

قرآن مجید میں عدم تحریف: جامع اور مختصر دلیل
السيد علي العزام الحسيني
عنوانِ مقالہ میں لفظ "البرہان، دلیل " اس کے عام اور عُرفی معنی میں استعمال نہیں ہوا جو محض کسی بھی دلیل کو کہا جاتا ہے ، بلکہ یہاں اس کا مقصود اس لفظ کا دقیق اور علمی مفہوم ہے۔ یعنی ایسی دلیل جو اپنی ہیئت اور ساخت میں منطقی قیاس پر قائم ہو، اور اپنی ساخت اور مواد کے اعتبار سے یقینیات پر مبنی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسی قطعی اور یقینی حجت کے سامنے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآنِ کریم ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے، اس میں کسی تبدیلی یا بگاڑ کا امکان نہیں، اور وہ ہر قسم کے اضافہ یا کمی سے محفوظ رکھا گیا ہے، خواہ وہ کمی یا اضافہ ایک لفظ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔
اس موضوع میں پیش کیا جانے والا برہان (ثابت شدہ دلیل) تین بنیادی ستونوں پر قائم ہے:
پہلا ستون یہ ہے کہ: دنیا میں انسان جس بھی یقینی دلیل پر اعتماد کرتا ہے، خواہ وہ علم کے مختلف شعبوں میں ہو یا فکر و تحقیق کے میدانوں میں، وہ لازماً تین بنیادی اقسام میں سے ایک ہوتی ہے:
۱ـ حسی دلیل یعنی وہ دلیل جو انسان اپنے حواس کے ذریعے حاصل کرے۔ مثال کے طور پر: اگر آپ نے آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، یا اس کی حرارت محسوس کی، تو آپ کو آگ کے وجود کا یقین ہو جاتا ہے۔
۲ـ عقلی دلیل یعنی وہ دلیل جو عقل کے ذریعے ثابت ہو۔ مثال: اگر آپ نے آگ کو براہِ راست نہیں دیکھا، لیکن دھواں دیکھ کر اس کے وجود کا یقین کیا، تو یہ عقلی دلیل ہے۔
۳ـنقلی دلیل (خبری دلیل) یعنی وہ علم جو خبر اور روایت کے ذریعے حاصل ہو۔ مثال: اگر آگ کے وجود کی خبر آپ تک بہت سے لوگوں کے ذریعے پہنچے، تو یہ نقلی دلیل کہلاتی ہے۔
اگر کوئی دلیل ان تین کے علاوہ نظر آئے، تو آخر کار وہ انہی تین میں سے کسی ایک کی طرف لوٹ آتی ہے۔ اور اگر آپ چاہیں تو اسے تین کے بجائے چار اقسام بھی بنا سکتے ہیں، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ شیخ طوسی (رحمۃ اللہ علیہ) (وفات: 460 ہجری) فرماتے ہیں: چیزوں کے علم تک پہنچنے کے فقط چار ہی راستے ہیں، اور ان کا کوئی پانچواں نہیں:
پہلا راستہ یہ ہے کہ کسی چیز کا علم انسان کو بدیہی طور پر حاصل ہو، کیونکہ وہ عقلوں میں فطری طور پر راسخ ہوتا ہے۔ مثلاً یہ علم کہ عدد دو، عدد ایک سے زیادہ ہیں۔
دوسرا راستہ ادراک کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہے، جیسے وہ علم جو مشاہدے سے یا دیگر حواس کے ذریعہ محسوسات کے بارے میں ہوتا ہے۔
تیسرا راستہ خبری علم ہے، جیسا کہ شہروں، تاریخی واقعات، بادشاہوں کے حالات اور دیگر حقائق کا علم جو خبر یا روایت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
چوتھا راستہ غور و فکر، نظر اور استدلال کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہے۔ (کتاب الاقتصاد، صفحہ 9)
دوسرا نکتہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دلیل جس سے ہمیں یقین کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرنا ہے کہ قرآن محفوظ ہے، وہ نہ تو حسی طریقہ ہے اور نہ ہی بدیہی عقلی راستہ۔ بلکہ اس کا راستہ نقل اور خبر ہے۔ لیکن عنوان میں جس برہان (یقینی دلیل) کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ اُس وقت پورا ہوگا جب یہ خبر اور نقل ایسی ہو جو یقینی اور قطعی ہو، نہ اُس میں اختلاف کی گنجائش ہو اور نہ شک کی۔ کیونکہ جس دلیل کو برہان کہا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہو ، اس کا بنیادی مادّہ یقینی مقدمات ہوتے ہیں۔ اور منطق کے علم میں یقینی قضیے (یقینیات) چھ قسموں تک محدود ہیں: بدیہیات، فطریات، مشاہدات، تجربیات، حدسیات اور متواترات۔ لہٰذا قرآن کے عدمِ تحریف پر برہان کی بنیاد متواترات پر قائم ہوگی۔ اور منطق کی اصطلاح میں تواتر ایسی خبر کو کہتے ہیں جسے ایسی بڑی تعداد میں لوگ نقل کریں جن کا جھوٹ پر متفق ہونا ممکن نہ ہو۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سننے والے کے دل میں ایسا اطمینان اور یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ شک باقی نہیں رہتا، جیسے: اُن دور دراز شہروں کا علم جنہیں ہم نے کبھی نہیں دیکھا، یا پہلے زمانوں کی قوموں اور شخصیات کا علم۔(منطق مظفر، صفحہ 333: جماعت المدرسین)
