24 جمادي الثاني 1447 هـ   15 دسمبر 2025 عيسوى 8:34 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-12-08   86

اسلام غیر مسلموں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے؟

شیخ مصطفیٰ الہجری

مذاہب کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ اکثر مذاہب نے اپنے پیروکاروں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ سخت اور متعصب رویہ اختیار کیا۔ اُنہیں کافر اور منحرف قرار دے کر ان کے قتل، جبر اور ظلم کو جائز سمجھا گیا، بلکہ بعض مذہبی روایتوں میں اس عمل کو خدا کے قرب کا ذریعہ بھی تصور کیا گیا۔اس تاریخی پس منظر میں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ:اسلام اس رویے سے کس طرح مختلف ہے؟

یہاں ہماری مراد اُس اسلام سے ہے جو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش کیا، نہ کہ وہ عملی صورتیں جو بعد کے ادوار میں وجود میں آئیں۔ ممکن ہے کہ یہ بعد کی صورتیں اسلام کی اصل تعلیمات سے ماخوذ نہ ہوں بلکہ ذاتی خواہشات، سیاسی مفادات یا فکری غلط فہمیوں کا نتیجہ ہوں۔اسلام میں "کافر" کے بارے میں موقف شخصی شناخت یا محض مذہبی وابستگی پر مبنی نہیں بلکہ اس کے طرزِ عمل اور رویے سے متعلق ہے۔ قرآن اُن لوگوں میں واضح فرق کرتا ہے جو اسلام کے خلاف دشمنی، جنگ اور فساد پر اُتر آتے ہیں، اور اُن لوگوں میں جو مسلمانوں کے ساتھ امن، سکون اور باہمی احترام کے ساتھ رہتے ہیں۔

قرآن غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کے لیے واضح اصول مقرر کرتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

﴿ لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنة: 8)

جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ معاملات میں بنیادی اصول بھلائی اور انصاف  ہیں   دشمنی اور نفرت نہیں ہیں۔ اسلام میں کفر کا مفہوم عقیدے سے متعلق ہے، نہ کہ نسل یا قوم سے۔ قرآن مذہبی آزادی کے اصول پر زور دیتا ہے:

﴿ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة: 256) ﴿ وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الكهف: 29)

دین میں کوئی جبر نہیں ہے اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے،

قرآن کریم  کی بہت سے  آیات حکمت اور بہترین انداز میں گفتگو کی دعوت دیتی ہیں، جیسا کہ فرمایا:

﴿ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (العنكبوت: 46)

یعنی اہلِ کتاب کے ساتھ بحث نہ کرو مگر بہترین اور شائستہ طریقے سے۔

لہٰذا جنگ کی آیات ان لوگوں کے لیے مخصوص ہیں جو اسلام کے خلاف دشمنی کا موقف اختیار کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس وجودی خطرے کے خاتمے کی طرف اشارہ کیا، جو اسلام کو درپیش تھا اور جس کا خاتمہ ہجرت کے دسویں برس کے قریب ہوگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 (الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ) المائدة: 3

آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔

لہٰذا قرآن کریم  پر غیر مسلموں کے خلاف نفرت پھیلانے کا الزام عائد کرنا دراصل اس کی واضح تعلیمات سے چشم پوشی کرنا ہے۔ یہ الزام ایک جزوی، سطحی اور انتخابی مطالعے پر مبنی ہے، جو اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ اسے اس کے مکمل سیاق میں سمجھا جائے، جس کی بنیاد انصاف، رواداری اور عقیدے کی آزادی پر قائم ہے۔قرآنِ کریم میں عدل، رواداری اور مذہبی آزادی جیسے اصول نہ صرف موجود ہیں بلکہ صاف اور نمایاں طور پر بیان کیے گئے ہیں۔

اسی پس منظر میں معروف امریکی مصنف "بل وارنر" کا تعصب بھی آشکار ہوتا ہے، جسے اسلام دشمنی کے لیے جانا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

"اگر آپ بدھ مت کی مقدس کتاب پڑھیں تو اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ’بدھ مت کے پیروکار کیسے بنیں، نہ کہ غیر بدھ مت والوں کی مذمت کیسے کریں۔ اس کے برعکس قرآن غیر مسلموں کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا ہے، کیونکہ قرآن اور سیرت کا 51% حصہ اس بارے میں ہے کہ کافر کے ساتھ کیا کیا جائے۔ لہٰذا اسلام کو ایک مذہب کہنا درست نہیں، بلکہ وہ ایک سیاسی تنظیم ہے۔"اس طرح کے بیانات، قرآن اور اسلام کے بارے میں تعصب، لاعلمی اور مسخ شدہ فہم کی نمُود ہیں، جو مذہب کی اصل روح کے برعکس ہیں اور اسلام کے ہمہ گیر پیغامِ عدل و امن کو نظرانداز کرتے ہیں۔

ہر صاحب فہم  شخص کے لیے یہ واضح ہے کہ وارنر کی پیش کردہ یہ شماریاتی دعویٰ محض گمراہ کن ہے، کیونکہ وہ صرف اُن آیات کو منتخب کرتا ہے جن میں لفظ "کافر"آیا ہے، اور ان ایات کے سیاق و سباق کو بھی نہیں دیکھتے۔ قرآن کریم کافروں کا ذکر مختلف پہلوؤں سے کرتا ہے، جن میں ایمان کی دعوت، ظلم سے خبردار کرنا، اور آخرت میں ان کے انجام کا بیان شامل ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام اُن کے خلاف دشمنی پر مبنی ہے، بلکہ یہ مذہبی متن کی وہ فطری خصوصیت ہے جو ایمان اور کفر کے نتائج کو واضح کرتی ہے، جیسا کہ تمام مذاہب کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ اسلام کو صرف ایک سیاسی نظام قرار دینا اس حقیقت کو نظرانداز کرنا ہے کہ اسلام ایک جامع دین ہے جو روحانی، اخلاقی، سماجی اور قانونی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہےنہ یہ کہ یہ  محض حکومتی منصوبہ ہے۔ اسلام دین اور زندگی کو الگ نہیں کرتا بلکہ اصول وضع کرتا ہے جو فرد اور معاشرے کی زندگی کو منظم کرتے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام  صرف ایک سیاسی نظریہ نہیں ہے۔

اگر اسلام واقعی صرف ایک سیاسی نطام ہوتا، تو پھر ہم اس حقیقت کی کیا توجیہ پیش کریں کہ لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جو کسی بھی سیاسی نظام  کا حصہ نہیں، اور اپنے معاشروں میں ایک پرامن فرد کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے ہیں؟ اور یہ دین کس طرح ۱۴۰۰ سال سے زیادہ عرصے تک ایک روحانی عقیدہ بن کر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائے رہا؟

اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام  دیگر مذاہب کی طرح  زندگی کے معاملات کے لیے اصول پیش کرتا ہے، لیکن اسے محض اقتدار کا آلہ سمجھ لینا اسلامی  تعلیمات کا سراسر غلط فہمی اور سطحی تجزیہ ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018