

کفار سے دوستی: قرآن مجید کی پیشگوئی اور مسلمانوں کی موجودہ صورتحال
الشيخ مقداد الربيعي
علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ اپنے تفسیر (الميزان فی تفسیر القرآن )میں ایک اہم اصول بیان فرماتے ہیں کہ: قرآنِ کریم جن باتوں پر بار بار زور دیتا ہے، جو پہلی نظر میں بظاہر معمولی بھی لگتی ہیں، دراصل وہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ امور مستقبل میں یقیناً پیش آنے والے ہیں۔ اس لیے قرآن کا یہ بار بار تأکید کرنا محض تکرار نہیں، بلکہ ایک پیشگی الٰہی تنبیہ ہے کہ آئندہ زمانوں میں یہ باتیں لازماً واقع ہوں گی۔
اس اصول کی واضح مثالیں ہمیں کئی مواقع پر ملتی ہیں کہ :قرآن نے اہلِ بیت علیہم السلام کی محبت پر اس وقت زور دیا جب پوری امت ان کی تعظیم و تکریم کرتی تھی لیکن بعد کے حالات نے اس تاکید کی حکمت کو ظاہر کردیا، جب اہلِ بیتؑ پر ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ اسی طرح قرآن کریم نے مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے خبردار کیا، باوجود اس کے کہ اُس دور میں مسلمان انتہائی مضبوط وحدت اور اخوت میں جڑے ہوئے تھے پھر تاریخ نے دیکھا کہ وہ تین تہتّر فرقوں میں بٹ گئے، بلکہ بکھراؤ کے اعتبار سے انہوں نے یہود و نصاریٰ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلہ کرنے، سرکشی و طغیان، طبقاتی تفاوت پیدا کرنے،اور خواہشاتِ نفس کی پیروی سے سختی سے روکا گیا تھا؛ اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ یہی تمام خرابیاں بعد میں امت میں پیدا ہوئیں۔
غیر مسلموں کی دوستی سے منع کرنے میں قرآنی سختی:
ان نمایاں ترین امور میں سے ایک جن کے بارے میں قرآن نے بار بار اور نہایت سختی کے ساتھ خبردار کیا ہے، وہ ہے کافروں اور اہلِ کتاب سے دوستی و ولایت اختیار کرنا۔ بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں کہ اس ممانعت میں جو شدت پائی جاتی ہے، وہ دوسرے تمام فروعی احکام کی ممانعت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جو اہلِ کتاب یا کفار کی دوستی اختیار کرے، ان ہی میں سے شمار کیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾
"اور تم میں سے جو شخص اُن کی دوستی اختیار کرے گا، وہ انہی میں سے ہے"۔
اور اللہ نے ایسے شخص کا اپنے سے کوئی تعلق نہ ہونے کا اعلان فرمایا:
﴿وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِي شَيْءٍ﴾
"اور جو شخص ایسا کرے، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں" (آلِ عمران: 28)
اسی طرح نہایت شدید انداز میں متعدد بار تنبیہ فرمائی:
﴿وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ﴾
"اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے" (آلِ عمران: 28-30)
اور علامہ طباطبائی رح کے ذکر کردہ اصول کی روشنی میں ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بات مستقبل میں لازماً واقع ہونے والی ہے، اسے ٹالنے والا یا بدلنے والا کوئی نہیں۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کافروں کی موالات (دوستی) سے کیا مراد ہے؟
آسمانی شریعتوں کو درپیش خطرات
جب اہلِ ایمان کو یہ اندیشہ تھا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لے کر، یا مسلمانوں کو اذیتوں اور جنگوں کے ذریعے صفحۂ ہستی سے مٹا کر ، کہیں ان کا دین ختم نہ کردیا جائے ، تو اس موقع پر قرآن کریم نے انہیں اطمینان عطا فرمایا۔ ہجرت کے دسویں سال جب مسلمانوں کی قوت راسخ ہو گئی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ المائدة: 3
"آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے، پس اب ان سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور اسلام کو تمہارے لیے ہمیشہ کے لیے پسند فرما لیا۔"
لیکن اس اطمینان کے باوجود خطرہ مکمل طور پر رخصت نہیں ہوا، کیونکہ آسمانی شریعتوں کو ہمیشہ دو قسم کے خطرات کا سامنا رہا ہے:
پہلا خطرہ: دین کو مٹانے کا وجودی خطرہ۔