اس بنیاد پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے حوالے سے موجود تواتر کی نوعیت کیا ہے؟ اور وہ یقینی مواد کیا ہے جس پر قرآن کی حفاظت کا برہان قائم ہے؟
اسی سوال کا جواب تیسرا نکتہ فراہم کرے گا۔
تیسرا نکتہ:
اس کی وضاحت میں ہم سید مرتضیٰ (وفات: 436 ہجری) کا بیان نقل کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اس موضوع کو انتہائی جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قرآن کے درست طور پر منتقل ہونے کا علم، اُن شہروں کے بارے میں علم کی طرح ہے جن کے بارے میں ہم یقینی طور پر جانتے ہیں، یا اُن بڑے تاریخی واقعات کی طرح جنہیں لوگ نسلاً بعد نسل یاد رکھتے آئے ہیں، یا مشہور کتابوں اور عرب شعرا کے معروف دیوانوں کی طرح جن کی شہرت اور نقل نسلوں تک جاری رہی ہے۔ کیونکہ قرآن کے نقل، حفاظت اور بقا کے لیے غیر معمولی اہتمام اور توجہ کی گئی ہے، اور اس درجہ کی محنت کی گئی ہے جو دیگر مذکورہ مثالوں میں بھی نہیں ملتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن نبوت کی معجزہ ہے، علومِ شریعت کا بنیادی سرچشمہ ہے، اور دینی احکام کا اصل ماخذ ہے۔ مسلمان علماء نے اس کی حفاظت اور حفظ میں انتہائی قابل قدر اور زبردست کوشش کی ہے، یہاں تک کہ انہوں نے اس کی: قراءت، اعراب، حروف، اور آیات میں معمولی اختلاف تک کو محفوظ رکھا ہے۔ تو پھر ایسی محنت اور مضبوط اہتمام کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ قرآن میں کوئی تبدیلی یا کمی واقع ہوئی ہو؟
وہ مزید فرماتے ہیں: قرآن کی تفسیر اور اس کے مختلف اجزاء کے نقل کی صحت کا علم بھی اسی درجے کا ہے جیسے پورے قرآن کے نقل ہونے کا علم۔ یہ معاملہ مشہور تصنیفات کے بارے میں ہمارے قطعی علم کی طرح ہے، جیسے کتاب سیبویہ اور رسالہ المزنی۔ ان کتابوں کی حفاظت کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ ان کے ماہرین ان کی جزئیات کو بھی اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے مجموعی کتاب کو۔ مثلاً اگر کوئی شخص کتاب سیبویہ میں نحو کا کوئی باب شامل کردے جو اصل کتاب میں نہ ہو تو اہلِ فن فوراً پہچان لیں گے کہ یہ اصل کتاب کا حصہ نہیں بلکہ بعد میں داخل کی گئی چیز ہے۔ اسی طرح کتاب المزنی کے بارے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن کی حفاظت اور اس پر توجہ، کتاب سیبویہ یا شعرا کے دیوانوں کی حفاظت سے کہیں زیادہ مضبوط، شدید اور قابلِ اعتماد ہے۔ (مجمع البیان، جلد 1، صفحہ 43، طبعہ: الاعلمی)
یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ قرآنِ کریم کے تواتر کے بارے میں دو اہم نکات ملحوظ رہنے چاہئیں:
اوّل یہ کہ: تواتر کی تعریف میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ تواتر اس خبر کو کہتے ہیں جو ایسی بڑی تعداد میں لوگوں سے منقول ہو جن کا جھوٹ پر اتفاق کرنا ممکن نہ ہو۔ لیکن یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ تواتر ایک یکساں سطح کا نام نہیں، بلکہ اس کی مختلف درجے اور صورتیں ہوتی ہیں۔ اور قرآن کے بارے میں جو تواتر قائم ہے، وہ صرف چند لوگوں کا نقل کیا ہوا نہیں، بلکہ یہ پوری امتِ مسلمہ کی نسل در نسل نقل ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ تواتر صرف اس کتابی شکل پر منحصر نہیں جو ایک مصحف کی صورت میں دو جلدوں کے درمیان موجود ہے، بلکہ اس کا تعلق اس قرآن سے ہے جو لفظی اور صوتی صورت میں نسلوں تک منتقل ہوا ہے۔ یعنی قرآن کی حفاظت اس بات پر قائم نہیں کہ صرف لکھا ہوا متن محفوظ رہا ہو، بلکہ اس پر قائم ہے کہ مسلمانوں کی نسلوں نے صدیوں تک قرآن کو سن کر، پڑھ کر، یاد کر کے، سکھا کر اور سنا کر منتقل کیا ہے۔ پس ان دونوں حقیقتوں کا مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن کا تواتر نسلاً بعد نسل، زبانی اور لفظی صورت میں قائم ہے۔ امتِ مسلمہ نے صدیوں تک قرآن کو قراءت کے طور پر، تعلم و تدریس کے طور پر، اور مسلسل تلاوت کے ذریعے محفوظ رکھا ہے۔ اور یہ حقیقت تواتر کی بلند ترین اور سب سے قیمتی سطحوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ دلیل کوئی عام دلیل نہیں، بلکہ منطق کے اصطلاحی مفہوم میں برہان (یقینی دلیل) ہے، جیسا کہ ہم نے مقدمہ میں ذکر کیا تھا۔
چونکہ یہ دلیل برہانی نوعیت رکھتی ہے، اس لیے یہ ہر قسم کی بحث اور اعتراض سے محفوظ رہی، برخلاف اُس استدلال کے جو سورہ حجر کی آیت نمبر (9) پر مبنی ہے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾
اس آیت کی دلالت کے بارے میں کچھ مباحث سامنے آئے ہیں، جیسے: آیا یہاں "ذِکر" سے مراد قرآن ہی ہے یا کوئی اور چیز؟ یا اس سے مراد قرآن کا وہ نسخہ ہے جو امام کے پاس محفوظ ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام بحثیں لفظی اور دلالت کے لحاظ سے کمزور ہیں اور علمی وزن نہیں رکھتیں، سوائے ایک اعتراض کے، جو یہ ہے اس استدلال میں دور یا مصادرة على المطلوب کا احتمال یعنی قرآن کی حفاظت پر یہ آیت دلیل تب بن سکتی ہے جب پہلے سے یہ مان لیا جائے کہ خود یہ آیت محفوظ ہے۔ اور یہ تسلیم کرنا کہ یہ آیت محفوظ ہے، اسی وقت ممکن ہوگا جب یہ ثابت ہو کہ قرآن محفوظ ہے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص قرآن کے تحریف شدہ ہونے کا دعویٰ کرے اور اس احتمال کو شامل کرے کہ یہ آیت بھی تحریف کا شکار ہو سکتی ہے، تو ایسی صورت میں اسی آیت سے اُس پر استدلال کرنا خود محل نزاع سے استدلال کرنا ہوگا، جو منطقی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔ اور واضح الفاظ میں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اگر خود مخالف یہ احتمال رکھتا ہے کہ یہ آیت بھی تحریف شدہ ہو سکتی ہے، تو پھر اسی آیت کو قرآن کی حفاظت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا منطقی طور پر درست نہیں رہتا۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ بعض علماء نے اس مسئلے کے بارے میں کہا ہے کہ اس کا حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب قرآن اور عترت، یعنی ثقلین سے تمسک رکھا جائے۔ وضاحت کچھ یوں ہے اس آیتِ کریمہ سے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی، ضروری ہے کہ پہلے یہ ثابت ہو کہ خود یہ آیت تحریف سے محفوظ ہے۔ اور اس آیت کے غیر محرّف ہونے کا ثبوت اہلِ بیتؑ کے اس کی موجودہ شکل پر مُہرِ تصدیق ثبت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ جب وہ اس قرآن کی موجودہ شکل کو معتبر قرار دیتے ہیں تو اس کا مفہوم بھی حجت بن جاتا ہے۔ اور اس مفہوم کا ظاہری تقاضا یہ ہے کہ قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی۔ اور چونکہ یہ بات اس پر موقوف نہیں کہ پہلے قرآن کا غیر محرّف ہونا ثابت کیا جائے، لہٰذا یہاں دَور ختم ہوجاتا ہے، کیونکہ دلیل اور نتیجہ ایک دوسرے پر موقوف نہیں رہتے۔
مزید برآں اہلِ بیتؑ کا موجودہ قرآن کی توثیق کرنا،قرآن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دینا،اور صحیح احادیث کو قرآن پر پیش کرنے کی وصیت کرنا یہ تمام امور اس قدر مشہور اور متواتر ہیں کہ انکار ممکن نہیں۔ (الأصول العامة للفقه المقارن، ص116، طبع: مؤسسة آلالبيت) اور اسی مضمون کو (تفسیر البيان، ص209، طبع: دار الزهراء) میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ قرآن کے تحریف سے محفوظ ہونے پر دو قسم کی دلیـلیں موجود ہیں ایک برہانی دلیل ہے جو قیاس کی ساخت پر قائم ہے، اس کا مادّہ یقینی اصول ہیں، اور اس کا نتیجہ قطعی ہے، لہٰذا یہ دلیل تمام مسلمانوں کے لیے مشترک ہے۔دوسری دلیل خاص شیعہ مکتبِ فکر سے متعلق ہے۔


