27 جمادي الاول 1447 هـ   18 نومبر 2025 عيسوى 7:41 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-11-05   141

نو عمر لڑکیوں میں ناجائز حمل کا بڑھتا ہوا مسئلہ: مغربی معاشروں میں مادر پدر آزادی کا شاخسانہ

شیخ مصطفی الہجری

اگرچہ اہلِ مغرب اپنے آپ کو ترقی، آزادی اور انسانی حقوق کا روشن مینار قرار دیتے ہیں، مگر ان کے سرکاری اعداد و شمار ان دعووں کے پسِ پردہ ایک بالکل مختلف اور تلخ حقیقت کو آشکار کرتے ہیں۔ خصوصاً کم عمر لڑکیوں کے حمل کے مسئلے میں، جہاں آزادی اور ذاتی حقوق کے پرکشش نعروں کے پیچھے لاکھوں نوعمر لڑکیاں شادی کے بغیر کم عمری میں ہی ماں بننے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ جبکہ انہیں اس عمر میں  اُس سماجی و اخلاقی تحفظ کی شدید ضرورت ہوتی ہے جو صرف ایک مستحکم خاندانی نظام ہی فراہم کر سکتا ہے لیکن مغربی معاشرہ، اپنی نام نہاد آزادی کے زعم میں، انہیں اس پناہ سے محروم کر دیتا ہے۔

یہ مسئلہ محض اعداد و شمار کی حد تک نہیں بلکہ  یہ مغربی اخلاقی اور خاندانی نظام کے زوال کی ایک نمایاں اور عبرت ناک علامت کا آئنہ دار بھی ہے۔ دراصل یہ  اُس طرزِ فکر کا لازمی نتیجہ ہے جو شخصی آزادی کو انسانی ذمہ داری اور اخلاقی اقدار پر فوقیت دیتی ہے۔ افسوس کہ اس بے لگام آزادی کے تباہ کن اثرات کو درک کرتے ہوئے خصوصاً کم عمر لڑکیوں اور ان کے معصوم بچوں پر کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، گویا انسانیت کی حرمت آزادی کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔

امریکی وزارتِ انصاف کے جاری کردہ اعداد و شمار اس لرزہ خیز حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ اگرچہ کم و بیش بیس ملین (دو کروڑ) امریکی خواتین اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکی ہیں، تاہم ان میں سے صرف 18 سے 20 فیصد واقعات ہی رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ خوفناک اعداد و شمار اس امر کی صریح گواہی دیتے ہیں کہ امریکی معاشرہ نوعمر لڑکیوں کے خلاف کس قدر  منظم اور دورس تباہی کے حامل جنسی تشدد کے بحران میں مبتلا ہے، کہ جہاں آزادی کے نعروں کے پس پردہ  عورت کی حرمت مسلسل پامال ہو رہی ہے۔  (www.ncjrs.gov/pdffiles1/nij/grants/219181.pdf)

امریکی اعداد و شمار کے مطابق، ہر سال چھ ملین (ساٹھ لاکھ) سے زیادہ طالبات  یعنی 11.5 فیصد یونیورسٹی کی لڑکیاں  جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، تاہم ان میں سے صرف 16 فیصد کیسز ہی حکام کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔

مغربی حکومتوں نے اس سماجی وبا کے اثرات کم کرنے کی متعدد کوششیں کیں، لیکن ناکام رہیں، کیونکہ ان کی پالیسیاں مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے بجائے صرف اس کے ظاہری اثرات سے نمٹنے تک محدود ہیں۔ مثال کے طور پر، “العربیہ نیٹ” کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی حکومت نے ریاست اوہائیو میں نوعمر لڑکیوں کے شادی سے قبل حمل کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے نجی اداروں کو 3 کروڑ 20 لاکھ ڈالر (32 ملین ڈالر) فراہم کیے۔  (www.alarabiya.net/articles/2005/04/16485.html)

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ نوعمر لڑکیوں میں حمل کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث "عفت پروگرام" (Abstinence Programs) شروع کیے گئے، لیکن اس کے باوجود صورتحال میں بہتری نہیں آئی۔ اوہائیو ریاست کے ایک ہائی اسکول نے انکشاف کیا کہ اس کی 13 فیصد طالبات حاملہ ہیں۔ ان نئے اعداد و شمار نے ماہرین اور والدین کے درمیان تشویش پیدا کر دی ہے کہ اسکولوں میں جنسی تعلقات عام ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ "عفت پروگرام" عملاً کوئی  ایسامؤثر کردار ادا نہیں کر رہے جو لڑکیوں کو آگاہی دے کر ان کی عصمت و عفت کی حفاظت کر سکیں۔

جی گرین، جو یونیورسٹی آف آرکنساس میں تعلیمی اصلاحات کے شعبے کے سربراہ ہیں،ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا  اسکول  ہی ہے جو اس مسئلے پر کھل کر بات کر رہا ہے، جبکہ  بہت سے دوسرے اسکول ایسے نہیں ہیں۔ حالانکہ یہ رجحان پورے معاشرے میں عام اور تشویشناک حد تک پھیلا ہوا ہے۔

گزشتہ سال جی گرین کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ شہری علاقوں میں نوعمر لڑکیوں میں حمل کی شرح مضافاتی علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے یعنی شہروں میں یہ شرح 20 فیصد جبکہ مضافاتی علاقوں میں 14 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

عالمی رپورٹس کے مطابق، ہر سال ۱۵ سے ۱۹ سال کی عمر کی لڑکیوں میں تقریباً ۱ کروڑ ۶۰ لاکھ (۱۶ ملین) پیدائشیں ریکارڈ کی جاتی ہیں، جو دنیا بھر میں ہونے والی کل پیدائشوں کا تقریباً ۱۱ فیصد بنتی ہیں۔