یہ وہ خطرہ ہے جو اصلِ دین پر حملہ آور ہوتا ہے ، جیسےمنکرین کی کوشش کہ دین کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ یہی خطرہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں موجود تھا۔ آیتِ اکمالِ دین کے نزول کے ساتھ یہ خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا۔
دوسرا خطرہ: غلط تاویلات و باطل تفاسیر
یہ وہ خطرہ ہے جو دین کی شکل بگاڑ دیتا ہے، اس کی حقیقت کو مسخ کرتا ہے، اور شریعت کو سیدھے راستے سے ہٹاتا ہے۔اسی سبب ائمۂ معصومینؑ کی پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ دین کی حفاظت کریں، اور اس میں پیدا ہونے والے ہر انحراف اور ہر گمراہی کو جڑ سے کاٹ دیں۔
شیعہ و سنی دونوں طریقوں سے یہ روایت وارد ہوئی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے فرمایا : کہ جس طرح میں قرآن کے تنزیل پر جنگ کر رہا ہوں، تم اس کی تاویل پر جنگ کرو گے۔
چنانچہ احمد، حاکم اور دیگر محدثین نے اپنی سند کے ساتھ ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ:"ہم بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج میں سے کسی کے گھر سے باہر تشریف لائے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعل مبارک کا تسمہ ٹوٹ گیا، تو علیؑ ٹھہر گئے تاکہ اسے ٹھیک کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھ گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ آگے چلے آئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر علیؑ کا انتظار کرنے لگے، اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اس قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جیسے میں اس کے نزول پر جنگ کر رہا ہوں۔ہم سب نے اس بات سے اپنے لئے خوش خبری کو خواہش کی ، جبکہ ہم میں ابوبکر اور عمر بھی موجود تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ وہ ہے جو نعل ٹھیک کر رہا ہے۔ہم علیؑ کے پاس انہیں یہ خوشخبری دینے پہنچے، مگر معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی سن لیا ہے۔"
گمراہ کن تاویلات سے قرآنی تنبیہ
قرآنِ کریم نے دین کی بگڑی ہوئی اور منحرف تاویلات کے خطرے سے سختی کے ساتھ خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ. وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ. فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ. وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ﴾ (هود: 110-113).
"اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی، پھر اس میں اختلاف کیا گیا؛ اور اگر تیرے رب کی بات پہلے سے نافذ نہ ہوچکی ہوتی، تو ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا۔ اور بے شک وہ اس کتاب کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں جو اضطراب پیدا کرنے والا ہے۔ اور تیرا رب ان سب کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقیناً وہ ان کے اعمال سے باخبر ہے۔پس جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے، اسی پر ثابت قدم رہو ، اور وہ بھی جو تمہارے ساتھ (حق کی طرف) لوٹ آئے ہیں ، اور سرکشی میں نہ پڑو، بے شک وہ تمہارے ہر عمل کو دیکھنے والا ہے۔اور ظالموں کی طرف ذرا بھی نہ جھکو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جہنم کی آگ تمہیں چھو لے؛ اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا، پھر نہ تمہاری کوئی مدد کی جائے گی۔"
قرآن نے واضح کر دیا کہ منحرف تاویلات کا فتنہ پچھلی امتوں میں بھی برپا ہوا، اور انہیں تباہی کے راستے پر لے گیا۔ اسی تجربے کے اعادے سے خبردار کیا گیا ہے ،کیونکہ اس کا نتیجہ دنیا میں ذلت، محرومی اور آزمائشیں، اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
مومن کا کوئی مددگار اللہ کے سوا نہیں؛ اور جو اس کے علاوہ کسی کو اپنا ولی بنائے، وہ کامیابی نہیں پاتا: ﴿وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ﴾
