا ہے، اور فکر ایک شفاف آئینہ ہے۔

اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقی میراث علم، اخلاق اور فکر ہے، جو نسل در نسل منتقل ہونی چاہیے، نہ کہ سطحی اور گمراہ کن ثقافتوں کی اندھی تقلید۔

اسی طرح آج کے دور میں  الحاد اور لا دینیت کی بڑھتی ہوئی لہریں بھی ایک سنجیدہ چیلنج ہیں۔ یہ رجحانات عموماً کسی گہرے علمی مطالعے یا مضبوط عقلی بنیاد سے پیدا نہیں ہوتے، بلکہ زیادہ تر نفسیاتی مسائل، منفی سماجی تجربات، میڈیا کے مسلط کردہ فکری رجحانات، اور خود نوجوانوں میں دینی تعلیم و تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ یہی عوامل اُن کے ذہنی و جذباتی خلاؤں کو بڑھاتے ہیں جن میں الحادی افکار آسانی سے جگہ بنا لیتے ہیں۔

دینی شناخت کا زوال: انتہاپسندی اور  بے راہ روی

جب نوجوانوں کی دینی شناخت کمزور پڑ جاتی ہے تو اس کے دو خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں:

پہلا:  انتہاپسندی

یہ دراصل خوف یا جہالت پر مبنی ردِّ عمل ہوتا ہے۔ اس میں دین کو نہایت تنگ دائرے میں سمجھا جاتا ہے، دوسروں کو قبول کرنے کا ظرف نہیں ہوتا اور لوگوں کے بارے میں جلدباز اور سخت فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ ایسی نوعیت کی دینداری میں رحمت اور حکمت کی خوشبو نہیں ہوتی اور یہ اُس حقیقی دین سے دور جاگرتی ہے جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔

دوسرا:  بے راہ روی

یہ ایسی کیفیت ہے جس میں انسان ہر طرح کی حدود اور اقدار سے آزاد ہوکر جینے لگتا ہے۔ اس کا اظہار دین کے معاملے میں بے پروائی، بغیر سوچے سمجھے اجنبی اقدار کو اپنانے، باطنی انتشار اور گہرے احساسِ بے تعلقی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ایسے نوجوان بظاہر اسلامی نام تو رکھتے ہیں، لیکن اندر سے روحانی خلا اور معنوی خالی پن کا شکار ہوتے ہیں۔اور یہ دونوں انتہائیں انتہاپسندی اور بے راہ روی درحقیقت صحیح دینی شعور کے فقدان کا براہِ راست نتیجہ ہیں؛ وہ شعور جو گہری سمجھ بوجھ اور متوازن عملی رویّے کو ایک ساتھ جمع کرتا ہے۔

حقیقی دینی شعور:

 حقیقی دینی شعور صرف چند ظاہری اعمال کا نام نہیں، بلکہ گہری سمجھ اور فکری شعور کا نام ہے۔ اس کی چند بنیادی خصوصیات ہیں:

۱ـعقلیت (عقل پر مبنی دین فہمی)

یہ طرزِ فکر دلیل پر ایمان رکھتا ہے، اندھی تقلید پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  ﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا

یعنی کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے، یا اُن کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟ اس آیت میں مؤمنین کو تدبر، تفکر اور گہری سمجھ بوجھ کی دعوت دی گئی ہے۔

۲ـ اعتدال (میانہ روی)

ایسا رویہ جو غلو (انتہاپسندی) اور انفلات (بے راہ روی) دونوں کو مسترد کرتا ہے۔ دینِ اسلام دراصل توازن اور وسطیت کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا

یعنی ہم نے تمہیں ایک درمیانی (متوازن) امت بنایا۔

۳ عملی اخلاق

اخلاق کا حقیقی اظہار روزمرہ کے کردار اور معاملات میں ہوتا ہے، نہ کہ صرف باتوں میں۔ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ (رحم الله عبداً حبَّبنا إلى الناس ولم يُبغِّضنا إليهم) الكافي: (ج8، ص229)

خدا اُس بندے پر رحم کرے جو لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کرے، اور ہمیں اُن کے نزدیک مبغوض نہ بنائے ۔

اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ حسنِ اخلاق دین کا سب سے مؤثر عمل ہے، اور سب سے مؤثر طریقہ یہی ہے کہ انسان اپنے طرزِ عمل سے دین کو محبوب بنا دے۔

گفتگو اور بقائے باہمی:

اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ حکمت اور نرم نصیحت کے ذریعے معاملہ کرنا، اس طرح کہ بنیادی دینی اصولوں اور ثوابت سے کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔

مواجهے کی صلاحیت: شبہات کا سامنا علم اور مضبوط دلیل کے ساتھ کرنا، نہ کہ ان سے بھاگ جانا یا انہیں نظر انداز کر دینا۔ ہمارے نوجوانوں کی دینی شناخت کو محفوظ رکھنے اور ان کے ایمانی تماسك کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم متعدد جہتوں پر کام کریں، جن میں سے :

دینی خطاب میں بہتری:

ایسا خطاب تیار کیا جائے جو نوجوان کے ذہن و عقل سے اس کی اپنی زبان میں بات کرے، اس کے سوالات کا جواب دے اور اس کی ذہانت و فہم کا احترام کرے۔

حقیقی رول ماڈلز کی فراہمی: اخلاق، علم اور التزام میں ایسے حقیقی نمونے فراہم کیے جائیں، کیونکہ عملی قدوہ (رول ماڈل) اقدار کو دلوں میں بٹھانے کا سب سے تیز اور مؤثر ذریعہ ہے۔

حمایتی ماحول کی تشکیل: ایسی سرگرمیوں، نشستوں، سیمیناروں اور مکالمہ جاتی گروہوں کے ذریعے، جو نوجوان کو احساسِ وابستگی اور ساتھ ہونے کا شعور دیں۔

تنقیدی سوچ کی پرورش: کیونکہ مضبوط شناخت خوف کی وجہ سے سوال کو دبانے پر نہیں، بلکہ سچائی کی جستجو اور تحقیق کی صلاحیت پر استوار ہوتی ہے۔

دین کو زندگی سے جوڑنا: تاکہ دین، برتری اور کمال کے لیے محرّک، عمل کے لیے انگیزہ اور اخلاق کے لیے مضبوط فریم مہیا کرے، نہ کہ صرف ایسی رسومات بن کر رہ جائے جو عملی زندگی اور حقیقت سے کٹی ہوئی ہوں۔بے شک نوجوانوں کی دینی شناخت کی حفاظت صرف ایک تعلیمی عمل نہیں، بلکہ ایک انسانی، اخلاقی اور تہذیبی منصوبہ ہے۔ اس کا آغاز فرد سے ہوتا ہے، خاندان میں مضبوط ہوتا ہے اور یونیورسٹی اور معاشرے میں اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔ اگر ہمارے نوجوان متوازن، باوقار اور باشعور دینی شناخت کے حامل ہوں تو ہم ایک ایسی نسل دیکھیں گے جو تعمیر کرے گی، توڑ پھوڑ نہیں کرے گی، آگے بڑھے گی، پیچھے نہیں ہٹے گی؛ ایسی نسل جو آسمانی اقدار کو اپنی سرزمین اور اپنے وطن تک لے کر آئے گی۔اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا اور یہی راستہ ہے کہ جس کے ذریعے دین اور شناخت، دونوں کو ایک ساتھ محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018