واضح رہے کہ نو عمری کے دوران ہونے والی پیدائشوں کی شرح دنیا کے  مختلف خطوں میں کچھ یوں ہے:

  • چین میں تقریباً ۲ فیصد
  • لاطینی امریکہ اور کیریبین خطے میں ۱۸ فیصد
  • جبکہ صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع افریقی ممالک میں ۵۰ فیصد سے زائد

تحقیقات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ زنا بالجبر کے ذریعے ہونے والے حمل نوعمر لڑکیوں میں غیر مطلوبہ حمل کی بڑی وجہ ہیں۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق، ان لڑکیوں میں سے ۱۵ فیصد  وہ ہیں کہ جنہوں نے ۱۵ سال کی عمر سے پہلے پہلی بار جنسی تعلق قائم کیا، ان کا کہنا ہے کہ یہ تعلق جبراً قائم کیا گیا تھا۔

 (www.who.int/maternal-child-adolescent/topics/maternal/adolescent-pregnancy/ar)

بے لگام جنسی آزادی کے نتائج

مغربی دنیا جنسی آزادی  کو انسانی حقوق کا ایک حصہ قرار دے کر پیش کرتی ہے، ایسے میں  وہ دانستہ طور پر اس آزادی کے تباہ کن نتائج کو نظر انداز کرتی ہے، خصوصاً جب بات کم عمر لڑکیوں کی ہو۔ کیونکہ جب پندرہ یا سولہ سالہ لڑکی کو شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے، تو اس کا فطری نتیجہ غیر مطلوبہ اور قبل از وقت حمل کی صورت میں نکلتا ہے، جس کے ساتھ نفسیاتی، سماجی اور معاشی تباہی بھی جڑی ہوتی ہے۔

مغرب  عورت کے حقوق  کی بات تو کرتا ہے، مگر وہ کم عمر لڑکی کے جنسی استحصال سے بچاؤ کے حق کو  یکسرنظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ "برابری" کی بات تو کرتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ حمل اور زچگی کے تمام نتائج لڑکی کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں، جبکہ اس فعل کا مرتکب مرد  اکثر اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ لیتا ہے۔جبکہ "جنسی تعلیم" اور "آگاہی مہمات" بھی ناجائز حمل کو روکنے میں ناکام رہتی ہیں، تو ایسے میں  مغرب آسان حل کے طور پر اسقاطِ حمل کو فروغ دیتا ہے۔ اس حوالے سے  اعداد و شمار  یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہر سال لاکھوں بچوں کو اسقاطِ حمل کے ذریعے مار دیا جاتا ہے، جن میں بڑی تعداد کم عمر حاملہ لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ اسقاطِ حمل محض "طبی عمل" نہیں جیسا کہ اسے پیش کیا جاتا ہے، بلکہ یہ ایک انسانی زندگی کا خاتمہ ہے۔ جس کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات نہایت سنگین ہوتے ہیں، لیکن مغرب اپنی اخلاقی نظام کی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے اسی راستے کو حل کے طور پر اپنائے ہوئے ہے

اس ضمن میں اعداد و شمار اس کے برعکس یہ حقیقت ظاہر کرتے ہیں۔ ان پروگراموں نے لڑکیوں کی حفاظت کرنے کے بجائے دراصل کم عمری میں جنسی تعلقات کو “محفوظ جنسی تعلق  کے نام پر فروغ دیا ہے۔یہ نصاب بچوں اور نوعمر لڑکوں لڑکیوں کو جنسی تعلقات کے بارے میں یہ تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہیں، مگر انہیں کوئی واضح اخلاقی یااعلی  اقدار کے رویہ اپنانے کی ترغیب نہیں دیتے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں اخلاقی زوال بڑھا اور کم عمری میں حمل کے واقعات مزید عام ہو گئے۔

اسی ناکام اندازِِ کار  کی ایک واضح مثال  حال ہی میں برطانیہ میں سامنے آئی، جیسا کہ بی بی سی عربی  کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ بعنوان "حکومت ِبرطانیہ عفت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے" میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں ہر سال کم و بیش ۱۹ سال  سے کم عمر تقریباً ۹۰ ہزار لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں۔ اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے برطانوی حکومت نے اعلان کیا  ہےکہ وہ آئندہ تین برسوں میں ۶۰ ملین پاؤنڈ خرچ کرے گی تاکہ اس خطرناک شرح میں کمی لائی جا سکے۔

مغربی معاشروں میں شادی کے بغیر کم عمر لڑکیوں کے حمل کا مسئلہ صرف ایک سماجی یا صحت کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پورے مغربی نظام کی ناکامی کی کھلی گواہی ہے ۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو حقیقی خوشی اور استحکام دینے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔

وہی مغرب جو "عورت کے حقوق" پر فخر کرتا ہے، ہر سال لاکھوں لڑکیوں کو جنسی استحصال، قبل از وقت حمل، اسقاطِ حمل، غربت، اور سماجی بے دخلی جیسے مصائب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہی مغرب جو اسلامی معاشروں میں “ابتدائی شادی” پر تنقید کرتا ہے، خود ہی کم عمر لڑکیوں کے جنسی تعلقات کو قانونی اور اخلاقی تحفظ کے بغیر جائز قرار دیتا ہے۔ اصل حقیقت، جسے مغرب تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، یہ ہے کہ انسان کو فطری طور پر اخلاقی حدود و ضوابط کی ضرورت ہے۔کیونکہ جب آزادی بے لگام ہو جائے، تو اس کا نتیجہ ہمیشہ انتشار، تباہی اور اخلاقی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018