یہی وہ خطرہ ہے جس سے قرآنِ کریم نے سختی کے ساتھ خبردار کیا ہے؛ یعنی اسلامی شریعت کو چھوڑ کر غیر اقوام کے قوانین کو اختیار کر لینا ، جو دراصل انحراف کی بنیاد اور غیر مسلموں کی موالات کا حقیقی جوہر ہے۔اور یہی وہ چیز ہے جسے ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بعض لوگ مسلمانوں کی سرزمینوں میں مغربی شریعت، مغربی نظام اور مغربی قوانین نافذ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان قوانین کے اثرات خاندان کا شیرازہ بکھرنے، بے راہ روی کے فروغ، اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں کمزوری و اضمحلال کی شکل میں نہایت واضح طور پر ظاہر ہوئے ہیں۔
اور ہمارے اس بیان کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم رجعت پسندی یا ہر اس چیز کے انکار کی دعوت دیتے ہیں جو ترقی، تہذیب یا سائنسی پیشرفت کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ مراد صرف یہ ہے کہ اسلام نے ایسے جامع اصول اور مضبوط حدود مقرر کر دی ہیں جنہیں قانون سازی اور نظام سازی میں ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا۔یہ اس لیے بھی درست نہیں کہ مغربی معاشروں میں کوئی قانون رائج ہے تو ہم بھی اسے صرف اس وجہ سے قبول کر لیں کہ وہاں اس کے کچھ آثار نظر آتے ہیں تو یہ عقل مندی نہیں ہے ، کیونکہ وہ قوانین ممکن ہے ان کے معاشروں کے لیے مناسب ہوں، مگر ہمارے معاشرتی، اخلاقی اور ایمانی ڈھانچے کے لیے وہ نہ کافی ہیں اور نہ ہی موزوں۔
اللہ کی سنت:نعمتوں کی تبدیلی:
معاشرے کے راستے میں پیدا ہونے والا یہ انحراف ، یعنی کافروں کی موالات اور ان سے وابستگی ، اپنے ساتھ یقینی انجام بھی لاتا ہے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی قوم پر اچانک عذاب یا قہر نہیں بھیجتا، جب تک وہ خود اس کے مستحق نہ بن جائیں۔ اسی حقیقت کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے:
﴿ذَلِكَ بِأَنَّ اللهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ﴾ الأنفال: 53
"یہ (سزا) اس لیے ہے کہ اللہ کسی قوم پر عطا کی ہوئی نعمت کو نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے اندر کی حالت کو نہ بدل دیں۔"
قرآن نے واضح کیا کہ اللہ کی طرف سے نعمت کا بدل جانا بغیر وجہ نہیں ہوتا ، یہ تبھی ہوتا ہے جب لوگ خود اپنی حالت، اپنی نیتوں اور اپنی راہوں کو بدل ڈالیں۔
اور اللہ نے دین اور دینی ولایت کو بھی نعمت قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ المائدة: 3
لہٰذا، جب یہی نعمت لوگ خود بدل دیں ، اللہ کی ولایت سے منہ پھیر کر اس کے ساتھ اپنی وابستگی کو کاٹ دیں، ظالموں کی طرف جھک جائیں، اور کافروں و اہلِ کتاب کی موالات اختیار کر لیں ، تو پھر وہ اسی نتیجے کو پالیں گے جس سے قرآن نے بار بار خبردار کیا ہے۔
ان پر لازم ہے کہ اس خطرے سے خود کو بچائیں، اور اللہ کے اس غضب سے خوف کریں جس کا رخ جب کسی قوم کی طرف ہو جائے تو کوئی اسے ٹال نہیں سکتا ، اور اسی لیے انہیں یہ تنبیہ کی گئی:
﴿وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ، إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ (المائدة: 51)
"اور تم میں سے جو شخص انہیں اپنا دوست بنائے گا، وہ انہی میں شمار ہوگا؛ بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔"
یعنی اللہ انہیں ان کی حقیقی سعادت کی راہ نہیں دکھاتا ، اور دنیا میں ان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ دینِ الٰہی، اسلامی سیرت اور ایمانی اصولوں کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی بسر کریں۔
معاصر اسلامی معاشرہ کا حال:
جب معاشرے کی دینی سیرت کی بنیاد کھوکھلی ہو جاتی ہے، تو اس کی وہ مظاہر بھی بگڑ جاتے ہیں جو اسے محفوظ رکھتے تھے، جیسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ اس کے بعد اس کے عمومی شعائر بھی زوال پذیر ہو جاتے ہیں، اور ان کی جگہ کافروں کی سیرت آ جاتی ہے، جس کے اصول مضبوط اور نظام قائم ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس پر آج مسلمانوں کا معاشرہ قائم ہے۔اگر آپ غور کریں کتاب و سنت کی روشنی میں جو عمومی اسلامی سیرت قائم تھی، اور پھر اس بگڑی ہوئی سیرت پر جو آج مسلمانوں پر مسلط ہو چکی ہے، اور پھر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کریں:
﴿فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ﴾ (المائدة: 54)
تو آپ پائیں گے کہ وہ تمام برائیاں اور رذائل جو آج ہمارے معاشرے میں موجود ہیں , جو ہم نے کافروں سے برآمد کئے ہیں اور پھر ہمارے اندر پروان چڑھے ہیں۔ وہ بالکل الٹ ہیں ان صفات کے جو اللہ نے ان لوگوں کی وصف کے لیے بیان فرمائی ہیں جنہیں وعدہ کیا گیا ہے۔
لہٰذا، آج کے معاشرے کی تمام عملی برائیاں اس میں سمٹتی ہیں کہ یہ معاشرہ اللہ سے محبت نہیں کرتا اور اللہ اس سے محبت نہیں کرتا، کافروں پر ذلیل اور مومنوں پر عزیز ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے، اور ہر سرزنش سے خوفزدہ ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن نے قوم کے سامنے بیان کی ہے۔ اور اگر چاہیں تو اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ غیبی خبر ہے، جو جاننے والے، خبردار کرنے والے اللہ نے دی، کہ اسلامی معاشرہ کافروں کے ساتھ تعلق رکھے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ (المائدة: 51)
"اور تم میں سے جو شخص انہیں اپنا دوست بنائے گا، وہ انہی میں شمار ہوگا؛ بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔"
اور فرمایا:
﴿وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ﴾ (المائدة: 81)
"اور اگر وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور جو کچھ ان پر نازل کیا گیا ہے، ایمان رکھتے، تو وہ انہیں اپنے مددگار نہ بناتے؛ لیکن ان میں سے اکثر فاسق اور گمراہ ہیں۔"
یعنی قرآن نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ بعض لوگ دین سے منحرف ہو کر کافروں اور اہلِ کتاب کی حمایت اختیار کریں گے، اور اسی کے نتیجے میں اللہ کی ہدایت سے دور رہیں گے۔
اللہ کا وعدہ جو نصرت کے شرط پر ہے:
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے وعدہ فرمایا کہ اگر وہ اللہ کی مدد کریں تو وہ ان کی مدد کرے گا، اور اگر وہ دشمنوں کو مضبوط نہ کریں بلکہ ان کی کمزوری کو بر قرار رکھیں تو اللہ ان کو کمزور کر دے گا۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ﴾ (محمد: 7) "اگر تم اللہ کی مدد کرو گے، تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا۔"
اور فرمایا: ﴿وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ﴾ (آل عمران: 112).
"اور اگر اہلِ کتاب ایمان لاتے تو ان کے لیے یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ ان میں سے کچھ مؤمن ہیں مگر اکثر فاسق ہیں۔ وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر تھوڑا سا، اور اگر وہ تم سے لڑیں تو پیچھے ہٹ جائیں گے، اور پھر نہ انہیں مدد ملے گی۔ ہر جگہ ان پر ذلت مسلط کی گئی، مگر اللہ کے بندوں کے رشتہ اور لوگوں کے رشتہ کے ذریعے۔"
یہاں سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ: (إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ) کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ذلت اور پستی سے نکل سکتے ہیں، بشرطیکہ اللہ کی رضا اور لوگوں کی حمایت حاصل ہو، اور اللہ انہیں لوگوں پر غالب کر دے۔
نیک قوم کے ساتھ وعدہ:
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے سے وعدہ فرمایا ،اور یہ وعدہ ان کی حالت سے متعلق ہے ، کہ وہ ایسے لوگوں کو لائے گا جو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ انہیں محبت کرتا ہے، مومنوں پر عاجز خضوع کرنے والے اور کافروں پر عزیز و مقتدر ، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی سرزنش سے نہیں ڈرتے۔ اور جیسا کہ آپ نے دیکھا، یہ خصوصیات وہ تمام صفات ہیں جو آج کے اسلامی معاشرے میں موجود نہیں ہیں۔اگر ان آیات پر غور و فکر کیا جائے تو اس سے ہمیں آج کی ان معاشرتی برائیوں کی تفصیل بھی معلوم ہوتی ہے، جو قرآن نے بیان فرمایا کہ اسلامی معاشرہ ان سے آزمائش میں پڑے گا۔


